متفرق

انتخاب شریک حیات اور شادی کا سفر (حصہ دوم۔ آخری)

(شیخ نعیم اللہ۔ جرمنی)

شادی کی عمر

لڑکا یا لڑکی جب بالغ ہو جائیں اور قانون کے مطابق شادی کی عمر کو پہنچ جائیں تو تعلیم کو وجہ بنا کر شادی میں تاخیر نہ کریں ۔دنیا میں بے شمار مثالیں موجود ہیں جنہوں نے شادی کے بعد اپنی تعلیم کو جاری رکھا اور مکمل کیا ۔

شادی کا مقصد مرد اور عورت کو شیطانی وساوس اور شہوانی حملوں سے محفوظ رکھنا ہے ۔اس میں تاخیر اپنے بچوں کو باہر کے شیطانی حملوں کے حوالے کرنا ہے ۔اور اگر وہ کسی گناہ کی طرف جاتے ہیں تو اس گناہ میں اس کے والدین برابر کے شریک ہوں گے۔ آپ کا بچہ جب گھر سے باہر جاتا ہے تو چاروں اطراف سے شیطانی حملوں کا مقابلہ کرتا ہے ۔انہیں ایسے ماحول میں آزاد چھوڑ دیں گے تو اگر وہ وقت کے کسی لمحہ میں کمزور پڑ گئے تو اس کی ذمہ داری بھی والدین پر عائد ہو گی ۔ اس لیے اپنے بچوں کو کسی امتحان میں نہ ڈالیں اور وقت پر ان کی شادی کریں ۔

شادی /نکاح کے لیے ولی کی اجازت ضروری ہے

لڑکی کا باپ ہر صورت میں اس کا ولی ہوتا ہے ۔حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا

یعنی کوئی عورت بغیر ولی کے خود اپنا نکاح نہ کرائے اور جو عورت بغیر ولی کے خود کو کسی کی زوجیت میں دے دے تو وہ زانیہ ہے ۔

(دارقطنی کتاب النکاح جلد2صفحہ 354)

حضرت عائشہ ؓسے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اگر کوئی عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے ۔

(ترمذی کتاب النکاح باب لانکاح الابولی ،جلد اول صفحہ 130)

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ لَا نِکاحَ بِوَلی وَ شاھِدی عدلِ،یعنی کسی عورت کا نکاح ولی کی اجازت اور دو عادل گواہوں کے بغیر درست نہیں ۔(دارقطنی کتاب النکاح جلد 2 صفحہ 382)

ایک جوان لڑکی نے ایک شخص سے شادی کی خواہش کی مگر اس کے باپ نے نہ مانا اور وہ دونوں ننگل(قادیان کے قریب ایک جگہ تھی ) چلے گئے اور وہاں جاکر کسی ملّا سے نکاح پڑھوا لیا اور کہنا شروع کر دیا کہ ان کی شادی ہو گئی ہے۔ اور پھر وہ قادیان آگئے ۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معلوم ہوا تو آپؑ نے دونوں کو قادیان سے نکال دیا اور فرمایا یہ شریعت کے خلاف فعل ہے کہ محض لڑکی کی رضامندی دیکھ کر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا جائے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نہ ہی ماں باپ کو اتنی سختی بلا وجہ کرنی چاہیے کہ بغیر کسی وجہ کے جھوٹی غیرت کے نام پر رشتہ نہ کریں اور قتل تک کے ظالمانہ فعل کرنے والے بن جائیں۔ اور نہ لڑکیوں کو اسلام اجازت دیتا ہے کہ از خود گھروں سے جا کر عدالتوں میں یا کسی مولوی کے پاس جا کر شادی کر ائیں یا نکاح پڑھوا لیں ۔

(ماخوذ ازروزنامہ الفضل 17 مئی 2016ء )

دعائے استخارہ

اللہ تعالیٰ غیب کا علم جانتا ہے ،ہمارے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں ۔ہمیں ہر کام کا آغاز دعا سے کرنا چاہیے ۔بعض لوگ استخارہ کی حقیقت کو نہ سمجھتے ہوئے شکوک میں پڑ جاتے ہیں خوابوں کی تعبیر کا حقیقی علم نہیں رکھتے ۔ دعا ئےاستخارہ میں خواب کا انتظار کرنا غلط ہے ۔اگر اس میں صرف خواب کے ذریعہ پیغام ملنا ہوتا تو پھر اس کا نام دعائے استخارہ نہیں بلکہ استخبارہ ہوتا یعنی خبر دی جاتی ۔ دعائےاستخارہ ایک دعا ہے اس دعا کے نتیجہ میں اگر کوئی کام یا رشتہ جس کے لئے دعا کی جا رہی ہے آپ کے لئے بہتر ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کے دل کو اطمینان اور سکون عطا کرتا ہے ۔ تو جان لینا چاہیے کہ اس میں خدا کی بہتری ہے ۔

اسلامی معاشرہ میں رشتے کے انتخاب کے بارہ میں یہ کام لڑکے یا لڑکی پر ہی نہیں چھوڑ دیا جاتا بلکہ ان کے والدین بھی اپنے بچوں کے شریک حیات کے انتخاب میں اس دعا میں پوری طرح ملوث ہوتے ہیں ۔ رشتہ کی تجویز کے وقت باپ غور کرتا ہے ،والدہ غور کرتی ہے ،بھائی سوچتے ہیں ،رشتہ دار تحقیق کرتے ہیں ،دعائے استخارہ کرتے ہیں اور اس طرح سے جو بات طے ہوتی ہے وہ بالعموم ان نقائص سے پاک ہوتی ہے جو آزادانہ آپس میں خود رشتے طے کرنے میں نظر آتے ہیں۔ اکثر ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ خاندان کے کسی شخص کو دعائے استخارہ کے لیے کہہ دیا جاتا ہے اور خود اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتے ہیں ۔لڑکے اور لڑکیاں جن کی شادی ہونی ہوتی ہے انہیں بالکل اس سلسلہ سے دور اور نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ انسان فرشتہ تو نہیں اس میں بشری کمزویاں بھی پائی جاتی ہیں مگر اس دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ دونوں کی اس بشری کمزوری کو دور فرماتا ہے۔

خطبہ نکاح

خطبہ نکاح کی آیات میں پانچ مرتبہ تقویٰ کا ذکر ہے۔ اورقولِ سدید کاطبی ذکر ۔گویا خطبہ نکاح کی ان آیات میں ایک نئے رشتے کو جوڑتے ہوئے انہیں کامیابی سے زندگی گزارنے کی کنجی بھی بتائی گئی ہے جو صرف اور صرف تقویٰ یعنی خدا کا خوف ہے ۔

قول سدید کا مقصد صاف اور سیدھی بات ہے جس میں کسی قسم کا آدھا سچ اور آدھا جھوٹ ملا کر بیان کرنا نہیں ہے بلکہ صاف اور سیدھی بات کی جائے ۔ انسانی بیرونی اور اندرونی بیماریوں اور عادات کا چھپانا جو شادی کے بعد ظاہر ہوں ،جھوٹ کے زمرہ میں آتا ہے۔ جھوٹ اور بناوٹ اور قول سدید پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں عائلی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور ان بڑھتے ہوئے عائلی مسائل پر حضور انور نے بے حد تکلیف محسوس کرتے ہوئے کونسلنگ کا نظام جاری فرمایا ۔ اس سلسلہ میں حضور انور نے فریقین کا باہمی رشتے پر اتفاق کے بعد لڑکے اور لڑکی دونوں کے والدین کی موجودگی میں اسلامی نکاح اور میرج آفس میں شادی سے قبل کونسلنگ کی ہدایت فرمائی ۔جس میں میاں بیوی کے حقوق و فرائض ،والدین اور رحمی رشتوں سے حسنِ سلوک اور اختلافی مسائل پر کُھل کر بات کی جاتی ہے تاکہ دونوں فریق آپس میں اتفاق رائے سے اپنی زندگی کا آغاز کریں ۔

شادی اور تقریبِ رخصتی

اسلام کا کیا ہی پیار انظام ہے کہ جب بچی کو رخصت کیا جاتا ہے تو عزیز و اقارب کو دعوت دی جاتی ہے کہ بیٹی کو اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی عائلی زندگی میں خوشیاں بھر دے ۔ دنیاوی تحفہ عام طورپر ایک مدت کے بعد ختم یا ضائع ہو جاتا ہے مگر دعا کا تحفہ اس کے ساتھ ساری زندگی رہتا ہے ۔

لڑکے اور لڑکی نے شادی کے لیے اپنے جیون ساتھی کی ایک تصویر ذہن میں بنائی ہوتی ہے اور آنے والا ساتھی اس کے مطابق نہ ہو تو اختلافات شروع ہو جاتے ہیں ۔اس لیے ضروری ہے کہ اپنے اس خیالی تصور اور تصویر سے باہر نکلیں۔ اور ایک دوسرے کی عادت کو سمجھیں ۔

ہم اگر اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو حقوق حاصل کرنے کی جنگ جاری ہے ۔ ہر شخص یہ کہتا ہے کہ مجھے میرے حقوق ملیں۔ مگر ہم اس سوچ کو بدل کر اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر میں پڑ جائیں تو خود بخود ایک دوسرے کے حقوق پورے ہو جائیں گے۔ فرائض ادا کرنے کے نتیجہ میں محبت جنم لیتی ہے۔ اور دوسرے کے حقوق بھی ادا ہو جاتے ہیں ۔ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر غور کریں تو انہیں ہر وقت اپنے فرائض ادا کرنے کی تڑپ رہتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عائلی زندگی ہم سب کے لیے ایک مثال ہے ۔ غارِ حرا میں پہلی وحی کا واقعہ ہم سب جانتے ہیں ۔اس واقعہ کا ذکرسب سے پہلے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کیا تھا ۔دیکھ لیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً ثابت کر دیا کہ سچا دوست اور ساتھی بیوی ہی ہے ۔

سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: چاہیے کہ بیویوں سے ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے ۔انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ یہی عورتیں ہوتی ہیں ۔اگر انہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا سے صلح ہو جائے۔

(ملفوظات،جلد سوم ،صفحہ 300)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی تعلیم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنے والا بنائے آمین ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button