سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

محمدحسین بٹالوی صاحب سے مناظرہ

محمدحسین بٹالوی صاحب ابھی نئے نئے فارغ التحصیل ہوکرآئے تھے۔ جوانی تھی اور سیدنذیرحسین دہلوی جیسے عالم سے جوکہ شیخ الکل کہلاتے تھے، سندحدیث لے کر دستار بندی کروائی تھی۔ بٹالوی صاحب کی بعدکی زندگی شاہدہے کہ اپنے اس علم کا گھمنڈانہیں کچھ زیادہ ہی تھا۔ ادھرپنجاب میں بھی اہل حدیث اور اہل سنت جیسے دیگرفرقوں کے باہمی مناظرے جن کی نوبت بحث ومباحثہ سے نکل کرفسادوجدال تک بھی جاپہنچتی اب عام ہورہے تھے۔ اور یہ فرقہ یعنی جوغیرمقلدین یاوہابی کے نام سے بھی معروف تھاان کابھی زوروشوراب طوفانی صورت اختیارکررہاتھا۔ مولوی صاحب کے بٹالہ میں آنے سے بٹالہ اور ساتھ کے شہروں اوربستیوں میں بھی ایک جوش اورولولہ پیداہونے لگا۔ اور اس میں اب نمایاں کردارمولوی صاحب کاتھا۔

اہالیان بٹالہ نے جب یہ شوروشردیکھاتو ان کی نظرحضرت اقدس علیہ السلام پرپڑی کہ آپ علیہ السلام کوان کے مدمقابل کیاجائے اور ان لوگوں کویقین تھا کہ ایک آپؑ ہی ہیں جواس نوجوان مولوی کاناطقہ بندکرسکتاہے۔ حضرت اقدسؑ کوبمشکل اس مباحثہ کے لئے راضی کیاگیااور آپؑ کومباحثہ کے لئے لایاگیا۔ طرفین کی طرف سے حامیان کی ایک خاصی تعداد جمع تھی۔ اور آج تو خاص طورپر مقلدین کاگروہ بجاطورپراپنی پیشگی فتح کے لئے پُر یقین تھااورہونابھی چاہیے تھا کہ آج اس بزرگ عالم کوبحث کے لئے بلایا گیا تھاکہ جس کی گرفت ایسی ہوتی تھی کہ مدمقابل زیردام عصفورکی مانند بے کس و بےبس ہو جاتاتھا۔ بہرحال آپؑ جب مقام بحث پرپہنچے تو مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب سے پوچھا کہ آپ کے نظریات وخیالات اور عقائد کیاہیں وہ بتائیں تاکہ ان کی تردیدکی جائے۔ مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب نے کہاکہ میرے نزدیک قرآن کریم مقدم اور پھرحدیث اورقول رسولﷺ ہے جس کے مطابق فیصلہ کیاجائے گا۔

حضرت اقدسؑ نے مولوی صاحب سے ان کایہ عقیدہ سنا تو فرمایاکہ میرے نزدیک آپ کے عقائدونظریات میں کوئی ایسی بات نہیں کہ جوقابل اعتراض ہواور اس کو ردّ کیاجائے۔ جو لوگ آپ کولے کرگئے تھے ان کاخیال تھا کہ اس طرح توہماری شکست متصورہوگی اور فریق مخالف اپنی فتح کانقارہ بجادے گا اس لئے کچھ بھی ہومولوی صاحب کو اس میدان مباحثہ میں کچھ تو ندامت وشرمندگی کاقشقہ لگاناچاہیے لیکن حضرت اقدسؑ فتح و شکست کے فخرورسوائی سے بے نیاز وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔

حضرت اقدسؑ علیہ السلام براہین احمدیہ میں اس واقعہ کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’1868ء یا 1869ء میں بھی ایک عجیب الہام اردومیں ہواتھا جس کواسی جگہ لکھنا مناسب ہے۔ اور تقریب اس الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے۔ جب نئے نئے مولوی ہو کربٹالہ میں آئے۔ اور بٹالیوں کوان کے خیالات گراں گزرے۔ تو تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے اس ناچیز کو بہت مجبور کیا۔ چنانچہ اس کے کہنے کہانے سے یہ عاجز شام کے وقت اس شخص کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا۔ اور مولوی صاحب کو معہ ان کے والد صاحب کے مسجد میں پایا۔ پھر خلاصہ یہ کہ اس احقر نے مولوی صاحب موصوف کی اس وقت کی تقریر کو سن کر معلوم کر لیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل اعتراض ہو۔ اس لئے خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا۔ رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اسی ترک بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ پھر بعد اس کے عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے۔ جو گھوڑوں پر سوار تھے۔ چونکہ خالصاً خدااوراس کے رسول کے لئے انکساروتذلل اختیار کیاگیا اس لئےاس محسن مطلق نے نہ چاہا کہ اس کوبغیر اجرکے چھوڑے۔‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 621-622حاشیہ در حاشیہ3)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے اس واقعہ کواپنی تصنیف حیات احمدؑ میں بیان کرنے کے بعد اس پرایک نوٹ لکھاہے۔ خاکسار خوداس پرکچھ لکھنے کی بجائے حضرت عرفانی صاحبؓ کانوٹ من وعن یہاں درج کررہاہے اور اس میں ایک مقصدیہ بھی ہے کہ تا سلسلہ احمدیہ کے اس اولین مؤرخ، حضرت احمدعلیہ السلام کے عاشق صادق اور آپؑ کے سیرت نگار کی تحریراور تبصرہ اس کتاب کابھی حصہ بنے اور حضرت عرفانی صاحبؓ کانام اور عشق ومحبت کایہ مقام اگلی نسل تک پہنچانے کے لئے خاکساربھی نیت کے اس ثواب سے محروم نہ رہے۔

حضرت عرفانی صاحبؓ تحریرکرتے ہیں :

’’ لوگ مباحثات کے عام طرز اور مناظرہ کنندگان کی حالت سے خوب واقف ہیں۔ اپنے فریق مخالف یا مقابل کی بات کو جو حق ہو قبول کر لینا اور پبلک کے سامنے تسلیم کر لینا بہت ہی مشکل ہے۔ میں علماء کی تحقیر نہیں کرتا۔ مگر علماء کے لئے توجان دے دینا آسان مگر اپنی غلطی تو درکنار۔ فریق ثانی کی صحیح اور معقول بات کو مان لینے کی عادت بھی نہیں رہی۔ مگر حضرت مسیح موعودؑ کی حالت محض اخلاص اور مرضاة اللہ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ بالطبع اس کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کہ مسلمانوں میں اندرونی طور پر خانہ جنگی ہو اور وہ باہم مسائل کے اختلاف پر حق پژوہی اور حق گوئی کو چھوڑ دیں۔ اور پھر یہ کس قدر جرأت اور دلیری ہے کہ جس شخص سے مناظرہ کرنے جاتے ہیں اس کے گھر پر پہنچتے ہیں۔ کوئی روک اور جھجک طبیعت میں اس کے علم اور اثر سے نہیں لیکن اس کے منہ سے ایک حق بات سن کر اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں کی جاتی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ وہ اس کو گریز قرار دیں گے۔ یا فریق ثانی سے مرعوب ہونے سے تعبیر کریں گے۔ جو بات حق تھی اسے تسلیم کر لیا۔ اور اس کی صحت پر اپنے اقرار سے مہر کر دی۔ یہ ایک ایسا فعل ہے جس کی نظیر انبیاء علیہم السلام اور ان کے خاص متبعین کی زندگیوں کے سوا کہیں نہیں ملتی۔ اخلاص فی الدین اور اپنی ہوا و ہوس کو کچل دینے کا زوردار جذبہ محض خدا تعالیٰ کے فضل سے مل سکتا ہے۔ پھر اس فعل کی قبولیت کے آثار اسی وقت ظاہر ہو گئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعے بشارت دی اور رضی اللہ عنہ کا گویا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا۔ انسان دنیا میں چاہتا ہے کہ اس کی قبولیت بڑھے اور لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس فعل کے ثمرہ میں بتایا۔ کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ براہین احمدیہ کی تالیف و ترتیب کا بھی ابھی تک خیال پیدا نہیں ہوا۔ چہ جائیکہ کوئی دعویٰ ہوتا۔ دنیا سے قریباً بے تعلقی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ملازمت کے سلسلہ کو بھی ترک کر چکے ہیں۔ آئندہ زندگی کے گزارہ کے خیالات گو آپؑ کے دل و دماغ پر متاثر نہیں۔ مگر گھر والوں کو اس کا خیال ضرور ہوتا ہے کہ یہ کیا کریں گے۔ حضرت والد صاحب قبلہ ابھی زندہ ہیں۔

غرض زندگی کی اس منزل میں ہیں۔ جہاں ایک دنیا دار کے لئے بڑی امیدیں ہوتی ہیں۔ اور عمر کا وہ حصہ ہے جبکہ ہر قسم کے خیالات اور خودداری اور خودنمائی کے جذبات پورے جوش اور زور میں ہوتے ہیں۔ اپنی بات کی پچ اور ضد ہوتی ہے۔ ان تمام حالات میں حضرت مرزا صاحب ایک مشہور مولوی سے مباحثہ کیلئے جاتے ہیں۔ اور اس کی تقریر سن کر اسے صحیح پاکر اس کی تصدیق کر دیتے ہیں۔ نہ تو خیال آتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اور نہ اس بات کی پرواہ کی جاتی ہے کہ اس شخص کی عام مخالفت اس کے بعض عقائد کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ اور میں اپنے بیان سے اس کی تائید کر رہا ہوں۔ میرے خلاف بھی ایک طوفان بے تمیزی پیدا ہو جائے گا۔

پس آپ غورکریں کہ ان حالات میں جبکہ حنفیوں اور غیر مقلدوں میں سخت معرکہ کی جنگ جاری تھی۔ اور کسی اہلحدیث کی تائید سے بے انتہا بلاؤں کو خرید لینا ہوتا تھا۔ حضرت مرزا صاحب مولوی محمد حسین صاحب کی تائید کر دیتے ہیں۔ بحالیکہ ان سے مباحثہ کے لئے بلائے گئے تھے۔ یہ خیال اور وہم نری حماقت ہو گی کہ مولوی ابو سعید صاحب کا علم یا زور یہاں آپ کے خاموش کرادینے کا موجب ہو سکا ہو گا۔ ممکن تھا کہ یہ وہم کوئی وقعت رکھتا اور بعد میں آنے والے واقعات نے اسے مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثات بالمشافہ اور بذریعہ تحریروں کے نہ کرائے ہوتے اور اس کے خطرناک مقابلہ میں یہ جوانِ محمدﷺ نہ آیا ہوتا۔

اور کبھی اور کسی حال میں اس پر ایک سکینڈ کے لئے بھی اس کی علمیت اور اثر کا خوف موثر نہیں ہو سکا۔ یہ واقعات ہیں اور کوئی ان کی تکذیب نہیں کر سکتا۔ پس ایسی حالت میں یہ خیال محض نادانی ہے۔ بلکہ اس کی تہہ میں ایک اور صرف ایک ہی بات تھی اور وہ اِخلاص فی الدین تھا۔ واقعات بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کی وحی نے بھی اس پر صاد کیا ہے۔ اور پھر اب اس زمانہ میں تو اس وحی الٰہی کے واقعات نے پھر تائید اور تصدیق کی ہے۔ جبکہ دیکھا گیا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے عملی رنگ میں برکت ڈھونڈرہے ہیں۔

یہ امر بھی قارئین کرام کی زیر نظر رہنا چاہئے کہ مولوی محمد حسین صاحب کی تائید آپؑ نے محض رضاء الٰہی کے لئے اس وقت کی جبکہ ایک عالم ان سے بیزار اور ان کا مخالف تھا۔ اور پھر محض خدا کی رضا ہی کے لئے علیحدگی اس وقت اختیار کی جبکہ ایک دنیا ہندوستان کی مولوی محمد حسین صاحب کی مداح اور گرویدہ ہو رہی تھی۔ اور اس کو اپنی تحریروں اور اثر پر اس قدر ناز تھا کہ وہ نہایت نخوت کے ساتھ یہ دعویٰ شائع کرتا ہے کہ میں نے ہی اس کو اونچا کیا اور میں ہی گراؤں گا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر مادی اسباب کا نتیجہ حضرت مسیح موعودؑ کی کامیابی ہوتی۔ اور وہ کسی شخص کی تائید یا انکار پر مبنی ہوتی۔ تو مولوی محمد حسین صاحب کو اپنے اس دعویٰ میں ضرور کامیابی ہو جاتی۔ کیونکہ اس کا اثر اور رسوخ بہت بڑھ کر تھا۔ علماء ہندو پنجاب پر وہ اپنی قابلیت اور علمیت کا سکہ بٹھا چکا تھا۔ جو شہرت اور عزت اسے حاصل تھی وہ ایسے دعویٰ کی محرک ہو سکتی تھی۔ مگر خدا تعالیٰ کا مقابلہ کون کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کے کاموں کو کون روک سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی مخا لفت اور عداوت نے اس کے تمام اثراور رسوخ کو باطل کر دیا۔ آج جب ان پرانے واقعات کی یاد تازہ ہو رہی ہے۔ اور یہ حالات ایک مستقل تالیف کی صورت اختیار کر رہے ہیں۔ اور مولوی محمد حسین صاحب بھی ابھی تک زندہ ہیں۔ اس کے پہلے حالات اور موجودہ حالات کو دیکھنے والے بھی زندہ ہیں۔ وہ دیکھتے اور جانتے ہیں کہ کون گرا اور کون اونچا ہوا ؟

میرا مقصد اس بیان سے صرف یہ دکھانا ہے کہ کسی رواداری اور پاس خاطر یا علمی رعب و وقعت نے حضرت مسیح موعودؑ کو اس وقت مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ کرنے سے نہیں روکا ورنہ وہ وقت تو ایسا تھا کہ اگر یہ کوئی با ت بھی منہ سے نکالتے توکُل بٹالہ بالاتفاق ان کی تائید کرتا۔ پوری مخالفت کے ایام میں اس کی تائید کرنا اور پوری شہرت اور اثر کے ایام میں میدان مقابلہ میں نکلنا یہ دونوں فعل صرف اخلاص فی الدین کا نتیجہ تھے!!!‘‘(حیات احمدؑ جلداول صفحہ 291-293)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button