متفرق

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 72)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

یکم اکتوبر1902ء

دربار شام

حسب معمول حضرت امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد ادائے نماز مغرب شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے۔ خدام ایک دوسرے سے پہلے جگہ لینے کے لیے گرے پڑتے تھے۔ آخر جب سب اپنی اپنی جگہ جہاں کسی کو ملی بیٹھ گئے۔ تو حضرت حجۃاﷲ نے کشتی نوح کی اشاعت کے متعلق فرمایا۔ کہ

امید ہے جمعہ تک اشاعت ہو جائیگی

اور پھر انگریزی سلطنت کے متعلق قریباً وہی گفتگو فرمائی جو صبح کی سیر میں فرمائی تھی۔ ہاں اتنا اضافہ اور کیا کہ

چونکہ مسیح ابن مریم کے ساتھ ہمیں مشابہت ہے۔ اُن کے لیے جو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے

وَاٰوَیْنٰھُمَآاِلیٰ رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنِِ (المومنون : 51)

یعنی واقعہ صلیب کے بعد ان کو ایک اُونچے ٹیلہ پر جگہ دی۔ جہاں آرام کی جگہ اور پانی کے چشمے تھے۔ اصل یہ ہے کہ اس جگہ یعنی واقعاتِ مسیح ابن مریم میں تو صرف ظل تھا اور یہاں اصل ہے۔ ہم کو ایسی جگہ پناہ دی جہاں یہودیوں کا بس نہیں چل سکتا۔ یعنی سلطنت انگلشیہ کے ماتحت۔ اب یہاں یہودی حملہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے لیے یہ پناہ کی جگہ ہے۔ اور حقائق و معارف کے چشمے یہاں بہ رہے ہیں۔

اتنے میں آسمان پر مغرب کی طرف سے ایک غبار سا اُٹھا۔ کبھی کبھی اس آندھی میں بجلی کے کوندنے کی چمک بھی نظر آتی تھی۔ بعض احباب نے چاہا کہ نیچے چلیں۔ حضورؑ نے فرمایا :

دیکھ لو جو امر آسمان پر ہوتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے۔

جناب میر صاحب نے عرض کی کہ حضور غور کر کے دیکھا جاوے تو پہلے زمانہ کی نسبت خدا کا فضل اب بہت زیادہ ہے۔ فرمایا:

وہ زمانہ اس آخری زمانہ کا نمونہ تھا اور بطور ارہاص تھا۔ صوفیوں نے لکھا ہے کہ قرآن کریم عصائے موسیٰ کا قائمقام تھا جو مذاہب مخالفہ کو کھانے والا ہے اور حقیقت بھی یونہی ہے۔ قرآن شریف کے مقابل پر کوئی کتاب نظر نہیں آتی۔

مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنی ایک رؤیا سنائی کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سیالکوٹ کے بازار میں ایک آریہ بڑے کلے تھلے والا وعظ کرتا ہے۔ اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ وید کی دعاؤں کی طرف توجہ کرو۔ مجھے یہ سن کر جوش اور غیرت آئی اور میں نے کہا بیشک وید میں دعائیں تو ہیں، مگر اُن کی قبولیت اور مستجاب الدعوت لوگوں کی علامات کا کوئی نشان بتاؤ۔ وید میں کہاں ہے۔ اس پر وہ بہت ہی چھوٹا سا ہو گیا۔ یہ خواب مبارک اور آریہ پر فتح کی دلیل ہے۔

فرمایا :

حقیقت میں خدا سے بے نصیب جانا ہی بڑا بھاری دوزخ ہے۔ کسی نے کیا اچھا کہاہے ؎

حکایتے ست کہ از روز گارہجران است

اصل یہ ہے کہ جب انسان دنیا کو مقدم کر لیتا ہے خواہ جان و مال کے لیے یا دولت و ملوک کے لیے۔ پھر اس کو دین کی طرف آنا مشکل ہو جاتا ہے۔لیکن جن لوگوں نے دین کو طلب کیا ہے۔ وہ اس مقام پر اس وقت تک نہیں پہنچے جب تک انہوں نے اﷲ تعالیٰ کو مقدم نہیں کر لیا اورمنقطعین اور متبتلین میں داخل نہیں ہوئے۔ ؎

سخن اینست کہ مابے تو نخواہیم حیات

بشنو اے پیک سخن گیر وسخن باز رساں

قرآن شریف نے جو کہا ہے۔

اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ(البقرہ : 187)

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دعا کا جواب ملتا ہے۔ پس وید کی دعائیں بے ثمر ہیںجن کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ بلکہ ساری دعائیں اُلٹی ہی پڑتی رہی ہیں۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 380-382)

اس گفتگو کے دوران حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا ایک مصرع اور حافظ کا ایک شعر استعمال کیا ہے۔ جن کی تفصیل ذیل میں درج ہے۔

1۔ حِکَایتے ست کہ اَزْ رُوْز گَارِ ہِجْرَان اَسْت۔

ترجمہ:۔ وہ جدائی کے زمانے کی ہی داستان ہے۔

2۔ سُخَنْ اِیْن اَسْت کِہْ مَابےِ تُو نَخَواہِیْم حَیَات

بِشَنَو اَے پَیْک سُخَنْ گِیْرُوسُخَنْ بَازْ رَسَاں

ترجمہ:۔ پیغام یہ ہے کہ ہم تیرے بغیر زندگی کے خواہش مند نہیں، اے قاصد سن !پیغام سمجھ لے اور پھر اسے اسی طرح پہنچانا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button