متفرق مضامین

حیا کیا ہے؟ ایمان کا حصہ کیسےہے؟ (قسط پنجم)

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

حیاکی روح پردہ ہے

گذشتہ اقساط میں ہم نے حیا کے اہم پہلو غض بصر کے حوالے سے بیان کیا تھا اور کوشش کی تھی کہ اس حوالے سے معلومات افادہ ٔعام کے لیے آپ تک پہنچا سکوں۔ امید ہے کہ قارئین کو یہ کاوش پسند آئی ہوگی۔ آج میں حیا کے سب سے اہم پہلو جس میں حیا کی روح ہے، پردے پہ بات کرنا چاہوں گی۔ اس سے قبل گذشتہ اقساط میں اختصار سے پردے کے حوالے سے کچھ نہ کچھ بیان ہوچکاہے۔ اس قسط میں اس پہ مزید روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ بھی ایک عام فہم سی بات ہے کہ پردے کے لفظ میں ہی اس کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ عرف عام میں اس سے مراد ڈھک کر رکھنا، چھپاکے رکھنا، صیغہ راز میں رکھنا، مخفی رکھنا کے ہیں۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ہماری انفرادی اور معاشرتی زندگی کے امن کا ضامن یا رکھوالا یہ پردہ ہے۔ اب لفظ عورت پہ ہی غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس کے لغوی معانی ’’چھپانے کی چیز‘‘کے ہیں۔ دیکھا جائےتو چھپایا تواس چیز کو جاتا ہے جو نہایت قیمتی اور نازک ہو۔ جتنا اس کو چھپا کر اور حفاظت میں رکھا جائے اتنا ہی اس کی عزت اور قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یاچلیں یوں سمجھیں کہ حیا وہ تالا ہے جس کی چابی پردہ ہے اگر یہ چابی گم ہوجائےیا آپ اس کی حفاظت نہ کرسکیں تو کوئی بھی آپ کےکردار پہ بہتان طرازی کرسکتا ہے۔ تو پردہ ہی وہ چابی ہے جو آپ کو زمانے کی سرد وگرم ماحول سے محفوظ کرتی ہے اسی لیے مسلمان عورت کو حکم دیا گیا کہ اپنی حیا کی حفاظت کرنی ہے تو پھر پردے کو اپنانا ہوگا تاکہ تمہیں تنگ نہ کیا جاسکے۔ ورنہ شر پسند عناصر تو اس دور میں بھی تھے جو کہ اعتراض کر تے تھے کہ ہمیں علم نہیں تھا کہ فلاں عورت مسلمان ہے لیکن جب واضح طور پہ پردے کے احکامات نازل ہوگئے اور مسلمان خواتین نے باقاعدہ پردہ کرنا شروع کردیا تو ان کا یہ بودا جواز بھی باطل ہوگیا۔

یہاں ضمناً یہ بھی بتاتی چلوں کہ پردے کے بارے میں احکامات سب سےپہلے سورۃ الاحزاب میں نازل ہوئے جس میں ازاوج مطہرات کو پردے کا حکم دیا گیا۔ پورا واقعہ اختصار کے ساتھ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی کتاب ’’سیرت خاتم النبیینؐ ‘‘میں یو ں درج ہے۔ ’’حضرت زینب بنت جحش سے نکاح کے دوسرے یا تیسرے دن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے مکان میں صحابہ کی دعوت ولیمہ فرمائی اورچونکہ اس نکاح میں خاص طورپر اعلان مقصود تھا اس لئے آپﷺ نے اپنی ساری بیویوں میں حضرت زینب کاولیمہ زیادہ بڑے پیمانے پر کیا۔ اس وقت تک چونکہ پردے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے صحابہ بے تکلف آپ کے گھر کے اندر ہی آگئے اوران میں بعض لوگ کھانے سے فارغ ہوکر بھی ادھرادھر کی باتوں میں مشغول ہوکر وہیں بیٹھے رہے جس سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو تکلیف ہوئی۔ مگرچونکہ آپ کی طبیعت میں حیا کا مادہ بہت تھاآپ شرم کی وجہ سے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے اور ان صحابہ کو باتوں کی مصروفیت میں خود خیال نہ رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت دیر ہوگئی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کابہت ساقیمتی وقت ضائع ہوگیا۔ آخر آپ خود اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کو اٹھتے دیکھ کر اکثر صحابہ بھی ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوئے اورآپ سے رخصت ہو کر مکان سے نکل گئے لیکن تین شخص پھربھی بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے۔ یہ دیکھ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے حجرے کی طرف تشریف لے گئے۔ لیکن جب تھوڑی دیر کے بعد آپ واپس تشریف لائے توابھی تک یہ لوگ وہیں بیٹھے تھے اسی طرح آپ کو دوتین دفعہ آنا جانا پڑا اور آخر کار جب یہ لوگ آپ کے مکان سے چلے گئے توآپ واپس تشریف لے آئے۔ بعض اوقات الٰہی احکام کے نزول کے لئے بھی محرکات پیدا ہوجاتے ہیں یعنی حکم نے تو بہرحال نازل ہونا ہوتا ہے مگر کوئی واقعہ اس کا وقتی محرک بن جاتا ہے۔ چنانچہ یہی واقعہ پردے کے ابتدائی احکامات کے نزول کاتحریکی سبب بن گیااورپردے کے متعلق وہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پر پردے کی پابندی عائد کی گئی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھروں میں غیر محرم لوگوں کی آزادانہ آمدورفت رک گئی۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ پردے کے متعلق مزید احکامات نازل ہوئے حتّٰی کہ بالآخر اس نے وہ صورت اختیار کرلی جواس وقت قرآن شریف وحدیث میں موجود ہے۔ اورجس کی رو سے مسلمان عورت کی جائز اورضروری آزادی کوبرقرار رکھتے ہوئے عورت کوغیرمحرم مردوں کے سامنے اپنے بدن اورلباس کی زینت کے برملا اظہار سے منع فرمایا گیا ہے۔ نیز غیرمحرم مردوعورت کاایک دوسرے کے ساتھ خلوت میں اکیلے ملاقات کرنا ناجائز قرار دے دیا گیا ہے اور اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو یہ وہ قیود ہیں جو ایک طرف تو عورت کی صحت اور اس کی علمی ترقی اور قومی اور ملکی کاموں میں اس کے حصہ لینے اوردوسرے معاملات میں اس کی جائز آزادی میں کوئی روک نہیں بنتیں اوردوسری طرف غیر محرم مرد وعورت کے بالکل آزادانہ اوربے حجابانہ میل جول سے جو خلاف اخلاق اورمضرت رساں نتائج پیدا ہوسکتے ہیں اور جو بے پردملکوں میں عموماًپیدا ہوتے رہتے ہیں ان کا ان قیود سے سدّباب ہوجاتا ہے۔ ‘‘

(سیرت خاتم النبیین صفحہ 547)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا۔ (الاحزاب:60)

اے نبی! تُو اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کو اپنے اوپر جھکا دیا کریں۔ یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور انہیں تکلیف نہ دی جائے اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

اب دیکھیں اس آیت کریمہ میں بھی خدا تعالیٰ نے اسی بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ یہ حکم اس لیے ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور تنگ نہ کی جائیں۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ اس زمانے میں بھی شر پسند یہود کومسلمانوں کو تنگ کرنے کے مواقع مل ہی جایا کرتے تھے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں اس واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’…ایک مسلمان خاتون بازار میں ایک یہودی کی دکان پرکچھ سوداخریدنے کے لیے گئی۔ بعض شریریہودیوں نے جو اس وقت اس دکان پر بیٹھے ہوئے تھے اسے نہایت اوباشانہ طریقے پر چھیڑا اور خود دکان دار نے یہ شرارت کی کہ عورت کے تہ بندکے کونے کو اس کی بے خبری میں کسی کانٹے وغیرہ سے اس کی پیٹھ کے کپڑے سے ٹانک دیا۔ کوئی چیز، کوئی hook لگا ہوا ہوگا یا کانٹا ہو گا۔ … نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ عورت ان کے اوباشانہ طریق کو دیکھ کر وہاں سے اٹھ کر لوٹنے لگی تو وہ ننگی ہوگئی، کپڑا اتر گیا۔ اس پر اس یہودی دکاندار اور اس کے ساتھیوں نے زور سے ایک قہقہہ لگایا اور ہنسنے لگ گئے۔ مسلمان خاتون نے شرم کے مارے ایک چیخ ماری اور مدد چاہی۔ اتفاق سے ایک مسلمان اس وقت قریب موجود تھا۔ وہ لپک کر موقعے پر پہنچا اور پھر وہاں آپس میں لڑائی شروع ہو گئی۔ یہودی دکاندار مارا گیا۔ جس پر چاروں طرف سے اس مسلمان پر تلواریں برس پڑیں۔ انہوں نے حملہ کر دیا اور وہ غیّور مسلمان وہیں ڈھیر ہو گیا۔ وہیں قتل ہو گیا، شہید ہو گیا۔ مسلمانوں کو اس واقعے کا علم ہوا تو پھر ان کی بھی غیرتِ قومی بھڑکی۔ ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور دوسری طرف یہودی جو اس واقعہ کو لڑائی کا بہانہ بنانا چاہتے تھے ہجوم کرکے اکٹھے ہوگئے اور ایک بلوے کی صورت پیدا ہوگئی۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ 6؍ستمبر2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27؍ستمبر2019ء صفحہ 6)

بظاہر ایک معمولی سے واقعہ سے جنگ کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ اسی لیے مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ جب باہر نکلیں تو باپردہ ہوکے نکلیں۔ تاکہ ان کی عصمت کی بہتر حفاظت ہوسکے۔ اسی حوالے سے ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے کیوں کہ جب وہ باہرنکلتی ہے تو شیطان اسے بہکانے کے لیے موقع تلاش کرتا ہے۔

(جامع ترمذی، جلد نمبر اول، حدیث 1181)

عورت کے پردے کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اس کے لیے عبادت بھی پردہ کے بغیر اور بے پردہ جگہ پر کرنا منع فرمایا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کا کمرے میں نماز پڑھناگھر(آنگن ) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور (اندرونی) کو ٹھڑی میں نماز پڑھناکمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔

(سنن ابو داؤد جلد اول، حدیث 567)

اوپر بیان کیے گئے واقعات اور احادیث سے ہمیں پردے کی جو اغراض سمجھ آتی ہیں ان میں شرم و حیا کو قائم رکھنا اور عفت کی حفاظت مقصود ہے۔ اور اسلامی پردے سے مراد عفت کی حفاظت کی خاطر اپنی زینت کو نامحرموں سے چھپانا ہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پردہ کن سے اور کس حد تک کیا جائے؟ اور زنیت میں کیا کیا شامل ہے؟ اور کن صورتوں میں پردےمیں کس حد تک نرمی کی جاسکتی ہے؟تو آئیں دیکھتے ہیں کہ ہمارے خلفا ئےکرام اس بارے میں کیا بیان فرماتے ہیں۔ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مستورات سے خطاب کرتے ہوئے پردے کی وضاحت کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

’’…قرآن کریم پردے کے بارہ میں کیا کہتا ہے۔ یہ لمبی آیت ہے اس میں حکم ہے

وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ(النور:32)

کہ اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کہ جو اس میں سے از خود ظاہر ہو۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں۔

وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ (النور:32)

اور پھر لمبی فہرست ہے کہ باپوں کے سامنے، خاوندوں کے سامنے، بیٹوں کے سامنے جو زینت ظاہر ہوتی ہے وہ ان کے علاوہ باقی جگہ آپ نے ظاہر نہیں کرنی۔ اب اس میں لکھا ہے کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال لو۔ تو بعض کہتے ہیں کہ گریبانوں پر اوڑھنیاں ڈالنے کا حکم ہے اس لئے گلے میں دوپٹہ ڈال لیا یا سکارف ڈال لیا تو یہ کافی ہو گیا۔ تو ایک تو یہ حکم ہے کہ زینت ظاہر نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب باہر نکلوتو اتنا چوڑا کپڑا ہو جو جسم کی زینت کو بھی چھپاتا ہو۔ دوسری جگہ سر پر چادر ڈالنے کا بھی حکم ہے۔ …کہ

وَلۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ(النور:32)

بڑی چادروں کو اپنے سروں سے گھسیٹ کر سینوں تک لے آیا کرو۔ بڑی چادر ہو سر بھی ڈھانکا ہو اور جسم بھی ڈھانکا ہو۔ باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں وغیرہ کے سامنے تو بغیر چادر کے آسکتی ہو۔ اب جب باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں کے سامنے ایک عورت آتی ہے تو شریفانہ لباس میں ہی آتی ہے۔ چہرہ وغیرہ ننگا ہوتا ہے… یہ چہرہ وغیرہ ننگا جوہوتا ہے یہ باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں اور ایسے رشتے جو محرم ہوں، ان کے سامنے تو ہو جاتا ہے لیکن جب باہر جاؤ تو اس طرح ننگا نہیں ہونا چاہئے…تنگ کوٹ پہن کر جو جسم کے ساتھ چمٹا ہو یا ساراچہرہ ننگا کر کے تو پردہ، پردہ نہیں رہتا وہ توفیشن بن جاتا ہے۔ پس میں ہر ایک سے کہتا ہوں کہ اپنے جائزے خود لیں اور دیکھیں کہ کیا قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق ہر ایک پردہ کررہا ہے۔ ‘‘

(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ سویڈن 17؍ستمبر 2005ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍مئی2015ء)

اس سے اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ پردہ کس قسم کا ہونا چاہیے۔ اس بات کو مزید واضح کرنے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی سورۃ النور کی پرمعارف تشریح سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہوں گی۔

پردہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے

حضرت مصلح موعودؓ اس کی تفسیر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:

’’اِلَّامَاظَھَرَ مِنْھَایعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو۔ یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ جو چیز خود بخود ظاہر ہو شریعت نے صرف اس کوجائز رکھا ہے۔ یہ نہیں کہ جس مقام کو کوئی عورت آپ ظاہر کرنا چاہے اس کا ظاہر کرنا اس کے لئے جائز ہو۔ میرے نزدیک آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیزیں دو ہیں یعنی قد اور جسم کی حرکات اور چال۔ لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا مجبوری کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پردے میں داخل نہیں۔ چنانچہ اسی اجازت کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے کیونکہ بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کردیا جائے…اگر کسی گھرانے کے مشاغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں میں یا میدانوں میں کام کرنا پڑے تو اُن کے لئے آنکھوں سے لے کر ناک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہوگا۔ اور پردہ ٹوٹا ہوا نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کرسکتیں اور جو حصہ ضروریات زندگی کے لئے اور ضروریاتِ معیشت کے لئے کھولنا پڑتا ہے اس کا کھولنا پردے کے حکم میں ہی شامل ہے۔ …لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اُس پر اس اجازت کا اطلاق نہ ہوگا۔ غرض

اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا

کے ماتحت کسی مجبوری کی وجہ سے جتنا حصہ ننگا کرنا پڑے ننگا کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ298تا299)

چہرے کے پردے کے حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’…بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کےلئے منہ کا پردہ نہیں حالانکہ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ رسول کریمﷺ نے ان آیات کے کیا معنے سمجھے اور پھر صحابہؓ اور صحابیاتؓ نے اس پر کس طرح عمل کیا؟ اس غرض کےلئے جب احادیث او ر اسلامی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت منہ پردہ میں شامل تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ رسول کریمﷺ نے ایک رشتہ کے سلسلہ میں ایک صحابیہ اُمِّ سلیمؓ کو بھیجا تھا کہ وہ جا کر دیکھ آئے کہ لڑکی کیسی ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ 231)

اگر اُس وقت چہرہ کو چھپا یا نہ جاتا تھا تو ایک عورت کو بھیج کر لڑکی کا رنگ وغیرہ معلوم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریمﷺ کے زمانہ میں ایک نوجوان نے اپنے رشتہ کےلئے ایک جگہ پسند کی اور اُس نے لڑکی کے باپ سے درخواست کی کہ مجھے اور تو سب باتیں پسند ہیں۔ میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے ایک دفعہ لڑکی دیکھنے کی اجازت دیدیں تاکہ میرے دل کو اطمینان ہو جائے۔ چونکہ اس وقت پردہ کا حکم نازل ہو چکا تھا۔ اس لئے لڑکی کے باپ نے اس کو اپنی ہتک سمجھا۔ اور خفا ہو گیا۔ وہ نوجوان رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ا اور اُ س نے یہ تمام واقعہ بیان کیا رسول کریمﷺ نے فرمایا بیشک پردہ کا حکم نازل ہو چکا ہے مگر یہ غیر عورت کےلئے ہے جس لڑکی سے انسان شادی کرنا چاہے اور لڑکی کے ماں باپ بھی رشتہ دینے پر آمادہ ہو جائیں تو اُسے شادی سے پہلے اگر لڑکا دیکھنا چاہے تو ایک دفعہ دیکھ سکتا ہے۔ تم جائو اور لڑکی کے باپ کو میری یہ بات بتا دو۔ وہ گیا اور اُس نے رسول کریمﷺ کا یہ پیغام اُسے پہنچا دیا۔ مگر معلوم ہوتا ہے اُس کا ایمان ابھی پختہ نہیں تھا۔ اُس نے پھر بھی یہی جواب دیا کہ میں ایسا بے غیرت نہیں کہ تمہیں اپنی لڑکی دکھا دوں۔ لڑکی اندر بیٹھی ہوئی یہ تمام باتیں سن رہی تھی جب اُس نے رسول کریمﷺ کی بات سن کر بھی اپنی لڑکی کی شکل دکھانے سے انکار کر دیا۔ تو وہ لڑکی فوراً اپنا منہ ننگا کر کے باہر آگئی اور اُس نے کہا جب رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ مونہہ دیکھ لو تو میرے باپ کا کیا حق ہے کہ وہ اس کے خلاف چلے میں اب تمہارے سامنے کھڑی ہوں تم بے شک مجھے دیکھ لو۔

(ابن ماجہ کتاب النکاح و مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 244)

اگر وہ لڑکی کھلے منہ پھر اکرتی تو اُس نوجوان کو لڑکی کے باپ سے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ مجھے اپنی لڑکی دکھا دیں۔ اور پھر رسول کریمﷺ سے اس بارہ میں اجازت حاصل کرنے کا کیا مطلب تھا؟ اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریمﷺ ایک دفعہ اپنی ایک بیوی کے ساتھ جن کا نام صفیہؓ تھا شام کے وقت گلی میں سے گذر رہے تھے کہ آپؐ نے دیکھا کہ ایک آدمی سامنے سے آرہا ہے۔ آپؐ کو کسی وجہ سے شبہ ہوا کہ اس کے دل میں شاید یہ خیال پیدا ہو کہ میرے ساتھ کوئی اورعورت ہے، چنانچہ آنحضرتﷺ نے اپنی بیوی کے منہ پر سے نقاب اُلٹ دیا اور فرمایا کہ دیکھ لو یہ صفیہؓ ہے (بخاری ابواب الاعتکاف و مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ 156، 285) اگر مونہہ کھلا رکھنے کا حکم ہوتا تو اس قسم کے خطرہ کا کوئی احتمال ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی طرح حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ جنگ جمل میں فوج کو لڑا رہی تھیں اور اُن کی ہودج کی رسیوں کو کاٹ کر گِرا دیا گیا۔ تو ایک خبیث الطبع خارجی نے اُن کے ہودج کا پردہ اُٹھا کر کہا کہ اوہو ! یہ تو سُرخ و سفید رنگ کی عورت ہے۔ اگر رسول کریمﷺ کی بیویوں میں منہ کھلا رکھنے کا طریق رائج ہو تا تو جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہودج میں بیٹھی فوج کو لڑا رہی تھیں تو اس وقت وہ انہیں دیکھ چکا ہوتا اور اس کےلئے کوئی تعجب کی بات نہ ہوتی۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپانے کا حکم نہیں اُن سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ زینت چھپائو۔ اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے۔ اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے۔ جس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بیشک ہم اس حدتک قائل ہیں کہ چہرہ کو اس طرح چھپایا جائے کہ اس کا صحت پر کوئی برا اثر نہ پڑے۔ مثلاًباریک کپڑا ڈال لیا جائے یا عرب عورتوں کی طرز کا نقاب بنا لیا جائے جس میں آنکھیں اور ناک کا نتھنا آزاد رہتا ہے۔ مگر چہرہ کو پردہ سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ300)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک خطبہ جمعہ میں پردے کے قرآنی حکم کی تشریح بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

’’اس مضمون کو خلاصۃًدو تین مرتبہ پہلے بھی مختلف اوقات میں بیان کر چکاہوں۔ لیکن مَیں سمجھتاہوں کہ اس مضمون کو کھولنے کی مزید ضرورت ہے۔ …کئی لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ فرسودہ باتیں ہیں، پرانی باتیں ہیں۔ اور ان میں نہیں پڑنا چاہئے، زمانے کے ساتھ چلنا چاہئے۔ گو جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت معمولی ہے لیکن زمانے کی رَو میں بہنے کے خوف سے دل میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور اس معمولی چیز کو بھی معمولی نہیں سمجھناچاہئے۔ ایسے لوگوں کو میراایک جواب یہ ہے کہ جس کا م کوکرنے یا نہ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور اس کامل اور مکمل کتاب میں اس بارہ میں احکام آگئے ہیں اور جن اوامر و نواہی کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتا چکے ہیں کہ یہ صحیح اسلامی تعلیم ہے تو اب اسلام اور احمدیت کی ترقی اسی کے ساتھ وابستہ ہے۔ چاہے اسے چھوٹی سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ اور یہ آخری شرعی کتاب جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پراتاری ہے اس کی تعلیم کبھی فرسودہ اور پرانی نہیں ہوسکتی۔ اس لئے جن کے دلوں میں ایسے خیالات آتے ہیں وہ اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور استغفار کریں۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری 2004ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ء)

حیاکی روح پردہ ہے

اوپر دی گئی تشریح اور مثالوں سے ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ پردہ حکم خداوندی ہے اور اسے بجا لانا بہت ضروری ہے۔ عورت کے فطری حسن کا حیا سے بہت گہرا تعلق ہےاس حسن کی حفاظت اور نگہداشت میں پردہ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح ا لرابع رحمہ اللہ نے حیا کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’…حضرت زید بن طلحہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر دین اور مذہب کا اپنا ایک خاص خُلق ہوتا ہے اور اسلام کا یہ خُلق حیاء ہے۔ ہر مذہب کی ایک بنیادی روح ہے اور وہ روح اسے دوسرے مذاہب سے ممتاز کرتی ہے۔ …آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی روح حیاءہے اور حیاءنہ رہے تو کچھ بھی نہیں رہتا۔ پس یاد رکھیں کہ حیاء کا جہاں تک تعلق ہے یہ صرف عورت کا زیور نہیں یہ مردوں کا بھی زیور ہےاور مردوں اور عورتوں دونوں میں برابر کی چیز ہے۔ بعض دفعہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حیا کرنا عورت کا کام ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں میں برابر کا خُلق ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حیاء کو اسلام کا خُلق قرار نہ دیتے بلکہ خواتین سے متعلق تعلیم کے طور پر اسے پیش کرتے۔ بعض صحابہ میں غیر معمولی حیاء پائی جاتی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہر حال میں پسند فرماتے تھے۔

حضرت عثمانؓ سے متعلق آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جتنے صحابہؓ تھے ان سب سے زیادہ حیاء حضرت عثمانؓ میں پائی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ اگر مجلس میں آپ کی پنڈلی سے بھی کپڑا اُٹھ جاتا تھا اور اچانک آپؓ کو معلوم ہوتا تھا کہ میری پنڈلی ننگی ہے تو شرما کر فوری طور پر چادر کھینچ کر اپنی پنڈلی چھُپا لیا کرتے تھے۔ تو حیاء مردوں کا بھی زیور ہے اور عورتوں کا بھی لیکن عورتوں کا ان معنوں میں بھی زیور ہے کہ عورت کے طبعی اور فطری حسن کا حیاء سے تعلق ہے۔ حسن کا دکھاوا اور اس کی نمائش تو منع ہے لیکن حسن تو اللہ کو پسند ہے اور ہر عورت کی فطرت میں ہے کہ وہ حسین ہو اور حقیقت یہ ہے کہ حسن کا حیاء سے ایک بہت گہرا تعلق ہے۔ جس عورت کی حیاء اُڑنی شروع ہو جائے یاد رکھیں اس کا حسن اُڑنا شروع ہو جاتا ہے وہ پھول جس سے رنگت اُڑ جائے، وہ پھول جس کی خوشبو اس سے باغی ہو جائے، اس پھول کا چہرہ بالکل بے رونق اور بے حقیقت سا دکھائی دینے لگتا ہے۔ پس حسن کا حیا ء سے ایک بہت گہرا تعلق ہے خصوصاً عورت کے اندر جو اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر حسن کی ادائیں رکھی ہیں یا حسن کی باتیں رکھی ہیں ان میں حیا ایسے ہی ہے جیسے کہ میں نے بیان کیا کہ پھول کی خوشبو اور پھول کی رنگت ہو۔ پس آپ گرد وپیش میں نگاہ ڈال کر دیکھ لیں۔ آپ میں سے ہر ایک کا دل گواہی دے گا کہ وہ عورت جس کی حیااٹھتی ہو خواہ دوسرے معنوں میں بے حیا نہ بھی ہو مگر روز مرہ کی بعض باتوں کے نتیجے میں حیا کچھ اٹھتی جاتی ہے اس کا حسن بھی اسی حد تک اُڑ جاتا ہے اور اُسی حد تک اس میں ایک کشش کم ہو تی جاتی ہے۔ ‘‘

(حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے مستورات سے خطابات، فرمودہ8؍ستمبر1995ءبحوالہ الازھار لذوات الخمار جلد دوم، صفحہ441تا442)

حیا ہمارے ایمان کی روح ہے۔ جس طرح جسم روح کے بغیر بے جان اور بوسیدہ ہوجاتا ہے اور آخر اس میں سرانڈ آنے لگتی ہے اسی طرح اگر حیا نہ رہے تو روحانیت کا جسم بھی مردہ ہو جاتا ہے اور اس میں بھی وہی سرانڈ پیدا ہونے لگتی ہے جو پورے معاشرے میں تعفن کا باعث بنتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس بارے میں فرمایا:

‘‘حضرت ابو مسعودؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں۔ بخاری کتاب الادب سے یہ روایت لی گئی ہے کہ سابقہ انبیاء کے حکیمانہ اقوال میں سے جو لوگوں تک پہنچتے رہے ایک یہ ہے کہ جب حیا اٹھ جائے تو پھر انسان جو چاہے کرتا پھرے۔ الفاظ یہ ہیں۔

اِذْ لَمْ تَسْتَحْی فَا صْنَعُ مَا شِئْتَ

(بخاری کتاب الادب باب اذ لم تستھی فاصنع ماشئت )

جس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر گناہوں کا ارتکاب بے حیائی کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس پہلو پر انسان بہت کم نظر کرتا ہے کہ ہر گناہ کا آغاز بے حیائی سے ہوتا ہے اور حیا توڑ کر گناہ کرنا پڑتا ہے۔ پہلی دفعہ اگر کوئی بچہ چوری کرے تو چوری سے بھی اس کو حیا آتی ہے، اگر کوئی پہلی بار جھوٹ بولے تو جھوٹ سے بھی اس کو حیا آتی ہے،

بد تمیزی کرے اور اگر پہلی بار با لارادہ بد تمیزی کرتا ہے تو لازماً اس کو اس بد تمیزی سے بھی حیا آئے گی۔ پس حیا گناہ کے رستے کی ایک روک ہے اور بے حیائی ہر گناہ کے لئے دروازے کھولتی ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کہ وہ انبیاء جو بہت حکیمانہ کلام کیا کرتے تھے ان کے پُر حکمت کلام کا یہ ایک نمونہ ہے کہ وہ کہا کرتے تھے۔ اِذْ لَمْ تَسْتَحْی فَا صْنَعُ مَا شِئْتَ جب تم میں حیاء ہی باقی نہیں رہی تو پھر جو چاہے کرتا پھر۔ فارسی میں بھی ایک محاورہ ہے جو غالباً اسی انبیاء کے حکیمانہ قول سے لیا گیا ہے۔ ’’بے حیا ء باش ہر چہ خواہی کن ‘‘بے حیاء ہو جا بس یہ شرط ہے پھر جو چاہے کرتا پھر، پھر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تو یہ پردے کی روح ہے اور پردے کی ہی نہیں ہر عصمت کی روح ہے اور یہ وہ روح ہے جو عورتوں سے خاص نہیں بلکہ مردوں اور عورتوں دونوں سے خاص ہے اس لئے حیاء کی حفاظت کریں اور اپنے بچوں میں بھی حیاء کو قائم کریں۔ حیاء سے مراد صرف مردوں، عورتوں کے تعلقات کی حیاء نہیں ہے۔ حیا فی ذاتہٖ ایک خُلق ہے جو ہر گناہ کے مقابل پر ایک پردہ ہے۔ پس وہ عورتیں جو معلوم کرنا چاہتی ہیں کہ اسلامی پردہ کیا ہے؟ میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلامی پردہ حیاء ہے۔ اگر آپ اپنی حیاء کی حفاظت کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا کے فرشتے آپ کی ہر قسم کی خرابیوں اور گناہوں سے حفاظت کریں گے کیونکہ حیاء کے پردے سے بہتر کوئی اور پردہ نہیں۔ پس اپنے بچوں کو بھی حیاء دار بنائیں، حیا کا مردانگی سے ایک تعلق ہے اور ایک تعلق نہیں بھی ہے۔ حیا سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ نیک کاموں سے انسان حیا کرے یا بہادری کے کاموں سے انسان حیا کرے۔ وہ مواقع جہاں جان دینے کی باتیں ہو رہی ہوں وہاں حیا بےحیائی ہے اور شرم کا مقام ہے۔ اورامر واقعہ یہ ہے کہ وہاں حیا کا مضمون بالکل اُلٹ جاتا ہے۔ ‘‘

(حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے مستورات سے خطابات، فرمودہ 8؍ ستمبر1995ء بحوالہ الازھار لذوات الخمار جلد دوم، صفحہ445)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button