خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 09؍ جولائی 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت عمرؓ نے باقاعدہ قضا کے صیغےکا اجرا فرمایا،تمام اضلاع میں عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر فرمائے

چھ مرحومین : مکرم سرِپتو ہادی سسوُویو صاحب آف انڈونیشیا، مکرم چودھری بشیر احمد بھٹی صاحب ابن اللہ داد صاحب بھوڑو ضلع ننکانہ صاحب، مکرم حمید اللہ خادم ملہی صاحب دارالنصر غربی ربوہ، مکرم محمد علی خان صاحب پشاور، مکرم صاحبزادہ مہدی لطیف صاحب آف میری لینڈ امریکہ، عزیزم فیضان احمد سمیر ابن شہزاد اکبر صاحب کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ کا ذکرِ خیر اور نماز ِجنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 09؍ جولائی 2021ء بمطابق 09؍وفا1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 09؍جولائی 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت عدیل طیب صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت عمرؓ کاذکر ہورہا تھا۔آپؓ نے باقاعدہ قضا کے صیغےکا اجرا فرمایا،تمام اضلاع میں عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر فرمائے۔قاضیوں کے انتخاب میں ماہرینِ فقہ کومنتخب فرماتے،ان کا امتحان لیتے،ان کی گراں قدر تنخواہیں مقرر فرماتے ۔ دولت مند اور معزز شخص کو قاضی مقرر کرتے تاکہ فیصلےکے وقت وہ کسی کےرعب میں نہ آسکے۔حضرت عمرؓ انصاف اور مساوات کا اتنا خیال رکھتے کہ ایک دفعہ حضرت اُبی بن کعبؓ کے ساتھ آپؓ کا معاملہ حضرت زید بن ثابتؓ کی عدالت میں پہنچا۔حضرت زیدؓ نے فریقین کو طلب کیا اور حضرت عمرؓ کی تعظیم کی۔اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا یہ تمہارا پہلا ظلم ہے۔ یہ کہہ کر آپؓ حضرت اُبیؓ کے ساتھ جاکر بیٹھ گئے۔

حضرت عمرؓ نے قانونِ شریعت سے واقفیت کےلیےافتا کا محکمہ جاری فرمایاتو حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ،حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت اُبی بن کعبؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابودرداءؓ کونامزد کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کےعلاوہ کسی اَور سے فتویٰ نہیں لیا جائے گا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے دَور میں ایک جلیل القدرصحابی غالباً حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے لوگوں کو کوئی مسئلہ بتایا۔ جب اس کی اطلاع حضرت عمرؓ کو پہنچی تو آپؓ نے فوراً ان سے جواب طلب کیا کہ کیا تم امیر ہو یا امیر نے تمہیں مقرر کیا ہے کہ فتویٰ دیتے رہو۔ دراصل اگر ہرایک شخص کو فتویٰ دینے کا حق ہوتو بہت سی مشکلات پیداہوسکتی ہیں اور بہت سے فتاویٰ عوام کےلیے ابتلا کا موجب بن سکتے ہیں۔

حضرت عمرؓ نے ملک میں امن و امان اوربازار کی نگرانی کےلیے احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم فرمایا،باقاعدہ جیلیں بنوائیں۔

15؍ہجری میں بحرین سے پانچ لاکھ کی رقم آئی تو صحابہؓ کے مشورے سے مدینےمیں بیت المال کا قیام عمل میں آیا۔ حضرت عبداللہ بن ارقمؓ خزانےکے افسر مقررہوئے۔حضرت عمرؓ عمارتوں کی تعمیر میں کفایت شعاری سے کام لیا کرتے تھے مگرآپؓ نے بیت المال کےلیے نہایت شان دار عمارتیں بنوائیں اور ان پر پہرےدار مقرر کیے۔ ایک دفعہ شدید گرم موسم میں حضرت عثمانؓ اپنے آزاد کردہ غلام کے ساتھ بطرفِ نجد،‘عالیہ’ وادی میں تھےکہ سامنے سے ایک شخص دو جوان اونٹوں کو ہانکتا ہوا آتا دکھائی دیا۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا اس شخص کو کیا ہوا ہے اگر یہ مدینے میں رہتا اور موسم ٹھنڈا ہونےکےبعد نکلتا تو اس کےلیے بہتر تھا۔ جب وہ شخص قریب آیا تو معلوم ہوا کہ وہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ ہیں۔ آپؓ نے فرمایا صدقےکے اونٹوں میں سے یہ دو اونٹ پیچھے رہ گئے تھےمجھے ڈر ہوا کہ یہ دونو ں کھو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ مجھ سے ان کے بارے میں پوچھے گا۔

ایک دفعہ حضرت عمرؓ بیت المال میں سے کچھ تقسیم کررہے تھے کہ ان کی بیٹی آئی اور اس نے ایک درہم منہ میں ڈال لیا۔ حضرت عمرؓ نے انگلی منہ میں ڈال کر وہ درہم نکالا اور کہا اے لوگو! عمر اور اس کی آل کےلیے اتنا ہی حق ہے جتنا عام مسلمانوں کا ہے۔اسی طرح ایک دفعہ حضرت ابوموسیٰؓ بیت المال میں جھاڑو دے رہے تھے کہ انہیں ایک درہم ملا۔ اتفاق سے وہیں حضرت عمرؓ کا ایک چھوٹا بچہ گزر رہا تھا،ابوموسیٰ نے وہ درہم اس بچے کو دے دیا۔ حضرت عمرؓ نے بچےکےہاتھ میں درہم دیکھا تو بچے سے دریافت کیا اور پھر ابوموسیٰ سے فرمایا کہ اے ابوموسیٰ! کیا اہلِ مدینہ میں سے اہلِ عمرؓ کے گھر سے زیادہ حقیرتر تیرے نزدیک کوئی گھر نہیں تھا۔ تُو نےچاہا کہ امّتِ محمدیہ ﷺ سے کوئی باقی نہ رہے مگر وہ ہم سے اس ظلم کا مطالبہ کرے۔

رفاہِ عام کے کاموں میں حضرت عمرؓ نے فراہمیٔ آب کےلیے نہریں کھدوائیں۔18؍ ہجری میں قحط پڑا تو حضرت عمرؓ کے ارشاد پر حضرت عمرو بن عاصؓ نے فسطاط سے بحیرہ قلزم تک نہرتیار کروائی جس کے ذریعے بحری جہاز مدینےکی بندرگاہ جدّہ تک پہنچ جاتے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ نے عوام کی سہولت کےلیے مساجد،عدالتیں، فوجی چھاؤنیاں، بیرکس، سڑکیں، پُل، مہمان سرائے اور چوکیاں بھی تعمیر کروائیں۔متعدد نئے شہرمثلاً فسطاط،بصرہ، کوفہ وغیرہ آباد کیے گئے۔ آپؓ نے فوج کی ترتیب اور تنظیم سازی کی۔ حسبِ مراتب فوجیوں کی تنخواہیں مقرر فرمائیں۔آپؓ کو فوج کی تربیت کا بہت خیال تھا چنانچہ آپؓ کا تاکیدی حکم تھا کہ ممالکِ مفتوحہ میں کوئی شخص زراعت یا تجارت کا شغل اختیار نہ کرے۔ آج کل مسلمان ملکوں میں فوجی تجارتوں میں مصروف ہیں بلکہ ایک ملک کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ کمیشن لیتے ہی افسر یہ دیکھتا ہے کہ کہاں پلاٹ الاٹ کرایاجائے۔اس طرح ان کی سپاہیانہ صلاحیتیں کم ہوتی چلی جارہی ہیں۔حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں سرد اور گرم ممالک پر حملہ آور ہوتے ہوئے موسم کا خیال رکھا جاتا۔ سپاہیوں کو جفاکش اور سامانِ حرب سے لیس کیا جاتا۔

اسلامی حکومت کے تحت غیراقوام کےلوگ بھی بڑےبڑے عہدوں پر فائز رہے۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے صیغۂ جنگ کو جو وسعت دی تھی اس کےلیے کسی قوم اور ملک کی تخصیص نہ تھی۔ والنٹیئر فوج میں ہزاروں مجوسی شامل تھے۔ آج پاکستان میں کہتے ہیں کہ احمدیوں کو فوج سے نکالو یہ بڑےحسّاس عہدے ہیں حالانکہ اگر تاریخ پڑھیں تو پاکستان کی خاطرسب سے زیادہ قربانیاں احمدی افسروں نے ہی دی ہیں۔تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد میں غیراقوام کے افراد کو جنگی افسر مقرر کیا جاتا تھا ۔

حضرت عمرؓ نے اشیاء کی قیمتیں ناجائز طور پر گرانے پر سختی سے پابندی لگائی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اسلام نے بھاؤ بڑھانے اور اسی طرح دوسروں کو نقصان پہنچانے کےلیے بھاؤ گرانے سے بھی منع فرمایا ہے۔

حضرت عمرؓ نے تعلیم کے نظام کو نہایت ترقی دی۔ ہجری کیلنڈر وضع کیا جس کا آغاز رسول خداﷺ کی مدینہ ہجرت سے کیا گیا۔یہ کیلنڈر کب شروع ہوا اس کے متعلق مختلف آراء ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ 16؍ہجری میں اس کا آغاز ہوا۔ کچھ کے نزدیک 17؍ ہجری یا 18؍ہجری یا 21؍ہجری میں اس کیلنڈر کا اجرا ہوا۔

اسلامی سکّوں کے متعلق عام مؤرخین کا خیال ہے کہ سب سے پہلے سکّہ عبدالملک بن مروان نے جاری کیا۔ لیکن مدینہ طیبہ کے بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ اسلامی سکّے حضرت عمرؓ کے دَور میں جاری ہوئے تھے۔ان کے اوپر الحمدللّٰہ بعض پر محمد رسول اللّٰہ اور بعض پر لاالٰہ الا اللّٰہ وحدہٗ کندہ تھا۔ایک تحقیق کے مطابق سب سے پہلے اسلامی سکّے دمشق میں 17؍ ہجری میں جاری ہوئے۔

حضرت عمرؓ نےاپنے عہدِ خلافت میں جو نئی باتیں ایجاد کیں انہیں مؤرخین ‘اوّلیات’ کہتے ہیں۔علّامہ شبلی نعمانی نے اپنی کتاب ‘الفاروق’ میں چوالیس کے لگ بھگ‘ اوّلیات’ درج کرکے لکھا ہے کہ اس کے سوا اور بھی عمرؓ کی اوّلیات ہیں جن کو ہم طوالت کے خوف سے قلم انداز کرتے ہیں۔

حضرت عمرؓ کا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعدحضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے چھ مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا ارشاد فرمایا۔

1۔ مکرم سورِپتو ہادی سِسوُویو (SURIPTO HADI SISWOYO)صاحب آف انڈونیشیا: مرحوم گذشتہ ماہ 79برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔آپ کئی مرتبہ صدر جماعت رہے، دارالقضا انڈونیشیا میں بطور قاضی بھی خدمت کی توفیق ملی۔بہت فعال داعی الیٰ اللہ تھے۔مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ آٹھ بچے یادگار چھوڑے ہیں۔ ایک بیٹے اروان حبیب اللہ صاحب بطور مبلغ خدمات بجالارہے ہیں۔

2۔ مکرم چودھری بشیر احمد بھٹی صاحب ابن اللہ داد صاحب گھوڑو ضلع ننکانہ صاحب : مرحوم گذشتہ ماہ 95 برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند، انصاف پسند، صاف گو، احمدیت اور خلافت سے والہانہ عشق رکھنے والے تھے۔ تعویذگنڈے اور دیگر توہمات سے سخت بیزار تھے۔پسماندگان میں دو بیٹیاں اورپانچ بیٹے شامل ہیں۔ ایک بیٹے محمد افضل بھٹی صاحب مربی سلسلہ تنزانیہ ہیں جو میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے جنازے اور تدفین میں شامل نہیں ہوسکے۔

3۔ مکرم حمید اللہ خادم ملہی صاحب ابن چودھری اللہ رکھا ملہی صاحب دارالنصر غربی ربوہ: مرحوم 82 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند، سادہ لوح، شریف النفس، غریب پرور ، مخلص و فدائی احمدی تھے۔ ان کے ایک بیٹے واقفِ زندگی ہیں جو طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں کام کر رہے ہیں۔

4۔ مکرم محمد علی خان صاحب پشاور: آپ شریف اللہ خان صاحب کے بیٹے تھے اور 89 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ کے فضل سے 8/1 حصّے کے موصی تھے۔مرحوم بڑے دعا گو، مہمان نواز، دوسروں کی مدد کرنے والے، کھرے انسان تھے۔پسماندگان میں تین بیٹیاں اور سات بیٹے سوگوار چھوڑے ہیں۔

5۔ مکرم صاحبزادہ مہدی لطیف صاحب آف میری لینڈ امریکہ: آپ 87 سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ کے پوتے تھے۔پنج وقتہ نمازوں کے پابند، تہجدگزار، خلافت کے شیدائی ،عاجز اور منکسر المزاج شخصیت کے مالک تھے۔حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا بڑا گہرا مطالعہ تھا۔

6۔ عزیزم فیضان احمد سمیر ابن شہزاد اکبر صاحب کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ: عزیز موصوف کورونا وبا کے باعث 16 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔مرحوم وقفِ نَو کی تحریک میں شامل نہایت ذہین، کم گو، شریف النفس، سنجیدہ طبع تھے۔

حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button