سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

محمدحسین صاحب بٹالوی ایک تعارف

(گزشتہ سے پیوستہ )محمدحسین بٹالوی صاحب کے ساتھ یہ پہلامقابلہ یامناظرہ تھا۔ لیکن یہ پہلاتعارف بہرحال نہ تھا۔ مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کے والد رحیم بخش صاحب جوشیخ نومسلم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کاحضرت اقدسؑ کے والدمحترم کی خدمت میں آنا جانا تھااورایک فدویانہ اور خادمانہ تعلق تھا۔ حضرت اقدسؑ کے خاندان کے ریاستی اور جائیدادی مقدمات میں عدالتوں میں بھی ساتھ ہوتے اور ان کی خواہش تھی کہ مستقل طورپر بطور منشی مختارکے انہیں خدمت پررکھ لیاجائے لیکن شایدعلمی وعقلی استعداد اس معیارکی نہ تھی کہ اس کام کے لیے رکھاجاتا۔

مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب نے جب

أَبٰی وَاسْتَکْبَرَ

کاعملی مظاہرہ کرتے ہوئے

اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ

کانعرہ لگاتے ہوئے حضورعلیہ السلام کی مخالفت پر کمرکس لی توکچھ اشتہاری خط حضورعلیہ السلام کی ذات بابرکات پرالزامات لگاتے ہوئے لکھے۔ آپؑ نے ان خطوں کواپنی تصنیف آئینہ کمالات اسلام میں درج کرتے ہوئے جواب بھی دیا۔ اسی طرح کے ایک الزام کاجواب دیتے ہوئے آپؑ نے مولوی صاحب کومخاطب کرتے ہوئے لکھا:

’’ہاں مقدمہ بازی آپ کے والد صاحب کی جائے حرج ہو توکچھ تعجب نہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ انگریزی عملداری میں اکثر سود خواروں کی مختار کاری میں ان کی عمر بسر ہوئی اور جس طرح بن پڑا انہوں نے بعض لوگوں کے مقدمے محنتانہ پر لئے۔ گو وہ قانونی طور پر نہ مختارنہ وکیل بلکہ فیل شدہ (بھی)نہیں تھے مگر پیٹ بھرنے کیلئے سب کچھ کیا لیکن یہ عاجز تو بجز اپنی زمینداری کے مقدمات کے جن میں اکثر آپ کے والد صاحب جیسے بلکہ عزت اور لیاقت میں ان سے بڑھ کر مختار بھی کئے ہوئے تھے۔ دوسروں کے مقدمات سے کبھی کچھ غرض نہیں رکھتا تھا۔ اور مجھ کو یاد ہے بلکہ آپ کو بھی یاد ہوگا کہ ایک دفعہ آپ کے والد صاحب نے بھی مقام بٹالہ میں حضرت مرزا صاحب مرحوم کی خدمت میں اپنی تمنا ظاہر کی تھی کہ مجھ کو بعض مقدمات کیلئے نوکر رکھا جاوے تا بطور مختار عدالتوں میں جاؤں مگر چونکہ زمینداری مقدمات کی پیروی کی ان میں لیاقت نہیں تھی اس لئے عذر کر دیا گیا تھا۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 303-304)

ایک اور جگہ انہیں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’یہ شخص میری ابتدائی عمر میں میرا ہم مکتب بھی رہا ہے اور وہ اور اس کا بھائی حیدر بخش دونوں میرے مکان پر آتے تھے۔ ایک دفعہ ایک کتاب بھی مستعار طور پر لے گئے تھے جس کو اب تک واپس نہیں کیا۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 283)

بعدمیں حضرت اقدسؑ کی نیکی تقویٰ اورپرہیزگاری کودیکھتے ہوئے رحیم بخش صاحب حضرت اقدسؑ کے بھی معتقدہوگئے۔ اور خودمولوی محمدحسین بٹالوی صاحب تو آپؑ کی عقیدت میں اس حدتک بڑھے ہوئے تھے کہ آپؑ کے جوتے سیدھے کرنے میں فخراور آپ کے ہاتھ دھلانے کوعبادت سمجھ کریہ خدمت بجالایاکرتے تھے۔ لیکن خدائی تقدیرانجام کارغالب آئی اور اولیاء وصلحاء کی اس روحانی جنت سے

فَاخْرُجْ

کے حکم کے تحت دربدری کاپروانہ جوان کے ہاتھ میں تھمایاگیا کہ پھرباقی ساری عمر

مَذْمُوْمًا مَدْحُوْرًا

کی ذلت ورسوائیوں میں ہی گزری۔ یہاں مناسب معلوم ہوتاہے کہ محمدحسین بٹالوی صاحب کامختصرتعارف ہدیۂ قارئین کیاجائے۔

مولوی محمد حسین بٹالوی ابن رحیم بخش بن ذوق محمد، اہلحدیث کے ایک بہت بڑےعالم تھے۔ ان کے آباء کائیست ذات کے ہندو تھے لیکن بعد ازاں اسلام قبول کر لیا تھا۔ 17محرم 1256ھ(مطابق4؍مئی 1836ء)کو بٹالہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم تو بٹالہ ہی میں حاصل کی (یہی وہ جگہ ہے جہاں مولوی گل علی شاہ صاحب کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور لالہ بھیم سین کے ہم مکتب ہونے کا شرف انہیں حاصل رہا)۔ بعد ازاں ملک کے طول و عرض (دہلی، علی گڑھ، لکھنؤ وغیرہ)میں معروف مولویان اور علمائے دین کی صحبت میں علم حاصل کیا۔ جن میں سے مفتی صدر الدین دہلوی اور علامہ نورالحسن کاندھلوی قابل ذکر ہیں۔ اپنے اساتذہ میں سے سب سے زیادہ اثر آپ نے اپنے استاذ حدیث مولوی نذیر حسین دہلوی سے لیا جو پکے اہل حدیث تھے۔ کچھ عرصہ دہلی میں قیام رہا، پھر بٹالہ لوٹ آئے۔

(ماخوذ از چودہویں صدی کے علمائے بر صغیرصفحہ539)

بٹالہ میں آپ کی بہت مخالفت ہوئی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی 1868ء یا 1869ء میں آپ سے مباحثہ کے لیے قادیان سے بڑی کوششوں کے بعد لایا گیا تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے اس وقت کے عقائد کو حق پا کر عین میدان مباحثہ میں ان کے اعتقادات کی تصدیق فرمائی تھی، جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی بہت مخالفت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ عظیم الشان پیش خبری دی جس میں بادشاہوں کا آپ کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈنے کا ذکر تھا۔ (ماخوذ از براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ621-622حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

مولوی محمد حسین صاحب کچھ عرصہ بٹالہ میں قسمت آزمائی کرنے کے بعد لاہور آگئے۔ کیونکہ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی سے نئی نئی دستار فضیلت بندھوا کر نکلے تھےا س لیے اہلحدیث کے دفاع کا بڑا شوق تھا اور جگہ جگہ مباحثوں اور مناظروں میں سر گرم نظر آتے تھے۔ اس وقت یہ بھاٹی گیٹ لاہور کی مسجد میں تھے۔ (سیرت ثنائی مصنفہ عبدالمجید سوہدروی صفحہ452)جلد ہی لاہور میں ان کی ا س قدر شہرت ہو گئی کہ ان کو اندرون لاہور کی مشہور مسجد چینیاں والی کی امامت مل گئی۔ پھر تو ان کا طوطی پورے لاہور میں بولنے لگا۔ 1877ء کے قریب بٹالوی صاحب کا نام لوگوں میں آنے لگا۔ ان کے مباحثات کا شہرہ ہونے لگا اور حالات یہاں تک پہنچے کہ جب مولوی صاحب بازار میں نکلتے، تو دو رویہ دکانوں والے ان کے ادب میں کھڑے ہو جاتے اور بھاگ بھاگ کر مصافحہ کرنے کی کوشش کرتے اور ایک بھیڑ، ہوا خواہوں کی ان کے ساتھ ہو جاتی۔ اس قسم کی نمائش نے مولوی صاحب کو بہت خود سر کر دیا تھا۔ (بطالوی کا انجام از میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق ص36-37)جس کا ذکر میاں محمد چٹو جو لاہور میں اولاً غیر مقلدین اور پھر اہل قرآن کے سرگروہ ہیں انہوں نے اپنی کتاب ’’اصلاح الانسان بعبادۃ الرحمان ‘‘ میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’مولوی محمد حسین صاحب کو مسجد چینیاں میں ابتداء میں لانے والے بھی ہم ہی تھے۔ جب تک وہ اپنا فخر کم کرتے تھے۔ اور راہ راست پر رہے۔ ہم ان کے مددگار تھے۔ جب مولوی صاحب کو ایک انگریز بہادر کی ملاقات کا فخر حاصل ہوا۔ اسی وقت سے مولوی صاحب کے طریق میں ایک تغیر موج مارنے لگا۔ ایک جمعہ کے دن مولوی صاحب اپنے جاہ و جلال میں آ کر یوں در افشاں ہوئے کہ ہم مسجد سے ابھی چلے جاویں مگر ڈر ہے کہ مسجد ویران ہو جائیگی۔ اس پر ایک ضلعدار بولے۔ کہ جو لوگ مولوی صاحب کے ساتھ جانے والے ہیں وہ ہاتھ اٹھائیں۔ مگر ایک آدمی نے بھی مولوی صاحب کی اس آرزو کو پورا نہ کیا۔ تو مولوی صاحب اس مسجد سے ایسے گئے کہ اب تک واپس نہیں آئے۔ ‘‘(اصلاح الانسان بعبادۃ الرحمان بحوالہ بطالوی کا انجام از میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق صفحہ85)

قیاساً کہا جا سکتا ہے کہ مولوی صاحب لاہور کے بعد امرتسر چلے گئے کیونکہ

1۔ کئی جگہ ان کے نام کے ساتھ ابو سعید محمد حسین لاہوری، ثم امرتسری لکھا ہوتا ہے۔ 2۔ ان کے مضامین بعد ازاں امرتسر سے شائع ہوتے رہے۔

بہر حال یہ بات تو بر سبیل تذکرہ یہاں آ گئی ورنہ مولوی محمد حسین صاحب ایک لمبے عرصہ تک لاہور میں عروج کی منزلیں طے کرتے رہے۔ صرف لاہور کا ہی ذکر کیا۔ 1877ء میں ان کے مضامین اور مباحثات ملک کے دیگر اخبارات مثلاًاخبار سفیر ہند امرتسر میں بطور ضمیمہ کے شائع ہوتے رہے۔ [ان مباحثات کی تحریرات پڑھنے اور دیگر واقعات پر نظر ڈالنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ان کے والد مولوی رحیم بخش بھی ان مناظروں میں اپنے بیٹے کا پورا پورا ہاتھ بٹاتے تھے۔ چنانچہ 1868ء یا 1869ءکے جس مباحثہ کا حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ میں تحریر فرمایا ہے وہاں بھی مولوی صاحب کے ساتھ ان کے والد صاحب بغرض مباحثہ ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح 1877ء کے اکتوبر میں بٹالہ میں مولوی محمد عمر کے ساتھ مولوی صاحب کے مباحثہ کا جو احوال سفیر ہند میں درج ہے اس میں مولوی محمد عمر صاحب کے مطابق ’’آپ کے والد بزرگوار نے عہد نامہ بنسبت مباحثہ لاہور پیش کیا۔‘‘

1888ء میں بٹالوی صاحب نے اپنا اخبار اشاعۃ السنہ جاری کر لیا۔ بٹالوی صاحب کا یہ اخبار ماہوار تھا۔ لیکن اس اخبار کی بدولت انہیں ملک کے طول و عرض میں جانا جانے لگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی براہین احمدیہ میں ایک تحریر سے علم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب انجمن ہمدردیٔ اسلام لاہور کے سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ (براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ الف، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 137)اسی طرح جب ہم 1883ء کے اشاعۃ السنۃ کو دیکھتے ہیں تو وہاں بھی بطور سیکرٹری انجمن ان کے مضامین نظر آتے ہیں۔

مولوی صاحب کی شہرت اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ خود ان کے مطابق:

’’میں ایک گوشہ نشین خادم دین ہوں۔ جب کبھی قومی ضرورتوں کے لئے ویسراؤں، کمانڈر انچیف، لیفٹنٹ گورنروں اور ان کے سکرٹریوں اور صاحبان فنانشل کمشنر۔ کمشنرز۔ ڈپٹی کمشنرز کے گھروں پر ان کی ملاقات کے لئے گیا ہوں یا درباروں میں شامل ہوا ہوں۔ تو انہوں نے اپنی مہربانی سے میری عزت کی اور مجھے کرسی دی ہے۔ ‘‘

(اشاعۃ السنۃ جلد 20 نمبر 3 صفحہ90)

مولوی محمد حسین بٹالوی کوگورنمنٹ کے مختلف کاغذات میں پنجاب کے اہلحدیث فرقہ کا سب سے بڑا مولوی قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ خود اہلحدیث بھی انہیں ادب کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب(مجدد اہلحدیث) کی جو اپیل وائسرائے کے پاس گئی اس میں ’’اشاعۃ السنۃ‘‘ کو اہل حدیث کے ترجمان کی حیثیت سے یاد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے مشہور گورنر سر چارلس ایچیسن نے گورنری سے رخصت کے وقت مولوی محمد حسین بٹالوی کو یہ سرٹیفیکیٹ دیا کہ ’’ابو سعید محمد حسین فرقہ اہلحدیث کے ایک سرگرم مولوی اور اس فرقہ اسلام کے وفادار اور ثابت قدم وکیل ہیں۔ ان کی علمی کوششیں (یعنی تصانیف)لیاقت سے ممتاز ہیں ‘‘(اشاعۃ السنۃ جلد 9 نمبر 10صفحہ 292)

لفظ’’وہابی ‘‘ ان ہی کی کوشش سے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ ہوا۔ اور جماعت کو اہل حدیث کے نام موسوم کیا گیا۔

(سیرت ثنائی مصنفہ عبدالمجید خادم سوہدروی صفحہ452۔ 453حاشیہ)

مولوی صاحب کو گورنمنٹ اور دوسری جگہوں سے ان کے علم و دانش اور سیاسی مصلحتوں سے آشنائی کے سبب مختلف اوقات میں اتنی جائیداد مل چکی تھی جس کی مالیت خود ان کی اپنی تحریر کے مطابق 25000روپے سے زائد تھی۔

(اشاعۃ السنۃ جلد 22نمبر7صفحہ 203)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button