تاریخ احمدیت

12؍جولائی 1944ء: معاہدہ ’’حلف الفضول‘‘ کا احیاء

12؍جولائی 1944ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے الہام الٰہی کی بنا پر معاہدہ حلف الفضول کا احیاء فرمایا۔

(الفضل 22؍جولائی 1944ء صفحہ1)

حضورؓ نے فرمایا:

’’یہ ایک معاہدہ تھا جو حضرت رسول کریمﷺ کے زمانہ میں بعثت سے قبل ہوا۔ جس میں زیادہ جوش کے ساتھ حصہ لینے والے تین فضل نام کے آدمی تھے۔ اس لئے اس کو حلف الفضول کہتے ہیں۔ اور اس معاہدہ کا مطلب یہ تھا کہ ہم مظلوموں کو ان کے حقوق دلوانے میں مدد کیا کریں گے اور اگر کوئی ان پر ظلم کرے گا تو ہم اس کو روکیں گے۔

[حلف الفضول میں شمولیت کی ضروری شرائط مطالبات تحریک جدید طبع چہارم صفحہ 157تا158 پر موجود ہیں۔]

(تاریخ احمدیت جلدہفتم صفحہ 105)

تحریک حلف الفضول

’’حلف الفضول‘‘ایک معاہدہ تھا جو حضرت رسول کریمﷺ کے زمانہ میں بعثت سے قبل ہوا جس میں زیادہ جوش کے ساتھ حصہ لینے والے تین فضل نام کے آدمی تھے [الفضل بن فضالہ، الفضل بن وداعہ، الفضل بن الحرث (سیرت حلبیہ صفحہ 156 تالیف حضرت علامہ علی بن برہان الدین الحلبی الشافعیؒ)]اسی لئے اس کو حلف الفضول کہتے ہیں۔

یہ معاہدہ عبداللہ بن جدعان کے مکان میں ہوا۔ اس کے اولین اور پرجوش داعی آنحضرت ﷺ کے چچا اور خاندان کے سربراہ زبیر بن مطلب تھے اور طے پایا کہ ہم مظلوموں کو ان کے حقوق دلوانے میں مدد کیا کریں گے اور اگر کوئی ظلم کرے گا تو اس کو روکیں گے اور اس بات میں ایک دوسرے کی تائید کریں گے۔ آنحضرتﷺ نے حمایت مظلوم کی اس تحریک میں بنفس نفیس شرکت فرمائی۔ حضورﷺ عہد نبوت میں بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدہ میں شریک ہوا تھا کہ اگر آج اسلام کے زمانہ میں بھی مجھے کوئی اس کی طرف بلائے تو میں اس پر لبیک کہوں۔

[شاید یہ اسی خیال کا اثر تھا کہ جب ایک دفعہ حضرت امیر معاویہؓ کے زمانہ میں ان کے بھتیجے ولید بن عتبہ بن ابی سفیان (امیر مدینہ) نے حضرت سیدنا حسینؓ بن علیؓ ابن ابی طالب کا کوئی حق دبا لیا تو حضرت امام حسینؓ نے فرمایا۔ خدا کی قسم! اگر ولید نے میرا حق نہ دیا تو میں تلوار نکال کر مسجد نبوی میں کھڑا ہو جاؤں گا اور حلف الفضول کی طرف لوگوں کو بلاؤں گا۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے سنا تو فرمانے لگے کہ اگر حضرت حسینؓ نے اس قسم کی طرف بلایا تو میں اس پر ضرور لبیک کہوں گا اور ہم یا تو ان کا حق دلوائیں گے اور یا اس کوشش میں سب مارے جائیں گے۔ بعض اور لوگوں نے بھی اسی قسم کے الفاظ کہے جس پر ولید دب گیا اور اس نے حضرت حسین علیہ السلام کا حق ادا کر دیا۔ (ابن ہشام بحوالہ سیرت خاتم النبیین حصہ اول صفحہ 135، 136 طبع دوم دسمبر 1935ء مولفہ قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ)]

سیدنا المصلح الموعودؓ کے قلب مبارک پر القاکیا گیا کہ اگر اسی قسم کا ایک معاہدہ آپ کی اولاد بھی کرے اور پھر اس کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو خدا تعالیٰ ان کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ ان پر اپنا فضل نازل فرمائے گا۔ اس الہام ربانی کی بنا پر حضور نے 4؍ ماہ وفا؍ جولائی کے خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی کہ جماعت احمدیہ کے بعض افراد معاملات کی صفائی اور مظلوم کی امداد اور دیانت و امانت اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے باقاعدہ عہد کریں۔

شمولیت کی شرائط

حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے ’’حلف الفضول‘‘کی مبارک تحریک میں شمولیت کے لیے یہ شرائط تجویز فرمائیں کہ

’’جو لوگ اس میں شامل ہونا چاہیں ان کے لئے لازمی ہے کہ سات دن تک متواتر اور بلاناغہ استخارہ کریں۔ عشاء کی نماز میں یا نماز کے بعد دو نفل الگ پڑھ کر دعا کریں کہ اے خدا اگر میں اس کو نباہ سکوں گا تو مجھے اس میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما۔ ایک اور شرط یہ ہوگی کہ ایسا شخص خواہ امام الصلوٰۃ کے ساتھ اسے ذاتی طور پر کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو مرکزی حکم کے بغیر اس کے پیچھے نماز پڑھنا ترک نہیں کرے گا اور اپنے کسی بھائی سے خواہ اسے شدید تکلیف بھی کیوں نہ پہنچی ہو اس سے بات چیت کرنا ترک نہ کرے گا اور اگر وہ دعوت کرے تو اسے رد نہ کرے گا۔ ایک اور شرط یہ ہے کہ سلسلہ کی طرف سے اسے جو سزا دی جائے گی اسے بخوشی برداشت کرے گا اور ایک یہ کہ اس کام میں نفسانیت اور ذاتی نفع نقصان کے خیالات کو نظر انداز کر دے گا۔‘‘

(الفضل یکم صلح/ جنوری 1945ء/ 1324ہش صفحہ 3)

اس دعوت پر وسط1945ء/ 1324ہش تک جو دوست شریک معاہدہ ہوئے ان کی تعداد 177 تھی۔

(الفضل 11؍ احسان/ جون 1945ء/ 1324ہش صفحہ 60)

اس شمارے میں معاہدہ کرنے والوں کی تیسری فہرست موجود ہے۔

(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ 568-566)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button