خلاصہ خطبہ عید

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍ جون 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

جب حضرت عمرؓ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو رسول اللہﷺ کے سب سے قریبی رشتے دار سے شروع کیا

سات مرحومین : مکرمہ سہیلہ محبوب صاحبہ اہلیہ فیض احمد صاحب گجراتی درویش مرحوم ناظر بیت المال ،مکرم راجہ خورشید احمد منیر صاحب مربی سلسلہ، مکرم ضمیر احمد ندیم صاحب مربی سلسلہ ،مکرم عیسیٰ موکی تلیمہ صاحب نیشنل نائب امیرتنزانیہ،مکرم شیخ مبشر احمد صاحب سپروائزر نظامت تعمیرات قادیان، مکرم سیف علی صاحب سڈنی آسٹریلیا اورمکرم مسعود احمد حیات صاحب کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍ جون 2021ء بمطابق 18؍احسان1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 18؍جون 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت سرفراز باجوہ صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج کل حضرت عمرؓ کاذکر چل رہا ہے۔جب حضرت ابوبکرؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اورحضرت عثمانؓ کو علیحدہ علیحدہ بلوا کر ان دونوں سےحضرت عمرؓ کے متعلق استفسار فرمایا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے عمرؓ کو افضل قرار دیتےہوئے اُن کی طبیعت کی سختی کا ذکر کیا۔ جس پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ عمرؓکی طبیعت میں سختی اس لیے ہے کہ وہ مجھ میں نرمی دیکھتے ہیں۔ جب امارت ان کے سپرد ہوگی تو وہ اپنی بہت سی باتوں کو چھوڑ دیں گے۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت عمرؓ کے متعلق مثبت رائے کا اظہار کیا اور عرض کی کہ عمرؓ کا باطن اُن کے ظاہر سے بھی بہتر ہے۔

ان ہی دنوں میں حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت عمرؓ کی طبیعت کی سختی کی وجہ سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتےہوئےعرض کیاکہ خداتعالیٰ آپؓ سے رعیت کے بارے میں پوچھے گا۔یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ جب میرا رب مجھ سے عمرؓ کے متعلق پوچھے گا تو مَیں جواب دوں گا کہ مَیں نے تیرے بندوں میں سے بہترین کو تیرے بندوں پر خلیفہ بنایا ہے۔

اس کے بعد حضرت ابوبکرؓنے حضرت عثمانؓ کو طلب فرمایا اور انہیں حضرت عمرؓ کے حق میں وصیت لکھوائی۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ حضرت عثمانؓ تحریر لکھ رہے تھے کہ ابوبکرؓ پر غشی طاری ہوئی، اس دوران حضرت عثمانؓ نے حضرت عمرؓ کا نام لکھ دیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ کوافاقہ ہوا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ تم نے کیا لکھا ہے؟ اس پر حضرت عثمانؓ نے کہا کہ مَیں نے عمرؓ کانام لکھا ہے تو حضرت ا بوبکرؓ نے فرمایا تم نےوہی لکھا جس کا مَیں نے ارادہ کیا تھا۔

جب وصیت لکھی جاچکی تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اسے لوگوں کو پڑھ کر سنایا جائے چنانچہ حضرت عثمانؓ نے لوگوں کو جمع کیا اور وصیت سنائی گئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ کیا تم لوگ اس پر راضی ہو جسے مَیں نے تم پر خلیفہ مقرر کیا ہے؟ مَیں نے کسی رشتے دار کوتم پر خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ اللہ کی قَسم! مَیں نے اس بارے میں غوروفکر میں کمی نہیں کی پس اس کی سنو اور اطاعت کرو۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو بلایا اور انہیں تقویٰ اختیار کرنے اور لوگوں سے نرمی کے ساتھ معاملہ کرنے کی تلقین فرمائی۔

حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ سے کسی نے پوچھا تھاکہ آپؓ کی طبیعت میں وہ تیزی نہیں رہی جو زمانۂ جاہلیت میں تھی تو حضرت عمرؓ نے جواب دیا تیزی تو وہی ہے مگر اب کفّار کےمقابلے میں دکھائی جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ عمرؓ نے جواب دیا کہ غصّہ تو وہی ہے البتہ پہلے بےٹھکانے چلتا تھا مگر اب ٹھکانے سے چلتا ہے۔

حضرت عمرؓ نے خلیفہ بننے کے بعد جو پہلا خطاب فرمایا اس بارے میں متفرق روایات ملتی ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے ذریعے اور مجھے تمہارے ذریعے آزمایا ہے۔ تمہارا جو بھی معاملہ میرے سامنے پیش ہوگا میرے علاوہ کوئی اور اسےنہیں دیکھے گا اورجومعاملہ مجھ سے دُور ہوگا اس کے لیے مَیں قوی اور امین لوگوں کو مقرر کروں گا۔ عربوں کی مثال نکیل میں بندھے اونٹ کی طرح ہے جو اپنے قائد کے پیچھے چلتا ہے۔پس اس کے قائد کو چاہیے کہ دیکھے کہ وہ کس طرح ہانک رہا ہے اور جہاں تک میرا تعلق ہے مَیں انہیں ضرور سیدھے رستےپر رکھوں گا۔

حضرت عمرؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد تیسرے دن تفصیلی خطاب کیا جس میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا اور رسول اللہﷺ پر درودوسلام پڑھنے کےبعد فرمایا: مجھے یہ اطلاع پہنچی ہے کہ لوگ میری تیز مزاجی سے ڈر رہے ہیں۔رسول اللہﷺ کےعہد اور ابوبکرؓ کی خلافت میں یقیناً مَیں ان دونوں کے ہاتھ میں ایک کھنچی ہوئی تلوار تھا۔ وہ چاہتے تو مجھے نیام میں رکھتے اور اگر چاہتے تو مجھے کھلا چھوڑ دیتے تا مَیں کاٹ ڈالتا۔ اے لوگو! مَیں تمہارے اُمور کا والی بن گیا ہوں۔اب وہ تیزی کمزور کردی گئی ہے اور اب وہ مسلمانوں پر ظلم و درازدستی کرنے والوں پر ظاہر ہوگی۔ وہ لوگ جو نیک خُو، دین دار اور صاحبِ فضیلت ہیں مَیں ان کے ساتھ اس سے بھی زیادہ نرم ثابت ہوں گا جونرمی وہ ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں۔اے لوگو! تمہارا مجھ پر حق ہے کہ مَیں غنیمتوں اور اس مال میں سے جو تم پر خرچ کرنا ہے کوئی شے تم سے چھپا کر نہ رکھوں۔ تمہارے وظائف اور روزینے تمہیں دیتا رہوں،تمہیں ہلاکت میں نہ ڈالوں، جب تم لشکر میں شامل ہوکر گھر سے غائب رہو تو تمہارے بال بچوں کاباپ بنا رہوں۔

حضرت مصلح موعودؓ حضرت عمرؓ کے دَورِ خلافت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:حضرت عمرؓ نے اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کےلیے اس قدر قربانیوں سے کام لیا ہے کہ وہ یورپین مصنف جو رسول کریمﷺ پر اعتراضات کرتے رہتے ہیں وہ بھی ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ذکر پر تسلیم کرتے ہیں کہ جس محنت اور قربانی سے ان لوگوں نے کام کیا ہے دنیا کے کسی حکمران میں اس کی مثال نظر نہیں آتی۔

حضرت مصلح موعودؓ یہ ثابت کرتے ہوئے کہ حضرت عمرؓ کی منصف مزاجی اور بصیرت افروزی حضوراکرمﷺ کی غلامی اور خوفِ خدا کی وجہ سے تھی فرماتے ہیں کہ ہر وقت کی صحبت میں رہنے والاایسا شخص مرتے وقت یہ حسرت رکھتا ہے کہ رسولِ کریمﷺ کے قدموں میں اسے جگہ مل جائے۔اگر رسولِ کریمﷺ کے کسی فعل سے یہ بات ظاہر ہوتی کہ آپؐ خداکی رضا کےلیے کام نہیں کرتے تو کیا حضرت عمرؓ جیسا انسان اس درجے کو پہنچ کر کبھی یہ خواہش کرتا کہ آپؐ کے قدموں میں جگہ پائے۔

حضرت عمرؓ کی اہلِ بیتِ رسولﷺ سے عقیدت کے اظہار کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب ایران فتح ہوا اور وہاں سے باریک آٹا پیسنے والی چکیاں لائی گئیں تو حضرت عمرؓ نے پہلا باریک پِسا ہوا آٹا حضرت عائشہؓ کی خدمت میں بھجوایا۔ جب حضرت عائشہؓ نے اس آٹے سےتیار ہونے والا نرم پھلکا چکھا تو آپؓ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ عورتوں کے پوچھنے پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ مجھے وہ دن یاد آگئے جب رسول کریمﷺ اپنی آخری عمر میں سخت غذا نہیں کھاسکتے تھے مگر ان دنوں بھی ہم پتھروں سے گندم کچل کر اس کی روٹیاں پکا کر آپؐ کو دیتے تھے۔ فرمایا: جس کے طفیل ہمیں یہ نعمتیں ملیں وہ تو ان سے محروم چلا گیا اور ہم یہ نعمتیں استعمال کر رہے ہیں۔

حضرت عمرؓ حضرت امام حسنؓ و امام حسینؓ کی بہت عزت کرتے، ان دونوں کو عطا کرتے۔ جب آپؓ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو رسول اللہﷺ کے سب سے قریبی رشتے دار سے شروع کیا۔ آپؓ نے پہلے حضرت عباسؓ اور پھر حضرت علیؓ کا حصّہ مقرر فرمایا۔

حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےحضرت عمرؓ کاذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد درج ذیل مرحومین کا ذکرِخیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

1۔ مکرمہ سہیلہ محبوب صاحبہ اہلیہ فیض احمد صاحب گجراتی درویش مرحوم ناظر بیت المال جو 90 برس کی عمر میں وفات پاگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ نے 1964ءمیں وقف کیا تھا اور آپ کو تقریباً تیس سال نصرت گرلز ہائی سکول قادیان میں بطور ہیڈ مسٹرس خدمت کی توفیق ملی۔

2۔مکرم راجہ خورشید احمد منیر صاحب مربی سلسلہ جو آج کل آسٹریلیا میں تھے وہاں ان کی وفات ہوئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آپ 1948ءمیں فرقان بٹالین میں بھی شامل ہوئے اور 1974ءمیں ان کے گھر پر حملہ بھی ہوا۔ ایک موقعے پرمرحوم کے متعلق حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے ‘بہادر مربی’ کے الفاظ استعمال فرمائے تھے۔

3۔ مکرم ضمیر احمد ندیم صاحب مربی سلسلہ جو 56 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم 2005ءسے معاون ناظر وصیت شعبہ استقبالیہ تھے۔ باسکٹ بال کے اچھے کھلاڑی، تہجد گذار اور خلافت سے تعلق رکھنے والے تھے۔

4۔مکرم عیسیٰ موکی تلیمہ صاحب نیشنل نائب امیرتنزانیہ جن کی گذشتہ دنوں وفات ہوئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نے 1992ءمیں 19سال کی عمر میں بیعت کی تھی۔

5۔مکرم شیخ مبشر احمد صاحب سپروائزر نظامت تعمیرات قادیان جو 33 سال کی عمر میں کورونا وائرس کی وجہ سے وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نظامت تعمیرات قادیان میں بہت خوش اسلوبی سے خدمت بجالارہےتھے۔

6۔ مکرم سیف علی صاحب سڈنی آسٹریلیا جو گذشتہ دنوں وفات پاگئے تھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم حیدر علی ظفر صاحب مبلغ سلسلہ جرمنی و نائب امیر کے بھائی تھے۔ آپ کو بطور امیر ضلع میرپورخاص، ممبر قضا بورڈآسٹریلیا،نائب صدر انصار اللہ آسٹریلیا خدمت کی توفیق ملی۔

7۔مکرم مسعود احمد حیات صاحب جن کی 80 برس کی عمر میں وفات ہوئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔مرحوم 1967ءسے یوکے میں آباد تھے۔ نہایت ملنسار، نفیس طبع، مالی قربانی کرنے والے،صوم و صلوٰة کے پابند تھے۔ دو مرتبہ آپ کو حج کی سعادت نصیب ہوئی۔حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے ساتھ مختلف ممالک کے دوروں میں ڈرائیونگ اورسیکیورٹی کی خدمت سرانجام دینے کی بھی توفیق ملی۔

حضورِانورنے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button