متفرق مضامین

چودھری محمد علی صاحب (قسط سوم)

(‘ابن طاہر’)

(گذشتہ سے پیوستہ)میں ہائی کلاسز میں تھا جب ہمارے علاقے میں سیرت النبیﷺ کے جلسے ہونے لگے۔ کچھ لوگوں نے مل کر موگا میں بھی ایک ایسا ہی جلسہ کرانے کا پروگرام بنایا۔ ہم نے اس مقصد کے لیے باقاعدہ چندہ اکٹھا کیا اور آریہ کالج کا ہال کرائے پر لے لیا۔ اس دَور میں کچھ لوگ ایم اے او کالج، امرتسر اور اسلامیہ کالج، لاہور کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ ان میں پروفیسر بھی ہوتے تھے۔ اس وقت میں میٹرک کا امتحان دے کر فارغ ہوچکا تھا چنانچہ مجھے کہا گیا کہ میں لاہور جاکر فلاں فلاں پروفیسر سے ملوں اور انہیں یہاں آنے پر آمادہ کروں اور اگر وہ رضامند نہ ہوں تو میں امرتسر جائوں اور وہاں سے فلاں فلاں پروفیسر کا پتا کروں۔ میں لاہور پہنچ گیا۔ لاہور میں فلاسفی کے ایک پروفیسر تھے جن کا نام میں اس وقت بھول رہا ہوں۔ معلوم ہوا کہ وہ کسی ہوٹل میں رہائش پذیر ہیں۔ میری حیثیت اس وقت کنویں کے مینڈک کی سی تھی اس لیے میں بہت حیران ہوا کہ کوئی شخص ہوٹل میں بھی رہائش رکھ سکتا ہے۔ خیر میں ڈھونڈتے ڈھانڈتے اس ہوٹل میں جا پہنچا۔ ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہابیٹا! میں تو نہیں جاسکتا کیونکہ میں پہلے سے ایک جلسہ کے لیے بُکڈ ہوں۔ پھر میں مولانا علم الدین سالک کے پاس گیا۔ انہوں نے بھی معذرت کی چنانچہ میں امرتسر چلا گیا۔ ایم ڈی تاثیر ایم اے او کالج کے پرنسپل تھے۔ میں ان سے ملا۔ وہ لیٹے ہوئے تھے، ان کا پائوں سوجا ہوا تھا اور ٹانگ اونچی رکھی ہوئی تھی۔ غالباً ان ہی دنوں ان کا کوئی آپریشن ہوا تھا۔ وہ کہنے لگے بیٹا!دیکھ لو میں تو سفر کے قابل نہیں البتہ میں تمہیں ایک خط لکھ دیتا ہوں۔ تم ان سے مل لو۔ وہ ضرور تمہارے ساتھ چلے جائیں گے۔ ان کا وہ خط بڑی دیر تک میرے پاس پڑا رہا لیکن پارٹیشن کے وقت ضائع ہوگیا۔ یہ خط سید کرامت حسین جعفری کے نام تھا۔ ان سے بعد میں میری بڑی دوستی ہوگئی اور بڑا تعلق رہا۔ وہ غالباً محلہ اسلام پورہ میں اپنے زیرتعمیر مکان پر گئے ہوئے تھے۔ وہیں ان سے ملاقات ہوئی لیکن انہوں نے بھی معذرت کرلی۔ اب میں امرتسر سے فیروزپور جاتے ہوئے لاہور سٹیشن پر گاڑی بدلنے کے لیے بیٹھا ہوا تھا اور افسردہ سا تھا کہ ایک بزرگ میرے پاس آئے۔ مجھے ان کی شکل اب تک ہلکی سی یاد ہے۔ ان کی ڈاڑھی تھی اور سر پر عمامہ تھا۔ رنگ گورا تھا۔ پوچھنے لگےبیٹا! پریشان کیوں ہو؟ انہوں نے اس محبت سے یہ بات کی کہ میں پھٹ پڑا اور میں نے کہامسلمان پروفیسر صاحبان چندہ لینے کے لیے تو آجاتے ہیں لیکن جب سیرت النبیؐ پر لیکچر کا سوال ہو تو کہنے لگتے ہیں کہ ہم مصروف ہیں، نہیں جا سکتے۔ ہم نے جلسے کے جملہ انتظامات مکمل کررکھے ہیں لیکن کوئی مقرر نہیں مل رہا۔ پریشانی یہ ہے کہ اب ہوگا کیا۔ اس پر انہوں نے کہا آپ فکر نہ کریں۔ مہاشہ محمد عمریہاں آئے ہوئے ہیں اور ان کا قیام مسجد احمدیہ میں ہے۔ آپ ان سے مل لیں۔ وہ ان شاء اللہ ضرور آپ کے ساتھ چلے جائیں گے۔ میں مہاشہ کے لفظ سے بہت متاثر ہوا۔ اس زمانے میں دو ہی تو لفظ تھے جو ہر کس و ناکس کی زبان پر تھے۔ ’’مہاشہ‘‘اور ’’کمیونزم‘‘۔ میں نے سوچا کہ ہم نے مہاشوں ہی کا ہال کرائے پر لے رکھا ہے۔ اس ہال میں ایک مہاشہ کی تقریر ہوگی تو مزا آجائے گا۔ میں نے تانگے والے سے مسجد احمدیہ چلنے کو کہا تو وہ مجھے رام گلی میں لاہوری احمدیوں کی مسجد میں لے گیا۔ وہ میرے ساتھ بڑی عزت سے پیش آئے اور پوچھنے لگے کہ میں ان کے پاس کتنے دن ٹھہرنا چاہتا ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے یہاں ٹھہرنا نہیں ہے، صرف مہاشہ محمد عمر سے ملنا ہے۔ وہ میری بات سن کر کچھ چونکے۔ انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہا اور پھر مجھ سے یوں مخاطب ہوئے: آپ غلط جگہ پر آگئے ہیں۔ آپ نے مہاشہ محمد عمر سے ملنا ہے تو آپ دلی دروازے میں احمدیہ مسجد چلے جائیں۔ وہاں پہنچتے پہنچتے مغرب ہوگئی تھی۔ ایک گول مٹول سا لڑکا وہاں کھڑا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا تو پتا چلا کہ مغلپورہ میں کوئی جلسہ ہے اور مہاشہ صاحب وہاں گئے ہوئے ہیں اور انہوں نے رات کو واپس آنا ہے۔ میں ان کا انتظار کرنے لگا۔ وہ کئی گھنٹوں کے بعد پہنچے۔

دو افراد تھےگیانی واحد حسین اور مہاشہ محمد عمر۔ میں تو ان میں سے کسی کو بھی نہ پہچانتا تھا۔ چنانچہ میں نے جھجکتے جھجکتے دریافت کیاکہ آپ میں سے مہاشہ محمد عمر کون ہیں؟ مہاشہ صاحب نے کہا جی میں ہوں۔ فرمائیے! میں نے پوچھا آپ میرے ساتھ چلیں گے؟ سیرت النبیؐ پر جلسہ ہے۔ کہنے لگے ہا ں میں ضرور چلوں گا لیکن ایک شرط ہے۔ آپ مرکز سے اجازت لے آئیں۔ اب مجھے معلوم نہ تھا کہ مرکز سے مراد کیا ہے اور اجازت کس سے لینی ہے۔ میں نے وضاحت چاہی تو وہ ذرا متعجب ہوئے لیکن پھر کہنے لگے کہ آپ یہاں سے ٹرین پر امرتسر اور وہاں سے گاڑی بدل کر قادیان چلے جائیں۔ سٹیشن سے تانگہ لے کر صدرانجمن احمدیہ کی اُس نظارت میں چلے جائیں جو دعوت الی اللہ اور اس سے متعلقہ امور کی نگران ہے۔ یہی نظارت اجازت نامہ جاری کرے گی۔ میں نے ایسے ہی کیا اور قادیان پہنچ کر دفاتر کے پاس تانگہ رکوالیا۔ میں نے تانگے والے کو بتایا کہ میں کچھ دیر میں واپس آ رہا ہوں چنانچہ وہ احمدیہ چوک میں میرا انتظار کرنے لگا۔ اسی اثنا میں ایک آدمی مجھے دفتر کے اندر لے گیا۔ داخل ہوا تو سب سے پہلے میری ملاقات حضرت سید محمد سرور شاہ صاحبؓ سے ہوئی۔ مَیں نے ان کے سامنے اپنا مدعا بیان کیا تو انہوں نے بے حد محبت کے ساتھ میرے کندھے پر اپنا دستِ شفقت رکھا اور بڑے پیار سے مجھے متعلقہ نظارت میں لے گئے۔ ضمناً عرض کرتا ہوں کہ اتنے برس گذرنے کے باوجود مجھے آج بھی اپنے جسم پر ان کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہو رہا ہے۔ یقیناً وہ آسمانی لوگوں میں سے تھے۔ دنیا میں ایسے لوگ نہیں ہوتے۔ خیر وہ ناظر صاحب کے پاس جاکر کہنے لگے: مولوی صاحب! آپ کے مہمان آئے ہیں۔ وہ مجھے اٹھ کر ملے۔ بڑا معروف نام ہے ان کا لیکن اس وقت مجھے بھول گیا ہے۔ میں نے بتایا کہ اس طرح جلسہ ہے اور میں مہاشہ محمد عمر سے ملا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ مرکز سے اجازت لے آئیں چنانچہ میں آپ کے پاس اسی مقصد سے حاضر ہوا ہوں۔ انہوں نے بغیر کسی توقّف کے اپنا پیڈ اٹھایا اور مہاشہ صاحب کو مخاطب کر کے لکھا کہ آپ حاملِ رقعہ ھذا کے ساتھ چلے جائیں۔

اجازت لینے سے پہلے میں نے دریافت کیا کہ مجھے اس تقریر کے لیے کتنے پیسے ادا کرنے ہوں گے۔ انہوں نے جواب دیاپیسے کیسے؟ ہم سیرت النبیؐ پر تقریروں کے پیسے نہیں لیا کرتے۔ اس کے بعد میں مہاشہ صاحب کو لے کر چل پڑا اور چلنے سے پہلے جلسے کے منتظمین کو بذریعہ تار اپنی آمد کی اطلاع کردی۔ مجھے کہا گیا تھا کہ مہاشہ صاحب کو ہر سٹیشن پر بوتل پلانی ہے۔ اس زمانے میں کوک وغیرہ تو ہوتا نہیں تھا، گولی والی بوتل چلتی تھی۔ گولی کو اندر کی طرف دھکیلتے تو بوتل کھل جاتی تھی۔ تاکید کے پیش نظر مغلپورہ ریلوے سٹیشن پر گاڑی رکی تو میں بھاگ کر ان کے لیے ایک بوتل لے آیا جو انہوں نے پی لی۔ گاڑی رائے ونڈ پہنچی تو میں ایک اور بوتل لے آیا۔ انہوں نے پوچھا: یہ بوتل کس کے لیے ہے؟ میں نے عرض کی آپ کے لیے۔ انہوں نے کہا: میں نے تو ابھی پی ہے اور میرے اصرار کے باوجود وہ بوتل نہیں پی۔

موگا پہنچے تو بے شمار لوگ ہمارے استقبال کے لیے آئے ہوئے تھے۔ بینڈ باجا بھی ساتھ تھا۔ اس جلسہ کے مدارُ المہام عبد اللطیف انصاری تھے جو موگا کالج میں پروفیسر تھے۔ یہ تو مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ وہ احمدیت کے سخت مخالف تھے اور میرے احمدی ہوجانے کے بعد ایک بار مخالفین کے کسی جلسہ میں تقریر کرنے کے لیے قادیان بھی آئے تھے۔ خیر جب میں ٹرین سے اُتر ا تو وہ پوچھنے لگے کہاں ہیں پروفیسر سالک صاحب؟ مَیں نے کہا جی وہ تو نہیں آئے۔ پھر کون آیا ہے؟ انہوں نے دوسرا سوال کیا۔ میں نے کہا: ایک بہت ہی زبردست آدمی لے کر آیا ہوں۔ پوچھنے لگےکون ہے؟ میں نے کہا وہ دیکھیں، اُتر رہے ہیں، مہاشہ محمد عمر۔ ان کا اگلا سوال تھا کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے کہا قادیان سے۔ یہ بات سن کر ان کے تو تیور ہی بدل گئے اور کہنے لگےتیرا بیڑا غرق ہو جائے۔ وہ ہار شار، ڈھول ڈھمکّے، گھوڑیاں سب چیزیں لے کر واپس چلے گئے۔ اتنی دیر میں گاڑی بھی روانہ ہوگئی۔ اب میں پلیٹ فارم پر شرمندہ شرمندہ سا کھڑا تھا لیکن مہاشہ محمد عمر کہنے لگےبیٹا ! تم گھبرائو نہیں۔ ہمارے ساتھ ایسا ہوتا رہتا ہے۔ یہاں بازار میں بعض احمدیوں کی دکانیں ہیں، ہم وہاں چلتے ہیں چنانچہ میں نے اپنا بکس اٹھایا، انہوں نے اپنا بیگ پکڑا اور ایک شیخ صاحب کی دکان پر پہنچ گئے۔ انہوں نے ساری بات سنی تو بڑے تسلی آمیز لہجے میں کہنے لگےآپ فکر نہ کریں۔ ہم سیرت النبیؐ کا جلسہ کریں گے اور یہیں موگا میں کریں گے چنانچہ یہ جلسہ ہوا۔ اگرچہ یہ کوئی بڑا جلسہ تو نہ تھا تاہم اس جلسہ کے ذریعہ میرا احمدیت اور قادیان سے مزید تعارف ہوا لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں نے احمدیت قبول کر لی۔

گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں

چودھری محمد علی صاحب ایف اے کا سپلیمنٹری امتحان پاس کرنے کے بعد 1938ء میں گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخل ہوئے اور 1940ء میں بی اے کا امتحان پاس کرکے وہاں سے فارغ ہوئے۔ موصوف نے ایم ٹی اے کو اپنے انٹرویوز میں اس کالج کے حوالے سے بعض دلچسپ اور معلومات افزا باتیں بیان کی ہیں جن میں کالج کے انگریز پرنسپل، اے سی سی ہاروے کی قابلِ تکریم شخصیت کے مختلف پہلو، سٹوڈنٹس ریپریزنٹیٹو کمیٹی اور اس کی ذمہ داریاں، روپڑ کیمپ، کالج یونین، کالج میگزین اور ہوسٹل کے پریفیکٹ ہونے کے ناطے بعض دلچسپ یادیں، بی اے کے امتحان میں انگریزی کے پرچے میں ہونے والی بدمزگی جس کے نتیجہ میں ابتداءًموصوف نے امتحان دینے کا ارادہ ہی ترک کردیا تھا اور پروفیسر ڈاکٹر تھاپر جو بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور تبدیل ہوگئے تھے کا ذکرِخیر شامل ہے۔ قارئین یہ ساری باتیں تفصیل سے ملاحظہ فرمائیں گے۔

اسی باب میں گورنمنٹ کالج لدھیانہ کے پرنسپل کے دستخط سے جاری ہونے والا کیریکٹر سرٹیفیکیٹ بھی شامل کیا جا رہا ہے جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چودھری محمد علی صاحب نہ صرف تعلیم کے میدان میں بلکہ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی سارے طلباء سے آگے تھے۔ وہ نہ صرف اپنے مضامین میں انعامات جیتتے رہے اور انہوں نے بی اے کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن اور وظیفہ حاصل کیا بلکہ وہ جسمانی سرگرمیوں میں بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔ ان کے اعزازات کی فہرست دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کالج کے نمایاں ترین طلباء میں سے تھے۔

جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے چودھری محمد علی صاحب ایف اے کا سپلیمنٹری امتحان پاس کرنے کے بعد 1938ء میں اس کالج میں داخل ہوئے اور 1940ء میں بی اے کا امتحان پاس کرکے یہاں سے فارغ ہوئے۔ چودھری محمد علی صاحب نے ایم ٹی اے کو اپنے انٹرویوز میں اُس زمانے کی بہت سی خوبصورت یادوں کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

’’جب میں نے میٹرک کا امتحان پاس کرلیا تو سوال اٹھا کہ مزید تعلیم کے لیے کس کالج میں داخلہ لیا جائے۔ اُن دنوں گورنمنٹ کالج، لدھیانہ کا شمار علاقہ کے اچھے کالجوں میں ہوتا تھا۔ میں نے داخلہ کے لیے درخواست دے دی جو منظور ہوگئی اور یوں میں گورنمنٹ کالج، لدھیانہ پہنچ گیا۔ اے سی سی ہاروے جنہیں ہم عام طور پر ’’ہاروے صاحب‘‘کہا کرتے تھے ہمارے پرنسپل تھے۔ آئرش تھے۔ بہت اچھے انسان تھے اور ان کا مذہب صرف اور صرف انسانیت تھا۔

کالج میں کو ایجوکیشن تھی۔ ایک ہزار لڑکا ہوگا اور تقریباً پانچ سو لڑکیاں۔ اپنے زمانے میں یہ مخلوط تعلیم کا پورے ایشیا میں سب سے بڑا کالج تھا۔ کالج کا ہر طالب علم کسی نہ کسی کلب کا ممبر ضرور ہوتا تھا۔ کالج میں کورٹس آف ہانر بنی ہوئی تھیں۔ عدالتیں لگتی تھیں اور دیہات کے مقدموں کے فیصلے موقع پر ہوتے تھے۔ ڈرامے ہوتے تھے، صفائیاں ہوتی تھیں، میڈیکل گروپ تھا، میوزیکل پروگرامز ہوتے تھے۔ چھٹیوں میں چھٹیاں نہیں ہوتی تھیں۔ پہاڑوں میں دریا کے کنارے جہاں سے نہر روپڑ نکلتی ہے لڑکیوں اور لڑکوں کے الگ الگ کیمپ لگا کرتے تھے۔ ٹیچنگ بھی ہوتی تھی۔ استاد درختوں کے نیچے پڑھاتے تھے لیکن ان کے پاس کوئی انتظامی اختیار نہیں تھا۔ وہ ایک آنہ بھی جرمانہ نہیں کر سکتے تھے۔ جملہ انتظامات طلباء خود کرتے تھے۔ ایک سٹوڈنٹ ریپریزنٹیٹو کمیٹی ہوا کرتی تھی جسے ایس آر سی کہا جاتا تھا۔ اس کے کچھ ممبر بذریعہ الیکشن آتے تھے اور کچھ انتظامیہ نامزد کرتی تھی۔ کالج یونین کا صدر، ہوسٹل کا پریفیکٹ اور کالج میگزین کا ایڈیٹربلحاظ عہدہ اس کا ممبر ہوتا تھا۔ میں چونکہ کالج میگزین کا ایڈیٹر، ہوسٹل کا پریفیکٹ اور کالج یونین کا وائس پریذیڈنٹ بھی تھا لہٰذا مجھے بھی وقتاً فوقتاً اس کمیٹی میں بیٹھنے کا موقع ملتا رہتا تھا اور موقع کی مناسبت سے میرے پاس دو یا تین ووٹ ہوتے تھے۔ ہاروے صاحب خود اس کمیٹی کی صدارت کرتے لیکن فیصلہ لڑکے کیا کرتے تھے۔

اسی زمانے کی بات ہے۔ آل انڈیا کا نگریس کا جلسہ تھا۔ غالباً نہرو نے صدارت کرنا تھی۔ ہاروے صاحب نے کالج میں چھٹی کر دی۔ ان کی جواب طلبی ہو گئی حالانکہ وہ پورے ہندوستان میں تعلیم کے شعبہ میں غالباً سینئر ترین شخص تھے اور لدھیانہ میں ان کی عزت کا یہ عالم تھا کہ اگر دو سکھوں کی سر پھٹول ہوجاتی تو بھی وہ تھانے نہیں جاتے تھے، آدھی رات بھی ہوتی تو فیصلہ کرانے ہاروے صاحب کے پاس ہی آتے۔ میں کیاکہوں وہ ولی اللہ تھے۔

کالج میں پریفیکٹ کی بہت عزت تھی۔ وہ باقاعدہ حاضری لیا کرتا تھا۔ لڑکے اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ’’یس سر!‘‘ ’’یس سر!‘‘کرتے تھے۔ ایک لڑکا ہوتا تھا کُلونت سنگھ۔ وہ بعد میں بھارتی فوج میں جرنیل ہو گیا تھا۔ ایک دفعہ میرے ایک دوست نے بتایا کہ آج کُلونت سنگھ نے اپنا نام پکارے جانے پر ’’یس سر!‘‘کی بجائے صرف ’’یس‘‘کہا ہے۔ میں نے تو نوٹ نہیں کیا تھا لیکن میں نے کہا: اچھا۔ دیکھ لیتے ہیں۔ اگلے روز میں نے حاضری لیتے ہوئے کُلونت سنگھ کا نام پکارا تو اس نے جواباً صرف ’’یس‘‘کہا۔ میں نے کہا: Excuse me. I‘ll call it againمیں نے پھر اس کا نام پکارا اور اس نے پھر صرف ’’یس‘‘کہہ کر اپنی حاضری لگوائی۔ میں نے اسے پانچ روپے جرمانہ کیا۔ اس وقت پانچ روپے بڑی رقم ہوتی تھی۔ پھر میں نے کہاI‘ll call the roll again Singh! Mr. Kulwantاس نے پھر جواباً ’’یس‘‘ہی کہا۔ میں نے کہا .I double the fine پتا نہیں یہ کتنی دفعہ ہوا۔ آخر وہ یس سر کہنے پر مجبور ہوگیا۔ یوں بات ختم ہوئی اور جرمانہ نوٹیفائی ہوگیا۔

ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ پریفیکٹ کے کام میں عام طور پر کوئی مداخلت نہیں کرتا تھا۔ اس کے اپنے فرائض تھے۔ ہمارے ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ ایک گیانی سکھ تھے۔ بہت اچھے آدمی تھے۔ وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہنے لگے: محمد علی! کُلونت سنگھ کی غلطی تھی لیکن اب اس نے مونچھ نیچی کرلی ہے۔ کیا تم اس کا جرمانہ معاف نہیں کرسکتے؟ میں نے کہا: آپ نے اس کام کے لیے خود کیوں تکلیف کی ہے؟ آپ کسی کے ذریعہ پیغام بھجوا دیتے تو میں تب بھی تعمیل کردیتا۔ میں نے فائن تو معاف کردیا لیکن ساتھ ہی اپنا استعفیٰ لکھ کر پرنسپل کو بھیج دیا۔ میں نے کہا کہ کسی اور کو یہاں لگالیں، میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ ہاروے صاحب نے اس واقعہ کا ذکر میرے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ میں بھی کیا تھا۔

یہ ڈِسپلن تھا کالج میں لیکن کالج کی پوری تاریخ میں اس وقت تک صرف ایک طالب علم کا اخراج ہوا تھا۔

یونیورسٹی کے کمیشن کالجز وِزِٹ کرتے رہتے تھے۔ ایک بار تین پروفیسروں پر مشتمل ایک ٹیم ہمارے کالج آئی تھی۔ ان میں گورنمنٹ کالج، لاہور کے پرنسپل، جی ڈی سوندھی اور پروفیسرچَیٹرجی شامل تھے۔ ان پروفیسروں میں سے ایک آکسفورڈ میں پڑھتے رہے تھے اور دوسرے کیمبرج میں۔ ایک لڑکا کھڑا ہوا اور کہنے لگا

I didn‘t know there is a Cambridge on this side of the Suez Canal!

دوسرے نے کہا

No, no. I didn‘t know there was an Oxford on this side of the Suez.

جب ہاروے صاحب ریٹائر ہوئے تو لاہو رمیں دو تین بڑے ہوٹل ہوا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک تو فلیٹیز تھاجو اَب تک موجود ہے اور دوسرا نِیڈوز تھا جہاں آج کل الحمرا یا پتا نہیں کیا بنا دیا گیا ہے۔ یہ چڑیا گھر کے سامنے ہوتا تھا۔ وہاں ان کی دو الوداعی پارٹیاں ہوئیں جن میں بڑ ے بڑے نامی لوگ شامل ہوئے تھے۔ ان میں انگریزی کا معروف پبلک سپیکر دیوان چمن لال بھی تھا۔ منوہر لال بھی بہت اچھی انگریزی بولتا تھا۔ وہ ملتا ن سے وزیر تھا۔ اساتذہ تو تھے ہی۔ بوپال سنگھ بہت اچھی انگریزی بولتے تھے۔ وہ بعد میں یونیورسٹی میں آگئے تھے۔ پروفیسر قاضی محمد اسلم، پطرس بخاری اور پروفیسر سراج بھی اچھی انگریزی بولنے والوں میں سے تھے۔ ان سب نے تقریریں کیں۔ میں نے بھی تقریر کی تھی۔ دیوان چمن لال کانگریسی تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے انہوں نے کہا تھا: مسٹر ہاروے! اگر آپ ہمیں یقین دلا سکتے ہوں کہ باقی تمام انگریز آپ جیسے ہیں اور وہ ہندوستان بھی آسکتے ہیں تو میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ ہم کانگریس کی طرف سے آزادی کا مطالبہ چھوڑ دیں گے۔ یہ ہاروے صاحب کے لیے بہت بڑا خراجِ تحسین تھا۔

ہاروے صاحب بے حد مخلص، ہمدرد انسان تھے۔ جب پارٹیشن ہوئی تو حالات نے ان کے ہیڈکلرک، ولی محمد کو اٹھا کر گورنمنٹ کالج، لاہور میں جاپھینکا۔ اس نے ایک بار مجھے ایک خط دکھا کر بتایاکہ ہاروے صاحب کا خط ہے۔ انہوں نے لکھا ہےکہ مجھے پتا چلا ہے کہ اس طرح اُتھل پُتھل ہوئی ہے اور آپ بھی اپنی جگہ سے اَپ رُوٹ ہو گئے ہیں۔ مجھے فکر ہے آپ کا گزارہ کیسے ہو تا ہو گا؟ جب تک آپ کے حالات بہتر نہیں ہوجاتے میں اتنی رقم آپ کو ماہ بماہ بھیجتا رہوں گا۔

لدھیانہ میں تعلیم کے دوران میرا میلان دہریت کی طرف ہوگیا اور نمازوں وغیرہ کا بھی کوئی خاص خیال نہ رہ سکا۔ میرا قریبی دوست بچترسنگھ کٹّر کمیونسٹ تھا۔ ہم کمیونسٹ لٹریچر پڑھتے تھے۔ میں کمیونسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن بھی جیتتا رہا ہوں۔ سٹوڈنٹ یونین میں ایک پربودھ چندرہوتے تھے۔ وہ تھے تو کانگریسی لیکن لیڈری کے لیے اپنے آپ کو کمیونسٹ ظاہر کرتے تھے اور ہڑتالوں میں بھی سب سے آگے آگے ہوتے تھے۔‘‘

چودھری صاحب کا اپنا ارادہ تو انگریزی میں آنرز کرنے کا تھا لیکن ایک حادثے نے ان کا یہ ارادہ بدل دیا اور ان کی یہ خواہش تشنۂ تکمیل رہ گئی۔ موصوف نے اس حادثےکی تفصیل راقم کو بھی سنائی تھی اور میں اسے چودھری صاحب کے بارے میں اپنے مضمون

یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ

نادان! پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا

میں پہلے ہی بیان کرچکا ہوں۔ اگر یہ مضمون آپ کی نظر سے نہیں گزرا تو میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اس مضمون میں اس حوالے سے دو باتیں بیان ہوئی ہیں۔ اول: کالج کے پروفیسر تھاپر کا شراب کے نشے میں دھت ہوکر کلاس روم میں آجانا اور اس پر انتظامیہ کا ردِعمل اور دوم: بی اے کے امتحان میں پہلے ہی پرچہ میں ایک معمولی مسئلہ پر پروفیسر تھاپر اور لاہور سے آئے ہوئے سپرنٹنڈنٹ ایگزامینیشن کے ساتھ چودھری صاحب کی بدمزگی اور اس پر آپ کا امتحان چھوڑ دینے کا فیصلہ تاہم ان دونوں واقعات کو دہرائے بغیر میں یہ بتانا چاہوں گا کہ گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں چودھری صاحب کا دوسالہ قیام اس لحاظ سے یادگار تھا کہ آپ کا شمار کالج کے بہترین طلباء میں رہا۔ آپ نہ صرف پڑھائی لکھائی میں باقی طلباء سے آگے تھے بلکہ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی آپ کے ہم پلہ طلباء بہت کم تھے۔ ملاحظہ ہو آپ کا کیریکٹر سرٹیفیکیٹ جو اے سی سی ہاروے کا دستخط شدہ ہے:

GOVERNMENT COLLEGE, LUDHIANA

CHARACTER CERTIFICATE

Name: Mohammad Ali

Father‘s Name: M. Ghulam Mohammad

Father‘s designation and address: Agriculture. Maseetan. Post Office Dharmkot District Ferozepur. Now reading in VI Year Class, Government College, Lahore.

Date of Birth: 11.-12-.17

First entered in the College in 1938 in the 3rd Year Class. Left in 1940 after passing B.A. Examination.

University Examination record:

B.A. 331 marks. First Class. Got a scholarship in Philosophy.

College studies: Got prizes in English, Persian, Philosophy and Urdu.

Health and physical efficiency: Health good. He used to win about 14/18 points in physical efficiency tests.

Athletics: He played hockey and volley ball.

Hobbies, Social Service or other interests or activities: He was a member of the College Swimming Club.

Any other offices held: Student President College Union (Summer Session 1939-.40)

Editor-in-Chief College Magazine 1939.-40.

Prefect Old Hostel 1939-.40.

Memebr Excursion Committee.

Student representative on the Financial Advirosry Board.

Member Students Representative Committee 1939-.40.

Secretary Philosophical Society 1939.-40.

Steward 1939.-40.

Student Librarian.

Any other points needing mention: Was awarded a Badge of Honour, was a good speaker and represented the College Union on various occasions. Got a prize for his work for the College Magazine.

Remarks by Warden (Boarders only): A very consientious and dutiful student. He was a great help in maintaining hostel discipline as Prefect. At the Ruper Camp, he was one of the leaders and always exercised good influence among the students.

General remarks by Tutor: He was the best all-round student of his session and did extremely well in the University Examination. He bears an excellent moral character and is exceptionally intelligent, trustworthy and in every way fit to hold a position and trust.

Tutor.Sd

Abdul Ghafur.

Date 19-3-42.

Remarks by Principal: The Leading student of his year. Besides possessing excellent intellectual ability, he had a much higher sense of conscience, discipline, responsibility and duty than is usually found among students. He was not afraid to risk his popularity in the exercise of his duty as Prefect, with the ultimate result that his conduct won the respect and admiration of all.

Sd

A.C.C. Harvey,

I.E.S.

Principal

(Seal). Government College, Ludhiana.

نوٹ: مجھے اصل کیریکٹر سرٹیفیکیٹ تو دیکھنے کا موقع نہیں ملا البتہ اس کی تصدیق شدہ نقل سے مندرجہ بالا نقل تیار کی گئی ہے۔ یہ نقل پروفیسر مہان سنگھ ایم ایس سی پی ایچ ڈی، پروفیسر آف کیمسٹری گورنمنٹ کالج لاہور کی تصدیق شدہ ہے۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button