متفرق مضامین

ارض مقدسہ کے بارے میں خدا تعالیٰ کا ایک اہم پیغام لَبَلٰغًا لِّقَوۡمٍ عٰبِدِیۡنَ

(شمس الدین مالاباری ۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل کبابیر)

بیسویں صدی کے وسط میں ایک منظم سازش کے تحت فلسطین کو یہود کا مرکز ’’اسرائیل‘‘بنایا گیا جو فلسطین میں ایک مستقل شورش اور اشتعال کا باعث بنا۔پھر گذشتہ ستّر سال میں مختلف اوقات میں مختلف کمیشن مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے مقرر ہوئے مگر یہ کمیشن دراصل اندرونی طور پر یہود کے مفادات کے لیے تشکیل دیے گئے اور یہ مسئلہ عقدہ لا ینحل بن کر وہیں رہ گیا ہے۔

حضرت مصلح موعود ؓکی ہمدردی ابتدا سے ہی عربوں کے ساتھ تھی اور آپؓ یہود کے ناپاک عزائم کو انتہائی نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی سازشوں کو نہ صرف عرب ممالک کے لیے بلکہ تمام عالم اسلام کے لیے خطرہ یقین کرتے تھے۔ پھر جب 1947ء میں اقوام متحدہ میں تقسیم فلسطین کی بات آئی تو اس موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مضمون ’’ الکفر ملۃ واحدۃ‘‘ کے عنوان سے تحریر فرمایا جس کا عربی ترجمہ عرب ممالک میں کثرت سے شائع کیا گیا جس کو عرب پریس نے بڑے اہتمام اور شکریہ سے شائع کیا۔اس مضمون میں حضرت مصلح موعودؓ نے یہاں تک فرمایا:

’’سوال فلسطین کا نہیں سوال مدینہ منورہ کا ہے، سوال یروشلم کا نہیں سوال خود مکہ مکرمہ کا ہے ، سوال زید اور بکر کا نہیں سوال محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت کا ہے۔ دشمن باوجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پر اکٹھا ہوگیا ہے، کیا مسلمان باوجود ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اس موقعہ پر اکٹھے نہیں ہوں گے؟ ‘‘

(الفضل 21؍مئی 1948ء)

پھر اسلام احمدیت کے ایک فدائی مایہ ناز فرزند حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین کے متعلق ایسی پر شوکت تقریر کی کہ اخبار ’’نوائےوقت‘‘نے اس اہم خبر کو درج ذیل عناوین سے شائع کیا :

’’سر ظفر اللہ کی تقریر سے اقوام متحدہ کی کمیٹی میں سکتے کا عالم طاری ہوگیا امریکہ روس اور برطانیہ کی زبانیں گنگ ہو گئیں…

فلسطین کے متعلق سر ظفر اللہ کی تقریر سے دھوم مچ گئی عرب لیڈروں کی طرف سے سر ظفر اللہ خان کو خراج تحسین‘‘

(نوائے وقت 12؍اکتوبر1947ء)

غرض جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا بھر کے مسلمان ممالک کو تقسیم فلسطین کے خلاف منظّم ہونے کی پُر جوش تحریک کی گئی اور اس فتنہ کبریٰ کے خطرناک مقاصد سےآگاہ کرکے زبردست انتباہ کیاگیا۔

حضرت چودھری صاحبؓ کے تاریخی خطاب نے اقوام عالم کے سامنے فلسطینی مسلمانوں کا مسئلہ حقیقی خدوخال کے ساتھ نمایاں کر دیا اور متعدد ممالک نے تقسیم فلسطین کے خلاف رائے دینے کا فیصلہ کر لیا لیکن بعد میں انہوں نے دنیا کی بعض بڑی طاقتوں کی طرف سے دباؤ میں آکر اپنی رائے بدل لی۔اس بارے میں اخبار نوائے وقت کا بیان ہے:

’’…عین آخری وقت رائے شماری بلا وجہ(26؍نومبر سے) 28؍نومبر پر ملتوی کردی گئی تاکہ دوسرے ممالک پر دباؤ ڈال کر فلسطین کے متعلق ان کا رویہ تبدیل کیا جاسکے…اکثر ایسے مندوبین نے جنہوں نے تقسیم فلسطین کے حق میں ووٹ ڈالے یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے نہایت مجبوری کے عالم میں تقسیم فلسطین کے حق میں ووٹ ڈالے اور اسی سپرٹ میں تقسیم فلسطین کا فیصلہ ہوا۔‘‘(نوائے وقت 11؍دسمبر1947ء)

لیکن افسوس صد افسوس! بیسویں صدی کے اکثر دینی وسیاسی مسلم زعماء اس فتنےکی ہلاکت آفرینیوں کا صحیح اندازہ لگانے سے قاصر رہے بلکہ ان میں بعض بلند پایہ دانشوران قوم اور فقہائے زمان کا یہود کی نسبت رویہ مصالحانہ، ہمدردانہ بلکہ مشفقانہ رہا ہے جو ہر درد مند دل رکھنے والے مسلمان کےلیے از حد تشویش انگیز ہے جس کی تفصیل سے فی الحال گریز کیا جا رہا ہے۔بالآخر 16؍مئی 1948ء کو فلسطین میں حکومت اسرائیل منصہ شہود پر آگئی، امریکہ ، برطانیہ اور روس کی باہمی سازش اور مشترکہ کوشش سے عالم اسلام کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا گیا۔ لگتا ایسے ہے کہ گویا یہ سب تقدیر ایزدی کے ماتحت ہوا۔

فلسطین کے متعلق قرآن مجید کی پیشگوئیاں

قرآن مجید نے یہود کے حالات کا خوب تذکرہ کیا ہے۔ یہود کے اس بڑھتے ہوئے ہولناک سیلاب کی خبر قرآن مجید نے سورہ ٔفاتحہ میں ہی دے دی اور امت محمدیہ کو ’’غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ‘‘ کی دعا سکھلا کر صیہونیت کے موجودہ عالمی اثرات کی نشاندہی فرمائی اور اس فتنہ سے نجات کی دعا سکھلائی اور اس دعا کو پڑھے بغیر اسلامی نماز کو ناتمام قرار دیا۔

بنی اسرائیل کی ارض مقدسہ کے واقعات کے بارے میں قرآن مجید یوں تذکرہ کرتا ہے:

وَ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَ لَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا۔ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰٮہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ ؕ وَ کَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا۔ ثُمَّ رَدَدۡنَا لَکُمُ الۡکَرَّۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَمۡدَدۡنٰکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ جَعَلۡنٰکُمۡ اَکۡثَرَ نَفِیۡرًا۔ اِنۡ اَحۡسَنۡتُمۡ اَحۡسَنۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَ اِنۡ اَسَاۡتُمۡ فَلَہَا ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ وَ لِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ لِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا۔ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ وَ جَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا۔(بنی اسرائیل:5تا9)

ترجمہ: اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل کو اس قضا سے کھول کر آگاہ کردیا تھا کہ تم ضرور زمین میں دو مرتبہ فساد کرو گے اور یقیناً ایک بڑی سرکشی کرتے ہوئے چھاجاؤگے۔پس جب ان دونوں میں سے پہلے وعدے کا وقت آپہنچا، ہم نے تمہارے خلاف اپنے ایسے بندوں کو کھڑا کردیا جو سخت جنگجو تھے پس وہ بستیوں کے بیچوں بیچ تباہی مچاتے ہوئے داخل ہوگئے اور یہ پورا ہوکر رہنے والا وعدہ تھا۔پھر ہم نے تمہیں دوبارہ ان پر غلبہ عطا کیا اور ہم نے اموال اور اولاد کے ذریعہ تمہاری مدد کی اور تمہیں ہم نے ایک بہت بڑا جتھا بنا دیا۔اگر تم اچھے اعمال بجالاؤ تو اپنی خاطر ہی اچھے اعمال بجالاؤگے۔اور اگر تم بُرا کرو تو خود اپنے لئے ہی بُرا کروگے۔پس جب آخرت والا وعدہ آئے گا (تب بھی یہی مقدر ہے) کہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور وہ مسجد میں اسی طرح داخل ہو جائیں جیسا کہ پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور تاکہ وہ جس پر غلبہ پائیں اُسے تہس نہس کردیں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں مذکورہ بالا آیات کی تفسیر میں بنی اسرائیل پر آنے والی ان دونوں تباہیوں کا مفصل ذکر فرمایا ہے۔فرمایا:

’’ان آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ احکام الٰہی کو توڑ دیں گے تو ایک وقت ایسا آئےگا کہ ایک غیر قوم دور سے ان پر چڑھ آئے گی…اور وباء پڑیں گے۔‘‘

(تفسیر کبیر سورۂ بنی اسرائیل )

چنانچہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نےبابلیوں کو ان کے عذاب کے لیے مسلط کیا اور یروشلم کو تباہ وبرباد کیا گیا جو تقریباً 600 سال قبل مسیحؑ کے واقع ہوا۔پھر اللہ تعالیٰ نے 445سال قبل مسیح بنی اسرائیل کو مید وفارس کے بادشاہ کے ذریعہ دوبارہ بیت المقدس میں داخل ہونے کا انتظام فرمایا۔ مگر بنی اسرائیل نے اس سے عبرت حاصل نہیں کی، ان کی اصلاح کے لیے خدا کی طرف سے بھیجے گئے مسیح کا انہوں نے انکار کیا اور پھر ظلم ونافرمانی میں شدت اختیار کی تب اللہ تعالیٰ نے دوسرے عذاب کا وعدہ بھی پورا فرمایا۔چنانچہ 70ء بعد مسیح کو رومی بادشاہ ٹائٹس نے یروشلم پر حملہ کیا اور شہر کی دیواروں اور مسجد کو گرا دیا گیا اور یہودی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔

یہود کی مسیرت کے بارے میں قرآن مجید کی اگلی پیشگوئی بھی سورت بنی اسرائیل میں ہی درج ہے۔اللہ تعالیٰ نےفرمایا:

وَ قُلۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ لِبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اسۡکُنُوا الۡاَرۡضَ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ جِئۡنَا بِکُمۡ لَفِیۡفًا۔ (بنی اسرائیل:105)

اور اس کے بعد بنی اسرائیل کو ہم نے کہہ دیا کہ تم اس (موعود) ملک میں سکونت اختیار کرو۔پس جب آخرت کا وعدہ آئےگا تو ہم تمہیں پھر اکٹھا کرکے لے آئیں گے۔

چنانچہ یہ پیشگوئی بڑی وضاحت کے ساتھ بیسویں صدی عیسوی میں قیام اسرائیل کے ساتھ پوری ہوگئی۔ تفاسیر میں امام کلبیؒ وغیرہ سے روایت ہے کہ اس پیشگوئی کا تعلق حضرت عیسیٰ ابن مریمؑ کے نزول کے ساتھ ہے ۔(دیکھیں قرطبی تفسیر زیر آیت مذکورہ)اس پیشگوئی کی تعیین زمانی کی وضاحت ایک اور آیت میں ایک عظیم الشان پیشگوئی کے طور پر خدا تعالیٰ بیان فرماتا ہے:

وَ حَرٰمٌ عَلٰی قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَاۤ اَنَّہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ۔ حَتّٰۤی اِذَا فُتِحَتۡ یَاۡجُوۡجُ وَ مَاۡجُوۡجُ وَ ہُمۡ مِّنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ۔ (الانبياء:96تا97)

اور ہر ایک بستی جسے ہم نے ہلاک کیا ہے اس کے لئے یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ اس کے بسنے والے لوٹ کر اس دنیا میں نہیں آئیں گے۔یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کے لئے دروازہ کھول دیا جائے گا اور وہ ہر پہاڑی اور ہر سمندر کی لہر پر سے پھلانگتے ہوئے دنیا میں پھیل جائیں گے ۔

یہاں قریہ سے مراد یروشلم بھی ہے۔اس شہر کی پہلی تباہی کا ذکر بھی قرآن مجید میں لفظ ’’قریۃ‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ چنانچہ تفسیر طبری میں آیت أوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ کے حوالے سے روایت درج ہےکہ وہب بن منبہ کا کہنا ہے کہ آیت اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا(البقرة:260) حضرت یرمیاہ نبی کی زبانی اس وقت کہی گئی تھی جب آپ نے بیت المقدس کو تباہ شدہ اور اس کی کتابوں کو جلائی گئی حالت میں دیکھا تھا۔ غرض حَرٰمٌ عَلٰی قَرۡیَۃٍ والی آیت میں اسی مردہ شہر کی دوسری تباہی کے بعد پھر ایک زمانے میں یہودیوں کے اس میں جمع ہونے کا ذکر ہے۔

دراصل دجال اور یاجوج وماجوج ایک ہی قوم کے دو نام ہیں مغربی عیسائی قوموں کے مذہبی راہ نماؤں کو دجال کا نام دیا گیا ہے اور ان ہی کا سیاسی و قومی نام یاجوج و ماجوج ہے۔قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ یاجوج و ماجوج آخری زمانے میں بہت زیادہ ترقی کریں گے اور ان کا زمین کے اکثر حصہ پر تسلط، غلبہ اور اثر و رسوخ ہوگا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس طرح دجالی فتنے کے وقت یاجوج ماجوج کی طاقت اور سیاسی اقدام کے زیر سایہ یہود کو پھر اللہ تعالیٰ ارض مقدسہ میں آباد کرےگا تو کیا یہ کوئی ابدی رہائش کا وعدہ ہے؟ ہرگز نہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ۔(الانبياء:106)

اور یقیناً ہم نے زبور میں ذکر کے بعد یہ لکھ رکھا تھا کہ لازماً موعود زمین کو میرے صالح بندے ہی ورثہ میں پائیں گے۔

حضرت مسیح موعودؑ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’کیونکہ یہ آیت صاف صاف پکار رہی ہے کہ اسلامی خلافت دائمی ہے اس لئے کہ یَرِثُھَا کا لفظ دوام کو چاہتا ہے۔ وجہ یہ کہ اگر آخری نوبت فاسقوں کی ہو تو زمین کے وارث وہی قرار پائیں گے نہ کہ صالح اور سب کا وارث وہی ہوتا ہے جو سب کے بعد ہو۔‘‘

(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 354)

ایک اور جگہ آپؑ فرماتے ہیں:

’’اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ الارض سے مراد جو شام کی سرزمین ہے یہ صالحین کا ورثہ ہے اور جو اب تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہے۔ خدا تعالیٰ نے

یَرِثُھَا فرمایا یَمْلِکُھَا

نہیں فرمایا۔اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وارث اس کے مسلمان ہی رہیں گے اور اگر یہ کسی اور کے قبضہ میں کسی وقت چلی بھی جاوے تو وہ قبضہ اس قسم کا ہوگا جیسے راہن اپنی چیز کا قبضہ مرتہن کو دے دیتا ہے یہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کی عظمت ہے۔ارض شام چونکہ انبیاء کی سرزمین ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس کی بے حرمتی نہیں کرنا چاہتا کہ وہ غیروں کی میراث ہو۔‘‘

(الحکم جلد 6نمبر 40مورخہ 10؍نومبر 1902ءصفحہ 7)

بنی اسرائیل کے مشابہ حالات مسلمانوں میں بھی آئیں گے

بنی اسرائیل پر نافرمانیوں کے سبب دو بار عذاب آنے کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔سورہ بنی اسرائیل کی مذکورہ آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے یہ بھی فرمایا ہے:

’’یاد رکھنا چاہئے کہ آیات مذکورہ بالا جہاں یہ بتا رہی ہیں کہ یہود کا مستقبل خود ا ن کی کتاب کے رو سے بالکل تاریک ہے وہاں مسلمانوں کو بھی توجہ دلائی ہےکہ مسلمانوں پر بھی اسی طرح دو بار ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے عذاب آئےگا۔چنانچہ پہلا عذاب خلافت عباسیہ کے خاتمہ پر آیا۔ اس کا موجب بھی وہی تھا جو بائبل نے یہود کی تباہی کا موجب بتایا ہے…دوسری تباہی آخری زمانہ کے وقت مقدر تھی جس کے آثار اب نمودار ہو رہے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 306)

چنانچہ تقسیم فلسطین اور قیام اسرائیل کے ساتھ یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی ہے۔

حضرت رسول کریم ﷺ کی بعض پیشگوئیاں

1…خدا اور رسول سے کیے گئے عہد توڑنے پر دشمن قوم کی حکمرانی کی پیشگوئی:

حضورﷺ نے فرمایا:

وَلَمْ يَنْقُضُوا عَهْدَ اللّٰهِ وَعَهْدَ رَسُولِهِ إِلَّا سَلَّطَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَأَخَذُوْا بَعْضَ مَا فِي أَيْدِيْهِمْ۔ وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللّٰهِ وَيَتَخَيَّرُوْا مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰهُ إِلَّا جَعَلَ اللّٰهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ۔ (ابن ماجه۔كتاب الفتن)

ترجمہ: اور جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ کوئی دوسرا دشمن مسلط کر دیتا ہے، تو وہ ان کے ہاتھوں میں جو کچھ ہوتا ہےاس میں سے کچھ چھین لیتے ہیں۔اور جب کسی قوم کے حکمران اللہ کی کتاب سے فیصلے نہیں کرتے اور اللہ کی نازل کردہ شریعت کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ انہیں آپس کے اختلافات میں مبتلا کر دیتا ہے۔

2…مسیح موعود کے ظہور کے بعد جنگوں کو موقوف کرنے کی پیشگوئی:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُوشَكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَهْدِيًّا وَحَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ وَتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۔ (مسند أحمد،كتاب باقي مسند المكثرين)

یعنی نبی کریم ﷺ نے فرمایا:قریب ہے کہ تم میں سے جو زندہ رہے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ امام مہدی اور حاکم عادل ہوں۔پس آپ صلیب توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کردیں گے۔جزیہ موقوف کردیں گے اور جنگ بند ہوجائے گی۔

یہاں مسیح محمدیؑ کے ظہور کے بعد جنگوں کو موقوف کرنے کا ذکر ہے۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ کبھی کوئی جنگ دنیا میں نہیں ہوگی بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ غلبہ اسلام اب کسی جنگ یا ظاہری طاقت پر ہرگز منحصر نہیں ہے، جنگیں جو ہوئی تھیں وہ ایک مجبوری اور دفاعی صورت حال میں ہوئی تھیں، مگر اسلام کا غلبہ ساری دنیا پر ایمان اور عمل صالحہ کے ذریعہ ہی ہونا ہے۔اور اسلام کے اس رنگ کے غلبہ کی بنیاد حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ رکھی جائےگی۔

اب اگر کوئی تلوار سے جہاد کو نکلےگا تو اس کا نکلنا غیر شرعی ہوگا اور وہ خائب وخاسر لوٹےگا ۔چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے امت کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا :

فرما چکا ہے سید کونین مصطفیٰ

عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا

جب آئے گا تو صُلح کو وہ ساتھ لائے گا

جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا

یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا

وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا

3…یاجوج ماجوج کے خروج کے وقت حصار عافیت فقط مسیح موعود کے ذریعہ قائم ہوگا

حضور ﷺ نے فرمایا :

كَذالِكَ إِذْ أَوْحَى اللّٰهُ إِلَى عِيسَى إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللّٰهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ۔ (صحيح مسلم، كتاب الفتن وأشراط الساعة)

یعنی اللہ تعالیٰ (موعود) عیسٰیؑ کو وحی کرے گا کہ میں نے ایسے بندے پیدا کیے ہیں جن کے ساتھ کسی کو جنگ کی طاقت نہیں پس میرے بندوں کو طور پہاڑ کی طرف لے جا اور اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کو کھڑا کرے گا اور وہ ہر بلندی سے چڑھ دوڑیں گے۔

حَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّور کے معنی

یہاں ادنیٰ سمجھ رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ طور سے مراد ظاہری جبل طور نہیں ہوسکتا، کیونکہ یاجوج ماجوج تو ہر بلندی سے چڑھ آنے والی طاقت ہے تو ایک ظاہری پہاڑ پر پناہ لینا کسی بھی طرح معقول امر نہیں ہے۔پس طور سے مراد جبل طور کا جلوہ ہے یعنی خدا کی قربت ومعیت میں آنا اور ایمان اور عمل صالح کی بلند تریں چوٹیوں میں جا پہنچنا مراد ہے۔ غرض یاجوج و ماجوج سے ظاہری مقابلہ کی کسی کو طاقت نہ ہوگی تب مسیح موعودؑ کو اپنی جماعت کے ساتھ طور پہاڑ کی پناہ لینے کی ہدایت کی جائے گی یعنی عبادات اور دعاؤں کی طرف توجہ دلائی جائے گی اور بالآخر دعاؤں اور آسمانی نشانوں سے ہی مسیح موعود ؑکی جماعت کو ان طاقت ور قوموں پر فتح ہوگی۔

عباد صالحین بننے کی ضرورت

آیت وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدۡخِلَنَّہُمۡ فِی الصّٰلِحِیۡنَ (العنكبوت: 10) کی تفسیر میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ محمد رسول اللہﷺ پر سچے دل سے ایمان لائے ہیں اور پھر اس ایمان کے مطابق انہوں نے اعمال صالحہ بھی کئے ہیں ہم انہیں یقیناً صالحین میں داخل کریں گے یعنی ان صادق اور راستباز لوگوں میں شامل کریں گے جن کے متعلق زبور میں (زبور باب 37آیت 29) ہم نے وعدہ کیا تھا کہ انہیں فلسطین کی بادشاہت دی جائیگی۔ گویا وہ وعدہ جو بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا اب مسلمانوں کے ایمان اور عمل صالح کرنے کی وجہ سے ان کی طرف منتقل ہو جائےگا۔چنانچہ جب تک مسلمان صالح رہے فلسطین مسلمانوں کے پاس رہا۔اور جب ان میں بگاڑ پیدا ہوگیا فلسطین بھی ان سے چھن گیا۔ مگر جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے ظاہر ہے کہ یہ فلسطین کا چھننا عارضی ہے ایک دن اللہ تعالیٰ ان کو پھر اس ملک میں لائےگا اور ان کی موجودہ پسپائی فتح سے بدل جائےگی۔ انشاء اللہ تعالیٰ…یہود اگر فلسطین میں مستقل طور پر رہنا چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ وہ صالحین میں شامل ہو جائیں۔خدا تعالیٰ کو ان سے کوئی دشمنی نہیں۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ اگر وہ صالح بن جائیں تو وہ اس ملک میں رہ سکتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صالح کی تشریح میں فرماتا ہے کہ جو لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کریں وہ صالح اور شہید اور صدیق وغیرہ کا مقام پائیں گے۔پس صالح بننے کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کی سچی پیروی ضروری ہے۔اگر یہود محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئیں تو اللہ تعالیٰ ان کو اس ملک میں قائم رکھےگا اور وہ اسی طرح مسلمانوں کے بھائی ہوںگے جس طرح اسحاقؑ اسماعیلؑ کا بھائی تھا۔پس کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہمت کرکے خدا تعالی کے قانون کو اپنی تائید میں نہ بنالیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 7صفحہ 594تا595)

خدا تعالیٰ کا مسلمانوں کے نام اہم پیغام ’’بلاغ‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک درس القرآن کے موقع پر آخری زمانے میں یہودیوں کے دوبارہ اکٹھا ہونے کے متعلق قرآن کریم کی پیشگوئی اور مسلمانوں کی ذمہ داری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ

’بنی اسرائیل سے متعلق ایک پیشگوئی ہے

وَ قُلۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ لِبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اسۡکُنُوا الۡاَرۡضَ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ جِئۡنَا بِکُمۡ لَفِیۡفًا۔ (بنی اسرائیل:105)

کہ جب آخرت کا وعدہ آئے گا اس وقت ہم تمہیں ساری دنیا سے سمیٹ کر اکٹھا کر دیں گے۔

اب یہ جو دَور ہے یہ آخَرین کا دَور ہے … دَور آخَرین سے مراد دوسرا دَورہے، اور آخِرۃ بعد میں آنےوالاکوکہتے ہیں، تو بعد کے آنے والے زمانے میں جو عجیب باتیں رونما ہونے والی ہیں ان کی پیشگوئیاں کچھ سائنسی ہیں کچھ مذہبی نوعیت کی ہیں کچھ سیاسی نوعیت کی ہیں سب قرآن کریم میں موجود ہیں۔یہ جو پیشگوئی ہے یہ مذہبی نوعیت کی ایک پیشگوئی ہے جس میں یہود کے متعلق فرمایا گیا کہ ہم تمہیں تمام دنیا سے اکٹھا کر کے ارض مقدس میں لے آئیں گے۔اب یہ جو واقعہ ہوا ہے اس میں لوگ کہتے ہیں کہ یہود کی چالاکی ان کی سازشیں ہیں۔ وہ ذریعہ بنے ہیں جس طرح سائنس دان ذریعہ بنتے ہیں ۔مگر قرآن بتا رہا ہے کہ یہ مقدر تھا اور ناممکن تھا کہ کوئی اس کو بدل سکے۔ اب مسلمان علماء کو چاہیے تھا کہ اس آیت کا مطالعہ کر کے ایسی کوششیں نہ کرتے جو تقدیر کو بدلنے کی کوششیں ہوں۔ اس سے ان کو نقصان پہنچنا تھا اور ہر دفعہ جب وہ خدا کی تقدیر سے ٹکرائے ہیں ان کو نقصان پہنچا ہے۔اس تقدیر کو سمجھ کر وہ کوششیں کرنی چاہئیں تھیں جن کا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے کہ وہ کوششیں ضرور کامیاب ہونی تھیں ۔ان کی طرف توجہ نہیں کی۔مَیں یہ نہیں کہتا کہ ہاتھ توڑ کر بیٹھ جاتے کہ خدا کی تقدیر نے ظاہر ہونا ہے۔میں یہ بتا رہاہوں کہ ایسی مبرم تقدیر تھی کہ جس کے متعلق کوئی تبدیلی ممکن نہیں تھی۔لیکن اس کے بعد ایک اور بھی تقدیر مقدر ہے اس طرف اگر توجہ کرتے تو کم سے کم نقصان پر اسرائیل میں وہ (جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا) والی پیشگوئی بھی پوری بھی ہو جاتی اور آخری فیض مسلمان پاتے اور آخری فتح مسلمانوں کو ہوتی، وہ ہے

وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ ۔اِنَّ فِیۡ ہٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوۡمٍ عٰبِدِیۡنَ۔(الانبياء:106تا107)

کتنا کھول کر خدا تعالیٰ نے یہ پیغام سمجھایا تھا کہ اب اگر تم اس زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہو تو عبادالصالحین بننا پڑے گا خدا کے پاک نیک بندے بنو گے تو یہ زمین ملے گی ورنہ نہیں ملے گی جو مرضی زور لگا لو

اِنَّ فِیۡ ہٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوۡمٍ عٰبِدِیۡنَ

اس میں ایک بہت بڑا پیغام ہے۔وہ خدا کے بندے جو محمد رسولﷲﷺ کی اُمت میں ہیں عابدین کہلاتے ہیں ان کے لیے اس میں ایک بہت بڑا پیغام ہے، ایک عظیم پیغام بلاغ ہے۔اس کو سمجھیں گے تو فائدہ اٹھائیں گے نہیں سمجھیں گے تو ٹکریں مارتے رہیں گے ان کا کچھ بھی نہیں بنے گا ۔اب تک تو ناسمجھنے والا دَور چل رہا ہے۔ عرب بھی تمام دنیامیں یہ درس سُن رہےہیں۔ان کو میں سمجھاتا ہوں کہ اس پیغام کو سمجھیں یہ بلاغاً ہے بہت بڑا عظیم الشان پیغام ہے اس کے تابع اپنی روز مرہ کی زندگی کو صالح بنائیں۔اور یہ صالح بنانے کا جو مضمون ہے اس کا حکومت کے تختے الٹنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔حکومت کے اسلام کے نام پر تختے الٹنے کی کوششیں جو ہیں یہ اسلام کو یا اسلامی دنیا کو مزید کمزور کریں گی، کبھی بھی اس کا فائدہ نہ ماضی میں ہواہے نہ آئندہ ہو گا۔ اس لیے یہ ظلم اپنی جان پرنہ کریں ۔‘

(ماخوذ از درس القرآن)

مسلمانوں میں وحدت کی ضرورت

قرآن مجید سے پتہ چلتا ہے کہ نعمتِ خلافت کے حقدار بھی وہ مومن ہوتے ہیں جو اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ… (النور:56)

یعنی تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا…۔

ایمان اور عمل صالح کی کمی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت آج بھی اس نعمت عظمی سے محروم چلی آرہی ہے۔خدا تعالیٰ نے اپنا فرض نبھایا ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃکا قیام فرماکر دنیا کے سامنے یہ حقیقت کھول دی ہے کہ رسول کریم ﷺ کے اس سچے عاشق غلام کی پیروی سے ایمان اور عمل صالح میں ترقی کرنے والا ایک گروہ آج دنیا میں موجود ہے اور وہ اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی کے لیے سدا کوشاں ہے۔ غرض خلافت کے حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو صالح بننے کی مسلسل یاد دہانی کرا رہا ہے۔

قضیہ فلسطین کے حوالے سے ہمارے موجودہ امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسلمانوں کو قیام وحدت کی طرف بار بار توجہ دلا رہے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:

’’آج بڑے افسوس سے ہمیں یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے مسلمان ممالک کی بدقسمتی ہے کہ ان میں اتفاق و اتحادنہیں رہا۔ رعایا رعایا سے لڑ رہی ہے۔ رعایا حکومت سے بھی لڑ رہی ہے اور حکومت رعایا پر ظلم کر رہی ہے۔ گویا نہ صرف اتفاق و اتحادنہیں رہا بلکہ ظلم بھی ہو رہا ہے۔ اور پھر ظلم پر زور بھی دیا جارہا ہے۔ پس اس اتفاق و اتحاد کی کمی کا نتیجہ ہے کہ غیروں کو بھی جرأت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو چاہیں کریں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل بھی ظالمانہ طور پر اس وقت معصوم فلسطینیوں کو قتل کرتا چلا جا رہا ہے۔اگر مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد ہوتا اور وہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والے ہوتے تو مسلمان ممالک کی اتنی بڑی طاقت ہے کہ پھر اس طرح ظلم نہ ہوتے۔جنگ کے بھی کوئی اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ اسرائیل کے مقابل پر فلسطینیوں کی کوئی طاقت نہیں۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ حماس والے بھی ظلم کر رہے ہیں تو مسلمان ملکوں کو ان کو بھی روکنا چاہئے۔ لیکن ان دونوں کے ظلموں کی نسبت ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص اپنے ڈنڈے سے ظلم کر رہا ہے اور دوسری طرف ایک فوج توپیں چلا کر ظلم کر رہی ہے۔ مسلمان ممالک سمجھتے ہیں (گزشتہ دنوں ترکی میں سوگ منایا گیا) کہ سوگ مناکر انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا۔ اسی طرح مغربی طاقتیں بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہیں۔چاہئے تو یہ تھا کہ دونوں طرفوں کو سختی سے روکا جاتا۔ بہر حال ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مظلوموں اور معصوموں کو ان ظلموں سے بچائے اور امن قائم ہو۔ اسی طرح مسلمان ممالک کے اپنے اندر بھی جو ایک دوسرے کے اوپر ظلم کئے جا رہے ہیں اور فساد بڑھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے۔ اور کلمہ گو دوسرے کلمہ گو کے خون سے جو ہاتھ رنگ رہے ہیں اس سے یہ لوگ بچیں۔ آپس میں بھی اتفاق و اتحاد قائم ہو۔ اس کے بغیر نہ ان کی عبادتوں کے حق ادا ہو سکتے ہیں نہ یہ حسرت پوری ہو سکتی ہے کہ ہمیں لیلۃ القدر ملے۔ کیونکہ جب قوم میں اتفاق و اتحاد مٹ جائے، ختم ہو جائے تو لیلۃ القدر بھی اٹھا لی جاتی ہے۔ پھر صرف راتیں اور ظلمتیں ہی، اندھیرے ہی مقدر بنتے ہیں۔ ترقی رک جاتی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍ جولائی 2014ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍اگست2014ءصفحہ6)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 14؍مئی 2021ءکے خطبہ عید الفطر کے موقع پر فلسطین کے مظلوم عوام پر جاری حالیہ ظلم وستم کے تناظر میں دعا کی تحریک فرمائی اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ، یہ عید تو ان کے لیے غموں کے پہاڑ لےکر آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے غموں کو خوشیوں میں تبدیل کردے۔ آمین۔

پھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 21؍مئی 2021ء کے خطبہ جمعہ کے دوران فلسطینیوں کے لیے مزید دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:

’ گذشتہ ہفتہ بھی میں نے کہا تھا۔ مظلوم فلسطینیوں کے لیے دعا کریں۔ گو کہ جنگ بندی ہو گئی ہے لیکن تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد کہیں نہ کہیں سے، کسی نہ کسی طریقے سے، کسی نہ کسی بہانے سے دشمن ان فلسطینیوں کو ظلم کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور کوئی نہ کوئی وجہ بنتی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور فلسطینیوں کے لیے بھی حقیقی آزادی میسر آئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ایسے لیڈر بھی عطا فرمائے جن میں عقل اور فراست بھی ہو اور مضبوطی بھی ہو، جو اپنی بات کو کہنے اور اپنے حق لینے والے بھی ہوں۔‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍مئی2021ء)

خدا تعالیٰ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہ دعائیں فلسطینیوں کے حق میں قبول فرمائے اور ان کو عبادصالحین میں تبدیل کرکے حصار عافیت امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button