اختلافی مسائل

کیا ’’مسجد‘‘ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام ہے؟

(انصر رضا۔واقفِ زندگی، کینیڈا)

پاکستانی قانون کے تحت احمدی مسلمان اپنی مسجد کو مسجد نہیں کہہ سکتے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ صرف ’’مسلمانوں ‘‘ کی عبادت گاہ کو ہی مسجد کہا جاسکتا ہے۔ یہ خیال کس قدر قرآن و حدیث کے مخالف ہے ملاحظہ فرمایے۔

تمام بنی آدم کی عبادت گاہیں مساجد

اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم کو، جس میں ظاہر ہے غیر مسلم بھی شامل ہیں، تمام ’’مسجدوں ‘‘ کو جاتے ہوئے زیب و زینت اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ۔ (الاعراف:32)

اے ابنائے آدم! ہر مسجد میں اپنی زینت (یعنی لباسِ تقویٰ) ساتھ لے جایا کرو۔ اور کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقیناً وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

اب ظاہر ہے کہ غیر مسلم تو عبادت کرنے ’’مسلمانوں ‘‘ کی مسجدوں میں نہیں آئیں گے، اپنی اپنی عبادت گاہوں میں ہی جائیں گے۔ ان کی عبادت گاہوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے مسجد ہی کہتےہوئے انہیں وہاں زیب و زینت اختیار کرنے کو کہا ہے۔

مدینہ کے منافقین کی عبادت گاہ مسجد

مدینہ میں منافقین نے ایک مسجد تعمیر کی تھی جس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوتی تھیں۔ انہوں نے نبی اکرمﷺ کو بھی اس مسجد میں آنے کی دعوت دی جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمادیا اور اس میں کبھی بھی نماز نہ پڑھنے کا حکم دیا۔

وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسۡجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفۡرًا وَّ تَفۡرِیۡقًۢا بَیۡنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اِرۡصَادًا لِّمَنۡ حَارَبَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ لَیَحۡلِفُنَّ اِنۡ اَرَدۡنَاۤ اِلَّا الۡحُسۡنٰی ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ (التوبہ:107)

اور وہ لوگ جنہوں نے تکلیف پہنچانے اور کفر پھیلانے اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ایسے شخص کو کمین گاہ مہیا کرنے کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے ہی سے لڑائی کر رہا ہے ایک مسجد بنائی ضرور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتے تھے جبکہ اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔

اس عمارت کو اگرچہ ’’ضرار‘‘ یعنی ضرر و نقصان پہنچانے والی جگہ کہا گیا لیکن پھر بھی اس کے نام کے ساتھ مسجد کا سابقہ استعمال کیا گیا۔ اور اس کے مقابل پر اس جگہ کو بھی مسجد کہا جس کے متعلق ارشاد فرمایا کہ اس کی بنیاد روزِ اوّل سے تقویٰ پر رکھی گئی تھی۔

اصحابِ کہف کی زیارت گاہ مسجد

اسلام سےچند صدیاں قبل اصحاب کہف کی غاروں پر بننے والی زیارت گاہوں کو بھی قرآنِ کریم مسجد کہہ کر ہی پکارتا ہے

وَ کَذٰلِکَ اَعۡثَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ لِیَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَیۡبَ فِیۡہَا ۚ٭ اِذۡ یَتَنَازَعُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اَمۡرَہُمۡ فَقَالُوا ابۡنُوۡا عَلَیۡہِمۡ بُنۡیَانًا ؕ رَبُّہُمۡ اَعۡلَمُ بِہِمۡ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمۡرِہِمۡ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسۡجِدًا (الکہف:22)

اور اسی طرح ہم نے ان کے حالات پر آگاہی بخشی تاکہ وہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ انقلاب کی گھڑی وہ ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ جب وہ آپس میں بحث کر رہے تھے تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ان پر کوئی یادگار عمارت تعمیر کرو۔ اُن کا ربّ ان کے بارہ میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اُن لوگوں نے جو اپنے فیصلہ میں غالب آگئے کہا کہ ہم تو یقیناً ان پر ایک مسجد تعمیر کریں گے۔

یہودونصاریٰ کے انبیاءؑ و اولیاء کے مزارات مساجد

اسی طرح احادیث میں نبی اکرمﷺ یہودونصاریٰ کے انبیاء علیہم السلام اور ولیوں کی قبروں پر بنائی جانے والی عمارتوں کو بھی مسجد کہہ کر ہی پکارتے ہیں

اُمَّ سَلَمَۃَ ذَکَرَتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِﷺ کَنِیْسَۃً رَّاَتْھَا بِاَرْضِ الْحَبْشَۃِ یُقَالُ لَھَا مَارِیَۃُ فَذَکَرَتْ لَہٗ مَا رَاَتْ فِیْھَا مِنَ الصُّوَرِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ اُوْلئِٰکَ قَوْمٌ اِذَا مَاتَ فِیْھِمُ الْعَبْدُ الصَّالِحُ اَوِ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلیٰ قَبَرِہٖ مَسْجِدًا وَ صَوَّرُوْا فِیْہِ تِلْکَ الصُّوَرَ اُوْلئِٰکَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰہِ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ فی البیعۃ)

حضرت ام سلمہؓ نے رسول اللہﷺ سے ایک کلیسا کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اور ان مجسموں کا بھی ذکر کیا جو اس میں رکھے گئے تھے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ ایسی قوم تھی کہ جب ان میں کوئی نیک بندہ (یا فرمایا کہ نیک شخص) مرجاتا تھا تو اس کی قبر پر مسجد بنادیا کرتے تھے اور اس میں مجسمے رکھتے۔ یہ لوگ خدا کی بدترین مخلوق ہیں۔

اسی طرح نبی اکرمﷺ نے یہودونصاریٰ کے انبیاء کی قبروں پر بنائی جانے والی عمارات کو بھی مساجد قرار دیا۔

لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْیَھُوْدِ وَ النَّصَاریٰ اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَآءِھُمْ مَّسَاجِدَ

(بخاری کتاب الصلوٰۃ۔ باب ھل تنبش قبور مشرکي الجاھلیۃ)

اللہ کی لعنت ہو یہودونصاریٰ پر کہ انہوں نے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا۔

نبی اکرمﷺ کے لیے ساری زمین مسجد

نبی اکرمﷺ اس بات کو اپنی امتیازی خصوصیت بیان فرماتے ہیں کہ آپؐ کے لیے تمام زمین کو مسجد قرار دیا گیا اور اس کی مٹی کو پاک قرار دیا گیا جس سے مسلمان پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمّم کرسکتے ہیں اور جہاں بھی نماز کا وقت آجائے وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن پاکستانی قانون نبی اکرمﷺ کی اس امتیازی شان کو گھٹانے کے درپے ہیں اور مُصِر ہے کہ زمین کا وہ حصہ جہاں احمدی عبادت گاہیں بنتی ہیں وہ جگہ اور وہ عمارت مسجد نہیں کہلا سکتی۔

اُعْطِیْتُ خَمْسًا لَّمْ یُعْطَھُنَّ اَحَدٌ مِّنَ الْاَنْبِیَآءِ قَبْلِیْ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ وَ جُعِلَتْ لِی الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّ طُھُوْرًا فَاَیُّمَا رَجُلٌ مِّنْ اُمَّتِیْ اَدْرَکَتْہُ الصَّلوٰۃُ فَلْیُصَلِّ وَ اُحِلَّتْ لِی الْغَنَآئِمُ وَ کَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلیٰ قَوْمِہٖ خَآصَّۃً وَ بُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ کَافَّۃً وَّ اُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ

(بخاری کتاب الصلوٰۃ باب قول النبیﷺ جعلت لی الارض مسجدًا و طہورًا)

مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ میری ایک مہینہ کی مسافت تک رعب سے مدد کی گئی ہے اور تمام زمین کو میرے لیے مسجد اور پاک بنایا گیا ہے۔ اس لیے میری امت کے جس فرد پر جہاں بھی نماز کا وقت آجائے وہ وہیں نماز پڑھ لے اور میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے اور پہلے انبیاء اپنی اپنی قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے جبکہ میں تمام انسانوں کے لیے بھیجا گیا ہوں اور مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا میں احمدیہ مساجد کا تذکرہ ’’عبادت گاہ‘‘ کہہ کر کیا جاتا ہے۔ گویا وہ تصدیق کرتے ہیں کہ صرف احمدیہ مساجد میں ہی اللہ کی عبادت ہوتی ہے جبکہ غیراحمدیوں کی مساجد فتنہ و فساد کا گڑھ ہیں جیسا کہ نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں:

’’…مساجدھم عامرۃ و ھی خراب من الھدی…‘‘

(رواہ ابن عدی فی الکامل و البیھقی فی شعب الایمان)

ان کی مساجد بھری ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔

قرآن و حدیث کی ان واضح تصریحات کے باوجود اگر کوئی قوم احمدیہ عبادت گاہ کو مسجد کا نام نہیں دینا چاہتی اور اس امتناع کو اپنے دین کا جزو قرار دیتی ہے تو پھر خود ہی جان جایے کہ ان کا دین قرآن و حدیث کی بجائے کسی اور چیز پر بنا رکھتا ہے اور وہ ہے دینِ ملّا فی سبیل اللہ فساد۔

(مرسلہ:انصر رضا، واقفِ زندگی۔ کینیڈا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button