خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 02؍ جولائی 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭… بیس ہجری میں حضرت عمرؓ نے مقبوضہ ممالک کو آٹھ صوبوں میں تقسیم فرمایاتاکہ انتظامی امور میں آسانی رہے

٭…آپؓ کے عہد میں شوریٰ کا قیام ہوا

مرکزی شعبہ آرکائیو اور ریسرچ سینٹر کی طرف سے تیار کردہ احمدیہ انسائیکلوپیڈیا کی ویب سائٹ www.ahmadipedia.org کے اجراکا اعلان

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 02؍ جولائی 2021ء بمطابق 25؍احسان1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 02؍جولائی 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مبارز محمود امینی صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج کل حضرت عمرؓ کاذکر چل رہا ہے،اسی ضمن میں آج بھی بیان کروں گا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یمن کی زمین جو عیسائیوں اور یہودیوں کے نیچے تھی اصولی طورپر حکومت اس کی مالک تھی۔ لیکن حضرت عمرؓ نے جب انہیں عرب سے نکالا تو ان سے وہ زمین چھینی نہیں بلکہ خریدی۔ فتح الباری شرح بخاری میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے نجران کے مشرکوں، یہودیوں اور عیسائیوں کو جلاوطن کیا اور ان کی زمینیں اور باغ خرید لیے۔

اسلام میں جنگی قیدیوں کے علاوہ غلام بنانے کی ممانعت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہےکہ اےمسلمانو! کیا تم دوسرے لوگوں کی طرح یہ چاہتے ہو کہ غیراقوام کےافراد کو پکڑ کراپنی طاقت بڑھاؤ۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں اُن احکام پر چلائے جو انجام کےلحاظ سے تمہارے لیے بہتر ہوں۔پس تم سوائے جنگی قیدیوں کو جنہیں دورانِ جنگ گرفتار کیا گیا ہو اور کسی کو قیدی مت بناؤ۔ اس حکم پر شروع اسلام میں سختی سے عمل کیا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ کےعہدِ خلافت میں یمن سےایک وفدآیا اور اس نے شکایت کی کہ اسلام سےقبل مسیحیوں نے انہیں یونہی غلام بنالیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مَیں اس کی تحقیقات کروں گا۔اس کے برعکس یورپ میں انیسویں صدی تک غلامی کو جاری رکھا گیا۔

حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت کےدوران 18ہجری میں مدینےاور اس کے گردونواح میں شدید قحط پڑا۔ بارش نہ ہونے کے سبب ساری زمین سیاہ راکھ کے مشابہ ہوگئی اور یہ کیفیت نَو ماہ جاری رہی۔اس سال کو عام الرمادة یعنی راکھ کا سال کہتے ہیں۔ ایسے میں حضرت عمرؓ نے والیٔ مصر حضرت عمرو بن العاصؓ کو مدد کےلیے خط بھیجا۔ اس پر حضرت عمرو بن العاصؓ نے اناج اور غلّےکےایک ہزار اونٹ بھیجے۔ گھی اور کپڑے اس کے علاوہ تھے۔ والیٔ عراق حضرت سعدؓ نے تین ہزار اونٹ اناج اور غلّہ بھجوایا جسے آپؓ نے دیہات کی جانب بھجوادیا۔ اِ ن سخت ایام میں حضرت عمرؓ اپنی نگرانی میں کھانا تیار کرواتے اور لوگوں کے ساتھ مل کر کھاتے۔ آپؓ مسلسل روزے رکھاکرتے، ایک روز اونٹ ذبح کیے گئے تو شام کے وقت حضرت عمرؓ کی خدمت میں کوہان اور کلیجی کے ٹکڑے پیش کیے گئے۔ آپؓ نے دریافت فرمایا کہ یہ کہاں سے آئے۔ بتایا گیا کہ یہ ان اونٹوں میں سے ہے جو آج ذبح کیے گئےتھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: افسوس! مَیں کیا ہی برا نگران ہوں اگر اچھا حصّہ اپنے لیے رکھ لوں اور ردّی حصّہ لوگوں کو کھلاؤں۔

قحط کے ایّام میں آپؓ عشاء کی نماز کے بعد سے آخر شب تک مسلسل نماز پڑھتے رہتے پھر مدینے کے اطراف میں چکر لگاتے۔آپؓ اللہ سے دعا کرتے کہ اے اللہ! میرے ہاتھوں محمدﷺ کی امّت کو ہلاکت میں نہ ڈالنا۔

ابنِ طاؤس اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے نہ گوشت کھایا نہ گھی یہاں تک کہ لوگ خوش حال ہوگئے۔ ایازبن خلیفہ کہتے ہیں کہ قحط کے سال میں حضرت عمرؓ کا رنگ سیاہ پڑ گیا تھا۔ لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ نے قحط رفع نہ کیا تو حضرت عمرؓ مسلمانوں کی فکر میں مر جائیں گے۔ مدینے کے تمام علاقوں میں بدوی لوگ آئے ہوئے تھے حضرت عمرؓ نے مختلف اصحاب کے ذریعےان کی گنتی کروائی، ان سب کے کھانے پینے کا انتظام فرمایا۔

جب قحط کے یہ ایّام اپنی انتہا کو پہنچ گئے تو ایک شخص نے خواب دیکھا کہ آنحضرتﷺ نے دعا کی طرف توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓکی ہدایت پر نمازِ استسقا ادا کی گئی۔ راوی کہتے ہیں کہ نماز ادا کرکے ابھی آپؓ گھر نہیں پہنچےتھے کہ میدان بارش کی وجہ سے تالاب بن گیا۔

مسجدِنبویؐ میں سب سے پہلےحضرت عمرؓکے زمانۂ خلافت میں چٹائیاں بچھائی گئیں۔ آپؓ کے عہدِ خلافت کےدوران سترہ ہجری میں ،مسجدِ نبویؐ کی توسیع ہوئی۔ اس توسیع میں کفایت شعاری سے کام لیتےہوئےمسجد کو رسول اللہﷺ کے دَورِمبارک کی طرز پر استوار کیا گیا۔ حضرت عمرؓ کے عرصۂ خلافت میں مردم شماری کاآغازہوا، اسی طرح خوراک کی فراہمی کےلیے راشن سسٹم بھی متعارف کرایا گیا۔

اسلامی حکومت کا نظم و نسق کس طرح چلتا تھااس کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے مدینے میں آکر پہلا کام یہی کیا کہ جائیداد والوں کو بےجائیداد والوں کا بھائی بنادیا۔انصار و مہاجرین کے درمیان قائم کی جانےوالی مؤاخات اسلامی مساوات کی پہلی مثال تھی۔ اسی طرح ایک جنگ کے دوران بھی آپؐ نے راشن مقرر فرمایا تاکہ سب کو منصفانہ طور پر کھانا مل سکے۔ جب بحرین کا بادشاہ مسلمان ہوا تو آپؐ نے اسے ہدایت فرمائی کہ تمہارے ملک میں جن لوگوں کےپاس گذارےکےلیے کوئی زمین نہیں انہیں تم چار درہم اور لباس دو تاکہ وہ بھوکے اور ننگے نہ رہیں۔ رسولِ کریمﷺ کی وفات کےبعد جب مسلمان دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیل گئے تو ان کےلیے روٹی کا انتظام بڑا مشکل ہوگیا۔ ایسے میں حضرت عمرؓ نے تمام لوگوں کی مردم شماری کرائی اور راشننگ سسٹم قائم کردیا۔آپؓ نے یہ مردم شماری رعایا سے دولت چھیننے کےلیے نہیں بلکہ ان کی غذا کا انتظام کرنے کےلیے کروائی تھی۔ دنیا بھر کی حکومتیں تو اس لیے مردم شماری کراتی ہیں تاکہ لوگ قربانی کے بکرے بنیں اور فوجی خدمات بجا لائیں مگر حضرت عمرؓ نے اس لیے مردم شماری کرائی تاکہ لوگوں کے لیے خوراک کا انتظام ہوسکے۔ یہ پہلا قدم تھا جو اسلام میں لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنےکےلیے اٹھایا گیا۔ اگر یہ نظام قائم ہوجائے تو اس کےبعد کسی اَور نظام کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ سارے ملک کی ضروریات کی ذمہ دار حکومت ہوجاتی ہے۔آج کہا جاتا ہے کہ سوویت رشیا نے غربا ءکےکھانے اور کپڑے کا انتظام کیا حالانکہ سب سےپہلے اس قسم کا اقتصادی نظام اسلام نےجاری کیا تھا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہرگاؤں،ہرقصبے اور ہرشہر کےلوگوں کے نام رجسٹرمیں درج کیے جاتے تھے۔ اسلام کے نزدیک ہر فرد کی خوراک، رہائش اور لباس کی ذمہ دار حکومت ہے ۔ اب دوسری حکومتیں بھی اس کی نقل کر رہی ہیں، بیمہ اور فیملی پنشن اسی کی مختلف شکلیں ہیں۔ لیکن جوانی اور بڑھاپے دونوں میں خوراک اور لباس کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے، یہ اصول اسلام سے پہلے کسی مذہب نے پیش نہیں کیا۔

بیس ہجری میں حضرت عمرؓ نے مقبوضہ ممالک کو آٹھ صوبوں میں تقسیم فرمایاتاکہ انتظامی امور میں آسانی رہے۔ اسی طرح آپؓ کے عہد میں شوریٰ کا قیام ہوا۔ مجلسِ شوریٰ میں انصارومہاجرین میں سے کبار صحابہ شامل تھے۔ روزمرہ کے معاملات میں اس مجلس کے فیصلے کافی سمجھے جاتے لیکن جب کوئی اہم امر پیش آتا تو مہاجرین اور انصار کا اجلاسِ عام ہوتا اور اتفاقِ رائے سے وہ امرطے پاتا۔اس کے علاوہ ایک اَور مجلس تھی جہاں روزانہ انتظامات اور ضروریات پر گفتگو ہوتی۔ یہ مجلس ہمیشہ مسجدِ نبویؐ میں منعقد ہوتی اور صرف مہاجر صحابہ اس میں شریک ہوتے۔صوبہ جات اور اضلاع کے حاکم اکثر رعایا کی مرضی سےاور بساا وقات انتخاب کے ذریعے بھی مقرر کیے جاتے۔حضرت عمرؓ عہدےداروں کو یہ نصائح فرماتے کہ تمہیں لوگوں کا امام بنا کر بھیجا جا رہا ہے تاکہ لوگ تمہاری تقلید کریں۔ مسلمانوں کے حقوق ادا کرنا ،انہیں زدوکوب نہ کرنا۔ کسی کی بےجاتعریف نہ کرنا مبادا وہ فتنے میں پڑیں۔عاملین سے عہد لیاجاتا کہ وہ ترکی گھوڑے پرسوار نہیں ہوگا، باریک کپڑے نہیں پہنے گا، چھنا ہوا آٹا نہیں کھائے گا، دروازے پر دربان مقرر نہیں کرے گا۔ عاملین کے مال واسباب کی جانچ کی جاتی اوراگر ان میں سے کوئی تسلّی نہ کروا پاتا تو اس کا مؤاخذہ ہوتا۔

حضرت عمرؓ نےعراق اور شام کی فتوحات کےبعد خراج کےنظم و نسق کی طرف توجہ کی اور جو زمینیں بادشاہوں نے جبراً چھین کر درباریوں اور امراءکو دی تھیں آپؓ نے وہ مقامی لوگوں کو واپس کردیں۔اسی طرح خراج کے قواعد مرتب کرکے وصولی کا طریق نہایت نرم کردیا گیا۔ آپؓ ذمّی رعایا سے رائے طلب کرتے اور اُن کی آراءکا لحاظ کیا کرتے۔

حضرت عمرؓ کا تذکرہ آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک ویب سائٹ کے لانچ کا اعلان فرمایا۔

www.ahmadipedia.orgیہ ویب سائٹ مرکزی شعبہ آرکائیو اور ریسرچ سینٹر نے بنائی ہے جہاں ایک سرچ انجن کی طرز پر جماعتی کتب، شخصیات، واقعات، عقائد اور عمارات کے متعلق مواد تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ہر انٹری کے ساتھ متعلقہ ویب سائٹس، وڈیوز اور جماعتی اخبارات سے مضامین کے لنک فراہم کیے گئے ہیں۔

دنیا بھر میں پھیلے احبابِ جماعت کےپاس بہت سی مفید معلومات ہیں جو کہیں ریکارڈ شدہ نہیں۔ اس ویب سائٹ پر ایک آپشن contribute کا دیا گیا ہے جہاں وہ کسی بھی موضوع پر اپنی معلومات یا شواہد یا دستاویزات مہیا کرسکیں گے۔اس مہیا کردہ مواد کو تحقیق و تصدیق کے بعد متعلقہ موضوع کی انٹری میں شامل کردیا جائے گا۔

اس ویب سائٹ کی تیاری میں تکنیکی مراحل مرکزی شعبہ آئی ٹی کے مستقل عملے اور رضاکاروں نے بحسن و خوبی سرانجام دیے ہیں جبکہ مواد کی تیاری میں حصولِ مواد سے لےکر ترجمہ اور اَپ لوڈنگ تک تمام مراحل میں شعبہ آرکائیو کے مربیان اور رضاکاروں نے ان تھک محنت سے کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ نمازِ جمعہ کے بعد ان شاء اللہ مَیں اس ویب سائٹ کو لانچ کروں گا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button