حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے متعلق اسلام کی خوبصورت تعلیم

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

مسلمانوں کے بعض گروہوں کے خلافِ اسلام عمل غیر مسلموں کو اسلام پر حملے کرنے میں ممد و معاون بنتے ہیں

آنحضرتﷺ کی ذات پر غیر مسلموں کی طرف سے جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؐ نعوذباللہ ایسا دین لے کر آئے جس میں سوائے سختی اور قتل وغارت گری کے کچھ اور ہے ہی نہیں اور اسلام میں مذہبی رواداری، برداشت اورآزادی کا تصور ہی نہیں ہے اور اسی تعلیم کے اثرات آج تک مسلمانوں کی فطرت کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس بارہ میں کئی دفعہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بدقسمتی سے مسلمانوں میں سے ہی بعض طبقے اور گروہ یہ تصور پید اکرنے اور قائم کرنے میں ممد ومعاون ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے ان کے اسی نظریے اور عمل نے غیر اسلامی دنیا میں اور خاص طور پر مغرب میں ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے بارے میں لغو اور بیہودہ اور انتہائی نازیبااور غلیظ خیالات کے اظہار کا موقع پیدا کیا ہے۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ بعض طبقوں اور گروہوں کے عمل مکمل طور پر اسلامی تعلیم اور ضابطہ اخلاق کے خلاف ہیں۔ اسلام کی تعلیم تو ایک ایسی خوبصورت تعلیم ہے جس کی خوبصورتی اور حسن سے ہر تعصب سے پاک شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے متعلق اسلام کی خوبصورت تعلیم

قرآن کریم میں متعدد جگہ اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کا ذکر ملتا ہے جس میں غیر مسلموں سے حسن سلوک، ان کے حقوق کا خیال رکھنا، ان سے انصاف کرنا، ان کے دین پر کسی قسم کا جبر نہ کرنا، دین کے بارے میں کوئی سختی نہ کرنا وغیرہ کے بہت سے احکامات اپنوں کے علاوہ غیرمسلموں کے لئے ہیں۔ ہاں بعض حالات میں جنگوں کی بھی اجازت ہے لیکن وہ اس صورت میں جب دشمن پہل کرے، معاہدوں کو توڑے، انصاف کا خون کرے، ظلم کی انتہا کرے یا ظلم کرے لیکن اس میں بھی کسی ملک کے کسی گروہ یا جماعت کا حق نہیں ہے، بلکہ یہ حکومت کا کام ہے کہ فیصلہ کرے کہ کیا کرنا ہے، کس طرح اس ظلم کو ختم کرنا ہے نہ کہ ہر کوئی جہادی تنظیم اٹھے اور یہ کام کرنا شروع کردے۔

کفّار مکّہ اور دشمنان اسلام کی زیادتیوں اور ظلم کے بالمقابل آنحضورﷺ کا عظیم الشان اسوۂ حسنہ

آنحضرتﷺ کے زمانے میں بھی جنگوں کے مخصوص حالات پیدا کئے گئے تھے جن سے مجبور ہو کر مسلمانوں کو جوابی جنگیں لڑنی پڑیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ آج کل کی جہادی تنظیموں نے بغیر جائز وجوہات کے اور جائز اختیارات کے اپنے جنگجوانہ نعروں اور عمل سے غیرمذہب والوں کو یہ موقع دیا ہے اور ان میں اتنی جرأت پیدا ہو گئی ہے کہ انہوں نے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے آنحضرتﷺ کی پاک ذات پر بیہودہ حملے کئے ہیں اور کرتے رہے ہیں جبکہ اس سراپا رحم اور

محسن انسانیت اور عظیم محافظ حقوق انسانی کا تو یہ حال تھا کہ آپؐ جنگ کی حالت میں بھی کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے جو دشمن کو سہولت نہ مہیا کرتا ہو۔ آپؐ کی زندگی کا ہر عمل، ہر فعل، آپؐ کی زندگی کا پل پل اور لمحہ لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ آپؐ مجسم رحم تھے اور آپ کے سینے میں وہ دل دھڑک رہا تھا کہ جس سے بڑھ کر کوئی دل رحم کے وہ اعلیٰ معیار اور تقاضے پورے نہیں کر سکتا جو آپؐ نے کئے، امن میں بھی اور جنگ میں بھی، گھر میں بھی اور باہر بھی، روز مرہ کے معمولات میں بھی اور دوسرے مذاہب والوں سے کئے گئے معاہدات میں بھی۔ آپؐ نے آزادی ضمیر، مذہب اور رواداری کے معیار قائم کرنے کی مثالیں قائم کر دیں۔ اور پھر جب عظیم فاتح کی حیثیت سے مکّہ میں داخل ہوئے تو جہاں مفتوح قوم سے معافی اور رحم کا سلوک کیا، وہاں مذہب کی آزادی کا بھی پورا حق دیااور قرآن کریم کے اس حکم کی اعلیٰ مثال قائم کر دی کہ

لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ(البقرہ:257)

کہ مذہب تمہارے دل کا معاملہ ہے، میری خواہش تو ہے کہ تم سچے مذہب کو مان لو اور اپنی دنیا وعاقبت سنوار لو، اپنی بخشش کے سامان کر لو، لیکن کوئی جبر نہیں۔ آپؐ کی زندگی رواداری اور آزادی مذہب و ضمیر کی ایسی بے شمار روشن مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ان میں سے چند ایک کا میں ذکر کرتا ہوں۔

کون نہیں جانتا کہ مکّہ میں آپؐ کی دعویٰ نبوت کے بعد کی 13سالہ زندگی، کتنی سخت تھی اور کتنی تکلیف دہ تھی اور آپؐ نے اور آپؐ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے کتنے دکھ اور مصیبتیں برداشت کیں۔ دوپہر کے وقت تپتی ہوئی گرم ریت پر لٹائے گئے، گرم پتھر ان کے سینوں پر رکھے گئے۔ کوڑوں سے مارے گئے، عورتوں کی ٹانگیں چیر کر مارا گیا، قتل کیا گیا، شہید کیا گیا۔ آپؐ پر مختلف قسم کے مظالم ڈھائے گئے۔ سجدے کی حالت میں بعض دفعہ اونٹ کی اوجھڑی لا کر آپؐ کی کمر پر رکھ دی گئی جس کے وزن سے آپؐ اٹھ نہیں سکتے تھے۔ طائف کے سفر میں بچے آپؐ پر پتھرائو کرتے رہے، بیہودہ اور غلیظ زبان استعمال کرتے رہے۔ ان کے سردار ان کو ہلا شیری دیتے رہے، ان کو ابھارتے رہے۔ آپؐ اتنے زخمی ہو گئے کہ سر سے پائوں تک لہولہان ہیں، اوپر سے بہتا ہوا خون جوتی میں بھی آ گیا۔ شعب ابی طالب کا واقعہ ہے۔ آپؐ کو، آپؐ کے خاندان کو، آپؐ کے ماننے والوں کو کئی سال تک محصور کر دیا گیا۔ کھانے کو کچھ نہیں تھا، پینے کو کچھ نہیں تھا۔ بچے بھی بھوک پیاس سے بلک رہے تھے، کسی صحابی کو ان حالات میں اندھیرے میں زمین پر پڑی ہوئی کوئی نرم چیز پائوں میں محسوس ہوئی تو اسی کو اٹھا کر منہ میں ڈال لیا کہ شاید کوئی کھانے کی چیز ہو۔ یہ حالت تھی بھوک کی اضطراری کیفیت۔ تو یہ حالات تھے۔ آخر جب ان حالات سے مجبو رہو کر ہجرت کرنی پڑی اور ہجرت کر کے مدینے میں آئے تو وہاں بھی دشمن نے پیچھا نہیں چھوڑا اور حملہ آور ہوئے۔ مدینہ کے رہنے والے یہودیوں کو آپؐ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی۔ ان حالات میں جن کا مَیں نے مختصراً ذکر کیا ہے اگر جنگ کی صورت پیدا ہو اور مظلوم کو بھی جواب دینے کا موقع ملے، بدلہ لینے کا موقع ملے تو وہ یہی کوشش کرتا ہے کہ پھر اس ظلم کا بدلہ بھی ظلم سے لیا جائے۔ کہتے ہیں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے نبیﷺ نے اس حالت میں بھی نرم دلی اور رحمت کے اعلیٰ معیارقائم فرمائے۔ مکّہ سے آئے ہوئے ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا تمام تکلیفوں کے زخم ابھی تازہ تھے۔ آپؐ کو اپنے ماننے والوں کی تکلیفوں کا احساس اپنی تکلیفوں سے بھی زیادہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن پھر بھی اسلامی تعلیم اور اصول و ضوابط کو آپؐ نے نہیں توڑا۔ جو اخلاقی معیار آپؐ کی فطرت کا حصہ تھے اور جو تعلیم کا حصہ تھے ان کو نہیں توڑا۔ آج دیکھ لیں بعض مغربی ممالک جن سے جنگیں لڑرہے ہیں ان سے کیا کچھ نہیں کرتے۔ لیکن اس کے مقابلے میں آپؐ کا اسوہ دیکھیں جس کا تاریخ میں، ایک روایت میں یوں ذکر ملتا ہے۔

جنگ بدر کے موقع پر جس جگہ اسلامی لشکر نے پڑائو ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہیں تھی۔ اس پر خبابؓ بن منذر نے آپﷺ سے دریافت کیا کہ جہاں آپ نے پڑائو ڈالنے کی جگہ منتخب کی ہے آیایہ کسی خدائی الہام کے ماتحت ہے۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے؟یا یہ جگہ آپؐ نے خود پسند کی ہے، آپ کا خیال ہے کہ فوجی تدبیر کے طور پر یہ جگہ اچھی ہے۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ یہ تو محض جنگی حکمت عملی کے باعث میرا خیال تھا کہ یہ جگہ بہتر ہے، اونچی جگہ ہے تو ا نہوں نے عرض کی کہ یہ مناسب جگہ نہیں ہے۔ آپ لوگوں کو لے کر چلیں اور پانی کے چشمے پر قبضہ کر لیں۔ وہاں ایک حوض بنا لیں گے اور پھر جنگ کریں گے۔ اس صورت میں ہم تو پانی پی سکیں گے لیکن دشمن کو پا نی پینے کے لئے نہیں ملے گا۔ تو آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے چلو تمہاری رائے مان لیتے ہیں۔ چنانچہ صحابہ چل پڑے اور وہاں پڑائو ڈالا۔ تھوڑی دیر کے بعد قریش کے چند لوگ پانی پینے اس حوض پر آئے تو صحابہ نے روکنے کی کوشش کی تو آپؐ نے فرمایا :نہیں ان کو پانی لے لینے دو۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلدنمبر2صفحہ284۔ جنگ بدراسلام بن حزام)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button