متفرق مضامین

الٰہی جماعتوں پر قربانیوں کے بعد نصرت الٰہی کا نزول

(محمود احمد ناصر۔ جرمنی)

خدا تعالیٰ کے محبوبوں، مقربوں اور مقدسوں کو ہمیشہ امتحان اور ابتلا میں ڈالا جاتا ہے تا کہ دنیا پر ثابت ہو کہ ہر قسم کے مصائب اور مشکلات کے باوجود وہ اپنے دعویٔ محبت الٰہی میں کیسے ثابت قدم نکلے اور مصائب کے زلزلے اور حوادث کی آندھیاں اور قوموں کا ہنسی مذاق کرنا اور دنیا کی ان سے سخت کراہت ان کے پائے استقلال میں ذرّہ برابربھی لغزش پیدا نہ کرسکی۔

صادق آں باشد که ایام بلا

مےگزارد با محبت با وفا

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ابتلاء جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلّت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے اور با وجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سے کر کے ان کو دکھاتا ہےیہ ابتلا ء اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ کر ے یا صفحۂ عالم سے ان کا نام ونشان مٹا دیوے۔ کیونکہ یہ تو ہرگز ممکن ہی نہیں کہ خداوند عزّوجل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور اپنے سچے اور وفادار عاشقوں کو ذلّت کے ساتھ ہلاک کر ڈالےبلکہ حقیقت میں وہ ابتلاء کہ جو شیر ببر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے اس لئے نازل ہوتا ہے، کہ تا اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پہنچاوے اور الٰہی معارف کے باریک دقیقے ان کو سکھاوے۔ یہی سنت اللہ ہے۔ جو قدیم سے خدائے تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے۔ زبور میں حضرت داؤد کی ابتلائی حالت میں عاجز انہ نعر ے اسی سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آزمائش کے وقت میں حضرت مسیح علیہ السلام کی غر یبانہ تضرّعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبوی میں جناب فخرالرسلؐ کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتهالات اسی قانون قدرت کی تصریح کرتے ہیں اگر یہ ابتلاء درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء ان مدارج عالیہ کو ہرگز نہ پاسکتے کہ جوابتلاء کی برکت سے انہوں نے پالئے۔ ‘‘

(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد 2صفحہ 457تا459)

خدائے حکیم نے تمام امتوں کے انبیاء، صلحاء، اولیاء، ابدال، اقطاب اور محدثین ومجددین کے امتحان کا یہ پُرحکمت انتظام جاری فرمایا کہ ان کی آزمائش کے لیے ابتدائے عالم سے ہی ایک طبقہ میں کافرگری کی ذہنیت پیدا کر دی۔ اس ذہنیت نے ابتدائے عالم سے آج تک خدا کا کوئی مقرب بندہ اور کوئی محبوب درگاہ الٰہی ایسانہیں چھوڑا جس پر کا فر سازی کے تیر نہ چلائے گئے ہوں۔ روح تکفیر نے بہت سی بلند پایہ اور مایہ ناز شخصیتوں اور برگزیدہ ہستیوں کا خون بہایا۔ متعدد ممتاز اور نامور مفکر، مفسر، محدث، مجدد، متکلم، حکماء اور اصفیاء اسی ناپاک روح کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوئے۔ اور کئی ایسے وجود جو اپنے زمانے میں روشنی کا مینار تھے کافروں، ملحدوں، زندیقوں اور مرتدوں کے زمرہ میں نہایت بے دردی سے شامل کردیے گئے۔ روح کافر گری کا پیدا کرده یہ امتحان نہایت کٹھن، صبر آزما، زیرہ گداز اور روح و قلب کو تڑپا دینے والا امتحان تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اور مصائب و مشکلات کا امتحان بھی تھا مگر خدا تعالیٰ کے یہ بندے ان امتحانوں میں کامیاب و کامران ہوئے اور پھر خدا تعالیٰ کی نصرتوں اور قبولیتوں نے ان کے سروں پر فتح و ظفر کے تاج پہنا دیے اور ان کے پیش کردہ عقائد ونظریات کو قبول عام کی سند عطا فرمائی۔

ابتلا اور عذاب میں فرق

عذاب وہ دکھ ہے جو بطور سزا ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ خداتعالیٰ سے دوری اور اس کا غضب ہوتا ہے۔ نیکیوں سے محرومی اور نیک خیالات سے بے نصیبی ہوتی ہے۔

لیکن ابتلا ایک محبت بھری آزمائش ہے جو انسان کے جذبات تقویٰ کو اور بھی شعلہ زن کرتی ہے اور ایسا انسان خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب میں اور بھی ترقی کر جاتا ہے اسے مزید نیکیوں کی تو فیق ملتی ہے اور اس کے خیالات رشد و ہدایت کے لحاظ سے اور بھی اجاگر ہو جاتے ہیں۔

الغرض عذاب اور ابتلا میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ غزوہ احزاب کے سلسلے میں جبکہ چاروں طرف سے کفار کے لشکروں نے مسلمانوں کا احاطہ کرلیا تھا فرمایا:

وَ مَا زَادَہُمۡ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسۡلِیۡمًا(الاحزاب: 23)

یعنی اس ابتلا نے مومنوں کو اپنے ایمان اورقلبی انشراح اور اطاعت میں اور بھی زیادہ کر دیا۔

آنحضرتﷺکی ایک حدیث سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں:

وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا قَالَتْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّاعُونِ فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ عَذَابٌ يَبْعَثُهُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ يَشَاءُ وَأَنَّ اللّٰهَ جَعَلَهُ رَحْمَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيْبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيدٍ (بخاری کتاب المغازی)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جس پر الله تعالیٰ چاہتا ہے اسے نازل کرتا ہے۔ البتہ الله تعالیٰ نے سچے مسلمانوں کے لیے اسے رحمت بنایا ہے۔ جو مومن طاعون والے علاقے سے بھاگنے کی بجائے توکل اور خود حفاظتی اختیار کرتے ہوئے صبر اور طلب ثواب کے لیے اپنے علاقے میں ہی رہتا ہے اسے ایک شہید کا ثواب ہو گا۔

اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ طاعون ایک صورت میں عذاب ہے جبکہ وہ کسی فرستادے کے انکار پر بطور سزا اور پیشگوئی کے ظہور کے طور پر ظاہر ہو۔ اور طاعون دوسری صورت میں جبکہ وہ کسی مومن پر بطور قضا و قدر آئے رحمت اور شہادت ہے۔

الٰہی جماعتوں پر ابتلا رحمت کا درجہ رکھتے ہیں

جب سے دنیا معرض وجود میں آئی ہے خدا تعالیٰ کی یہ سنّت چلی آئی ہے کہ وہ دنیا میں اصلاح خلق کے لیے اپنی طرف سے کسی بندے کو دین حق کی خدمت کے لیے بھیجتا ہے جو اپنے زمانےکی برائیوں اور گمراہیوں کو دور کر کے نسل انسانی کو راہ راست پر لاتا ہے اور ایک الٰہی جماعت تیار کرتا ہے۔ الٰہی جماعتوں کے افراد کی استقامت، شجاعت اور عقیدہ کی پختگی کو آزمانے کے لیے ان پر طرح طرح کے ابتلاآتے ہیں۔ وہ مختلف قسم کے امتحانوں اور آزمائشوں میں ڈالے جاتے ہیں تا کھرے اور کھوٹے میں تمیز ہو سکے۔

موجودہ زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے ایک الٰہی جماعت کا قیام عمل میں آیا ہے جس کا مقصد اسلام اور آنحضرتؐ کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنا ہے۔ خدا تعالیٰ کی تائید خاص اور اس کے فضل سے یہ سلسلہ مسلسل ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور انشاء الله کرتا رہے گا۔ جس طرح پر پہلے وقتوں میں الٰہی جماعتوں پر ابتلا اور امتحان آتے رہے ہیں ضروری ہے کہ اسی طرح سے مسیح پاکؑ کی جماعت پر بھی ابتلا اور آزمائشوں کا وقت آئے۔ کیونکہ ابتلا ہی روحانی سلسلوں کی ترقی کا موجب ہوتے ہیں۔ اسی لیے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے دس شرائط بیعت میں سے شرط پنجم میں فرمایا:

’’یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عسر اور یسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا۔ اور ہر حالت میں راضی بقضاء ہو گا اور ہر ایک ذلت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا۔ بلکہ آگے قدم بڑھائے گا۔ ‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کومخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہو جیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے سو خبردار رہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے…‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ15)

پھر اسی کتاب میں فرماتے ہیں:

’’ اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو۔ تم خدا کی آخری جماعت ہو سو وہ عمل نیک دکھلاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو۔ ہر ایک جو تم میں سست ہوجائے گا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ15)

اس سے ظاہر ہے کہ امتحانوں اور ابتلاؤں کے ذریعے خدا تعالیٰ اپنی پاک جماعتوں میں اعلیٰ نمونے کے لوگ پیدا کرنا چاہتا ہے اور پیدا کرتا رہا ہے۔

ابتلاؤں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ وہ جو کسی ابتلا سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اُس کو جہنم تک پہنچائے گی اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اُس کے لئے اچھا تھا۔ مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے اُن پر کھولے جائیں گے۔ ‘‘

(رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد20صفحہ309)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پرخار بادیہ در پیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہوسکتے نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دم مارتے ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے اور ان کا پچھلا حال ان کے پہلے سے بدتر ہوگا۔ کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں۔ کیا ہم خداتعالیٰ کی راہ میں ابتلاؤں سے خوفناک ہو جائیں گے۔ کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہوسکتے ہیں ہرگز نہیں ہوسکتے مگر محض اس کے فضل اور رحمت سے۔ پس جو جدا ہونے والے ہیں جدا ہو جائیں ان کو وداع کا سلام۔ لیکن یاد رکھیں کہ بدظنی اور قطع تعلق کے بعد اگر پھر کسی وقت جھکیں تو اس جھکنے کی عند اللہ ایسی عزت نہیں ہوگی جو وفادار لوگ عزت پاتے ہیں۔ کیونکہ بدظنی اور غداری کا داغ بہت ہی بڑا داغ ہے۔ ‘‘

(انوار اسلام، روحانی خزائن جلد 9صفحه23تا24)

الٰہی جماعتیں اور ابتلا

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’جو قد راس سلسلہ میں داخل ہونے کی اس وقت ہے وہ بعد ازاں نہ ہو گی۔ مہا جر ین وغیرہ کی نسبت قرآن شریف میں کیسے کیسے الفاظ آئے ہیں جیسے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ۔ لیکن جو لوگ فتح کے بعد داخل ہوئے کیا ان کو بھی یہ کہا گیا؟ ہر گز نہیں۔ ان کا نام ناس رکھا گیا۔ اور لوگوں سے بڑھ کر کوئی خطاب ان کو نہ ملا۔ خدا کے نزدیک عزتوں اور خطابوں کے یہی وقت ہوتے ہیں کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہونے سے برادری، رشته داری وغیرہ سب دشمن جان ہو جاتے ہیں۔ خداتعالیٰ شرک کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ کچھ حصہ اس کا ہو اور کچھ غیر کا بلکہ ایک جگہ فرماتا ہے کہ اگر تم کچھ مجھ کو دینا چاہتے ہو اور کچھ بتوں کو تو سب کا سب بتوں کو دےدو۔ ‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ170)

ان الفاظ سے واضح ہو جا تا ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونا آج کیا معنی رکھتا ہے۔ یہاں سیدناحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صحابہ کرام

السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ

کی مثال دےکر بتایا ہے کہ موجودہ زمانہ احمدیوں کے لیے بھی وہی زمانہ ہے جو صحابہ کرامؓ کا تھا جو فتح مکہ سے پہلے اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ جنہوں نے محض اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے تمام رشتہ داریاں اور برادریاں چھوڑ دی تھیں۔ باوجودیکہ انہیں اپنے رشتہ داروں بلکہ اغیار کے ہاتھوں سخت اذیتیں برداشت کرنی پڑی تھیں۔

آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک وہ بز دلی کو نہ چھوڑے گی اور استقلال اور ہمت کے ساتھ الله تعالیٰ کی ہر ایک راہ میں ہر مصیبت و مشکل کے اٹھانے کے لیے تیار نہ رہے گی وہ صالحین میں داخل نہیں ہو سکتی تم نے اس وقت خداتعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ تم دکھ دیئے جاؤ تم کو ستایا جاتا ہے گالیاں سننی پڑتی ہیں قوم اور برادری سے خارج کرنے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ جو جو تکالیف مخالفوں کے خیال میں آسکتی ہیں اس کے دینے کا وہ موقعہ ہاتھ سے نہیں دیتے۔ لیکن اگر تم ان تکالیف اور مشکلات اور ان موذیوں کو خدا نہیں بنایا بلکہ الله تعالیٰ کو خدا مانا ہے تو ان تکالیف کو برداشت کرنے پر آمادہ رہو اور ہر ابتلا ء اور امتحان میں پورے اترنے کے لیے کوشش کرو اور الله تعالیٰ سے اس کی تو فیق اور مدد چاہو تو میں تمہیں یقیناً کہتا ہوں کہ تم صالحین میں داخل ہو کر خدا تعالیٰ جیسی عظیم الشان نعمت کو پاؤ گے اور ان تمام مشکلات پر فتح پا کردارالامان میں داخل ہو جاؤ گے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحه 255)

ابتلاؤں کے مقاصد و ضرورت

خدا تعالیٰ نے تخلیق کائنات کا مقصد اپنی صفات کا اظہار قرار دیا ہے۔ اسی مقصد کے پورا کرنے کے لیے اس نے سلسلہ نبوت کو قائم فرمایا ہے۔ جملہ انبیاء ایک ہی پیغام لے کر آتے رہے ہیں کہ سب انسان خدائے واحد کی عبادت کریں، شرک اور غیر اللہ کی عبادت سے اجتناب اختیار کریں۔ جیسا کہ فرمایا:

وَ لَقَدۡ بَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ … (النحل: 37)

اور یقیناً ہم نے ہر اُمّت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور بتوں سے اجتناب کرو۔

نوع انسان ایک باغ ہے خدا تعالیٰ اس باغ کا مالک ہے۔ انبیا ءاس باغ کے باغبان ہوتے ہیں۔ جو انسان نبیوں کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں وہ روحانی باغ کے چند پودے بن جاتے ہیں۔ نبی اپنی قوت قدسی اور اپنے پاک نمونے سے اپنے اتباع کی تربیت اور تزکیہ نفوس کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے عشق کا زندہ جاوید شعلہ ہوتا ہے جس سے مومنوں کے دلوں میں بھی خدا تعالیٰ کی محبت کی چنگاری شعلہ زن ہو جاتی ہے ان روحانی پودوں کو پھلدار بننے تک مختلف مراحل میں سے گزرنا پڑتا ہے اور اس چنگاری کو عشق کی بھٹی بننے کے لیے کئی قسم کے ابتلا ؤں کے دور عبور کرنے پڑتے ہیں۔

اگرچہ ان لوگوں پر ابتلاؤں کے پہاڑ آتے ہیں تو اس لیے نہیں آتے کہ خدا ان کو تباہ و برباد کرے بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ مومن بندے اور ان کی تربیت کرنے والے انبیاء بہت پیارے ہوتے ہیں۔ وہ خدا ان پر اپنی خوشنودی کی چادر ڈالتا ہے اور ان سے محبت کا خاص سلوک کرتا ہے اور ان سے ہر ایک رتبہ اور مقام کے لحاظ سے اس کے لیے نشان ظاہر کرتا ہے تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ یہ خدا تعالیٰ کے خاص بندے ہیں اور ان کی مخالفت اور تباہی کی کوشش خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے۔

پھر خدا تعالیٰ کا اپنے پیارے بندوں پر ابتلا ڈالنے کا یہ بھی مقصد ہوتا ہے کہ وہ ان کو تمام لوگوں پر غالب کرے اوران کے دشمنوں کو مغلوب کرے یہ ایک ایسی تاریخی صداقت ہے جسے کسی زمانے میں بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

خدا تعالیٰ کا نبیوں اور ان کی جماعتوں سے یہ سلوک ایک ایسا درخشنده برہان، ایک ایسی روشن دلیل ہے جس کو کوئی انصاف پسند انسان رد نہیں کر سکتا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا نبیوں کی تائید میں خدا تعالیٰ کا زبردست ہاتھ کا م کر رہا ہے، زمین و آسمان میں تغیرات کیے جاتے ہیں۔

ہزاروں اَن ہونی باتوں کو ممکن الوقوع بنایا جا تا ہے اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ نبیوں کے کمزور ساتھیوں میں غیر معمولی قوت پیدا کردی گئی ہے۔

پھر ابتلاؤں کا یہ بھی مقصد ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے قول و عمل میں ایسی برکت بخشے جس سے دیکھنے والے دنگ رہ جا ئیں۔ اور پھر اس سے دلوں کی زمین ان کے لیے فتح ہوتی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی نصرت ہر لمحہ ان کے شامل حال رہتی ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ غیر معمولی سلوک ہر کھلی آنکھ دیکھتی ہے۔ ہر محسوس کرنے والا دل محسوس کرتا ہے اور زبانیں بے ساختہ پکار اٹھتی ہیں۔

کبھی نصرت نہیں ملتی در مولی سے گندوں کو

کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو

خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے ایسا سلوک کیوں کرتا ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ ان مومنوں کا دوست ہوتا ہے اور وہ اس کے دوست ہوتے ہیں اور دوستی کا تقاضا ہے کہ ہر دوست دوسرے کی بات گاہے بگاہے مانے اور کبھی ایک دوسرے کی خاطر اپنی مرضی کوبھی چھوڑ دے۔

خدا تعالیٰ کا منشایہ ہوتا ہے کہ تا وہ دیکھے کہ ان کے کونسے ایسے بندے ہیں جو اس کی مرضی پر اپنی تمام خواہشات کو قربان کر رہے ہیں۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے برگزیدوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی اس قدیم سنت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ خدا ان پر سب سے زیادہ مصیبتیں نازل کرتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ تباہ ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ تا زیادہ سے زیادہ پھل اور پھول میں ترقی کریں۔ ہریک جو ہر قابل کے لئے یہی قانون قدرت ہے کہ اول صدمات کا تختۂ مشق ہوتا ہے۔ مثلاً اس زمین کو دیکھو جب کسان کئی مہینہ تک اپنی قلبہ رانی کا تختہ مشق رکھتا ہے اور ہل چلانے سے اس کا جگر پھاڑتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ زمین جو پتھر کی طرح سخت اور درشت معلوم ہوتی تھی سرمہ کی طرح پس جاتی ہے اور ہوا اس کو ادھر ادھر اڑاتی ہے اور پریشان کرتی رہتی ہے اور وہ بہت ہی خستہ شکستہ اور کمزور معلوم ہوتی ہے اور ایک انجان سمجھتا ہے کہ کسان نے چنگی بھلی زمین کو خراب کر دیا اور بیٹھنے اور لیٹنے کے لائق نہ رہی لیکن اس دانا کسان کا فعل عبث نہیں ہوتا۔ وہ خوب جانتا ہے کہ اس زمین کا اعلیٰ جوہر بجز اس درجہ کی کوفت کے نمودار نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح کسان اس زمین میں بہت عمدہ قسم کے دانے تخم ریزی کے وقت بکھیر دیتا ہے اور وہ دانے خاک میں مل کر اپنی شکل اور حالت میں قریب قریب مٹی کے ہوجاتے ہیں اور ان کا وہ رنگ و روپ سب جاتا رہتا ہے۔ لیکن وہ دانا کسان اس لئے ان کو مٹی میں نہیں پھینکتا کہ وہ اس کی نظر میں ذلیل ہیں۔ نہیں بلکہ دانے اس کی نظر میں نہایت ہی بیش قیمت ہیں۔ بلکہ وہ اسلئے ان کو مٹی میں پھینکتا ہے کہ تا ایک ایک دانہ ہزار ہزار دانہ ہوکر نکلے اور وہ بڑھیں اور پھولیں اور ان میں برکت پیدا ہو اور خدا کے بندوں کو نفع پہنچے۔ پس اسی طرح وہ حقیقی کسان کبھی اپنے خاص بندوں کو مٹی میں پھینک دیتا ہے اور لوگ ان کے اوپر چلتے ہیں اور پیروں کے نیچے کچلتے ہیں اور ہریک طرح سے ان کی ذلت ظاہر ہوتی ہے۔ تب تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانے سبزہ کی شکل پر ہوکر نکلتے ہیں اور ایک عجیب رنگ اور آب کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں جو ایک دیکھنے والا تعجب کرتا ہے۔ یہی قدیم سے برگزیدہ لوگوں کے ساتھ سنت اللہ ہے‘‘

(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9صفحہ 52تا53)

مومنین کی جماعت پر ابتلا آنے کا فلسفہ

مومنین پر جو ابتلاآتے ہیں ان کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:

’’ ابتلاء جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلّت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سے کرکے اُن کو دکھاتا ہے یہ ابتلاء اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحۂ عالم سے ان کا نام و نشان مٹا دیوے کیونکہ یہ تو ہرگز ممکن ہی نہیں کہ خداوند عزوجل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور اپنے سچےؔ اور وفادار عاشقوں کو ذلّت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے بلکہ حقیقت میں وہ ابتلاء کہ جو شیر ببر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے اس لئے نازل ہوتا ہے کہ تا اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پُہنچاوے اور الٰہی معارف کے باریک دقیقے اُن کو سکھاوے۔ یہی سنت اللہ ہے۔ جو قدیم سے خدائے تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے زبور میں حضرت داؤد کی ابتلائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آزمائش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریبانہ تضرّعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخر الرسل کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتہالات اسی قانون قُدرت کی تصریح کرتے ہیں اگر یہ ابتلاء درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء اُن مدارج عالیہ کو ہرگزنہ پا سکتے کہ جو ابتلاء کی برکت سے اُنہوں نے پالئے۔ ابتلاء نے اُن کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے اور جانفشانی کی عادت پر مہر لگا دی اور ثابت کر دکھایا کہ وہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں اور کیسے سچّے وفادار اور عاشق صادق ہیں کہ ان پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزلے اُن پر وارد ہوئے اور وہ ذلیل کئے گئے اور جھوٹوں اور مکّاروں اور بے عزّتوں میں شمار کئے گئے اور اکیلے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربّانی مددوں نے بھی جن کا ان کو بڑا بھروسہ تھا کچھ مُدّت تک منہ چھپالیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی مربیانہ عادت کو بہ یکبارگی کچھ ایسا بدل دیا کہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے اور ایسا انہیں تنگی و تکلیف میں چھوڑ دیا کہ گویا وہ سخت مورد غضب ہیں اور اپنے تئیں ایسا خشک سا دکھلایا کہ گویا وہ اُن پر ذرا مہربان نہیں بلکہ اُن کے دشمنوں پر مہربان ہے اور اُن کے ابتلاؤں کا سلسلہ بہت طول کھینچ گیا ایک کے ختم ہونے پر دوسرا اور دوسرے کے ختم ہونے پر تیسرا ابتلاء نازل ہوا غرض جیسے بارش سخت تاریک رات میں نہایت شدّت و سختی سے نازل ہوتی ہے ایسا ہی آزمائشوں کی بارشیں اُن پر ہوئیں پر وہ اپنے پکے اور مضبوط ارادہ سے باز نہ آئے اور سُست اور دل شکستہ نہ ہوئے بلکہ جتنا مصائب و شدائد کا بار اُن پر پڑتا گیا اتنا ہی انہوں نے آگے قدم بڑھایا اور جس قدر وہ توڑے گئے اُسی قدر وہ مضبوط ہوتے گئے اور جس قدر اُنہیں مشکلات راہ کا خوف دلا یا گیا اُسی قدر اُن کی ہمت بلند اور ان کی شجاعت ذاتی جوش میں آتی گئی بالآخر وہ ان تمام امتحانات سے اول درجہ کے پاس یافتہ ہوکر نکلے اور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہوگئے اور عزّت اور حُرمت کا تاج اُن کے سر پر رکھا گیا اور تمام اعتراضات نادانوں کے ایسے حباب کی طرح معدوم ہوگئے کہ گویا وہ کچھ بھی نہیں تھے‘‘

(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد2صفحہ 457تا460)

ابتلاؤں کے بعد نصرت الٰہی

خدا تعالیٰ کا اپنے پیارے بندوں سے یہ سلوک نادانوں کی نظر میں قابل اعتراض ہوتو ہومگرعشق و محبت کی چاشنی رکھنے والے تو اس سے مزا لیتے ہیں۔ یہ سلوک اور پھر اس کے باوجود اہل ایمان کا والہانہ ایثار اور ان کی فدائیت حساس دل پر گہرا اثر کرتی ہے۔ کیسا شاندار دو گونه امتزاج ہے کہ ہمارا آسمانی آقا دشمنوں کے مقابلہ میں ان کمزوروں کو وہ نصرت دیتا ہے کہ بیگانے بھی حیران و ششدر ہوتے ہیں مگر اپنی محبت کی چنگاری کو زیادہ روشن کرنے کے لیے ان پر ابتلا ؤں کے پہاڑ بھی گرادیتا ہے۔

خدا تعالیٰ مسلمانوں کو اپنی اس سنت مستمرہ سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ابتلا ؤں کے بعد نصرت آئے گی فر مایا:

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ (البقرة: 215)

کیا تم گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے جبکہ ابھی تک تم پر اُن لوگوں جیسے حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ انہیں سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ ہلا کر رکھ دیئے گئے یہاں تک کہ رسول اور وہ جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ سنو! یقیناً اللہ کی مدد قریب ہے۔

یہ الٰہی نصرت ابتلاؤں قربانیوں کے دَور کے بعد آتی ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ وہ جو کسی ابتلا سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اُس کو جہنم تک پہنچائے گی اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اُس کے لئے اچھا تھا۔ مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے اُن پر کھولے جائیں گے۔ ‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ309)

ابتلاؤں میں ایک عظیم راز

خدا تعالیٰ کے اس پُر حکمت طریق میں کہ وہ اپنے محبوب بندوں کو مختلف ابتلاؤں میں مبتلا کرتا ہے ایک اور عظیم الشان رازبھی ہے اور یہ راز درحقیقت خدا تعالیٰ کی اس محبت پر دلیل ہے جو اسے ان محبوب بندوں سے ہوتی ہے۔ وہ ان اولیاء اور صلحاء کو اغیار کی نظروں سے مخفی رکھنا چاہتا ہے اس لیے انہیں ایسے حالات میں سے گذارتا ہے جن میں دوسرے فوائد کے علاوہ یہ فائدہ بھی حاصل ہو جاتا ہے کہ خدا کے یہ برگزیدہ بندے غیروں کی نظر سے مستور ہو جاتے ہیں اور غیر اپنی شامت اعمال کے باعث انہیں اپنے اعتراضات کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس لطیف راز کو یوں بیان فرماتے ہیں:

’’اورچونکہ خدا کی غیرت عام طور پر اپنے بندوں کو انگشت نما نہیں کرنا چاہتی اس لئے جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے خدا اپنے خاص اور پیارے بندوں کو بیگانہ آدمیوں کی نظر سے کسی نہ کسی ظاہری اعتراض کے نیچے لاکر محجوب اور مستور کر دیتا ہے تا اجنبی لوگوں کی اُن پر نظر نہ پڑسکے اور تا وہ خدا کی غیرت کی چادر کے نیچے پوشیدہ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کامل انسان پر جو سراسر نور مجسم ہیں اندھے پادریوں اور نادان فلسفیوں اور جاہل آریوں نے اِس قدر اعتراض کئے ہیں کہ اگر وہ سب اکٹھے کئے جائیں تو تین ہزار سے بھی کچھ زیادہ ہیں پھر کسی دوسرے کو کب امید ہے کہ مخالفوں کے اعتراض سے بچ سکے اگر خدا چاہتا تو ایسا ظہور میں نہ آتا مگر خدا نے یہی چاہا کہ اُس کے خاص بندے دنیا کے فرزندوں کے ہاتھ سے دُکھ دئیے جائیں اور ستائے جائیں اور اُن کے حق میں طرح طرح کی باتیں کہی جائیں۔ ‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 346تا347)

پھرآپؑ فرماتے ہیں:

’’اس اندھی دنیا میں جس قدر خدا کے ماموروں اور نبیوں اور رسولوں کی نسبت نکتہ چینیاں ہوتی ہیں اور جس قدر اُن کی شان اور اعمال کی نسبت اعتراض ہوتے ہیں اور بدگمانیاں ہوتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں وہ دنیا میں کسی کی نسبت نہیں ہوتیں اور خدا نے ایسا ہی ارادہ کیا ہے تا اُن کو بدبخت لوگوں کی نظر سے مخفی رکھے اور وہ ان کی نظر میں جائے اعتراض ٹھہر جائیں کیونکہ وہ ایک دولت عظمیٰ ہیں اوردولت عظمیٰ کو نااہلوں سے پوشیدہ رکھنا بہتر ہے۔ اِسی وجہ سے خدائے تعالیٰ اُن کو جو شقی ازلی ہیں اُس برگزیدہ گروہ کی نسبت طرح طرح کے شبہات میں ڈال دیتا ہے تا وہ دولتِ قبول سے محروم رہ جائیں۔ یہ سنت اللہ ان لوگوں کی نسبت ہے جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے امام اور رسول اور نبی ہوکر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس قدر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت دشمنانِ حق نے طر ح طرح کے اعتراض تراشے ہیں اور طرح طرح کی عیب جوئی کی ہے وہ باتیں کسی معمولی صالح کی نسبت ہرگز تراشی نہیں گئیں۔ کونسی تہمت ہے جو اُن پر نہیں لگائی گئی اور کونسی نکتہ چینی ہے جو اُن پر نہیں کی گئی۔ پس چونکہ تما م تہمتوں کا معقولی طورپر جواب دینا ایک نظری امر تھااور نظری امور کا فیصلہ مشکل ہوتاہے اور تاریک طبع لوگ اُس سے تسلی نہیں پکڑتے۔ اس لئے خدائے تعالیٰ نے نظری راہ کو اختیار نہیں کیا اور نشانوں کی راہ اختیار کی اور اپنے نبیوں کی بریّت کے لئے اپنے تائیدی نشانوں اور عظیم الشان نصرتوں کو کافی سمجھا۔ کیونکہ ہر ایک غبی اور پلید بھی باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اگر نعوذ باللہ ایسے ہی نفسانی آدمی اور مفتری اور ناپاک طبع ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ ان کی نصرت کے لئے ایسے بڑے بڑے نشان دکھائے جاتے…‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21صفحہ89تا90)

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان عبارتوں سے بالبداہت ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مقبول بندے نا اہلوں سے مخفی رکھے جاتے ہیں اور گندی فطرت کے لوگ ان پر قسم قسم کے ناپاک اعتراضات کرتے رہتے ہیں۔ ان سب باتوں کا جواب خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ عظیم الشان نصرتیں ہوتی ہیں جو مقربانِ بارگاه ایزدی کے شامل حال ہوتی ہیں۔ بہرحال انبیاء، خلفاء اور اولیاء پر دَور ابتلا ضرور آتا ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کی زبردست حکمتیں ہوتی ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button