حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ حسن اخلاق اور اسلام میں آزادیٔ ضمیر و مذہب کی تعلیم سے پھیلاہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

تو یہ ہے اعلیٰ معیار آنحضرت ﷺ کے اخلاق کا کہ باوجود اس کے کہ دشمن نے کچھ عرصہ پہلے مسلمانوں کے بچوں تک کا دانہ پانی بند کیا ہوا تھا۔ لیکن آپؐ نے اس سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے دشمن کی فوج کے سپاہیوں کو جو پانی کے تالاب ، چشمے تک پانی لینے کے لئے آئے تھے اور جس پر آپؐ کا تصرف تھا، آپ کے قبضے میں تھا، انہیںپانی لینے سے نہ روکا۔ کیونکہ یہ اخلاقی ضابطوں سے گری ہوئی حرکت تھی۔ اسلام پر سب سے بڑا اعتراض یہی کیا جاتا ہے کہ تلوار کے زور سے پھیلایا گیا۔ یہ لوگ جو پانی لینے آئے تھے ان سے زبردستی بھی کی جا سکتی تھی کہ پانی لینا ہے تو ہماری شرطیں مان لینا۔کفار کئی جنگوں میں اس طرح کرتے رہے ہیں۔لیکن نہیں ،آپؐ نے اس طرح نہیں فرمایا۔یہاں کہا جا سکتا ہے کہ ابھی مسلمانوں میں پوری طاقت نہیں تھی،کمزوری تھی، اس لئے شاید جنگ سے بچنے کے لئے یہ احسان کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ یہ غلط بات ہے۔ مسلمانوں کے بچے بچے کو یہ پتہ تھا کہ کفار مکہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور مسلمان کی شکل دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ اس لئے یہ خوش فہمی کسی کو نہیں تھی اور آنحضرت ﷺ کو تو اس قسم کی خوش فہمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔آپ نے تویہ سب کچھ ،یہ شفقت کا سلوک سراپا رحمت ہونے اور انسانی قدروں کی پاسداری کی وجہ سے کیا تھا۔ کیونکہ آپ نے ہی ان قدروں کی پہچان کی تعلیم دینی تھی۔

پھر اس دشمن اسلام کا واقعہ دیکھیںجس کے قتل کا حکم جاری ہو چکا تھا ۔لیکن آپؐ نے نہ صرف اسے معاف فرمایا بلکہ مسلمانوں میں رہتے ہوئے اسے اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت آپؐ نے عطا فرمائی ۔ چنانچہ اس واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے کہ

ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اپنے باپ کی طرح عمر بھر رسول اللہﷺ سے جنگیں کرتا رہا۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی رسول کریمﷺ کے اعلان عفو اور امان کے باوجود فتح مکہ کے موقع پر ایک دستے پر حملہ آور ہوا اور حرم میں خونریزی کا باعث بنا ۔ اپنے جنگی جرائم کی وجہ سے ہی وہ واجب القتل ٹھہرایا گیا تھا ۔ لیکن مسلمانوں کے سامنے اس وقت کوئی نہیں ٹھہر سکاتھا۔ اس لئے فتح مکہ کے بعد جان بچانے کے لئے وہ یمن کی طرف بھاگ گیا۔ اس کی بیوی رسول اللہ ﷺ سے اس کی معافی کی طالب ہوئی تو آپؐ نے بڑی شفقت فرماتے ہوئے اسے معاف فرما دیا۔ اور پھر جب وہ اپنے خاوند کو لینے کے لئے خود گئی تو عکرمہ کو اس معافی پر یقین نہیں آتا تھا کہ مَیں نے اتنے ظلم کئے ہوئے ہیں، اتنے مسلمان قتل کئے ہوئے ہیں، آخری دن تک میں لڑائی کرتا رہا تو مجھے کس طرح معاف کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال وہ کسی طرح یقین دلا کر اپنے خاوند عکرمہ کو واپس لے آئی۔ چنانچہ جب عکرمہ واپس آئے تو آنحضرت ﷺ کے دربار میں حاضر ہوئے اور اس بات کی تصدیق چاہی تو اس کی آمد پر رسول اللہ ﷺ نے اس سے احسان کا حیرت انگیز سلوک کیا۔ پہلے تو آپ دشمن قوم کے سردار کی عزت کی خاطر کھڑے ہو گئے کہ یہ دشمن قوم کا سردار ہے اس لئے اس کی عزت کرنی ہے ۔ اس لئے کھڑے ہوگئے اور پھر عکرمہ کے پوچھنے پر فرمایا کہ واقعی میںنے تمہیں معاف کر دیا ہے۔(موطا امام مالک کتاب النکاح)

عکرمہ نے پھرپوچھا کہ اپنے دین پر رہتے ہوئے؟ یعنی میں مسلمان نہیں ہوا۔ اس شرک کی حالت میں مجھے آپ نے معاف کیا ہے، آپ نے مجھے بخش دیا ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس پر عکرمہ کا سینہ اسلام کے لئے کھل گیا اور بے اختیار کہہ اٹھا کہ اے محمد! ( ﷺ) آپ واقعی بے حد حلیم اور کریم اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کے حسن خلق اور احسان کا یہ معجزہ دیکھ کر عکرمہ مسلمان ہو گیا۔

(السیرۃالحلبیہ۔ جلد سوم صفحہ109مطبوعہ بیروت)

تو اسلام اس طرح حسن اخلاق سے اور آزادی ضمیر و مذہب کے اظہار کی اجازت سے پھیلا ہے۔ حسن خلق اور آزادی مذہب کا یہ تیر ایک منٹ میں عکرمہ جیسے شخص کو گھائل کر گیا ۔ آنحضرت ﷺ نے قیدیوں اور غلاموں تک کو یہ اجازت دی تھی کہ جو مذہب چاہو اختیار کرو۔ لیکن اسلام کی تبلیغ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اسلام کی تعلیم کے بارے میں بتائو کیونکہ لوگوں کو پتہ نہیں ہے ۔یہ خواہش اس لئے ہے کہ یہ تمہیں اللہ کا قرب عطا کرے گی اور تمہاری ہمدردی کی خاطر ہی ہم تم سے یہ کہتے ہیں ۔

چنانچہ ایک قیدی کا ایک واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے۔ سعید بن ابی سعیدؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول کریم ﷺ نے نجد کی طرف مہم بھیجی تو بنو حنیفہ کے ایک شخص کو قیدی بنا کر لائے جس کا نام ثُمامہ بن اُثال تھا ۔صحابہ نے اسے مسجد نبویؐ کے ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ رسول کریم ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے ثمامہ تیرے پاس کیا عذر ہے یا تیرا کیا خیال ہے کہ تجھ سے کیا معاملہ ہو گا۔ اس نے کہا میرا ظن اچھا ہے۔ اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپؐ ایک خون بہانے والے شخص کو قتل کریں گے اور اگر آپ انعام کریں تو آپ ایک ایسے شخص پر انعام کریں گے جو کہ احسان کی قدردانی کرنے والا ہے۔ اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہے لے لیں۔ اس کے لئے اتنا مال اس کی قوم کی طرف سے دیا جا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ اگلا دن چڑھ آیا ۔ آپ ﷺ پھر تشریف لائے اور ثمامہ سے پوچھا کیا ارادہ ہے۔ چنانچہ ثمامہ نے عرض کی کہ میں تو کل ہی آپؐ سے عرض کر چکا تھا کہ اگر آپؐ انعام کریں تو آپ ایک ایسے شخص پر انعام کریں گے جو کہ احسان کی قدردانی کرنے والا ہے۔آپ ﷺ نے اس کو وہیں چھوڑا۔ پھر تیسرا دن چڑھا پھر آپ اس کے پاس گئے آپؐ نے فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا ارادہ ہے؟ اس نے عرض کی جو کچھ میں نے کہنا تھا وہ کہہ چکا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسے آزاد کر دو۔ تو ثمامہ کو آزاد کر دیا گیا ۔اس پر وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے باغ میں گیا اور غسل کیا اور مسجد میں داخل ہو کر کلمہ شہادت پڑھا۔ اور کہا اے محمد ﷺ بخدا مجھے دنیا میں سب سے زیادہ نا پسند آپ کا چہرہ ہوا کرتا تھااور اب یہ حالت ہے کہ مجھے سب سے زیادہ محبوب آپ کا چہرہ ہے۔ بخدا مجھے دنیا میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ آپ کا دین ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب یہ حالت ہے کہ میرا محبوب ترین دین آپ کا لایا ہوا دین ہے۔بخدا میں سب سے زیادہ ناپسند آپؐ کے شہر کو کرتا تھا۔ اب یہی شہر میرا محبوب ترین شہر ہے۔ آپ کے گھوڑسواروں نے مجھے پکڑ لیا جبکہ میں عمرہ کرنا چاہتا تھا۔ آپ ﷺ اس کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں ۔

رسول اللہ ﷺسے پوچھا کہ جا تو مَیںعمرہ کرنے کے لئے رہا تھا اب آپ کا کیا ارشاد ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اُسے خوشخبری دی ، مبارکباد دی اسلام قبول کرنے کی اور اسے حکم دیا کہ عمرہ کرو ، اللہ قبول فرمائے گا۔جب وہ مکہ پہنچا تو کسی نے کہا کہ کیا تو صابی ہو گیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آیا ہوں اور خدا کی قسم اب آئندہ سے یمامہ کی طرف سے گندم کا ایک دانہ بھی تمہارے پاس نہیں آئے گا۔

(بخاری کتاب المغازی باب وفد بنی حنیفہ۔ وحدیث ثمامہ بن اُثال)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ مارنے کی کوشش کی یا مارا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ کوئی دانہ نہیں آئے گا۔ اور یہ اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم ﷺ کی طرف سے اجازت نہ آ جائے۔ چنانچہ اس نے جا کے اپنی قوم کو کہا اور وہاں سے غلہ آنا بند ہو گیا۔ کافی بری حالت ہو گئی۔ پھر ابو سفیان آنحضرت ﷺ کی خدمت میں درخواست لے کر پہنچے کہ اس طرح بھوکے مر رہے ہیں اپنی قوم پر کچھ رحم کریں۔ تو آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ غلہ اس وقت ملے گا جب تم مسلمان ہو جائو بلکہ فوراً ثمامہ کو پیغام بھجوایا کہ یہ پابندی ختم کرو ،یہ ظلم ہے۔ بچوں ، بڑوں ، مریضوں ، بوڑھوں کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ان کو مہیا ہونی چاہئے۔ تو دوسرے یہ دیکھیں کہ قیدی ثمامہ سے یہ نہیں کہا کہ اب تم ہمارے قابو میں ہو تو مسلمان ہو جائو۔ تین دن تک ان کے ساتھ حسن سلوک ہوتا رہا اور پھر حسن سلوک کے بھی اعلیٰ معیار قائم ہوئے۔ آزاد کر دیا اور پھر دیکھیں ثمامہ بھی بصیرت رکھتے تھے اس آزادی کو حاصل کرتے ہی انہوں نے اپنے آپ کوآپ ﷺکی غلامی میں جکڑے جانے کے لئے پیش کر دیا کہ اسی غلامی میں میری دین و دنیا کی بھلائی ہے۔…………………………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button