متفرق

موجود ہ دور میں تربیت اولاد کے تقاضے

(نجم السحر صدیقی۔ جرمنی)

میرا یہ مضمون ان تمام بہنوں کے لیے ہےجو اس وقت کسی بھی ملک میں مقیم ہیں اور جو بفضل خدا تعالیٰ شادی شدہ ہیں اور اچھی مائیں ہونےکا حق ادا کر رہی ہیں اور ان بچیوں سے بھی مخاطب ہوں جو مستقبل میں مائیں بننے والی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ہم پر بے حد فضل و احسان ہیں کہ ہمیں امام وقت کو پہچاننے او ر ماننے کی توفیق ملی۔ آج کل نفسا نفسی کے اس دور میں جہاں چاروں طرف سے شیطانوں کے حملے ہم پر ہو رہے ہیں ان حالات میں متقی وہی ہے جو خود صراط مستقیم پر چلے اور اپنی اولاد کو بھی اس پر گامزن رکھے۔ ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق عظیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہیں ،جن کی بیش قیمت نصائح روحانی خزائن کے طور پر ہماری ہدایت کے لیے موجود ہیں۔ جن پر عمل کرکے ہم شیطانی حملوں سے بچ سکتے ہیں۔ اور ان کے بعد حضور علیہ السلام کے خلفاء کی وہ باتیں جو انسانی دماغ کے بند دروازوں کو کھولنے کے لیے ایک مضبوط کڑی ہیں اور رہتی دنیا تک ہماری دینی اور روحانی تربیت کے لیے وہ عمدہ پھل ہے جسے ہم جتنا کھائیں گے اتنا ہی روحانی ترقی کرتے جائیں گے۔ سب سے بڑا ہدایت کا سرچشمہ تو قرآن کریم ہے جس میں وہ تمام باتیں موجود ہیں جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتی ہیں ۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

اَلْمَالُ وَالْبَنُـوْنَ زِيْنَةُ الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا۔ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْـرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْـرٌ اَمَلًا ۔

ترجمہ: مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے طور پر بہتر اور امنگ کے لحاظ سے بہت اچھی ہیں۔

(سورۃ الکہف :47ترجمہ :بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ)

اس آیت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اولاد اور مال دے کر آزماتا ہے ۔ یہ سب دنیا کی زینت ہیں۔اگر ہم اپنے بچوں سے بے جا لاڈ پیار کریں گے اور ان کی ہر خواہش کو پورا کرنے کے چکر میں غلط راستے اپنائیں گے تو وہ وقت دور نہیں جب احمدی ماؤں کی گودوں میں پلنے والے بچے مغربی معاشرے سے متاثر ہوکر احمدیت سے دور ہوتے جائیں گے۔ہمیں اپنی پیدائش کے مقصد کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ اور وہ مقصد کیا ہے وہ عبادت ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۔

ترجمہ: اور میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں

( سورۃ الذّٰ ریٰت :57)

ایک شادی شدہ جوڑے کے لیے اولاد کی نعمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بیش بہا خزانے سے کم نہیں ۔ اور اولاد نہ ہونے کا غم تو صرف بے اولاد لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں ۔مگر جب اللہ تعالیٰ کسی جوڑے کو اولاد جیسی عظیم اور انمول نعمت سے نوازتا ہے تو اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کی دی ہوئی نعمت کی اچھے رنگ میں تربیت کرے تاکہ وہ بچہ بڑا ہو کر دیندار بنے۔ اللہ کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرنے والا بنے۔ اوریہ کیسے ممکن ہے؟ یہ اس وقت ممکن ہے جب والدین اس بچے کی احسن رنگ میں تربیت کریں، اسے دین اور دنیا کی تعلیم دیں۔ اسے اچھے اوربرے میں فرق کرنا سکھائیں۔ اسے اخلاق فاضلہ کی تعلیم دیں تاکہ جب وہ بچہ بڑا ہو تو وہ ہر غلط اور صحیح بات کی تمیز کر سکے۔ اسے یہ پتہ ہو کہ میرے والدین نے مجھے بچپن میں کیا سکھایا تھا ۔کہتے ہیں کہ بچپن میں پڑھایا ہوا سبق انسان کو کبھی نہیں بھولتا۔ ہر بچے کی تربیت کا بہترین وقت اس کے بچپن کا زمانہ ہوتا ہے ۔بچپن میں بچہ ایک خالی برتن کی طرح ہوتا ہے جس میں ہم اچھی باتیں بھی بھرسکتے ہیں اور غلط باتیں بھی بھر سکتے ہیں ۔ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر ماں باپ ہی اسے ہندو، عیسائی اور مسلمان بناتے ہیں ۔بچے کی فطرت میں نیکی پائی جاتی ہے۔آہستہ آہستہ وہ بڑا ہوتا ہے اور ماحول کا اثر قبول کرتا ہے ۔اگر اس کی شروع سے ہی اچھے رنگ میں تربیت ہوئی ہو تو وہ معاشرے کا اثر نہیں لیتا چاہےشیطان اس کو جتنا بھی بہکائے۔

بچوں کی تربیت کے سلسلے میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور خلفائے احمدیت کے چند ارشادات پیش خدمت ہیں جن پر عمل کرکے ہم بچوں کی اچھی رنگ میں تربیت کر سکتے ہیں ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعویٰ ہی ہوگا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ پیدا کرے۔ اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے ہے اور منہ سے یہ کہتا ہے کہ میں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اپنے اس دعویٰ میں کذاب ہے ۔صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی متقیانہ زندگی بناوے تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہو گی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہو گی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں۔ لیکن اگر یہ خواہش صرف اس لیے ہو کہ ہمارا نام باقی رہے اور وہ ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہو یا وہ بڑی ہی نامور اور مشہور ہو ،اس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے‘‘ ۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 561، ایڈیشن 2010ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’پس وہ کام کرو جو اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور سبق ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے اول خود اپنی اصلاح کرو۔ اگر تم اعلیٰ درجے کے متقی اور پرہیزگار بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ444۔445)

اسی طرح والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ باقاعدگی اور التزام کے ساتھ اپنے بچوں کے لیے دعا کرتے رہیں چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں جس میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا‘‘۔

(ملفوظات ،جلد اول صفحہ526)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’ہر مرد عورت کی جب شادی ہوتی ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے اولاد ہو۔ اگر شادی کو کچھ عرصہ گزر جائے اور اولاد نہ ہو تو بڑی پریشانی کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ مجھے بھی احمدیوں کے کئی خط روزانہ آتے ہیں جن میں اس پریشانی کا اظہار ہوتا ہے ،دعا کے لیے کہتے ہیں ۔لیکن ایک احمدی کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اولاد کی خواہش ہمیشہ اس دعا کے ساتھ کرنی چاہئے کہ نیک صالح اولاد ہو جو دین کی خدمت کرنے والی ہو اور اعمالِ صالحہ بجا لانے والی ہو ۔اس کے لئے سب سے ضروری بات والدین کے لیے یہ ہے کہ وہ خود بھی اولاد کے لئے دعا کریں اور اپنی حالت پر بھی غور کریں۔ بعض ایسے ہیں جب دعا کے لیے کہیں اور ان سے سوال کرو کہ کیا نمازوں کی طرف تمہاری توجہ ہوئی ہے ،دعا ئیں کرتے ہو؟ تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح توجہ ہونی چاہئے اس طرح نہیں ہے ۔ مَیں اس طرف بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ اولاد کی خواہش سے پہلے اور اگر اولاد ہے تو اس کی تربیت کے لئے اپنی حالت پر بھی غور کرنا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ جب اولاد سے نوازے یا جو اولاد موجود ہے وہ نیکیوں پر قدم مارنے والی ہو اور قرۃ العین ہو‘‘۔

(الازھار لذوات الخمار ،جلد سوم حصہ دوم ،صفحہ 60 )

اچھے والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں پر بڑی گہری نظر رکھیں۔ اولاد پیدا ہونے کے بعدسے ہی اچھے ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچے کی اچھے رنگ میں تربیت کریں ۔اگر ہم خود نیک بنیں گے اور اچھے کام کریں گے وقت پر نماز ادا کریں گے تو یقینا ًہمارے بچےبھی ہماری صحبت میں رہ کر نیک صالح بنیں گے۔ اس لیے یہ عمل بہت ضروری ہے کہ بچپن سے ہی ہمیں اپنے بچوں کی اچھے رنگ میں تربیت کرنی چاہیے۔

بچپن میں تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دینے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہے کہ دینی علوم کی تحصیل کے لیے طفولیت کا زمانہ بہت ہی مناسب اور موزوں ہے جب داڑھی نکل آئی تب ضَرَبَ یَضْرِبُ کرنے بیٹھے تو کیا خاک ہوگا ۔طفولیت کا حافظہ تیز ہوتا ہے انسانی عمر کے کسی دوسرے حصے میں ایسا حافظہ کبھی نہیں ہوتا ۔ پہلی عمر میں علم کے نقوش ایسے طور پر اپنی جگہ کر لیتے ہیں اور قویٰ کے نشو نما کی عمر ہونے کے باعث ایسے دل نشین ہو جاتے ہیں کہ پھر ضائع نہیں ہو سکتے ۔یہ ایک طویل عمل ہے ۔مختصر یہ تعلیمی طریق میں اس امر کا لحاظ اور خاص توجہ چاہیے کہ دینی تعلیم ابتداء سے ہی ہو اور میری ابتداء سے یہی خواہش رہی ہے ۔اگر مسلمان پورے طور پر اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہ کریں گے تو میری بات سن رکھیں کہ ایک وقت ان کے ہاتھ سے بچے بھی جاتے رہیں گے‘‘۔

( ملفوظات جلد اول صفحہ 70۔71 ایڈیشن 2010ء)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button