حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (2) (قسط15)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

خداتعالیٰ سے اتصال پیدا کرنے اور روحانی طاقتوں کو تکمیل تک پہنچانے والا مذہب

(5) اب میں پانچویں بات بیان کرتا ہوں کہ جو ضرورتیں کوئی مذہب پیش کرے اس کا فرض ہے کہ وہ انہیں پورا بھی کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سوائے قرآن کریم کے اور کوئی کتاب پوری نہیں اترتی۔ صرف قرآن کریم ہی ہے جو اس امر کا مدعی ہے کہ جب تک کوئی مذہب خدا تعالیٰ سے اتصال پیدا نہیں کراتا اور روحانی طاقتوں کو مکمل نہیں کراتا اور اخروی بھلائی کی ضمانت اسے نہیں دیتا اس کی خالی تعلیم اسے نفع نہیں پہنچا سکتی۔ چنانچہ وہ اس دنیا سے آواز دیتا ہے کہ

مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا(بنی اسرائیل :73)

یعنی یہ یاد رکھو کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی غرض یہ ہے کہ انسان خدا کو پا لے کیونکہ مذہب کا مدعا یہ ہے کہ انسان خدا کو دیکھ لے۔ اور اگر اس دنیا میں خدا کسی کو نظر نہیں آتا تو اگلی دنیا میں بھی نظر نہیں آئے گا۔ خدا کو دیکھنے کی اس دنیا میں بھی ضرورت ہے۔ اگر ایک انسان سب عبادات بجا لاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے نظر نہیں آتا تو صاف معلوم ہوا کہ عبادت کا جو اصل مقصد ہے وہ پورا نہیں ہوا۔ اور جو شخص اس دنیا میں خدا کو دیکھنے سے اندھا رہا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا اور اسے وہاں بھی خدا نظر نہیں آئے گا۔ اَضَلُّ سَبِیۡلًاکے معنی یہ ہیں کہ اگلے جہان میں اس کی نابینائی اور بھی بھیانک ہوگی کیونکہ وہاں توبہ کا کوئی موقع نہ ہوگا۔

آخرت سے آواز

پھر وہ آخرت سے آواز دیتا ہے کہ

یَوۡمَ تَرَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ بُشۡرٰٮکُمُ الۡیَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ۔ یَوۡمَ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ ۚ قِیۡلَ ارۡجِعُوۡا وَرَآءَکُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًا ؕ فَضُرِبَ بَیۡنَہُمۡ بِسُوۡرٍ لَّہٗ بَابٌ ؕ بَاطِنُہٗ فِیۡہِ الرَّحۡمَۃُ وَ ظَاہِرُہٗ مِنۡ قِبَلِہِ الۡعَذَابُ۔(الحدید:13-14)

یعنی اس روز تو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھے گا کہ ان کا نور ان کے سامنے بھی اور ان کے دائیں طرف بھی بھاگتا جائے گا۔ اس میں بتایا کہ اگلے جہان کی ترقیات بہت جلدی جلدی ہوںگی نور تیز تبھی ہوگا جب کہ ساتھ چلنے والے بھی تیز ہونگے۔ وہ نور

بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ

رہے گا یعنی ان کے دائیں بائیں بھی نور ہوگا اور آگے بھی۔ گویا اس میں ترقیات کی رفتار کی تیزی اور اس تیزی میں مومنوں کے ہم قدم رہنے کی طرف اشارہ ہے۔

بُشۡرٰٮکُمُ الۡیَوۡمَ

خداتعالیٰ کے فرشتے انہیں کہیں گے کہ آج تمہارے لئے بشارت ہے۔

جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا

ان جنات اور قسم قسم کے باغوں کی جن میں نہریں بہ رہی ہیں۔

یَوۡمَ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ ۚ قِیۡلَ ارۡجِعُوۡا وَرَآءَکُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًا

اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ تم تو دوڑے جارہے ہو ذرا ہمارا بھی انتظار کرو۔ ہم بھی تم سے نور لے لیں۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا تمہیں یہاں سے نور نہیں مل سکتا۔ اگر طاقت ہے تو تم پیچھے کی طرف لوٹ جائو۔ اور وہیں جائو جہاں سے تم آئے ہو اور وہاں جا کر نور کی تلاش کرو۔ اس میں بتایا کہ وہ نور جو اگلے جہان میں کام آئے گا اسی دنیا میں ملتا ہے۔ وہاں جانے کے بعد نہیں ملے گا۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ انسان اسی دنیا میں نیکیاں کرے تب اگلے جہان میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ مگر دیکھو رحمت الہی بھی کس قدر وسیع ہے۔ کہا جا سکتا تھا کہ جب دنیا میں کسی کو نور نہیں ملا تو کیا پھر اسے کبھی نور نہ مل سکے گا اور وہ ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائے گا اور اگر اسے نور مل سکتا ہے جس کی طرف

فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًا

میں ایک مخفی اشارہ ہے تو کیسے۔ اس کے متعلق فرمایا۔

فَضُرِبَ بَیۡنَہُمۡ بِسُوۡرٍ لَّہٗ بَابٌ ؕ بَاطِنُہٗ فِیۡہِ الرَّحۡمَۃُ وَ ظَاہِرُہٗ مِنۡ قِبَلِہِ الۡعَذَابُ۔

منافقوں اور مومنوں کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی۔ اور اس میں ایک دروازہ رکھا جائے گا۔ یہ تو صاف بات ہے کہ جنت والے تو جنت سے باہر نہیں جائیں گے اس لئے یقیناً یہ دروازہ اسی لئے رکھا جائے گا کہ باہر والے اندر آ جائیں۔ پس بتایا کہ گو نور اسی دنیا میں حاصل ہو سکتا ہے لیکن جو اس سے محروم رہیں گے انہیں بعض حالتوں میں سے گذارنے کے بعد معاف کر دیا جائے گا۔ اور وہ اس دروازہ میں سے گذر کر جنت میں داخل ہو جائیں گے۔

بَاطِنُہٗ فِیۡہِ الرَّحۡمَۃُ وَ ظَاہِرُہٗ مِنۡ قِبَلِہِ الۡعَذَابُ

میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ جنتی حواس اور قوتوں سے ہی دوزخ پیدا ہوتی ہے۔ یعنی حواس حقیقی تو نیک ہی ہیں لیکن ان کے غلط استعمال سے دوزخ پیدا ہوتی ہے۔ غرض اس دعویٰ میں بھی قرآن کریم کے ساتھ اور کوئی کتاب شریک نہیں ہے۔

ایفائے وعدہ کا ثبوت

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اوپر جو کچھ بیان ہوا یہ تو دعویٰ ہے۔ کیا ایفائے وعدہ بھی ہوگا سو اس کے متعلق فرمایا۔

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِالۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہٗ ؕ اَلَیۡسَ فِیۡ جَہَنَّمَ مَثۡوًی لِّلۡکٰفِرِیۡنَ۔ وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (العنکبوت:69-70)

یعنی اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ کر افتراء کرے۔ یا اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہو سکتا ہے جو اس سچائی کا انکار کر دے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے پاس آئے۔ کیا ایسے کافروں کی جگہ جہنم نہیں ہونی چاہئے؟ ہاں وہ جو ہماری تعلیمِ قرآن کے مطابق ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہیں ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے اور اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ محسنوں کا ساتھ دیتا ہے۔ اس آیت میں بتایا کہ ایسے لوگ جتنا ہماری طرف چل کر آ سکیں گے اتنا اگر چلیں گے۔ تو جب ان کے پیر چلنے سے رہ جائیں گے ہم خود جا کر انہیں لے آئیں گے۔ کیونکہ ہمارا یہ طریق ہے کہ کچھ بندہ آتا ہے اور کچھ ہم اس کی طرف جاتے ہیں۔

یہاں

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا

الخ میں یہ بتایا کہ قرآن خدا پر افتراء نہیں۔ اگر یہ جھوٹ ہوتا تو اس کے بنانے والا عذاب میں مبتلا کیا جاتا۔ پھر

وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا

میں یہ بتایا کہ جھوٹ کوئی اس وقت بولتا ہے جب سچائی سے اپنا مقصد حاصل نہ کر سکے۔ لیکن جب ہم نے کلام نازل ہونے کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور ہم نے کہہ دیا ہے کہ محسن بن جائو تو اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائو گے تو کیوں سچی کوشش کرکے سچا کلام حاصل نہ کیا جائے۔ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے۔

رضائے الٰہی حاصل کرنے والا کامیاب گروہ

اس آیت کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں تو صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ہم ایسا کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا خدا تعالیٰ نے ایسا کیا بھی ہے یا نہیں؟ سو اگرچہ اس سوال کا جواب اسی آیت میں آ جاتا ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ سے اتصال اس کا ہوگا جو مناسب روحانی تکمیل حاصل کر چکا ہو اور وہ جنت بھی پائے گا۔ لیکن علیحدہ علیحدہ بھی ان باتوں کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق رکھنے والے آخر قرآن پر چل کر اپنی مراد کو پہنچ گئے اور انہوں نے جنت پا لی۔ چنانچہ فرماتا ہے۔

مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا۔ لِّیَجۡزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیۡنَ بِصِدۡقِہِمۡ وَ یُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ اِنۡ شَآءَ اَوۡ یَتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا۔(الاحزاب:25،24)

فرمایا۔ان مومنوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے جو عہد کیا تھا اسے انہوں نے پورا کر دیا۔

فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا۔

ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنے عہد کو پورا کر دیا اور وہ خدا سے مل گئے۔ نَحْبکے معنی نذر اور مَا اَوْجَبَ عَلٰی نَفْسِہٖ کے بھی ہوتے ہیں۔ پس اس سے مراد

مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذّریت:57)

کے عہد کو پورا کرنے کے ہیں۔ لیکن فرماتاہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو ابھی اس خلش میں لگے ہوئے ہیں کہ خدا سے مل جائیں۔ انہوں نے اپنی طرف سے جدوجہد کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔ سو خدا ایسے صادقوں کو بھی ان کے صدق کا ضرور بدلا دے گا۔

اس آیت سے ثابت ہے کہ قرآن نے یہ امر تسلیم کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو قرآن پر چل کر خدا کو مل گئے۔

ملائکہ سے مومنوں کا تعلق

پھر ملائکہ چونکہ اخلاق فاضلہ کی محرک ہستیاں ہیں۔ اس لئے مزید ثبوت کے لئے فرمایا کہ ان کی روحانی درستی کی علامتیں بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں اور روحانی تکمیل کے موکل ان سے ملنے لگتے ہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ۔ نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ۔ نُزُلًا مِّنۡ غَفُوۡرٍ رَّحِیۡمٍ۔(حم السجدۃ:31-33)


یعنی وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر استقامت سے قائم رہتے ہیں یعنی اپنے اعمال سے اس کا ثبوت دیتے ہیں۔ ہم ان پر فرشتے نازل کرتے ہیں جو انہیں کہتے ہیں ڈرو نہیں اور نہ کسی پچھلی غلطی کا غم کرو۔ تمہیں جنت کی بشارت ہو۔ تم خدا سے جا ملو گے اور وہاں تمہیں وہ چیز مل جائے گی جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تمہارے مددگار ہوں گے اور تم اس دنیا میں اور اگلے جہان میں جو کچھ چاہو گے اور جو کچھ مانگو گے وہ تمہیں مل جائے گا۔ اس میں بتایا کہ تمہاری قلبی اصلاح بھی ہو جائےگی اور عملی بھی۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہؓ کے متعلق فرمایا کہ

اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 109مطبوعہ مصر1313ھ)

تم جو چاہو کرو۔ یعنی اب تم بدی کر ہی نہیں سکتے۔ اسی طرح یہاں بھی یہی مراد ہے کہ

وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ

تمہارے نفس ایسے پاکیزہ ہوگئے ہیں کہ اب جو کچھ تم چاہو گے پاک چیز ہی چاہو گے۔ یعنی تمہارے دل میں نیک تحریکیں ہی ہوںگی بری نہیں ہوںگی۔ اور ہمیشہ پاک چیزیں ہی مانگو گے بری نہیں مانگوگے۔

اب سوال ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ پچھلے زمانہ پر ہی ختم ہو گیا یا آگے بھی اس کا سلسلہ جاری رہے گا۔ سو اس کا جواب بھی قرآن کریم میں موجود ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗوَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ۔ وَّ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۔

یعنی وہی خدا ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اسی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا جو ان کو خدا کے احکام سنتا اور ان کو پاک کرتا اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گو وہ اس سے پہلے بڑی بھاری گمراہی میں مبتلا تھے۔ اسی طرح ان لوگوں کے سوا اللہ تعالیٰ ایک دوسری قوم میں بھی اس رسول کو بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ جو کچھ اس رسول کے زمانہ میں ہوا وہی اس زمانہ میں بھی ہوگا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا بند نہ ہوگا۔

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button