متفرق مضامین

کیا کسی صحیح حدیث میں مسیحؑ کے متعلق ’آسمان‘ سے نزول کا لفظ موجود ہے؟

(محمد اعظم سیفی۔ انڈیا)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے تمام غیراحمدی علماء کو یہ چیلنج دیا کہ کسی ایک صحیح، مرفوع، متصل حدیث میں بھی نہیں آیا کہ عیسیٰ ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گےجیسا کہ آپؑ نے فرمایا:

’’تمام احادیث پڑھ جاؤ کسی ایک صحیح حدیث میں بھی آسمان کے الفاظ نہیں پاؤ گے۔‘‘

کسی غیر احمدی مولوی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس چیلنج کو قبول کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جو کہ 1908ء میں ہوئی غیرمقلدوں کے مشہور عالم ثناء اللہ امرتسری نے پہلی بار اپریل 1916ء میں حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے سامنے امام بیہقی کی کتاب، کتاب الاسماء و الصّفات کا ایک نسخہ پیش کیا جس میں ایک حدیث ان الفاظ کے ساتھ درج ہے:

کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ مِنَ السَّمَاءِ وَ اِمَامُکمْ مِنْکُمْ

امام بیہقی نے اس حدیث کو اپنی سند سے بیان کرنے کے بعد اس کے آگے ہی لکھا ہے کہ رَوَاہُ الْبُخَارِی فِی الصَّحِیْحِ کہ اس روایت کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔ لیکن صحیح بخاری میں مِنَ السَّمَاءِ کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ الفاظ حدیث میں بعد میں بڑھائے گئے ہیں۔

امام جلال الدین سیوطیؒ نے بھی اس حدیث کو امام بیہقی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ لیکن اس میں مِنَ السَّمَاءِ کے الفاظ نہیں لکھے جیسا کہ آپ لکھتے ہیں:

’’والبیہقی فی الاسماء و الصّفات قال: قال رسول اللّٰہؐ کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم و امامکم منکم‘‘

(تفسیر درمنثور جلد 2 صفحہ 262 مطبوعہ مصر)

حدیث میں یہ الفاظ بعد میں تحریف کر کے بڑھائے گئے ہیں۔ اس بات کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں ہی اس کتاب کا نسخہ غیر احمدی علماء کے پاس موجود تھا۔ خصوصاً ثناء اللہ امرتسری جن کا دعویٰ تھا کہ جس قدر گہرائی سے ہم مرزا صاحب کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں کوئی احمدی بھی نہیں کرتا۔ لیکن باوجود اس کے کہ وہ نسخہ آپ کے پاس موجود تھا کبھی اس حدیث کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے چیلنج کے جواب میں پیش نہیں کیا۔

جیسا کہ ثناء اللہ امرتسری اپنی کتاب تُرک اسلام جو 1906ء میں شائع ہوئی آریوں کے استویٰ علٰی العرش کے متعلق اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام بیہقی جو چوتھی یا پانچویں صدی ہجری میں بڑے پائے کے محدث گزرے ہیں اپنی کتاب الاسماء و الصّفات میں اپنے سابق استاد ابو منصور کا قول نقل کرتے ہیں کہ بہت سے متأخرین کہتے ہیں کہ استویٰ سے مراد’’حکومت اور غلبہ ہے۔‘‘

(تُرک اسلام صفحہ 48۔ 1906ء)

ہم نے کتاب الاسماء و الصّفات کے پانچ قلمی نسخوں کا مشاہدہ کیا اور تلاش کیا کہ شاید کسی ایک نسخہ میں من السماء کے الفاظ موجود ہوں لیکن جیسا کہ امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ کسی ایک صحیح حدیث میں بھی من السماءکے الفاظ نہیں پاؤ گے۔ لہٰذا ایسا ہی ہوا۔ کتاب الاسماء و الصّفات کے کسی ایک نسخہ میں بھی من السماء کے الفاظ موجود نہیں۔

دورِ حاضر میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس چیلنج کو توڑنے کے لیے غیر احمدی علماء مسند البزار کی ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں من السماء کے الفاظ درج ہیں۔

حدثنا علی بن منذر، حدثنا محمد بن فضیل عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن ابی ہریرة قال: سمعت من ابی قاسم الصادق یقول’’ یخرج الاعور الدجال مسیح الضلالة قبل مشرق فی زمن اختلاف من الناس و فرقة فبلغ ماشاء اللّٰہ ان یبلغ من الارض فی اربعین یوماً۔ اللّٰہ اعلم ما مقدارھا فیلقی المومنون شدة شدیدۃ ثم ینزل عیسیٰ بن مریم صلی اللّٰہ علیہ من السماء فیؤم الناس فاذا رفع رأسہ من رکعتہ قال: سمع اللّٰہ لمن حمدہ قتل اللّٰہ الدجال وظھرالمومنون ……الی اخر‘‘

اول تو یہ حدیث صحیح نہیں ہے بلکہ حسن ہے جیسا کہ ہم آگے محدثین کے حوالہ جات نقل کر کے ثابت کریں گے۔

دوئم: اس حدیث کے دیگر طرق جو صحیح ابن حبّان اور مسند عبدالرزاق میں حضرت ابو ہریرہؓ سے ہی مروی ہیں اُن میں من السماء کے الفاظ موجود نہیں۔

سوئم: اس روایت کے ایک راوی محمد بن فضیل کے متعلق محدثین نے جرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ کثرت سے خطا کیا کرتا تھا جیسا کہ ذکر السماء میں لکھا ہے کہ

’’قال ابو حاتم کثیر الخطا و قال ابن سعد بعضھم لایحتج بہٖ۔‘‘

یعنی ابو حاتم نے کہا ہے کہ محمد بن فضیل بن غزوان کثرت سے خطا کرتا تھا اور ابن سعد نے کہا کہ بعض نے اس سے احتجاج نہیں کیا۔

اسی طرح تہذیب الکمال فی اسماء الرجال میں محمد بن فضیل کے متعلق لکھا ہے کہ

’’وقال الترمذی سمعت محمداً یقول:حدیث الاعمش عن مجاہد فی المواقیت اصح من حدیث محمد بن فضیل عن الاعمش و حدیث محمد بن فضیل خطأ اخطأ فیہ محمد بن فضیل۔‘‘

(الجامع صفحہ 151)

امام ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے محمد سے سنا وہ کہتے تھے کہ وہ حدیث جو اعمش نے مجاہد سے مواقیت میں بیان کی ہے وہ زیادہ صحیح ہے بہ نسبت اس حدیث کے جو محمد بن فضیل نے اعمش سے بیان کی کیونکہ محمد بن فضیل نے حدیث میں خطا کی ہے۔

’’و قال یعقوب بن سفیان حدثنی الفضل قال: سألت ابا عبداللّٰہ قلت: یجری عندک ابن فضیل منجری عبید اللہ بن موسیٰ؟ قال لا کان ابن فضیل اسدّ۔‘‘

اور یعقوب بن سفیان کہتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا فضل نے کہ میں نے ابو عبداللہ سے پوچھا کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ جسارت میں عبید اللہ بن موسیٰ اور محمد بن فضیل برابر ہیں؟ ابوعبداللہ کہتے ہیں نہیں محمد بن فضیل جسارت میں بڑھا ہوا ہے۔ (ایضاً)

موسوعۃ اخبار امام احمد بن حنبل میں محمد بن فضیل کے تعلق میں لکھا ہے کہ ابن ہانی نے ابی عبداللہ احمد بن حنبلؒ سے محمد بن فضیل کے تعلق سے پوچھا تو آپ نے کہا ’’اخطاء ابن فضیل‘‘کہ محمد بن فضیل خطا کیا کرتا تھا۔

اسی طرح لکھا ہے کہ حرب بن اسماعیل نے احمد بن حنبلؒ سے محمد بن فضیل کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے کہا کہ

’’کان یتشیع و کان حسن الحدیث۔ ‘‘

یعنی وہ شیعہ تھا اور حسن الحدیث تھا۔

چونکہ محمد بن فضیل کثرت سے خطا کیا کرتا تھا اور اس میں کمال ضبط نہیں تھا لہٰذا احمد بن حنبل نے اُسے حسن الحدیث کہا اور مسند البزار کی روایت پر بھی محدثین نے حدیث حسن کا حکم لگایا ہے نہ کہ صحیح حدیث کا۔

جیسا کہ الجامع الصحیح میں اسی روایت کو نقل کیا گیا ہے اور اس کے نیچے لکھا ہے ھذہ حدیث حسن کہ یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔

(الجامع الصحیح جزء السادس صفحہ 174/339 مکتبہ ابن تیمیہ)

امام جلال الدین سیوطیؒ نے اس حدیث کو اپنے رسالہ اشراط الساعة میں نقل کیا ہے لیکن اس میں من السماء کے الفاظ نہیں۔ جیسا کہ لکھا ہے:

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول ینزل عیسیٰ ابن مریم فیؤمھم فاذا رفع رأسہ من الرکعة قال سمع اللّٰہ لمن حمدہ قتل الدجال و اظھر……الخ

مسند البزار کے کسی نسخہ میں اگر من السماءکے الفاظ موجود بھی ہوں تب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو چیلنج دیا تھا کہ کسی صحیح مرفوع متصل حدیث میں من السماء کے الفاظ موجود نہیں برقرار رہے گا کیونکہ جیسا کہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ یہ حدیث حسن درجہ کی ہے نہ کہ صحیح۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button