کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

اصل بات تو دین ہے۔ اگر وہ ٹھیک ہوا تو سب ٹھیک ہے

جب تک خداتعالیٰ کی طرف سے روشنی نہ ہو تب تک انسان کو یقین نہیں ملتا۔ اس کی باتوں میں تناقض ہوگا۔ دینی اور دنیاوی علوم میں یہ فرق ہے کہ دنیاوی علوم کی تحصیل اور ان کی باریکیوں پر واقف ہونے کے لئے تقویٰ، طہارت کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک پلید سے پلید انسان خواہ کیسا ہی فاسق، فاجر ہو، ظالم ہو، وہ ان کو حاصل کر سکتاہے۔ چوڑھے چمار بھی ڈگریاں پا لیتے ہیں۔ لیکن دینی علوم اس قسم کے نہیں ہیں کہ ہر ایک ان کو حاصل کر سکے۔ ان کی تحصیل کے لئے تقویٰ اور طہارت کی ضرورت ہے جیساکہ خداتعالیٰ فرماتاہے

لَایَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (الواقعۃ: 80)

پس جس شخص کو دینی علوم حاصل کرنے کی خواہش ہے اسے لازم ہے کہ تقویٰ میں ترقی کرے۔ جس قدر وہ ترقی کرے گا اسی قدر لطیف دقائق اور حقائق اس پر کھلیں گے۔

تقویٰ کا مرحلہ بڑا مشکل ہے۔ اسے وہی طے کر سکتاہے جو بالکل خداتعالیٰ کی مرضی پر چلے۔ جو وہ چاہے وہ کرے، اپنی مرضی نہ کرے۔ بناوٹ سے کوئی حاصل کرنا چاہے تو ہرگزنہ ہوگا۔ اس لئے خداکے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح سے ہو سکتاہے کہ ایک طرف تو دعا کرے اور ایک طرف کوشش کرتارہے۔ خداتعالیٰ نے دعا اور کوشش دونوں کی تاکید فرمائی ہے۔

اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ

میں تو دعا کی تاکید فرمائی ہے اور

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْآ فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت: 70)

میں کوشش کی۔ جب تک تقویٰ نہ ہوگا اولیاء الرحمٰن میں ہرگزداخل نہ ہوگا۔ اورجب تک یہ نہ ہوگا حقائق اور معارف ہر گز نہ کھلیں گے۔ قرآن شریف کی عروس اسی وقت پردہ اٹھاتی ہے جب اندرونی غبار دُورہو جاتاہے۔ مگر ا فسوس ہے کہ جس قدر محنت اور دعا دنیوی امور کے لئے ہوتی ہے خداتعالیٰ کے لئے اس قدر بالکل نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی ہے تو عام رسمی رواجی الفاظ میں کہ صرف زبان پر ہی وہ مضمون ہوتاہے نہ کہ دل میں۔ اپنے نفس کے لئے تو بڑے سوز اور گدازش سے دعائیں کرتے ہیں کہ قرض سے خلاصی ہو یا فلاں مقدمہ میں فتح ہویا مرض سے نجات ملے مگردین کے لئے ہرگز وہ سوزش وگدازش نہیں ہوتی۔ دعا صرف لفظوں کا نام نہیں کہ موٹے اور عمدہ عمدہ لفظ بول لئے بلکہ یہ اصل میں ایک موت ہے۔

اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المومن: 61)

کے یہی معنی ہیں کہ انسان سوزوگدازش میں اپنی حالت موت تک پہنچاوے مگر جاہل لوگ دعا کی حقیقت سے ناواقف اکثر دھوکہ کھاتے ہیں۔ جب کوئی خوش قسمت انسان ہو تو وہ سمجھتاہے کہ دنیا اور اس کے افکار کیا شئے ہے۔ اصل بات تو دین ہے۔ اگر وہ ٹھیک ہوا تو سب ٹھیک ہے۔

شب تنور گذشت و شب سمور گذشت

یہ زندگی خواہ تنگی سے گزرے خواہ فراخی سے وہ آخرت کی فکر کرتاہے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ492۔ 493۔ ایڈیشن2003ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button