متفرق مضامین

دیو سائی: خاموشی کی نگری

(منور احمد)

یونہی بادل کی طرح برف زارو ں، پہاڑوں اور بستیوں میں آوارہ گردی کرتے ہوئے دیو سائی کو جب پہلی بار دیکھا تو مجھے لگا جیسے جنت کا نظارہ دنیا میں ہی دیکھنے کو مل گیا ہے۔ اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو ایک بار جا کر دیکھ لیں۔ دیو سائی نیشنل پارک اور اس میں واقع شیوسر جھیل کی خوبصورتی الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔

دیو سائی دو الفاظ کا مجموعہ ہے ’’دیو ‘‘ اور ’’سائی‘‘ یعنی دیو کا سایہ۔ ایک ایسی جگہ جس کے بارے میں صدیوں یہ یقین کیا جاتارہا کہ یہاں دیو بستے ہیں۔ آج بھی مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ دیو سائی میں عجیب مخلوقات رہتی ہیں۔ دیو سائی میں دیکھتے ہی دیکھتے موسم تبدیل ہو جاتا ہے اچانک گرمیوں میں ژالہ باری ہونے لگتی ہے۔ موسم میں ہر لمحہ تبدیلی کی وجہ سے دیو سائی میں دھوپ چھاؤں کا کھیل چلتا رہتا ہے۔ دیو سائی میں بے شمار جنگلی حیات پائی جاتی ہے جس وجہ سے دیو سائی کو عبور کرنا آسان نہیں اس کے علاوہ یخ بستہ ہواؤں، برف باری اور طوفانوں کی موجودگی ۔آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی دیو سائی میں زندگی گزارنے کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا اسی لیے دیوسائی میں آج بھی کوئی آبادی موجود نہیں۔

کشمیر سے ہجرت کر کے آنے والے خانہ بدوشوں کی یہ قدیم گزر گاہ ہے جو اپنے ساتھ بھیڑ بکریاں لے کر دیوسائی میں چلے جاتے ہیں۔ دیو سائی میں صدیوں سے تنہائی اور خاموشی آباد ہے۔ تنہائی ایسی کہ کبھی کبھی اپنے وجود سے خوف آنے لگتا ہے۔

ہمالیہ کے دامن میں واقع دیوسائی دنیا کا سب سے بلند اور اپنی نوعیت کا واحد پہاڑی میدان ہے جو اپنے کسی بھی مقام پر 4000 میٹر سے کم بلند نہیں۔ سال کے 8 ماہ یہ مقام برف سے ڈھکا رہتا ہے۔

گرمیوں کے 4 مہینے میں پہاڑی ڈھلوانوں اور گھاٹیوں پر مشتمل 3000 مربع کلومیٹر کے علاقے میں خاص پھول ملتے ہیں جن کی خاصیت یہ ہے کہ وہ پھول صرف سطح سمندر سے 4000 میٹر بلندی پر اگتے ہیں لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس پورے علاقہ میں ایک بھی درخت نہیں ملتا۔

اس میدان میں جگہ جگہ نالے بہتے ہیں اور ان میں موجود سنہری ٹراؤٹ مچھلیاں انتہائی دلکش نظارہ پیش کرتی ہیں۔ آسمان سے گزرتے ہوئے بادلوں کے بڑے بڑے ٹکڑے جو اتنی کم بلندی سے گزرتے ہیں کہ لگتا ہے جیسےقدرت نے آپ پر سایہ کرنے کے لیے چھتری بنا رکھی ہو۔

سکردو شہر کے بازار سے گزر کر ایک سڑک سدپارہ گاؤں کی طرف مڑ جاتی ہے سٹرک کے ساتھ سدپارہ جھیل کا نظارہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے جس کا پانی نیلا ہےاور بادلوں کا سایہ بھی جھیل کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔ یہاں مسافر پلک جھپکنا بھول جاتا ہے۔ جھیل دیکھتے دیکھتے آگے سدپارہ گاؤں آ جاتا ہے۔ گاؤں سے گزر کر سٹرک کی حالت خراب ہونے لگتی ہے اور مسلسل چڑھائی کی وجہ سے کانوں پر دباؤ بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ سڑک کے ایک طرف اونچے پہاڑ اور دوسری طرف گہری کھائی دل دہلانے کے لیے کافی ہوتا ہے، نہ دل سنبھلتا ہے اور نہ ہی سڑک، یہ ایسا منظر تھا جس سے اکثر یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔

سفر کرتے ہوئے ایک نئی دنیا میں قدم رکھا جسے ’بڑا پانی‘ کہا جاتا ہے کسی وقت بڑا پانی کو کراس کرنے کے لیے ایک لکڑی کا پُل ہوا کرتا تھا جس پر سے گزرنا بھی زمانہ قدیم کی ایک جھلک ظا ہر کرتی تھی۔ کچھ مسافر ’’بڑا پانی ‘‘ پر کیمپنگ بھی کرتے ہیں۔

دیوسائی بڑا پانی

دیوسائی کی خوبصورتی کو بیان کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کی ہے اُمید کرتا ہوں کہ آپ پسند کریں گے۔ ایک گروپ فوٹو کے ساتھ مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔

دیوسائی کے پھول
دیوسائی میں موسمِ سرما کا آغاز

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button