یادِ رفتگاں

محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ اہلیہ مکرم سیف الرحمٰن صاحب

(امۃ اللطیف زیروی)

’’شوکت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم لندن میں کھڑی ہو کر برقعہ پہن کر تقریر کروگی‘‘

یہ الفاظ 1946ء میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان میں امۃ الرشید شوکت صاحبہ کومخاطب کرتے ہوئے فرمائے۔ کہاں لندن اور کہاں ہندوستان کی ایک گمنام بستی اور وہاں کی باسی سلسلہ احمدیہ کی ایک ادنیٰ خادمہ۔ جسے لندن تو درکنار قادیان سے چند میل باہر تک بھی جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ایسے میں یہ جملہ خواب وخیال کی دنیا ہی معلوم ہوتا تھا۔ پس بات آئی گئی ہو گئی اور زندگی اپنی ایک ڈگر پر چلتی رہی!

31سال بعد خداتعالیٰ کی تقدیر حرکت میں آئی اور حضرت مصلح موعودؓ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ عجیب شان سے پورے ہوئے جس کی تفصیل اسی مضمون کے آخر پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی مبارک صحبت میں منعقدہ ایک اردو کلاس کے حوالے سے پیش کی جائے گی۔

اپنی مرحومہ والدہ کی یادوں کا ذکر کرنے بیٹھی ہوں تو جہد مسلسل، قربانی اور ایثار اور بے لوث خدمت کے واقعات کا ایک طویل سلسلہ نظروں کے سامنے بکھرا پڑا ہے۔ محبتوں اور عقیدتوں کا ایک سیل رواں ہے جسے کماحقہ سمیٹنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ چند ایک باتیں ہیں۔ محبت کی کچھ یادیں ہیں جو ان کے حسن سیرت کے کچھ پہلوئوں کو اجاگر کرتی ہیں۔ انہی کے سہارے ان کی یاد کا حق ادا کرنے کی یہ ایک کوشش ہے۔

میری والدہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ جو 31؍جنوری 1999ء کو کیلگری کینیڈا میں وفات پا گئی تھیں مئی 1920ء کو قادیان میں پیدا ہوئیں۔ وہ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت میاں جمال الدین سیکھوانی صاحبؓ (جن کے اخلاص کا ذکر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے) کی صاحبزادی سارہ بیگم صاحبہؓ صحابیہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیٹی تھیں۔ والد کا نام محترم منشی چراغ دین تھا۔ سارہ بیگم ان صحابیات میں سے تھیں جنہوں نے ’’لوائے احمدیت‘‘کے لیے سوت کاتا تھا۔

ابتدائی تعلیم قادیان کے دینی ماحول میں حاصل کی اور آغاز ہی سے سلسلےکی خدمت کے لیے کمر بستہ ہو گئیں۔ آٹھویں جماعت کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی جاری فرمودہ دینیات کلاس کی پہلی فصل (کلاس) میں شامل ہوئیں اور اعزاز کے ساتھ کورس مکمل کیا۔ حضرت اماں جانؓ نے کامیابی پر آپ کو میڈل عطا فرمایا جسے حضرت سیدہ ام طاہر مریم بیگم صاحبہؓ نے آپ کو عنایت فرمایا۔

اکتوبر1942ء کو آپ کا نکاح حضرت مصلح موعودؓ نے محترم ملک سیف الرحمان صاحب مفتی سلسلہ سے پڑھایا۔ اس سے متعلق وہ اپنی یادداشتوں میں لکھتی ہیں۔

’’18؍ اکتوبر 1942ء کو ہمار ی شادی ہوئی اور حضرت مصلح موعودؓ برات کے ساتھ ہمارے غریب خانہ پر تشریف لائے اور رشتہ کے بابرکت ہونے کی دعا کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں شادی کا جوڑا پہن کر تیار ہوئی تو حضرت سیدہ ام طاہر نے عطر جو ان کا اپنا تھا اپنے ہاتھوں پرلگا کر میرے کپڑوں پر اس کی خوشبو لگائی۔ (ان کے ہاتھوں کا لمس میں آج تک محسوس کرتی ہوں ) 19؍اکتوبر کو دعوت ولیمہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے شرکت فرمائی اور بعض خواتین مبارکہ نے بھی۔ حضرت اماں جانؓ کی خدمت میں کھانا بھجوایا گیا۔ آپ نے پسند فرمایاگو کہ کھانا صر ف نان، آلو گوشت اور زردہ پر مشتمل تھا۔‘‘

شادی کے بعد تعلیم وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اور اباجان مرحوم سے بھی حدیث، عربی اور قواعد صرف ونحو کی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی میٹرک کا امتحان بھی کامیابی سے مکمل کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے نہایت کامیاب زندگی گزاری۔ سب کی خدمت پر ہمیشہ کو شاں رہیں۔ قریباً 18سال تک ماہنامہ مصباح کی مدیرہ رہیں۔ جماعت کے قائم کردہ فضل عمر ماڈل سکول میں دینیات اور عربی کی ٹیچر رہیں۔ اباجان مرحوم کے شانہ بشانہ نہایت مجاہدانہ، پر مشقت اور فعال زندگی بسر کی۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا اور پھر ان کی آخری عمر تک میں نے انہیں ہمیشہ سلسلے کے کاموں اور قرآن کریم کی درس وتدریس میں مشغول پایا۔ شادی کے بعد تعلیم بھی حاصل کی، سکول میں ملازمت بھی کی۔ آٹھ بچے پیدا ہوئے، ان کی پرورش کی، مصباح رسالہ کی ایڈیٹر رہیں، ساتھ ساتھ لجنہ کے کام بھی کیے۔ آج کے زمانےکی طرح کوئی دنیاوی سہولت بھی میسر نہ تھی۔ مگر میں نے انہیں ہمیشہ ہر حال میں صابرہ وشاکرہ ہی پایا۔

مجھے یاد ہے جب 1949ء میں ہم ربوہ منتقل ہوئے اور آغاز خیموں میں قیام سے ہوا۔ پھر کچے مکان بنے۔ ربوہ میں اس وقت بجلی بھی نہ تھی۔ شدید گرمی کے موسم میں ہمارے کچے کمرے تنور کی طرح تپا کرتے تھے۔ اس وقت کی ایک یاد اب بھی میرے ذہن میں محفو ظ ہے۔ کمرہ کی چھت کے ساتھ ایک محرک لکڑی باندھی جاتی جس کے نیچے کپڑے کی ایک جھالر لگی ہوتی تھی۔ رسی کے ساتھ جب اس لکڑی کو ہلایا جاتا تھا تو کپڑا ہلنے سے کمرے میں ہوا محسوس ہوتی اور یوں پنکھے کاکام لیا جاتا تھا۔ میری پیاری ماں ہم سب کے آرام کے لیے اکثر لیٹے لیٹے اپنے پائوں کے انگوٹھے اورانگلی کے درمیان اس رسی کو پکڑکر اس خود ساختہ پنکھے کو چلایا کرتی تھیں۔

اس دَور میں کیسی کٹھن اور پُر مشقت زندگی تھی۔ کیسا ایثار اورقربانیاں تھیں اس دَور کے واقفین زندگی اور ان کے لواحقین کی جو صرف اور صرف اپنے دین کی بقا اور احیائے نو کے لیے سب دنیا کی رونقوں سے منہ موڑ کر اس بیابان میں آن بسے تھے۔

انہیں اکثر شدیدسردرد کی شکایت ہو جایا کرتی تھی۔ مگر اس حالت میں بھی کام بند نہیں ہوتے تھے۔ سر پر مضبوطی سے دوپٹہ باندھ کر روز مرہ کے کاموں میں جتی رہتی تھیں۔ صبح ناشتہ تیار کرتیں، پھر تیار ہو کر سکول پڑھانے چلی جاتیں۔ واپسی پر لجنہ کے دفتر میں مصباح اور دیگر کاموں کے لیے حاضر ہوتیں۔ پھر گھر پہنچ کر گھر کے کام، بچوں کے کام، مصباح کی پروف ریڈنگ شام کو بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم اور دیگر تعلیم کا سلسلہ، محلہ کی لجنہ کے اجلاسات، کہیں بہت رات گئے فرصت ہوتی او رپھر صبح دوبارہ وہی کام، یہ سب ایک یاد و دن کا قصہ نہیں تھا بلکہ ایک کار مسلسل تھا جو کسی نہ کسی رنگ میں تادم آخر جاری رہا۔

ہم بیٹیوں کے ساتھ ان کا تعلق دوستانہ رنگ کا تھا۔ یوں ہم سے گھلی ملی رہتیں جیسے بڑی بہن ہوں۔ ہم انہیں بلاتے بھی ’’آپا‘‘کہہ کر تھے۔ طبیعت کی بڑی حلیم تھیں۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی کسی بات پر ڈانٹ ڈپٹ کی ہو۔ اگر کسی غلطی پر اصلاح کی غرض سے سرزنش بھی کرنی ہوتی تو محترم اباجان سے کہہ کر ان سے کرواتی تھیں۔ ہم ان سے ہر بات بے تکلفی سے کر لیا کرتے تھے۔ واقعی وہ بیک وقت نہایت شفیق ماں بھی تھیں اور بے تکلف دوست بھی۔ سختی کرنی تو انہیں آتی ہی نہ تھی۔ اور اباجان کا بھی یہی حال تھا کہ ایک طرف کچھ سزا دی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد آگے پیچھے پھرنے لگتے اور بہانے بہانے سے پیار اور لطف وکرم کے پھول نچھاور کرنے لگتے۔ نہایت پیارے وجود تھے۔ اللہ ان کو غریق رحمت فرمائے۔ آمین۔

طبیعت کی بے حد سادہ تھیں۔ اپنے نفس کو بچوں پرنچھاور کرنے والی تھیں۔ میں 1960ء میں میٹرک کے بعد لاہور مزید تعلیم کے لیے چلی گئی تھی۔ ا س وقت واقفین زندگی کے حالات بہت مشکل تھے بمشکل گزارہ ہوتا تھا۔ نہایت سادگی سے رہتے تھے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ایک وقت میں صرف دو جوڑے کپڑوں کے ہوتے تھے۔ ایک گھر کے لیے اور دوسرا سکول کے لیے۔ کبھی جب جلسہ سالانہ وغیرہ پربیرونی ممالک سے آئی ہوئیں بعض ممبرات لجنہ اپنے تعلق کی وجہ سے تحفۃً قمیص کا کوئی کپڑا ’’آپا‘‘کے لیے لاتیں تو اسے اپنے استعمال میں لانے کی بجائے مجھے دے دیا کرتیں کہ تم لاہور پڑھتی ہو، تم بنالو۔ ہمارا تو یہاں اچھا گزارہ ہو رہا ہے۔ بچوں کی عزت نفس کا انہیں بہت خیال تھا۔ بچپن میں ہمیں چھوٹی چھوٹی سبق آموز کہانیا ں سنایا کرتی تھیں۔ اکثر لائبریری سے انگلش کی کتابیں کہانیوں والی (مثلاً Cinderella , Snow White, Seven Dwarfوغیرہ) لاکر ان کا اردو ترجمہ کر کے ہمیں سنایا کرتی تھیں۔

جب میں دسویں جماعت کا بورڈ کا امتحان دینے والی تھی تو مجھے سخت بخار ہو گیا۔ میں خود امتحان کی تیاری نہیں کر سکتی تھی۔ امتحان بھی بورڈ کا تھا۔ خدشہ تھا کہ کہیں سال ضائع نہ ہو جائے پیاری آپا میرے سرہانے بیٹھ کر خود پڑھ پڑھ کر مجھے نصاب سناتی تھیں۔ اور زبانی بھی سمجھاتی جاتی تھیں۔ میں نے اسی حالت میں بورڈ کا امتحان دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاس بھی ہو گئی۔

پھر ان کے پیار اور محبت کا ایک اور واقعہ یاد آتا ہے جب ایک مرتبہ جلسہ سالانہ پر نمائش میں دو رنگوں کی اون کا ایک سویٹر آیا جو میرے دل کو بہت بھا گیا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ وہ سویٹر کسی اور نے خرید لیا۔ مجھے اس کا کچھ قلق سا تھا جس کا اظہار میں نے آپا سے بھی کر دیا۔ اس پر انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں باوجود اپنی بے حد مصروفیت کے مجھے خود اپنے ہاتھ سے اسی ڈیزائن کا سویٹر بنا کر دے دیا۔

اپنی عمر کے آخری سالوں میں جب کبھی وہ میرے ہاں تشریف لاتیں تو اصرار کر کے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھیں۔ میں ان سے کہتی بھی کہ آپا ساری عمر بہت کام کیا ہے اب ذرا آرام کریں تو مجھ سے گلہ کرتیں کہ تم مجھ سے کام نہیں کرواتی۔ اکثر موسم گرما میں کاٹن یا وائل کے کپڑے کا لباس پہنتی تھیں۔ غسل کرنے جاتیں تو پہلے پہنے ہوئے جوڑے کو اپنے ہاتھوں سے دھو کر نکلتیں اور خشک ہونے کے لیے پھیلا کر ڈال دیتیں۔ خود ہی اپنے کپڑے استری کر لیتی تھیں۔ گھر میں آٹے کا چھان ملا ہوا پھلکا خود ہی اپنے لیے بناتیں۔ جہاں کہیں بھی ہوتیں خواہ بیٹے کے گھر یا کسی بیٹی کے ہاں، صبح اٹھ کر خود ہی سادہ سا ناشتہ کر لیتی تھیں اور اپنے برتن دھو کر سمیٹ کر رکھ دیتیں۔ ہم اکثر منع ہی کرتے رہ جاتے کہ آپا یہ آپ کیا کر رہی ہیں مگر ان کا جواب بس یہی ہوتا کہ مجھے کام کر لینے دو۔ کام کرتا ہوا ہی انسان اچھا ہے!

بچوں کو دینی تعلیم اورقرآن کریم مع ترجمہ پڑھانے کا ایک جنون سا تھا۔ جہاں کہیں بھی ہوتیں اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کوبڑے اہتمام سے باقاعدگی سے بٹھا کر سبق دیتی اور سنتی تھیں۔ ان کی دوسری گھریلو تربیت کابھی خیال کرتی تھیں۔ میرے بھائی ہشام قمر کی بیٹی عزیزہ نعمیٰ نے مجھے بتایا کہ ’’بڑی امی‘‘سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ جب وہ ہمیں پڑھاتی تھیں تو ہم تھک جاتے تھے مگر وہ خود کبھی نہ تھکتی تھیں۔ کہا کرتی تھیں کہ جب تم لوگ مجھ سے قرآن کریم پڑھ لیتے ہو تو مجھے سکون محسوس ہوتا ہے۔ بہت سے کھانے پکانے بھی ’’بڑی امی‘‘نے سکھائے تھے۔ کہتی تھیں کہ جب تم یہ پکوان بنایا کروگی تو مجھے یاد کرنا اور میرے لیے دعا کرنا۔

اپنے کیلگری کے قیام کے دوران بھی قرآن کریم کی تعلیم وتدریس کا سلسلہ جار ی رکھا۔ وہاں کی کئی ممبرات لجنہ نے مجھ سے ذکر کیا کہ جب فاصلے کی وجہ سے ہم حاضر نہیں ہو سکتی تھیں تو ٹیلیفون پر ہی کانفرنس کال کر کے ہمیں قرآ ن کریم کا ترجمہ پڑھایا کرتی تھیں۔

خلافت سے انہیں والہانہ عشق تھا۔ اور خلیفہ وقت سے ہمیشہ محبت اور عقیدت کا تعلق تادم آخر قائم رکھا۔ اور ہر دم انہیں خلیفہ وقت کی خوشنودی کے حصول کی ایک تڑپ سی رہتی تھی۔

حضرت مصلح موعودؓ موسم گرما میں وادی سون میں ایک مقام جابہ میں تبدیلی آب و ہوا کے لیے ربوہ سے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ کیونکہ وہاں کی آب وہوا نسبتاً خوشگوار ہوتی ہے۔ یہ مقام میرے اباجان مرحوم کے گائوں موضع کھوتکہ ضلع خوشاب (یہ گائوں اب احمد آباد کہلاتا ہے) سے صرف 5 میل کے فاصلے پر ہے۔

چنانچہ ایک مرتبہ جب پیاری آپا حضورؓ کی خدمت میں بغرض ملاقات حاضر ہوئیں تو حضورؓ نے ازراہ شفقت انہیں فرمایا ’’شوکت تمہارا تو سسرال وہاں ہے۔ اس مرتبہ تم اور ملک صاحب بھی ہمارے ساتھ چلو‘‘

چنانچہ اس طرح اس سال انہیں اباجان اور میرے بھائی مجیب کے ساتھ جو کہ اس وقت غالباً دو برس کا تھا، حضورؓ کے قافلے کی معیت میں سفر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس سفر کی تفصیلات اور حضورؓ کی شفقتوں کا ذکر وہ ہمیشہ بڑی عقیدت ومحبت سے کیا کرتیں۔

ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ان کے نام اپنے ایک خط میں انہیں ’’آپا شوکت‘‘لکھ کر مخاطب کیا تو بے حد خوش ہوئیں اور اکثر اس کا ذکر محبت سے کیا کرتیں۔

خلافت اور خلیفہ وقت سے بے پناہ عشق اور جماعت احمدیہ سے جو پیوند وفا باندھا تھا وہ ان کے وجود کا اٹوٹ حصہ تھا۔ اور پھر واقعی اللہ تعالیٰ نے ان کی دین کی چاہت کی حسرتوں کو خوب احسن طور پر پورا فرمادیا۔ یوکے کے جلسے، امریکہ اور کینیڈا کے جلسے، خلفائے کرام سے ملاقاتیں۔ ربوہ اور قادیان کی زیارتیں، اور پھر ایسی جگہوں پر زیادہ تر رہائش نصیب رہی جہاں جماعتی سرگرمیوں میں شرکت کی پیاس بھی بجھتی رہی۔ میرے نزدیک یہ ان کی خلیفہ وقت سے بے پناہ عقیدت ومحبت کا ہی ثمرہ تھا کہ جونہی ان کی وفات ہوئی اس کے چند روز بعد ہی حضورؒ نے ایک حاضر جنازہ کے ساتھ ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی جس میں انگلستان کی جماعت کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

اسی روز (4؍فروری 1999ء) ان کا تابوت کیلگری سے ربوہ بہشتی مقبرہ میں تدفین کے لیے روانہ ہوا اور اسی دن میری مرحومہ نانی جان حضرت سارہ بیگم کی سیرت پر ایک انٹرویو جو کہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل نے میری خالہ محترمہ امۃ المنان قمر صاحبہ سے لیا تھا۔ ٹی وی پر نشر ہوا جس میں پیاری آپا کا بھی ذکر خیر تھا۔

پھر جس دن تابوت پاکستان پہنچا اسی روز (6؍فروری 1999ء) ایم ٹی اے پر ہفتہ کے روز بچوں کی چلڈرن کلاس پر میری بھانجی عزیزہ سلمانہ سنبل شاہ نے اپنے عمرہ کرنے اورپاکستان اور انڈیا کے سفر کی تفصیلات پر تقریر کی اور بتایا کہ وہ نوشہرہ (پاکستان) اپنی نانی امی کو ملنے گئی تھی۔ ان دنوں وفات سے تقریباً ایک ماہ پہلے پیاری آپا پاکستان گئی ہوئی تھیں اور کہا کہ وہ مجھے قرآن کریم پڑھایا کرتی تھیں۔ نیز یہ کہ وہ میری دوست تھیں انہیں بچوں کو اپنے ساتھ مانوس کرنے کا بہت ملکہ تھا۔

اردو کلاس میں تذکرہ

7؍فروری 1999ء کی اردو کلاس میں MTA پر حضورؒ نے ان کا بہت ہی پیارے رنگ میں ذکر یوں فرمایاکہ سب سے پہلے ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم کی بیگم کا ذکر کرنا ہے۔ ان کا وصال ہوا ہے۔ ملک صاحب کی وجہ سے اور اپنی وجہ سے بھی حق رکھتی ہیں کہ ان کا ذکر خیر ہو۔

31؍جنوری 1919ء کو پیدا ہوئیں۔ 79؍سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ ان کی والدہ سارہ بیگمؓ حضرت مسیح موعودؑ کی صحابیہ تھیں۔ صحت تو اچھی بھلی تھی، مجھے تو سمجھ نہیں آئی کیا ہوا ہے۔ اچانک کچھ ہوا ہے۔

پھر فرمایاکہ مجھے یاد ہے بچپن میں قادیان میں ایک دینیات کلاس تھی جو حضرت مصلح موعودؓ نے جاری فرمائی تھی۔ یہ کلاس 1938ء میں شروع ہوئی اور 1940ء تک جاری رہی۔ انہوں نے بڑے اعزاز کے ساتھ دینیات کلاس پاس کی۔ حضرت اماں جانؓ نے ان کو میڈل دیا اور میری امی نے میڈل سجایا تھا۔

میری امی سے ان کا بڑا تعلق تھا۔ امی ا ن کو میرے لیے دعا کے لیے بھی کہا کرتی تھیں۔ کہتی ہیں میں تبھی سے دعا کرتی رہی ہوں۔ خلافت سے ان کو عشق تھا۔ قادیان میں ایک دفعہ حضرت خلیفہ ثانیؓ سے ملنے گئیں۔ آپ نے فرمایا۔ شوکت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم لندن میں کھڑی ہو کربرقعہ پہن کر تقریر کروگی۔

اس وقت قادیان میں لندن کا وہم وگمان بھی نہیں تھا۔ 31سال بعد خدا کی تقدیر حرکت میں آئی۔ 1977ء میں لندن گئیں۔ غالباً آپا امۃ الحفیظ صدر لجنہ تھیں۔ انہوں نے ان کو تقریر کی دعوت دی۔ پورے یو کے (U.K) میں تقاریر کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایڈیٹر مصباح رہیں۔ ان کو قرآن کریم سے عشق تھا۔ بچوں کو پڑھایا کرتی تھیں۔ کینیڈا میں بھی یہ کام جاری رکھا۔ 6؍فروری کو بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔

1938ء کی دینیات کلاس جو 1940تک جاری رہی۔ اس میں آپاامۃ الرشید شوکت، مبارکہ قمر اور آپا امۃ الحفیظ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی بیگم یہ سب اس میں شامل تھیں۔ یہ سب مجھے اس لیے یاد ہے کہ میری امی صدر لجنہ تھیں۔ یہ ہمارے گھر آیا کرتی تھیں۔ ان کی تقریر میں نرمی پائی جاتی تھی۔ ملک صاحب سے شادی حضرت مصلح موعودؓ نے خاص طور پر کروائی۔ ملک صاحب کلرکہار کے علاقے کے تھے۔ بظاہر پکے مولوی مگر شوکت کے ساتھ اچھا تعلق رہا۔ جس دن ان کی وفات کی اطلاع ملی اسی دن ان کا ایک خط بھی ملا۔ اللہ کی شان ان کے ذکر خیر کا بہانہ بن گیا۔

حضورؒ نے مزید فرمایاکہ ان کو میں ہمیشہ ’’آپا‘‘کہا کرتا تھا۔ وہ میرے ’’آپا‘‘کہنے پر بہت خوش ہوتی تھیں۔ وہ لکھتی ہیں:

پیارے آقا سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ

اللہ تعالیٰ آپ کو صحت وعافیت سے رکھے۔ نیا سال آپ سب کے لیے مبارک ہو۔ رمضان مبارک ہو، عید مبارک ہو، میں خداتعالیٰ کے فضل اور آپ کی دعائوں کی برکت سے قادیان، ربوہ، سیالکوٹ اور نوشہرہ کا سفر کر کے کیلگری پہنچ گئی ہوں۔

قادیان میں بہشتی مقبرہ، مسجد مبارک، دارالمسیح اور مسجد اقصیٰ میں جانے کا موقع مل گیا۔ اور ربوہ میں بہشتی مقبرہ، مسجد اقصیٰ اور بزرگوں کے ساتھ ملاقات کا موقع مل گیا۔ محترم ملک صاحب مرحوم کے ایک شاگرد نے ربوہ کے اردگرد آباد جگہوں کی سیر کرا دی۔ (اس پر حضورؒ نے فرمایا کہ یہ اسے بڑی سعادت مل گئی۔)

پھر حضور نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایاکہ ملک صاحب کے جتنے شاگرد تھے ان کو ان سے بہت محبت تھی۔ غیر معمولی شفیق تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسا پیارا استاد کبھی نہیں دیکھا۔ کبھی کسی کو کوئی شکوہ نہیں ہوا۔

حضورؒ نے مکرم عثمان چینی صاحب مرحوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ یاد ہے کتنی محبت کیا کرتے تھے اور دوست بنا لیتے تھے۔ اور بے تکلف ہو جاتے تھے۔ لیکن جن کو دوست بناتے تھے انہوں نے کبھی بھی advantage نہیں لی۔ انہوں نے ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ اتنی ہی عزت بڑھتی تھی۔ کلاس میں نہ چھڑی کی ضرورت پڑے نہ ڈانٹنے کی۔ لیکن ان کے علم کا ایک رعب تھا۔

پھر احمد نگر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں:

واقعی جب ہم اس علاقے میں گئے تو ایک طرف سوئمنگ پول اور سامنے تین Huts بلند وبالا گیسٹ ہائوس، کینوئوں کا باغ، سر سبز درختوں میں لگے ہوئے کینو، مالک کے منتظر دکھائی دیتے تھے

حضور نے فرمایاکہ میرے منتظر نہیں جتنے میرے مہمان جاتے ہیں۔ ان کی خاطر میں نے بنائے ہوئے ہیں۔ اچھا ہوا یہ وہاں چلی گئیں۔ بہت خوشی ہے کہ جانے سے پہلے دیکھ لیا۔

پھرلکھتی ہیں:

عجیب سماں تھا، عجب بہار، وہ نظارہ اب بھی آنکھوں کے سامنے ہے۔ خدا کرے کہ وہ دن جلد آئیں جب اصل مکین اپنے مکان میں آئیں۔

عزیزہ حمید بھی بہت اداس تھیں کہ آپ میرے پاس تھوڑے دن رہیں۔ حمید کو اور میرے سب بچوں اور بچیوں کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی اپنے فضل سے توفیق عطا فرمائے۔ واپسی پر ایک رات لندن میں عزیزہ باسط کے پاس ٹھہری اور عزیز طاہر کے ساتھ واپس آ گئی۔ ملاقات کی تمنا رہی۔

حضورؒ نے فرمایاکہ مطلب یہ ہے کہ شاید میں یہاں نہیں تھا۔ یہ خط بھی آپ کو سنانا تھا۔ جو ان کی آخری امانت ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل وکرم سے پیارے اباجان اور پیاری آپا کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کی دعائیں ہمارے حق میں اپنے فضل وکرم سے قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

پیار بھری ہستی کی یادوں کا چمن

ممکن نہیں کہ خاکسار اپنے والدین کا ذکرِ خیر کرے اور ایک بہت ہی پیارے وجود، ہمارے روحانی باپ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی شفقتوں اور عنایتوں کا تذکرہ درمیان میں نہ آئے۔ اسی مناسبت سے حضورؒ سے وابستہ چند یادیں بھی بغرضِ دعا درج کیے دیتی ہوں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو میں بچپن سے دیکھتی آئی تھی کیونکہ وہ کچھ عرصہ میرے ابا جان حضرت ملک سیف الرحمن صاحب سے پڑھتے رہے۔ میں ربوہ میں صرف دس کلاسیں پڑھی تھی پھر لاہور تعلیم کے لیے چلی گئی۔ تعلیم ختم ہوتے ہی میں شادی کے بعد امریکہ چلی گئی تھی اس لیے پھر زیادہ لوگوں سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔

1966ء میں میرا نکاح ہوا تھا نکاح کے بعد جب میں نے لاہورجانا تھا تو پیارے ابا جان نے مجھے کہا کہ میاں صاحب (حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ ) اپنی کار میں لاہور جا رہے ہیں۔ تم ان کے ساتھ جائوگی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے حضورؒ کو اتنی قریب سے دیکھا۔ میرے کار میں بیٹھتے ہی انہوں نے کہا ’’اچھا آپ ہیں جن کا زیروی صاحب کے بیٹے سے نکاح ہوا ہے‘‘دوسری بات جو اس سفر کی مجھے یاد ہے وہ یہ کہ لاہور پہنچنے کے بعد پہلے غالباً ڈیوس روڈ پر ایک کوٹھی میں گئے مجھے ناشتہ کروایا اور پھر پنجاب یونیورسٹی کے نیوکیمپس میں مجھے خود ہوسٹل چھوڑنے گئے او رہوسٹل جا کر جب تک میں اندر نہیں چلی گئی کا رسے باہر نکل کر کھڑے رہے۔

1980ء کے جلسہ سالانہ پر میں ربوہ گئی۔ میری طبیعت کچھ خراب تھی۔ جلسہ سالانہ ختم ہونے کے بعد ایک دن پیارے اباجان نے مجھے بتایا کہ میں نے میاں صاحب (حضرت مرزا طاہر احمدصاحبؒ ) سے کہا تھا کہ میں لطیف کوہومیوپیتھی دوا کے لیے آپ کو دکھانا چاہتا ہوں۔ تو میاں صاحب نے کہا کہ ملک صاحب آپ یہاں دفتر میں کہاں لائیں گے میں خود گھر آ کر دیکھ لوں گا۔ اس طرح میاں صاحب ہمارے گھر آئے۔ اور میری طبیعت کے متعلق تفصیل سے باتیں کیں علاوہ ازیں امریکہ کے متعلق اپنے سفر کا ذکر کیا۔

میری امی، دو بہنوں اور بھابھی کا پروگرام بنا کہ خاندان مسیح موعودؑ کے کچھ گھرانوں میں ملنے کے لیے جائیں۔ میں بھی ساتھ گئی مختلف گھروں میں گئے۔ آخر میں انہوں نے کہا چلو میاں صاحب (حضرت مرزا طاہر احمدصاحبؒ ) کے گھر بھی ہو آتے ہیں۔ میرے لیے یہ ان کے گھر ایسے جانے کا پہلا موقع تھا۔ جب ہم نے گھنٹی بجائی تو دروازہ حضورؒ نے ہی کھولا۔ بڑے پرتپاک ملے اور کہا آپا شوکت آئی ہیں۔ ہم سب کو اندر بٹھایا۔ حضرت بیگم صاحبہ اندرآئیں اور تخت پوش پر گائو تکیہ کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ گھر کے کام کرنے والی ایک عورت ٹرالی لائی جس پر چائے اور کھانے کی چیزیں تھیں۔ حضورؒ نے ہم سب کو خود اپنے ہاتھوں سے چیزیں پیش کیں۔ جن میں گاجر کا حلوہ مجھے خاص طور پر یاد ہے۔ مختلف باتیں ہوتی رہیں۔ حضوؒر فرمانے لگے کہ اچھا ہوا آپ ملنے آ گئے میرا تو ارادہ تھا کہ آپ سب کی دفتر وقف جدید میں دعوت کروں لیکن جلسہ سالانہ کی مصروفیات تھیں اور پھر میں سفر پر چلا گیا تھا۔ میری بہنیں اور بھابھی تو ان کے لیے تحفہ لائی ہوئی تھیں مگر میں جب امریکہ سے آئی تو میرا ان کے گھر جانے کا ارادہ نہ تھا کیونکہ پہلے بھی نہیں گئی تھی اس لیے میں نے دعاکا خط لکھ کر کچھ رقم ہدیہ کے طور پر ڈال دی۔ میاں صاحب چائے کے بعد اندر گئے اور سب کے لیے کچھ نہ کچھ تحفہ لائے سب کو دینے کے بعد مجھے ایک پین تحفہ دیا اور کہا کہ یہ پین حضرت مصلح موعوؓد کا تھا جو ان کی وفات کے بعد میرے حصہ میں آیا تھا۔ یہ میں آپ کوتحفہ دیتا ہوں۔ وہ سبز رنگ (ماربل کی طرح) پنسل پن ہے اور اس پر حضرت مسیح موعوؑد کا الہام ’’سلطان القلم‘‘کندہ ہے۔ میرے گھر والے حیران تھے کہ اتنی نایاب چیز تمہیں کیسے مل گئی۔ میرا تو ایسے تھا جیسے انہوں نے دل موہ لیا ہو۔

ان دنوں گاڑی ربوہ کے اسٹیشن پر نہیں رکتی تھی۔ اس لیے چنیوٹ جا کر لینی پڑتی تھی۔ عشاء کی نماز کے بعد حضورؒ میرے ابا جان کے پاس آئے اور کہا ملک صاحب آپ کی بیٹی کل جا رہی ہے کا رنہیں چاہیے؟ اباجان نے کہا چاہیے تو ہے مگر مانگتے ہوئے ہچکچا رہا تھا۔ حضورؒ نے فرمایا کہ صبح ڈرائیور کارلے کر پہنچ جائے گا۔ یہ میرا حضورؒ کی کار میں دوسرا سفر تھا۔

1987ء میں جب حضورؒ نے امریکہ اور کینیڈا کا دورہ کیا تو کئی مرتبہ حضورؒ سے ملاقات ہوئی۔ باوجود اتنی مرتبہ ملاقات کے جب حضورؒ واپس جانے لگے تو دل یہی کرتا تھا کہ ایک اور ملاقات ہوجائے۔ جب حضورؒ واپس لندن چلے گئے تو میں نے ان کے امریکہ، کینیڈا کے دورہ کے متعلق اپنے تاثرات لکھے اس میں کچھ اشعار بھی لکھے۔ اس کے جواب میں حضورؒ کا اپنے قلم سے لکھا ہوا بہت ہی پیارا خط مجھے ملا۔

فروری 1989ء میں مجھے لندن جانا پڑا جب میں حضورؒ سے ملنے گئی تو سلام کے بعد بڑے پیار سے کہنے لگے ’’طیفی کیسے آئی ہو‘‘( وہ اکثر مجھے طیفی کہہ کر بلاتے تھے) بڑی اچھی ملاقات ہوئی اس کے بعدمجھے دوبارہ ملاقات کا موقع مل گیا۔پھرامریکہ کینیڈا جب بھی حضورؒ آئے ملاقاتیں ہوئیں یاد گار تصاویر کھنچوائیں۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے 1989ء سے لے کر 1995ء تک ہر سال جلسہ سالانہ U.K میں شرکت اور حضور کے ساتھ ملاقات کی توفیق ملی۔

شفقتوں بھرا چھ صفحات کا خط

جب اکتوبر1989ء میں میرے اباجان حضر ت ملک سیف الرحمٰن صاحب کی وفات ہوئی تو میں نے اپنے اباجان کی یادوں کا ایک خط حضورؒ کو لکھا۔ میرے دل میں خواہش تھی کہ جب اس خط کا جواب آئے تو حضورؒ اپنے قلم سے چند لائنیں میرے اباجان کے متعلق لکھیں۔ لیکن میں نے اپنے خط میں اس خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا۔ جب اس خط کا جواب آیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ حضورؒ کے ہاتھ کا لکھا ہو اپانچ، چھ صفحوں پر مشتمل نہایت ہی پیارا خراج تحسین کا اباجان کے متعلق خط آیا۔

1995ء کے بعد مَیں جلسہ سالانہ U.Kپر نہ جا سکی میرے میاں ڈاکٹر کریم اللہ زیروی صاحب ہر سال جاتے ہیں۔ ایک جلسہ سالانہ پر حضورؒ نے میرے میاں کو ایک قلم جس پر ’’حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع‘‘ کندہ ہے تحفہ دیا اور ایک قلم دیا کہ یہ طیفی کے لیے ہے وہ قلم بھی میرے پاس محفوظ ہے۔

تلاوت کا تحفہ

فروری 1989ء میں لندن قیام کے دوران ایک دن میں نے حضورؒ کو فون کیا اور کہا کہ میرا دل کرتا ہے کہ آپ سورۃ الرحمٰن اپنی آواز میں ٹیپ کر کے دیں۔ کہنے لگے کہ ایک تو مصروفیت بہت زیادہ ہے دوسرے خصوصی طو رپربیٹھ کر ٹیپ کرنے کے لیے طبیعت پر بوجھ پڑتا ہے۔ اسی روز شام کومیرے بہنوئی منصور شاہ صاحب جب مسجد فضل سے واپس آئے تو ایک آڈیو ٹیپ مجھے دی اور کہا کہ حضورؒ نے آپ کے لیے بھجوائی ہے وہ ٹیپ حضورؒ کی قرآن پاک کے مختلف حصوں کی تلاوت پرمشتمل تھی جو کہ حضورؒ نمازوں میں پڑھا کرتے تھے پھر جب حضورؒ نے درس ترجمۃ القرآن شروع کیا توسورۃ الرحمن کی تلاوت بھی آ گئی۔

حضرت ملک سیف الرحمن صاحب کی یاد میں نظم

اپنی امی کی وفات کے کافی ماہ بعد ایک دن میں بیٹھی اپنی امی کی یادیں لکھ رہی تھی کہ اباجان کا بھی ذکر اس میں آ رہا تھا۔ اس وقت MTA پر بنگالی ملاقات کا پروگرام آ رہا تھا۔ ایک بنگالی صاحب نے نظم پڑھنی شروع کی۔ وہ وہی تھی جو کہ میرے اباجان کی وفات پر حضور نے لکھی تھی اور پہلی مرتبہ جرمنی کے جلسہ سالانہ پر پڑھی گئی تھی۔ ’’جائیں جائیں ہم روٹھ گئے‘‘ ابھی نظم شروع ہی ہوئی تھی کہ حضورؒ نے ان کو روک کر اس نظم لکھنے کا سارا پس منظر بتایا کہ کس طرح ملک سیف الرحمٰن کی وفات پر انہوں نے لکھی تھی۔ میر ے دل کی عجیب کیفیت ہوئی کہ ادھر میں اپنے پیارے اباجان کے متعلق لکھ رہی تھی ادھر MTA پر حضور پیار ے اباجان پرلکھی ہوئی نظم کا پس منظر بتا رہے تھے۔ بڑے پیارے انداز میں وہ نظم پڑھی گئی۔

مئی 2000ء میں میری بھانجی کی شادی لندن میں تھی۔ میرا اچانک جانے کا پروگرام بنا تھا صرف دس دن کا قیام تھا۔ لیکن حضورؒ کے ساتھ ملاقات کے علاوہ تین تقریبات میں حضورؒ کو بہت قریب سے دیکھنے کا اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے موقع مل گیا۔ یہ حضورؒ کے ساتھ آخری ملاقات اور دیدار تھا۔

اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس بابرکت وجود کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ دے اور سب کا حافظ وناصر ہو۔ آمین ثم آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button