متفرق مضامین

ملیریا کے علاج میں اہم پیش رفت

(محمد فاروق سعید۔ لندن)

ملیریا ازل سے ایک جان لیوا وبا کی صورت میں انسانیت کو نقصان پہنچاتا آ رہا ہے۔ اس کی علامات میں تیز بخار، تھکاوٹ اور نزلہ زکام سےملتی جلتی علامات شامل ہیں۔ ان علامات کو اگر نظرانداز کیا جائے تو یہ مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔

پیراسائٹ سے ہونے والی یہ بیماری مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ ملیریا آلودہ خون یا آلودہ آلات خون جیسا کہ استعمال شدہ انجیکشن اورسرنجز دوبارہ استعمال کرنا اس کے پھیلاؤ کا ایک غیر عمومی ذریعہ ہے۔ ملیریا ہمارے خون میں موجود ریڈ بلڈ سیلز کو متاثر کرتا ہے جس کی وجہ سے خون کے ذریعے پھیلاؤ کا باعث بنتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے ایک محتاط اندازے کے مطابق ملیریا سے ہر سال تقریباً چار لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں ان میں زیادہ تعداد تقریباً 94 فیصد براعظم افریقہ کے افراد کی ہوتی ہے جن میں تقریباً 67% ایسے بچے ہوتے ہیں جن کی عمر 5 سال سے بھی کم ہوتی ہے۔

مگر آئندہ سالوں میں ملیریا بیماری کو سائنسدانوں نے قابو پانے کی خبر سنا دی ہے۔ کورونا وائرس کی ویکسین بنانے والی یونیورسٹی آف آکسفورڈنے اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ اپنے ابتدائی مراحل میں 77 فیصد مؤثر ثابت ہونے والی ملیریا کی ایک ویکسین اس بیماری کے خلاف جنگ میں بہت بڑی کامیابی دے سکتی ہے۔

ایک آن لائن میگزین لائیو سائنس میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ملیریا کی اِس نئی ویکسین کا نام R21/Matrix-M ہے۔ اس ویکسین کے تجربات برکینا فاسو میں قائم تحقیقاتی ادارے IRSS میں کیے گئے۔ یہ تجربات 450 بچوں جن کی عمریں 5اور 17ماہ کے درمیان تھیں پرکیےگئے۔ ان بچوں کو مئی 2019ء سے اگست 2019ءکے درمیان ملیریا ویکسین دی گئی۔ بعض بچوں کو اس ویکسین کی کم مقدار دی گئی۔ کچھ بچوں کوایک تہائی خوراک دی گئی اور باقی بچوں کو ویکسین زیادہ طاقت میں دی گئی۔

ویکسین لگانے کے 12مہینے بعد ملنے والے نتائج کے مطابق جن بچوں کو بڑی طاقت میں ویکسین لگائی گئی ان میں ملیریا سے بچاؤ کی شرح77فیصد تھی جبکہ جن کو کم طاقت میں ویکسین لگائی گئی ان میں ملیریا سے بچاؤ کی شرح 71فیصد تھی۔ جبکہ کسی بچے میں کسی بھی قسم کے مضراثرات کی علامت ظاہر نہ ہوئی۔ ان بچوں کو ایک سال بعد دوبارہ ویکسین کی بوسٹر شاٹ لگائی گئی۔

اس ویکسین کو بنانے والے سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کا کہنا ہے کہ انہیں مکمل اعتماد ہے کہ جیسے ہی اس ویکسین کی ریگیولیٹرز توثیق کردیں گے وہ اس کی بیس کروڑ سے زیادہ خوراکیں تیار کردیں گے۔

’’نووا ویکس‘‘ اس ویکسین کے معاون اور مددگار اجزا تیار کرتا ہے۔

برکینا فاسو کے کلینیکل ریسرچ یونٹ نانورو کے پرنسپل انویسٹیگیٹر اور پیراسیٹولوجی کے پروفیسر، ہالیدو ٹِنٹو کہتے ہیں کہ اس آزمائش کے بہت ہی زبردست نتائج برآمد ہوئے ہیں اور یہ ’’موثر ہونے کی بے مثال سطح‘‘ظاہر کرتے ہیں۔

’’ہم اس آزمائش کی اب تیسری سطح کی جانب پیش رفت کر رہے ہیں تاکہ ہم اس ویکسین کے محفوظ ہونے اور موثر ہونے کے بڑی سطح کےاعداد و شمار پیش کرسکیں جس کی اس خطے کے لوگوں کو بہت شدید ضرورت ہے۔ ‘‘

ویب سائٹ یورو الرٹ کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہِ ویکسیونولوجی کے پروفیسر اور جینر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر، ایڈرین ہِل جو اس ویکسین کی ریسرچ کے شریک مصنف بھی ہیں، کہتے ہیں کہ یہ پہلی ویکسین ہے جو صحت کے عالمی ادارے کی کم از کم موثر ہونے کی 75 فیصدشرح تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

اس سے پہلے اب تک ملیریا کے لیے جتنی بھی ویکسینز بنی ہیں اُن کی افریقہ کے بچوں پر کامیابی کی شرح 55 فیصد رہی ہے۔

برکینا فاسو کی وزارت ہائیر ایجوکیشن سائینٹفک ریسرچ اینڈ اینوویشن کے پروفیسر الکاسوم میگا نے ایک بیان میں کہا کہ

’’میں برکینا فاسو کےمحققین پر بہت فخر محسوس کر رہا ہوں جنہوں نے اِس عظیم اور اہم سنگِ میل کو حاصل کرنے میں حصہ لیا ہے۔ اور انہیں اُمید ہے کہ ویکسین کے تیسرے تجرباتی مرحلے میں بھی ایسے ہی بہترین نتائج حاصل ہونگے جن کی وجہ سے اس ملیریا سے ہر سال متاثر ہونے والےلاکھوں بچوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔ ‘‘

ملیریا اور کورونا وائرس کی ویکسین بنانے والی آکسفورڈ یونیورسٹی کو ٹائمز ہائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ میں مسلسل پانچویں سال اول نمبر رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اور اس اعزاز کی بنیادی وجہ تحقیق اور ایجادات کے میدان میں اہم کلیدی کامیابیاں حاصل کرنا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button