متفرق مضامین

حیا کیا ہے؟ ایمان کا حصہ کیسے ہے؟ (قسط نمبر 9)

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

قرآن و حدیث اور ارشادات حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے کرام کی روشنی میں ا س کا تعارف

امّ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا

حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مدینہ کے یہودی قبیلہ بنونضیر کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں۔ جنگ خیبر کے دوران کچھ لوگ قید ہوئے جن میں ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیاکہ یا رسول اللہؐ ! صفیہؓ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی شہزادی ہیں، وہ آپؐ کے علاوہ کسی اور کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت صفیہؓ پیش ہوئیں تو آپؐ نے ان کی تکریم کی اور فرمایا کہ تم اپنے دین پر رہنا چاہو تو تمہیں اس کا پورا اختیار ہے، تم پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں۔ ہاں ! اگر اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرو تو اس میں بہر حال تمہاری بھلائی ہے۔ صفیہؓ نے کہا میں آپؐ کو سچا سمجھتی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: میں سچا ہوں مگر جو میں نے بتایا ہے اس کے پیش نظر فیصلہ تمہارے اختیار میں ہے۔ چنانچہ صفیہؓ نے اللہ، اس کے رسول اور اسلام کو اختیار کر لیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف انہیں آزاد کر دیا بلکہ انہیں یہ بھی اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو آپؐ کے عقد میں آسکتی ہیں اور اگر چاہتی ہیں تو اپنے خاندان والوں کے پاس بھی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں آنے کو ترجیح دی۔ آپؐ نے ان کو اپنی زوجیت میں لے لیا۔ بار بار اور مسلسل ایسے حالات پیدا ہوتے رہے کہ کوئی نہ کوئی دوسری راہ حضرت صفیہؓ کے سامنے آتی رہی جس کی وجہ سے آپؓ کا رخ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری طرف بھی مڑ سکتا تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے آپؓ کی سمت وہی معین کیے رکھی جو اُس کی تقدیر کے تحت آپؓ کو خواب میں بتائی گئی تھی۔

(ماخوذ از ازواج مطہرات و صحابیات کا انسائیکلوپیڈیاصفحہ213تا214)

خاص حجاب کا اہتمام

حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب اپنے اقرباء اور اپنی آزادی پر اللہ اور اس کے رسولؐ کو ترجیح دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں آنا پسند فرمایا تو صحابہؓ اس انتظار میں تھے کہ اگر آپؐ حضرت صفیہؓ کو پردے میں لے آئے تو پھر وہ امہات المومنین میں سے ہوں گی اور اگر پردہ نہ کرایا تو پھر کنیز کے طور پر ہوں گی کیونکہ اس زمانہ کے عرب رواج کے مطابق لونڈیوں کو اپنے مالکوں کے کام کاج اور سودا سلف وغیرہ لانے کی مجبوریوں سے گھر سے باہر بھی جانا پڑتا تھا۔ ان کا پردہ نسبتاً نرم اور ہلکا ہوتا تھا جبکہ شریف خاندانوں اور بالخصوص ازواج النبیؐ کا پردہ معیاری و مثالی اور ایک عمدہ نمونہ تھا۔ جس میں چہرے کے پردے کا خاص اہتمام بھی شامل تھا۔ لونڈی کے پردےکا شریف بیبیوں کے پردے سے فرق کا اشارہ سورت الاحزاب کی آیت

ذَالِکَ أَ دْنٰٓی اَنْ یُّعْرَ فْنَ فَلَا یُؤْ ذَ یْنَ (الاحزاب60)

میں بھی موجود ہے۔ یعنی مومن عورتیں چادر کے گھونگھٹ کا پردہ اختیار کریں جو اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور انہیں کوئی ایذا نہ دی جا سکے۔

حضرت ابن ِ عباسؓ اس آیت کا یہ پس منظر بیان کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں عرب عورتوں کا لباس بلا امتیاز آزاد عورت یا لونڈی ایک قسم کا ہوتا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو چادر لینے کا حکم دیا کہ وہ لونڈیوں جیسا لباس نہ رکھیں۔ اس پردے کا مدینہ کے اوباش بھی لحاظ کیا کرتے تھے۔ گھونگھٹ والی چادر کا پردہ معزز خواتین کے لیے ایسا مخصوص ہواکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے زمانۂ خلافت میں کسی لونڈی کو اس پردہ کے اختیار کرنے کی اجازت نہ دیتے اور فرماتے تھے کہ گھونگھٹ والی چادر کا پردہ آزاد عورتوں کے لیے ہے تاکہ وہ کسی چھیڑ خانی اور ایذا رسانی سے بچ سکیں۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی کو ایسا پردہ کیے دیکھا تو اسے سختی سے اس سے روک کر فرمایا کہ آزاد عورتوں سے مشابہت اختیار نہ کرو۔

حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چونکہ اسیرانِ جنگ میں سے تھیں، انہیں حرم میں شامل کرنے کے لیے کسی الگ اعلان نکاح کی ضرورت نہیں تھی جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ

’’اگر وہ (لونڈیوں )مکاتبت کا مطالبہ نہ کریں تو ان کو بغیر نکاح کے اپنی بیوی بنانا جائز ہے یعنی نکاح کے لئے ان کی لفظی اجازت کی ضرورت نہیں۔ ‘‘

چنانچہ صحابہ کرامؓ قیاس آرائیاں کرنے لگے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہؓ کو محض ایک لونڈی کے طور پر قبول فرمایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے پردہ کا خاص اہتمام نہیں کروائیں گے اور اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ اور اُمّ المومنین ہیں تو ان سے دیگر ازواج جیسا مثالی پردہ کروایا جائے گا۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ازواج مطہرات جیسا ہی پردہ کروایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فعل اعلانِ نکاح و شادی سمجھا گیا اور صحابہؓ کی تشّفی ہو گئی۔

(ماخوذ از ازواج النبیؐ، حضرت صفیہؓ، صفحہ 187)

اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنی ایک بیوی کے ساتھ جن کا نام حضرت صفیہ تھا شام کے وقت گزر رہے تھے کہ دو آدمی سامنے سے آ رہے ہیں اور آپ کو کسی وجہ سے شبہ ہوا کہ ان کے دل میں شاید یہ خیال پیدا ہو کہ میرے ساتھ کوئی اور عورت ہے ان کی بیوی کا چہرہ ننگا کر دیا کہ دیکھ لو یہ صفیہ ہے اگر منہ کھلا رکھنے کا حکم ہوتا تو اس قسم کا خطرہ کا کوئی احتمال نہیں ہوسکتا تھا۔

(ماخوذ از اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلداول صفحہ 202)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’…بخاری کی ایک اور حدیث حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ عسفان سے واپسی کے وقت ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اونٹنی پر حضرت صفیہؓ بیٹھی ہوئی تھیں۔ اونٹنی کے ٹھوکر کھانے کی وجہ سے دونوں گر پڑے اور ابو طلحہؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دینے کے لئے لپکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت کا خیال کرو۔ یعنی مجھے چھوڑو۔ میرا احترام اور عزت اپنی جگہ مگر جہاں حادثے ہوں وہاں سب سے پہلے عورت کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس سے ایک تو یہ پتہ چلتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں صنفِ نازک کا کتنا خیال تھا۔ سب سے دنیا کی مقدس سب سے معزز ہستی خود وہ تھے اور تبھی خیال گزرتا ہے کہ اگر بچانا ہے تو سب سے پہلے آپؐ کو بچایا جائے لیکن وہ جو بے اختیار بچانے کے لئے آپؐ کی طرف دوڑا ہے اس کو کہا عورت کا خیال کرو عورت کا خیال کرواور حضرت ابو طلحہؓ نے خیال کیسے رکھا؟ احادیث میں یہ آتا ہے کہ آپؓ نے اپنے چہرے پر پردہ ڈالا اور حضرت صفیہؓ پر چادر پھینکی اور جب ان کا جسم سنبھل گیا اور پردے میں آگیا تب ان کی مدد کی کہ وہ اٹھیں اور محفوظ جگہ پر پہنچیں۔ ‘‘

(حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے مستورات سے خطابات، خطاب8؍ستمبر1995ء، اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد 2صفحہ438تا439)

امّ المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا

حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد اور قبیلہ ٔقریش کی سید زادی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے الٰہی منشاکے تابع ہو نےوالی اس با برکت شادی کے موقع پر نہایت عمدہ اور خصوصی دعوتِ ولیمہ کا انتظام کیا۔ حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت زینبؓ بنت جحش کی شادی کے موقع پر حضورؐ نے بہت لوگوں کو دعوت دے کر بلایا۔ لوگ باری باری دس دس کی ٹولیوں کی صورت میں حضرت زینبؓ کے لیے تیار کیے گئے کمرے میں آتے اور کھانا کھا کر چلے جاتے۔ آخر میں کچھ لوگ کھانا کھا کر وہیں بیٹھ رہے اور اِدھر اُدھر کی باتوں میں مصروف ہو گئے۔ اس موقع پر حضورؐ کئی دفعہ اس کمرے کے پاس آکر اس انداز میں کھڑے ہوئے جیسے انسان مجلس برخاست کرنے کے لیے اٹھتا ہے، لیکن بعض احباب پھر بھی بیٹھے رہے حتی کہ آنحضورؐ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔ اس موقع پر سورت الاحزاب کی آیت حجاب اتری۔ جس میں دعوتوں وغیرہ کے موقع پر بعض دیگر احکام بھی ارشاد کرتے ہوئے فرمایا کہ

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو!نبی کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کی دعوت دی جائے مگر اس طرح نہیں کہ اس کے پکنے کا انتظار کر رہے ہو لیکن (کھانا تیار ہونے پر)جب تمہیں بلایا جائے تو داخل ہو اور جب تم کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور وہاں (بیٹھے) باتوں میں نہ لگے رہو۔ یہ (چیز)یقینا ًنبی کے لئے تکلیف دہ ہے مگر وہ تم سے (اس کے اظہارپر)شرماتا ہے اور اللہ حق سے نہیں شرماتا۔ اور اگر تم اُن (ازواجِ نبی)سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ (طرزِ عمل) ہے۔ اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچاؤ اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ اس کے بعد کبھی اُس کی بیویوں (میں سے کسی)سے شادی کرو۔ یقیناً اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے۔

(الاحزاب: 54)

(ماخوذ از ازاوج النبیؐ، حضرت زینبؓ بنت جحش، صفحہ 142تا143)

حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت جحش پہلی خاتون ہیں جن کی قبر پر شامیانہ لگایا گیا اور ان کے جسد خاکی کے لیے تابوت بنایا گیا تاکہ نامحرموں کی نظروں سے جسم اطہر بچا رہے۔

(ازدواج مطہرات و صحابیات کا انسائیکلوپیڈیاصفحہ 155تا156)

امہات المومنینؓ کا ارشاد تھا کہ انہیں قبر کے سپرد وہی افرادکریں گے جو زندگی میں ان کے پاس آتے جاتے تھے یعنی جن سے شرعاًپردہ نہ تھا۔ چنانچہ حضرت اسامہ بن زید، محمد بن عبداللہ بن جحش، عبداللہ بن احمد، محمد بن طلحہ بن عبداللہ نے حضرت زینب کو جنت البقیع میں قبر میں اتارا۔ جب نعش قبر میں اتاری جانے لگی تو کپڑا تان کر پردہ کر لیا گیا۔

(زینب بنت جحشؓ صفحہ31تا32شائع کردہ لجنہ اماء اللہ)

ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا

حضرت سودہؓ چونکہ دراز قد کی وجہ سے پہچانی جاتی تھیں۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے آپؓ کو پہچان لیا اور کہا سودہ، ہم نے تم کو پہچان لیا۔ یہ جملہ حضرت سودہؓ کو ناگوار گزرا۔ آپؓ نے نبی کریمؐ سے اس کی شکایت کی۔ اس واقعہ کے بعد پردہ کی آیت نازل ہوئی۔

(بحوالہ سیرت حضرت سودہؓ صفحہ 14۔ ماخوذ از ازواج مطہرات و صحابیات کاانسائیکلوپیڈیاصفحہ90)

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی ازواج کو فرمایا ’’میرے بعد گھر میں بیٹھنا ‘‘حضرت سودہؓ اور حضرت زینب بنت جحشؓ نے اس قدر سختی سے اس پر عمل فرمایا کہ اس کے بعد کبھی حج کے لیے بھی نہیں گئیں۔

(بحوالہ ازواج مطہرات و صحابیات کا اانسائیکلوپیڈیاصفحہ 91 )

ایک بارحضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی گئی کہ آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ باقی ازواج کی طرح حج کرتی ہیں نہ عمرہ؟ تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ میں نے حج و عمرہ کر لیا ہے۔ چونکہ میرے ربّ نے مجھے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا ہے لہٰذا خدا کی قسم! اب میں پیامِ اجل(موت)آنے تک گھر سے باہر نہ نکلوں گی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم! آپ رضی اللہ عنہا گھر کے دروازے سے باہر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا گیا۔

(ماخوذ بحوالہ سیرت حضرت سودہؓ صفحہ 8ازواج مطہرات و صحابیات کا

انسائیکلوپیڈیاصفحہ89تا90۔درمنثور،پارہ22الاحزاب،تحت آیت33)

اُمّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

پردے کے متعلق احکامات کی وضاحت میں حضرت حفصہؓ کی ایک روایت سے بہت سی باتوں کا علم ہوتا ہے۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ ہم کنواری لڑکیوں کو باہر نکلنے سے روکتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک عورت آئی اور قصر بن خلق میں اتری۔ اس نے بتایا کہ اس کی ایک بہن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کی بیوی تھیں۔ وہ صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ 12 غزوات میں شریک ہوئے تھے اور ان کی بیوی 6 غزوات میں شریک تھیں۔ میری بہن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا ہمارے باہر نکلنے میں کوئی حرج ہے جب کہ کسی کے پاس چادر نہ ہو۔ فرمایا: اس کی سہیلی اُسے چادر اوڑھا دے اور ہر نیکی کے کام میں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہو۔

(حضرت حفصہؓ از امۃ الباری ناصر صاحبہ، صفحہ 11تا12)

امّ المومنین حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شاہان عرب وعجم کو اسلام کی دعوت دی تو قبطی قوم کے عظیم راہ نما مقوقس والیٔ مصر کو بھی ایک خط لکھا۔ مقوقس نے حضورؐ کے خط کا بہت احترام کیا اور خیر سگالی کے طور پر خط کے جواب کے ساتھ قبطی قوم کی عالی نسل کی دولڑکیاں بھی تحفتاً بھجوائیں۔ ایک ان میں سے حضرت ماریہؓ تھیں جن کو آنحضرتؐ کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت ماریہؓ کے بطن سے حضورؐ کے فرزند ابراہیم پیدا ہوئے جو کم سنی میں ہی وفات پاگئے۔ پھر چونکہ حضرت ماریہؓ کسی جنگ میں اسیر ہوکر نہیں آئی تھیں اس لیے ان کی آزاد حیثیت برقرار تھی اور وہ ملک یمین قرار نہیں پاسکتی تھیں۔ یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماریہؓ سے شروع سے ہی پردہ کروایا۔

(ماخوذ از ازواج النبیؐ صفحہ 206تا223)

حضرت اُمّ عمّارہؓ

حضرت اُمّ عمّارہؓ کا اصل نام نسیَبہ بنت کعب بن عمر تھا۔ انصار کے قبیلہ خزرج کے نجّار خاندان سے تعلق تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب کی والدہ سلمیٰ بھی اسی خاندان سے تھیں اور اسی وجہ سے آنحضورؐ اور تمام مسلمان اس خاندان کی بڑی قدر کرتے تھے۔ حضرت اُمّ عمّارہ 584ء میں پیدا ہوئیں۔ آپؓ یثرب کی وہ پہلی خاتون تھیں جنہیں بیعتِ عقبیٰ ثانیہ کے موقع پر اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ کی پہلی شادی چچازاد حضرت زیدؓ بن عاصم سے ہوئی جن سے دو بیٹے حضرت عبداللہؓ اور حضرت حبیبؓ پیدا ہوئے۔ جنگ بدر میں حضرت زیدؓ کی شہادت کے بعد آپؓ کی شادی حضرت عربہ بن عمرؓ سے ہوئی جن سے دو بچے تمیم اور خولہ پیدا ہوئے۔

حضرت اُمّ عمّارہؓ کو غزوۂ اُحد، غزوۂ خیبر، غزوۂ حنین اور جنگ یمامہ کے علاوہ صلح حدیبیہ، بیعتِ رضوان اور فتح مکّہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیّت کا شرف حاصل ہوا۔ غزوۂ اُحد سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو چند دیگر خواتین کےہمراہ لشکر کے ساتھ جاکر زخمیوں کی مرہم پٹّی کرنے اور پانی پلانے کی اجازت عطا فرمائی۔ جب جنگ کے دوران مسلمانوں کے درّہ چھوڑ دینے کے نتیجے میں کفّار کا بھرپور حملہ ہوا تو حضرت مصعب بن عمیرؓ شہید ہوگئے جن کا حُلیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا جلتا تھا۔ اس پر کفّار نے یہ خبر پھیلادی کہ رسول اکرمؐ مارے گئے ہیں۔ پھر ایک ایسا وقت آیا جب آنحضورؐ کی حفاظت کے لیے صرف حضرت طلحہؓ اور حضرت سعدؓ باقی رہ گئے۔ ابنِ قمئہ نے موقع سے فائدہ اٹھاکر آنحضورؐ کو ایک پتھر مارا جس سے آنحضورؐ کے خود کی کڑیاں رخسار مبارک میں دھنس گئیں۔ ایسے میں حضرت اُمّ عمّارہؓ مشکیزہ اٹھائے زخمیوں کی مرہم پٹی میں مصروف تھیں کہ اچانک آپؓ کی نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو سب کچھ وہیں چھوڑ کر آنحضورؐ کی طرف دوڑیں۔ اسی اثنا میں عبداللہ بن قمئہ نے آنحضورؐ پر تلوار سے وار کیا مگر حضرت اُمّ عمّارہؓ نے وہ وار اپنے اوپر لیا جس سے کندھے پر بہت گہرا زخم آیا مگر اس کے باوجود آپؓ نے اُس پر جوابی حملہ کیا۔ وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لیے بچ گیا۔ اس دوران آپؓ کے دونوں بیٹے بھی وہاں پہنچ گئے اور ابن قمئہ بھاگ گیا۔ حضرت اُمّ عمّارہؓ کے پاس تلوار تو تھی مگر کوئی ڈھال نہ تھی اس لیے آنحضورؐ پر ہونے والے ہر وار کو اپنی تلوار یا اپنے جسم پر لے لیتیں۔ آنحضورؐ یہ سب دیکھ رہے تھے۔ اسی اثنا میں آنحضورؐ نے ایک مسلمان کو بھاگتے ہوئے دیکھا تو فرمایاکہ اوبھاگنے والے! اپنی ڈھال تو اُن کو دیتے جاؤ جو لڑ رہے ہیں۔ اس پر وہ آدمی اپنی ڈھال وہیں پھینک کر بھاگ گیا۔ حضرت اُمّ عمّارہؓ نے وہ ڈھال اٹھالی اور لڑنے لگیں۔ اسی دوران آپؓ کا بیٹا عبداللہ شدید زخمی ہوکر گرا اور اُس کا بہت سا خون بہ نکلا۔ آپؓ نے اُس کی مرہم پٹی کی اور اُٹھاتے ہوئے کہا کہ جب تک دَم میں دَم ہے تب تک دشمن سے لڑو۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں نے دوبارہ اکٹھا ہونا شروع کردیا اور خطرہ کچھ کم ہوا۔ تاہم اس خطرناک وقت میں حضرت اُمّ عمّارہؓ نے غیرمعمولی جرأت اور وفا کا نمونہ پیش کیا۔ اسی لیے جنگ کے اختتام پر آنحضورؐ نے فرمایا: ’’اُمّ عمّارہ نے آج وہ کیا ہے جو اَور کسی نے نہیںکیا ‘‘اس پر انہوں نے اس دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جنّت میں بھی آپؐ کا قرب عطا فرمائے۔ آنحضورؐ نے اُسی وقت یہ دعا کی تو حضرت اُمّ عمّارہؓ نے کہا کہ اب مجھے اس زندگی میں کوئی دُکھ باقی نہیں رہا۔

غزوۂ اُحد میں حضرت اُمّ عمّارہؓ کو تیرہ زخم آئے جن میں سب سے گہرا کندھے کا زخم تھا جو بڑی دیر تک مندمل نہ ہوسکا۔ جنگ کے اختتام پر آنحضورؐ اُس وقت تک گھر نہ تشریف لے گئے جب تک حضرت اُمّ عمّارہؓ کی مرہم پٹّی نہ ہوگئی۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’جتنا حوصلہ اُمّ عمّارہ میں ہے وہ اَور کس میں ہوگا!‘‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب مسیلمہ کذّاب نے لشکر لے کر مدینہ پر چڑھائی کی تو راستہ میں حضرت اُمّ عمّارہؓ کے بیٹے حضرت حبیبؓ اُس کو مل گئے۔ اُس نے اُن سے اپنی نبوّت تسلیم کرنے کو کہا مگر انہوں نے صاف انکار کیا اور اُس کے ہر سوال پر

اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ

کہتے رہے۔ اس پر مسیلمہ نے انہیں بڑی بیدردی سے شہید کردیا۔ یہ اطلاع ملی تو حضرت اُمّ عمّارہؓ نے قسم کھائی کہ یا تو وہ مسیلمہ کو مار دیں گی یا خود شہید ہوجائیں گی۔ آخر جنگ یمامہ میں جب آپؓ نے مسیلمہ کو دیکھا تو دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے اُس کی طرف بڑھیں۔ زخم پر زخم کھاتے ہوئے اُس کے قریب پہنچ کر جب برچھی سے وار کرنے لگیں تو مسیلمہ دو ٹکڑے ہوکر زمین پر گرگیا۔ حضرت اُمّ عمّارہؓ نے دیکھا تو اُن کے بیٹے حضرت عبداللہؓ اور وحشی (جس نے اُحد میں حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا مگر اب مسلمان ہوچکا تھا) وہاں کھڑے تھے اور اُن دونوں نے ہی مسیلمہ کو واصلِ جہنّم کیا تھا۔

ایک روز آپؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قرآن مجید میں مَردوں کا ذکر تو بہت ہوا ہے مگر عورتوں کا اتنا نہیں۔ اس موقع پر سورۃالاحزاب کی آیت 36 نازل ہوئی جس میں ایسے مردوں اور عورتوں کی تفصیل ہے جن کے لیے مغفرت اور اجرعظیم کا وعدہ ہے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت خالدؓ بن ولید بھی حضرت اُمّ عمّارہؓ کا حال دریافت کرنے آپؓ کے ہاں جایا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ تو آپؓ کو ’’خاتونِ اُحد‘‘کہہ کر یاد کرتے تھے۔ اُس دَور میں ایک دفعہ مال غنیمت میں بہت قیمتی ریشمی کپڑا آیا تو صحابہؓ نے کہا کہ اسے اپنی بہو صفیہؓ کو دے دیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ نہیں، یہ مَیں اُس کو دوں گا جو اس کی حقدار ہے، مَیں یہ عمّارہ کو دوں گا۔ پھر فرمایا کہ مَیں نے اُحد کے دن رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ مَیں نے جب بھی اپنے دائیں یا بائیں دیکھا تو ہر طرف اُمّ عمارہؓ کو اپنے سامنے لڑتے ہوئے پایا۔ چنانچہ وہ کپڑا اُن کو بھجوادیا۔ آپؓ نے حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں وفات پائی۔

(بحوالہ تذکار صحابیات از علامہ نیاز فتح پوری ماخوذ از خدیجہ جرمنی ’’سیرت صحابیات‘‘نمبر1/2011)

حضرت خولہؓ

اسی طرح ایک اور مسلمان صحابیہ حضرت خولہ بہادری کی وجہ سے مشہور ہیں۔ انہوں نےبھی پردے کے احکام کے اندر رہ کر بے شمار جنگیں لڑیں اور دشمن کے حملوں کو ناکام بنایا۔

’’…ایک دفعہ حضرت خالد بن ولیدؓ کو رومیوں کے ساتھ ایک معرکہ در پیش تھا جس میں رومیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اتنی کثیر تعداد تھی کہ خطرہ تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں نہ اکھڑ جائیں۔ وہاں مسلمانوں نے ایک نقاب پوش زرہ بکتر میں بند سوار کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ پلٹ پلٹ کر دشمن کی فوج پر حملے کر رہا ہے اور جدھر جاتا ہے کشتوں کے پشتے لگا دیتا ہے صفیں چیر دیتا ہے اور پھر دوسری طرف سے صفیں چیرتا ہوا واپس نکل آتا ہے۔ چنانچہ مسلمان لشکر نے آپس میں باتیں شروع کیں کہ یہ تو ہمارے سردار خالد بن ولید کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ سیف اللہ کے سوا، اللہ کی تلوار کے سوا کس کی شان ہے کہ اس شان کے حملے کرے۔ اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ خالد بن ولید خیمے سے باہر آرہے ہیں بڑا تعجب ہوا۔ انہوں نے کہا: اے سپہ سالار!یہ کون ہے اگر آپ نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا مجھے بھی نہیں پتہ۔ میں تو پہلی دفعہ اس قسم کا جوان دیکھ رہا ہوں۔ چنانچہ اس حالت میں آخر وہ جوان واپس لوٹا جس کو وہ جوان سمجھ رہے تھے کہ خون سے لت پت تھا اور اس کا گھوڑا بھی دم توڑنے کو تیار تھا پسینے میں شرابور وہ اترا تو خالد بن ولید آگے بڑھے۔ انہوں نے کہا اے اسلام کے مجاہد !بتا تو کون ہے؟ ہماری نظریں ترس رہی ہیں تجھے دیکھنے کے لئے اپنے چہرہ سے پردہ اتار۔ اس نے سنی ان سنی کر دی۔ نہ زرہ اتاری نہ پردہ اتارا۔ خالد بن ولید حیران ہو گئے کہ اتنا بڑا مجاہد اور اطاعت کا یہ حال ہے۔ انہوں نے پھر تعجب سے کہا کہ اے جوان! ہم تو ترس رہے ہیں تجھے دیکھنے کے لئے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لئے چہرے سے پردہ اُتار۔ اس نے کہا اے آقا ! میں نافرمان نہیں ہوں لیکن مجھےاللہ کا حکم یہ ہے کہ تونے پردہ نہیں اتارنا۔ میں عورت ہوں میرا نام خولہ ہے اور انہوں نے پردہ نہیں اتارا۔ ‘‘

(بحوالہ الاسلام ترجمہ فتوح الشام صفحہ99تا 101)

(حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے مستورات سے خطابات، اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد 2خطاب 27؍دسمبر 1982ء، صفحہ 16تا 17)

حضرت اسماءؓ

حضرت اسما ءؓ حضرت زبیر بن عوام کی بیوی تھیں۔ وہ بہت مفلس اور تنگدست تھے۔ ان کی ساری متاع ایک گھوڑے اور ایک اونٹ پر مشتمل تھی۔ ’’ایک دن حضرت اسما ءؓ کھجور کی گٹھلیوں کا گٹھا سر پر لادے چلی آرہیں تھیں۔ راستے میں رسول کریمؐ اپنے کچھ اصحاب کے ہمراہ مل گئے۔ رحمت دو عالمؐ نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور چاہا کہ اسماءؓ اس پر سوار ہو جائیں۔ اسماءؓ اپنی شرم کی وجہ سے اونٹ پر نہ بیٹھیں اور گھر اپنے شوہر زبیرؓ سے سارا قصہ بیان کیا۔ انہوں نے کہا’’سبحان اللہ سر پر بوجھ لادنے سے شرم نہ آئی۔ ‘‘

(بحوالہ تاریخ اسلام کی نامور خواتین صفحہ 169)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button