حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (2) (قسط 16۔ آخری)

فائدہ کی شدت کے لحاظ سے قرآن کریم کی فضیلت

(4)فضیلت کی ایک اور وجہ فائدہ کی شدت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ یعنی گو فائدہ تو اور چیزوں میں بھی ہوتا ہے مگر جس چیز کا فائدہ اپنی شدت میں بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے اسے دوسروں پر فضیلت دی جاتی ہے۔ قرآن کریم کے متعلق جب ہم یہ بات دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کو اس بارے میں بھی فضیلت حاصل ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ۔ (الفاتحہ:6-7)

یعنی اے مسلمانو! تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے رہو کہ اے اللہ! ہمیں سیدھا رستہ دکھا اور اس رستہ پر چلا جس پر چل کر پہلے لوگوں نے تیرے انعامات حاصل کئے۔ گویا جس قدر انعامات تو نے پہلے لوگوں پر کئے ہیں وہ سب کے سب ہم پر بھی کر۔ اور پہلے لوگوں کے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ(الحدید:20)

یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہداء کا درجہ پانے والے ہیں۔ اس آیت میں بتایا کہ تمام امتوں میں شہداء اور صدیقوں کا دروازہ کھلا تھا۔ مگر جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا وہاں فرمایا۔

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا۔ (النساء:70)

یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر خدا تعالیٰ کے انعامات نازل ہوئے یعنی نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین میں۔ گویا پہلے نبیوں کی اطاعت سے تو صرف صدیق اور شہداء بنتے تھے مگر اس نبی کی اطاعت سے نبوت کا درجہ بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ حضرت دائودؑ اور حضرت عیسیٰؑ نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع سے نبوت ملی ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات پر زور دیا اور بار بار اس کا اعلان کیا کہ مجھے محض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں درجہ نبوت حاصل ہوا ہے۔

انبیاء اور صدیقین وغیرہ کی معیت کا مفہوم

بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ یہاں

مَعَ الَّذِیْنَ

آیا ہے جس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ اور اس رسول کی اطاعت سے کوئی نبی بن سکتا ہے بلکہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اسے انبیاء کی معیت حاصل ہوگی۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اگر نبی بننے کی نفی کی جائیگی تو اس کے ساتھ ہی صدیق، شہید اور صالح بننے کی نفی بھی کرنی پڑے گی۔ اور یہ ماننا پڑے گا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ امت محمدیہؐ میں اب کوئی صدیق، شہید اور صالح بھی نہیں بن سکتا۔ لیکن اگر صالحیت، شہادت اور صدّیقیّت کا مقام حاصل ہو سکتا ہے تو پھر نبوت کا انعام بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن اس پر یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن کریم کا کوئی لفظ حکمت کے بغیر نہیں ہے تو پھر یہاں مَعَ کا لفظ لانے کی کیا ضرورت تھی۔ جیسا کہ دوسری جگہ

مَعَ الَّذِیْنَ

نہیں رکھا بلکہ صرف یہ فرمایا کہ وہ صدیق اور شہید ہونگے۔ اسی طرح یہاں بھی کہا جا سکتا تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مَعَ رکھ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس رسول کی اطاعت کرنے والے صرف صدیق ہی نہیں ہونگے بلکہ سب امتوں کے صدیقوں کی خوبیاں ان میں آ جائیں گی۔ صرف شہید ہی نہیں ہونگے بلکہ پہلے سب شہیدوں کی صفات کے جامع ہونگے۔ صرف صالح ہی نہیں ہونگے بلکہ پہلے صالحین کی سب خوبیاں اپنے اندر رکھتے ہوں گے اسی طرح جو نبی آئے گا وہ پہلے سب نبیوں کی خوبیوں اور کمالات کا بھی جامع ہوگا۔ پس مع نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے نتیجہ کو بڑھا دیا ہے گھٹایا نہیں۔ اور بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے جو مرتبہ حاصل ہوتا ہے وہ پہلے لوگوں کے مراتب سے بہت اعلیٰ اور ارفع ہے۔

ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک کلام

(5)ایک اور وجہ فضیلت یہ ہوتی ہے کہ جو چیز پیش کی جائے اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہو۔ قرآن کریم کی فضیلت اس لحاظ سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں ایک آیت ہے جس کے متعلق لوگ بحث کرتے رہتے ہیں کہ اس کی کیا ضرورت ہے۔آج میں یہ بتاتا ہوں کہ وہ اپنے مطالب کے لحاظ سے کیسی ضروری اور اہم ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ۔ (البقرہ:3)

صرف یہی ایک کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں باقی سب میں ملاوٹ ہے۔ تورات کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کا ایک ایک لفظ خدا کا ہے بلکہ اس میں ایک جگہ تو یہاں تک لکھا ہے کہ

’’خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا۔ اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیتِ فغور کے مقابل گاڑا۔ پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا‘‘۔

(استثناء باب 34آیت 6،5برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ 1887ء)

اسی طرح انجیل کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا لیکن قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام ہے بندے کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ پس موٹی اور واضح ضرورت اس آیت کی یہی ہے کہ اس میں دنیا کو یہ بتایا گیا ہے کہ باقی کتابوں میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں لیکن صرف یہی ایک کتاب ہے جس میں کوئی ملاوٹ نہیں۔

ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ تو قرآن کا دعویٰ ہی دعویٰ ہے جو اس وقت کیا گیا ہے جب قرآن نازل ہوا۔ اس امر کا کیا ثبوت ہے کہ بعد میں بھی اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہو سکی۔ سو اس کے متعلق فرماتا ہے۔

اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ(الحجر:10)

ہم نے ہی اس قرآن کو اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ گویا آئندہ کے متعلق بھی ہم اس بات کا ذمہ لیتے ہیں کہ کوئی شخص اس میں تغیر و تبدل نہیں کر سکے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب تک اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف اسی شکل میں محفوظ ہے جس شکل میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔

ربوبیت عالمین کا بلند تصور

(6) فضیلت کی چھٹی وجہ یہ ہوا کرتی ہے کہ کوئی چیز اپنی ہو۔ کیونکہ اپنی چیز ہمیشہ دوسروں کی چیزوں سے پیاری لگتی اور افضل نظر آتی ہے۔ قرآن کریم کو جب ہم اس نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو وہ بھی اپنی چیز نظر آتا ہے۔ مثلاً قرآن کریم نے

رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ

کا خیال لوگوں میں پیدا کیا اور اس طرح قومی خدائوں کا تصور باطل کیا۔ بائیبل پڑھ کر دیکھو تو اس میں اس طرح ذکر آتا ہے کہ بنی اسرائیل کا خدا۔ تیری قوم کا خدا۔ فلاں قوم کا خدا۔ ویدوں کو پڑھ کر دیکھو تو برہمنوں کا خدا الگ معلوم ہوتا ہے اور دوسروں کا الگ۔ مگر قرآن کی ابتداء ہی

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ

سے ہوتی ہے۔ اس طرح دنیا کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ساری دنیا کے رب کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے اور سب کو اپنی طرف بلاتی ہے۔ غرض اسلام نے سب لوگوں کو جو علیحدہ علیحدہ تھے ماں کی طرح اکٹھا کیا اور کہہ دیا کہ ایک خدا کے پاس آ جائو۔ پہلے لوگوں میں شرک پیدا ہونے کی یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ الگ الگ خدا سمجھتے تھے۔ ہندو کہتے تھے کہ ہمارا خدا ایسا ہے یہود کہتے تھے ہمارا خدا ایسا ہے پارسی کہتے تھے کہ ہمارا خدا ایسا ہے۔ پھر بعض لوگوں نے کہا کہ چلو سب کے خدائوں کو پوجو تا کہ سب سے فائدہ حاصل ہو۔ اس طرح شرک پیدا ہو گیا۔ مگر اسلام نے بتایا کہ مومن اور کافر سب کا خدا ایک ہی ہے۔ اور اسلام کسی خاص قوم کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔

یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍ

یعنی اسلام کا چراغ ایک ایسے برکت والے تیل سے جلایا جا رہا ہے جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی۔ ہر قوم اور ہر زمانہ کیلئے ہے۔ سب کیلئے اس میں ترقیات کے دروازے کھلے ہیں۔ اس طرح اسلام نے قومیت کے امتیاز کو مٹا دیا اور بڑائی کا معیار یہ رکھا کہ

اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ (الحجرات:14)

اسلام میں بڑائی کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ خواہ کوئی کیسی ہی ادنیٰ قوم کا فرد ہو اگر وہ متقی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز ہے۔ پس اسلام نے ذات پات کو مٹا دیا اور مختلف مذاہب کے نتیجہ میں جو تفرقے پیدا ہوتے تھے، ان کو دور کر دیا۔

دوستوں کو چاہئے کہ قرآن کریم کو اپنا دستور العمل بنائیں

مَیں نے فضیلت قرآن کی 26وجوہات میں سے اس وقت صرف چھ کا ذکر کیا ہے اور ان کی بھی ایک ایک مثال دی ہے۔ خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو باقیوں کے متعلق پھر بحث کرونگا۔ فی الحال اسی پر بس کرتا ہوں۔ اور دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسی افضل اور بے نظیر کتاب پر عمل کرنے اور اس کے احکام کو حرز جان بنانے کی کوشش کرو۔ اس وقت میں قرآن کریم کے جن مطالب کو واضح کر سکا ہوں ان کے مقابلہ میں اور کوئی کتاب ایسے مطالب پیش نہیں کر سکتی۔ دوستوں کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی اس کتاب کی طرف خاص طور پر توجہ کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر کسی انسان کے پاس بہتر سے بہتر چیز ہو لیکن وہ استعمال نہ کرے تو اسے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ کنواں موجود ہو لیکن ہم پانی نہ پیئیں تو کس طرح پیاس بجھ سکتی ہے۔ پس یہ اعلیٰ درجہ کی کتاب جو تمہارے پاس موجود ہے یہ اسی صورت میں مفید ہو سکتی ہے جب کہ تم اس سے فائدہ اٹھائو۔

پس اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو۔ اور ہر معاملہ میں قرآن کریم کی اقتداء کرو تا کہ قرآنی حسن دنیا پر نمایاں ہو۔ اور انہیں بھی اس پاک کتاب کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو کیونکہ اس کے بغیر اور کہیں نور اور ہدایت نہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button