متفرق مضامین

خلافت احمدیہ کے زیرِ سرپرستی بر اعظم افریقہ میں تعمیرِ مساجد کی ایک جھلک

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

آج سے سو سال قبل 1921ء میں افریقہ میں پہلے مستقل دارالتبلیغ کا قیام عمل میں آیا اور یہ تاریک براعظم اسلام احمدیت کے نیراعظم کی ضیا پاشیوں سے منور ہونے لگا۔

اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأة ثانیہ کے لیے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا اور آپؑ نے از سرِنو توحید اور دینِ اسلام کے قیام کے لیے سعی فرمائی۔ الٰہی وعدہ کے مطابق آپ کا پیغام قادیان کی بستی سے نکل کر اکناف عالم میں پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔خلافت اولیٰ میں بیرونِ ممالک مشن کے قیام کے لیے باقاعدہ مبلغین بھجوائے گئے۔اور خلافتِ ثانیہ میں مبلغین کا ایک مستقل اور منظم نظام قائم ہوگیا۔یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ آج سے سو سال قبل 1921ء میں افریقہ میں پہلے مستقل دارالتبلیغ کا قیام عمل میں آیا اور یہ تاریک براعظم اسلام احمدیت کے نیراعظم کی ضیا پاشیوں سے منور ہونے لگا۔افریقہ میں جماعت کا قیام بھی حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ کو ایک الٰہی تحریک کے نتیجہ میں ہوا۔

افریقہ میں تبلیغ اسلام کی الٰہی تحریک

یہ ایک نہایت ایمان افروز بات ہے جس کی تفصیل خود حضورؓ کے قلم سے درج ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت

قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یُخَربُ الْکَعْبَۃُ ذُو السَّوِیْقَتَیْنِ مِنَ الْحَبْشَۃِ (صحیح مسلم جلد دوم مصری صفحہ 319)

کے حوالے سےآپؓ فرماتے ہیں:

’’مجھے افریقہ میں تبلیغ اسلام کی ابتدائی تحریک درحقیقت اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے ایک دفعہ حدیث میں پڑھا کہ حبشہ سے ایک شخص اٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا۔اور مکہ مکرمہ کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا۔جب میں نے یہ حدیث پڑھی اسی وقت میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس علاقہ کو مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ یہ انذاری خبر اللہ تعالیٰ کےفضل سے ٹل جائے اور مکہ مکرمہ پر حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہمیں بعض دفعہ منذر رویاء آتا ہے تو ہم فوراً صدقہ کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کی موت کی خبر ہمیں ہوتی ہے تو وہ صدقہ کے ذریعہ ٹل جاتی ہے۔اور صدقہ کے ذریعہ موت کی خبریں ٹل سکتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنا لیا جائے تو وہ خطرہ جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے نہ ٹل سکے۔چنانچہ میرے دل میں بڑے زور سے تحریک پیدا ہوئی کہ افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنانا چاہئے۔اسی بنا پر افریقہ میں احمدیہ مشن قائم کئے گئے ہیں۔بے شک خدا تعالیٰ نے بعد میں اور بھی سامان ایسے پیدا کر دئے جن سے افریقہ میں تبلیغ اسلام کا کام زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا گیا مگر اصل بنیاد افریقہ کی تبلیغ کی یہی حدیث تھی کہ افریقہ سے ایک شخص اٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا اور خانہ کعبہ کو گرانے کی کوشش کرے گا(نعوذباللہ)۔ میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کے فضلوں کی امید میں چاہا کہ پیشتر اس کے کہ وہ شخص پیدا ہو جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے ہم افریقہ کو مسلمان بنالیں اور بجائے اس کے کہ افریقہ کا کوئی شخص مکہ مکرمہ کو گرانے کا موجب بنے وہ لوگ اس کی عظمت کو قائم کرنے اور اس کی شہرت کو بڑھانے کا موجب بن جائیں۔‘‘

(الفضل 25؍مارچ 1920ء)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے مغربی افریقہ میں پہلا باقاعدہ مشن قائم کرنے کے لیے حضرت مولانا عبدالرحیم نیرؓ کا انتخاب فرمایاجو ان دنوں لندن میں فریضہ تبلیغ ادا کر رہے تھے۔چنانچہ حضرت مولانا نیر صاحبؓ (الفضل 7؍مارچ 1921ء) 9؍فروری 1921ء کو صبح دس بجے لندن سے روانہ ہوئے۔لندن میں بہت سے دوست چھوڑنے آئے۔ڈیلی گراف، ڈیلی مِرَرْاور ڈیلی ٹائمز نے روانگی کی خبریں شائع کیں۔ڈیلی مرر نے حضرت مولانا صاحبؓ کی چیف آف لیگوس(نائیجیریا) سے مصافحہ کرتے ہوئے فوٹو شائع کی۔

(روح پرور یادیں ،صفحہ 16)

جماعت احمدیہ اور مساجد کا قیام

جماعت کے قیام کے لیے حضرت مسیح موعودؑ نے ایک نسخہ یہ بیان فرمایا کہ جہاں جماعت کا قیام مقصود ہو وہاں مسجد بنا دی جائے۔آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔یہ خانہ خدا ہوتا ہے جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہیے پھر خداخود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔محض لِلّٰہِ اُسے کیا جاوے۔نفسانی اغراض یا کسی شرکو ہرگز دخل نہ ہو،تب خدابرکت دے گا۔

یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرصع اورپکی عمارت کی ہو۔بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیے اور وہاں مسجد کی حدبندی کر دینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغیرہ ڈال دو کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو۔خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔آنحضرتﷺ کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی پھر حضرت عثمانؓ نے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا۔اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا۔مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ اور عثمانؓ کا قافیہ خوب ملتا ہے۔شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا۔غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہئے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے اور جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز با جماعت ادا کیا کریں۔جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے۔پراگند گی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہیے اور ادنیٰ ادنیٰ سی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے جو کہ پُھوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔‘‘

(البدر24؍اگست 1904ء صفحہ8بحوالہ ملفوظات جلد7صفحہ 119تا120)

براعظم افریقہ کی پہلی مسجد کی تعمیر۔ماریشس

اس مسجد کے قیام کی مختصر تاریخ درج کرنی ضروری ہے کہ کس طرح پہلےاحمدی مبلغ نے محنت اور تکلیف اٹھا کر جماعت کا پودا لگایا اور اس پودے کو نشو و نما دینے کے لیے اولین مسجد کا قیام عمل میں آیا۔

حضرت صوفی حافظ غلام محمد صاحبؓ بی۔اے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کے ارشاد پر ماریشس جانے کی تیاری میں تھے کہ حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ رحلت فرما گئے۔حضرت مصلح موعودؓ کی اولوالعزمی کہ آپ کے ارشاد پر حضرت صوفی صاحب 15؍ جون1915ء کو ماریشس وارد ہوئے۔جہاں 1912ء میں بعد تحقیق داخل ہونے والے پہلے احمدی ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر نور محمد نور دیا صاحب (ایڈیٹر اخبار ’’دی اسلامزم‘‘) کے مکان میں جمعہ اور اجتماعات ہوتے رہے اور یہیں سے حضرت صوفی صاحب کی تبلیغ سے احمدیت کی شعاعیں تمام جزیرہ میں پھیلنی شروع ہو گئیں۔ماسٹر نور محمد صاحب کے مکان سے متصل غیراحمدیوں کی ایک بڑی مسجد تھی جہاں حضرت صوفی صاحب کی اقتدا میں احمدی احباب اپنی نماز علیحدہ پڑھا کرتے تھے۔قریباً تین ماہ گزرنے کے بعد غیر احمدیوں نے یکایک مسجد میں آنا ترک کر دیا۔اور دوسری جگہ نمازیں پڑھنے لگے پھر انہوں نے نو ماہ بعد (6؍ستمبر 1918ء کو) عدالت عالیہ میں یہ دعویٰ دائر کر دیا کہ احمدی مشرک ہیں ان کو اسلامی تعلیم کی رو سے مسجد میں داخلہ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔یہ مقدمہ قریباً دو سال تک چلتا رہا اور اس کی ستر کے قریب نشستوں میں متنازعہ فیہ مسائل پر پوری اور سیر حاصل بحث ہوئی اور احمدیت کا خوب چرچا ہوا۔آخر نومبر1920ء کو عدالت عالیہ نے یہ فیصلہ دیا کہ احمدی مسلمان ہیں۔لیکن چونکہ غیر احمدی بھی اسی مسجد میں نماز پڑھنا چاہتے ہیں اور اکثریت بھی انہیں کی ہے اس لیے احمدیوں کو اس مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ اس میں فساد کا اندیشہ ہے۔اس مقدمہ کی پوری عدالتی کارروائی 273صفحات میں طبع شدہ ہے۔اگرچہ اس فیصلہ میں اپنے امام کے پیچھے نماز باجماعت ادا کرنے کی اجازت تو احمدیوں کو نہیں دی گئی۔لیکن چونکہ اجازت کا نہ دیا جانا اس وجہ سے نہیں تھا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں بلکہ احمدیوں کو مسلمان تسلیم کرکے فساد ہو جانے کے خدشے کی وجہ سے تھا۔اس لیے احمدیوں کی بات کو اس فیصلہ سے ذرا نقصان نہیں ہوا بلکہ ان کی ہمت زیادہ اور حوصلہ بہت بلند ہو گیا۔اور باوجودیکہ وہ اس موقع پر قریباً پندرہ ہزار کی رقم کثیر خرچ کرچکے تھے جس میں نمایاں حصہ محمد صدر علی صاحب،مازور صاحب اور بھنوں برادرز نے لیا تھا ،انہوں نے Rose Hill Townمیں 1923ء میں نئی مسجد بنا لی۔گو اس موقع پر بھی مقامی مسلمانوں نے مقامی تامل لوگوں کے ساتھ مل کر فساد کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔1962ء میں خود احمدیوں نے اپنے ہاتھوں اس کی دوبارہ تعمیر کی اور اب یہ ماریشس کی دو منزلہ خوبصورت ترین مسجد شمار کی جاتی ہے۔

(ماخوذازتاریخ احمدیت جلد 4صفحہ و169تا171مرکزی ویب سائٹ جماعت ماریشس ahmadiyya.mu)

دارالسلام مرکز کے لیے یہ قطعہ زمین 21-1920ء میں خریدا گیا۔جب یہاں کے پہلے مربی سلسلہ حضرت صوفی غلام محمد صاحب مسجد بنانے کے سلسلہ میں احمدی احباب سے رابطہ کرنے کی غرض سے نکلے تو آپ سب سے پہلے مکرم صدر علی صاحب کے پاس گئے اور ان سے مسجد کے قیام کا ذکر کیا تو موصوف نے اس نیک کام میں سبقت دکھائی اور اس وقت دو سوروپے کا چیک مسجد کے لیے پلاٹ خریدنے کے لیے دے دیا۔اس سے اگلے روز اس رقم سے روز ہل کے ایک چوک میں ایک مناسب اور موزوں پلاٹ خرید لیا گیا۔یہ پلاٹ ایک چینی آدمی کا تھا جس نے اس پلاٹ پر اپنے جانور رکھے ہوئے تھے۔پلاٹ خریدنے کے بعد 1923ء میں یہاں لکڑی سے مسجد بنائی گئی۔اس کا نام مسجد دارالسلام رکھا گیا۔بعد میں اس مسجد میں توسیع ہوتی رہی۔1965ء میں موجودہ مسجد ازسرنو پختہ تعمیر کی گئی۔

(رپورٹ دورہ ماریشس۔الفضل ربوہ 12؍دسمبر 2005ء)

مغربی افریقہ کی پہلی مسجد۔نائیجیریا

نائیجیریا مشن کی تاریخ میں 12؍مارچ1943ء1322ہش کا دن بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس روز آنریبل حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحبؓ نے اپنے سفر امریکہ و انگلستان سے واپسی پر لیگوس ، نائیجیریا کی پہلی احمدیہ مسجد کا سنگ بنیاد بعد نماز عصر رکھا۔مبلغ نائیجیریا حکیم فضل الرحمٰن صاحب نے ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضرت چودھری صاحبؓ نے روحانیت سے لبریز تقریر فرمائی۔اس تقریب پر نائیجیریا کی سب مشہور جماعتوں نے اپنے نمائندے بھیجے۔گورنر، چیف سیکرٹری اور دوسرے معزز حکام اور غیر سرکاری یورپین اور افریقن نیز سرعزیز الحق صاحب اور بمبئی کے نامزد گورنر سر جان کالول بھی موجود تھے اور غیر معمولی طور پر بہت بڑا مجمع تھا۔سامعین حضرت چودھری صاحبؓ کے خطاب سے بہت متاثر ہوئے اور پریس نے اس کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی۔حکیم فضل الرحمٰن صاحب مبلغ نائیجیریا نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اس مسجد کے لیے پانچ ہزار روپیہ تو مرکزی بیت المال نے دیا ہے اور ایک ہزار پونڈ کے قریب نائیجیریا کے احمدیوں نے جمع کیا ہے۔نائیجیریا کے اطراف و اکناف سے جو عطیے موصول ہوئے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔

لیگوس کی یہ پہلی عالیشان مسجد قریباً ساڑھے پانچ ماہ میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس کا نام ’’مسجد فضل‘‘ رکھا اور فرمایا کہ لندن کی پہلی مسجد کا نام بھی ’’مسجد فضل‘‘ ہے۔ اس کا نام بھی ’’مسجد فضل‘‘ رکھا جائے۔ اس مسجد پر جو حکیم فضل الرحمٰن صاحب مبلغ نائیجیریا کی نگرانی میں تعمیر ہوئی قریباً ایک ہزار پونڈ خرچ ہوئے۔لیگوس کے احمدیوں نے جن میں مرد، خواتین اور بچے بھی شامل تھے، مسجد کی زمین کا ملبہ اٹھانے، بنیادیں کھودنے، بنیادیں بھرنے اور فرش لگانے کا کام خود کیا۔مسجد لیگوس کا افتتاح 27؍اگست 1943ءکو جمعہ کے دن ہوا جس کی خبر نائیجیریا پریس نے بھی شائع کی۔

(تاریخ احمدیت جلد نہم (سابقہ ایڈیشن) صفحہ 468-469)

خلفائے احمدیت کا بر اعظم افریقہ میں ورودِ مسعود

براعظم افریقہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس براعظم کے شمال مشرق، جنوب ، وسط اور مغرب میں چار خلفائےکرام نے قدم رنجہ فرمایا جبکہ جماعت کے پانچوں خلفاء کی نظر شفقت سے بالخصوص مستفیض ہوا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے زمانے میں افریقہ میں باقاعدہ پیغام پہنچا اور پہلے مبلغ کا تقرر عمل میں آیا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے جولائی 1924ء میں دورہ یورپ پر جاتے ہوئے شمال مشرقی افریقہ میں احمدیہ دار التبلیغ مصر کا دورہ کیا اور دو روز تک قاہرہ میں رونق افروز رہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 11؍اپریل تا 14؍مئی 1970ء پہلے دورۂ مغربی افریقہ میں نائیجیریا، غانا، آئیوری کوسٹ، لائبیریا، گیمبیا اور سیرالیون کا شاندار و کامیاب دورہ کیا۔

حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے جماعت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر جنوری،فروری1988ء میں گیمبیا،سیرالیون،لائبیریا،آئیوری کوسٹ، غانا اور نائیجیریا جبکہ اسی سال 27؍اگست تا28؍ستمبر1988ء پہلے دورہ مشرقی افریقہ میں کینیا،یوگنڈا،تنزانیہ اور ماریشس تشریف لے گئے۔کینیا، یوگنڈا، تنزانیہ اور ماریشس کو پہلی بار خلیفة المسیح کی قدم بوسی کی سعادت نصیب ہوئی۔

حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 13؍مارچ 2004ء تا 13؍اپریل 2004ءپہلےدورہ مغربی افریقہ میں غانا، بورکینا فاسو، بینن، نائیجیریا تشریف لے گئے۔اسی طرح 26؍ اپریل 2005ء سے 25؍مئی 2005ء تک حضورانور ایدہ اللہ نے پہلے دورۂ مشرقی افریقہ میں کینیا، تنزانیہ، یوگنڈا کا دورہ فرمایا۔بورکینا فاسو اور بینن پہلے ممالک ہیں جہاں پر پہلی دفعہ کسی خلیفۃالمسیح کے مبارک قدم پڑے۔اسی سال 28؍نومبر تا 11؍دسمبر2005ء قادیان جاتے ہوئے ماریشس کا دورہ بھی فرمایا۔اسی طرح دوسرا دورہ مغربی افریقہ میں خلافت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر 15؍اپریل تا 6؍مئی 2008ء آپ غانا، نائیجیریا، بینن تشریف لے گئے۔

اس مضمون میں خلفائے احمدیت کے دورہ ہائے افریقہ میں مساجد کا سنگِ بنیاد یا جوافتتاح خلفائے کرام کے ذریعہ عمل میں آیا ، ان کا مختصر جائزہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ افریقن اقوام کو ان کی قربانیوں پر جو خراجِ تحسین خلفائے کرام کی جانب سے پیش کیا گیا ہے، اس کی ایک جھلک پیش کرنی بھی مقصود ہے۔

خلافتِ ثالثہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 4؍اپریل تا8؍جون 1970ء دورۂ مغربی افریقہ کے دوران مختلف مساجد کا افتتاح اور سنگِ بنیاد رکھا۔

12؍اپریل 1970ء کو بواجے بو ، نائیجیریا میں نَو تعمیر شدہ اور عالیشان مسجد کا افتتاح فرمایا۔

18؍اپریل 1970ء کو حضور غانا تشریف لائے اور اسی شام ایک جلوس کی صورت میں حضور ؒمشن ہاؤس تشریف لے گئے یہاں حاضرین کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی تھی جن میں علاقہ کے رؤسا اور غیر مسلم معززین نیز غیر ملکی سفارتی نمائندے بھی موجود تھے۔اس موقع پر حضورؒ نے اکرا کی مسجد کا اپنے دستِ مبارک سے سنگِ بنیاد رکھنے سے قبل اسلامی معاشرہ میں مساجد کی اہمیت اور تعلیم وتربیت کے اعتبار سے ان کے نہایت اہم کردار پر ایک پر معارف خطاب فرمایا۔

22؍اپریل 1970 ء کو ٹیچی مان ، گھانا میں 80 احمدی جماعتوں کی موجودگی میں حضور ؒنے محبت اور روحانیت سے لبریز ایک تقریر فرمائی جو گویا روح کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی مجسم دعا تھی۔تقریر کے بعد حضورؒ نے مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا اور نماز پڑھائی۔پھر تقریباً تین ہزار مردوں نے حضور ؒاوراتنی ہی احمدی بہنوں نے حضرت بیگم صاحبہ سے مصافحہ کیا۔

3؍مئی کی شام حضورؒ نے مضافاتِ باتھرسٹ ، گیمبیا میں ’’بنونکا کُنڈا‘‘ کے مقام پر مسجد اور نصرت سیکنڈری سکول کی بنیاد رکھی۔حضورؒ نے سکول کی بنیاد رکھنے سے قبل سائیٹ پلان بھی ملاحظہ فرمایا۔

8؍مئی کو حضورؒ نے فری ٹاؤن ،سیرالیون کے مضافات میں لیسٹر نامی مقام پر ایک نئی مسجد کا افتتاح فرمایا۔اس مسجد کا نام حضورؒ نے احمدیت کے مجاہد مولانا نذیر احمد علی صاحب مرحوم کے نام پر ’’مسجد نذیر احمد علی‘‘ رکھا۔ مسجد کے افتتاح اور دعا کے بعد حضور ؒنے بصیرت افروز خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں مساجد کے فلسفہ و حکمت پر روشنی ڈالی اور تفصیل سے اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ مسجد کا مالک اللہ تعالیٰ خود ہے یہ خدائے واحد کا گھر ہے۔جو شخص خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہے وہ مسلمان ہویا نہ ہو اسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنے طریق پر فریضۂ عبادت ادا کر سکے۔اس لحاظ سے مسجد تمام عبادت گاہوں ، گرجوں اور صو معوں کی پناہ گاہ اور محافظ بن جاتی ہے۔

9؍مئی کو حضور ؒسیرالیون کے جنوبی صوبہ بو(BO) تشریف لائے۔10؍مئی کو حضورؒ نے بو میں مرکزی احمدیہ مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔سنگِ بنیاد کی تقریب میں احبابِ جماعت کے علاوہ کثیر تعداد میں غیر از جماعت مسلمان اور غیر مسلم معززین موجود تھے۔حضورؒ نے اپنے خطاب میں اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِِ کی پُرمعارف تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مسجد کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔کوئی انسان مسجد کی ملکیت کا حق نہیں رکھتا خواہ اس نے مسجد کی تعمیر کا سارا خرچ کیوں نہ برداشت کیاہو۔مسجد کی یہی وہ قسم ہے جس کا حق ہے کہ اس میں عبادت کی جائے۔اس کی بنیاد تقوی اللہ پر رکھی جاتی ہے۔دیواریں نیکی سے چونا گچ کی جاتی ہیں اور چھت اس کی نصرت الٰہی سے بنائی جاتی ہے۔

(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 26صفحہ 42تا 65)

اس دورے سے واپس آکر حضورؒ نے غانا کی مسجد کے بارے میں فرمایا:

’’اکرا (گھانا) میں پہلی بار ہماری بڑی مسجد کی بنیاد رکھی جانی تھی۔بنیاد کے رکھے جانے کے موقع پر ہزاروں آدمیوں کے سامنے میں نے اسلام کی یہ تعلیم پیش کی ان میں اکثریت تو احمدیوں کی تھی لیکن میری آواز ریڈیو اور اخبار کے ذریعہ قریباً ہرفرد تک پہنچ جاتی تھی کیونکہ اخباروں نے بہت تعاون کیا اور ریڈیو اور ٹیلیویژن نے بھی بہت تعاون کیا۔مسجد کے متعلق میں نے انہیں بتایا کہ اسلامی تعلیم کے مطابق اللہ کی مسجد کے دروازے جس کے ہم نگران ہیں ہر اس شخص کے لئے کھلے ہیں جوخدائے واحد ویگانہ کی پرستش کرنا چاہے خواہ وہ مسلمان ہو یا نہ ہو اور قرآن کریم نے ساری دنیا میں یہ اعلان کیا ہوا ہے کہ مسجد علامت اور نشان ہے اس بات کا کہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے گی اور انہیں مسمار نہیں کیا جائے گا۔مسلمانوں نے اس پر عمل کیا اور دنیا میں ایک نہایت حسین مثال قائم کی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ12؍جون1970ء بمقام مسجد مبارک ربوہ)

حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒنے 1980ء میں تین بر اعظموں کا عظیم الشان دورہ فرمایا اور کئی ممالک میں مساجد کا سنگِ بنیاد اور افتتاح فرمایا۔ براعظم افریقہ میں یہ سعادت نائیجیریا اور غانا ممالک کے حصہ میں آئی۔ حضور ؒنے مغربی افریقہ کے سب سے بڑے شہر ابادان میں 20 اگست 1980ء کو دو منزلہ وسیع و عریض جامعہ مسجد کا افتتاح نمازِ ظہر و عصر سے فرمایا اور بعد ازاں خطاب میں فرمایا کہ میں اپنے ذاتی تجربہ کی بناء پر تمہیں بتاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے پیار کرتا ہے اس لیے نہیں کہ میں کچھ ہوں بلکہ میں اپنے آپ کو ایک عاجز ترین شخص سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ میں خدا تعالیٰ اور اس کے عظیم رسول سے پیار کرتا ہوں۔ اس کے بعد حضورؒ نے ہزاروں آدمیوں کو جو مسجد میں موجود تھے شرف مصافحہ عطا کیا۔

21؍اگست 1980ء کو حضور نے لیگوس میں تین منزلہ نہایت خوبصورت احمدی مرکزی جامعہ مسجد کا نمازِ ظہر و عصر پڑھا کر افتتاح فرمایا۔ حضورؒ نے بعد ازاں اپنے خطاب میں فرمایا کہ 1970ء کے دورے کے دوران میں نے محسوس کیا تھا کہ نائیجیریا کی جماعت مکمل طور پر بیدار نہ تھی لیکن اس دورےکے دوران مجھے محسوس ہوا کہ تم سب لوگ مکمل طور پر بیدار ہو۔حضور نے احباب کو نصیحت کی کہ فروتنی کی راہیں اختیار کرو۔ آخر میں حضورؒ نے لمبی دعا کروائی جس کے بعد مسجد میں موجود ہزاروں افراد نے حضور سے شرفِ مصافحہ حاصل کیا۔

22؍اگست 1980ء کو الارو میں نمازِ جمعہ سے مسجدکا افتتاح فرمایا۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورؒ نے تین ہزار سے زائد مرد احباب کو شرفِ مصافحہ بخشا اور آخر پر مسجد کی دیوار پر نصب تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کی۔

24؍اگست 1980ء اکرا میں مشن ہاوس میں مسجد کا افتتاح فرمایا۔ افتتاح سے قبل بارش شروع ہو گئی ہزاروں لوگ بارش میں اپنی کرسیوں پر آرام و سکون سے بیٹھے رہے۔ اس دوران جبکہ بارش پورے زور سے جاری تھی حضور تشریف لے آئے ، احباب کو بارش میں بھیگتا دیکھ کر حضور بھی احباب کی محبت کی وجہ سے اسی بارش میں بھیگتے خود بھی سٹیج پر تشریف لے آئے۔ حضور کی شیروانی مبارک بارش میں بھیگ گئی اور عالم میں زبردست نعروں کے جلو میں حضور نے احباب کو خطاب فرمایا۔

(ماخوذ الفضل خاص نمبر 26 اکتوبر 1980ء)

29 اگست کو حضور نے غانامیں اکرا سے سالٹ پانڈ جاتے ہوئے ایسیام میں بھی مسجد کا افتتاح فرمایا۔ جس کی تفصیل تو درج نہیں لیکن ایک مجلہ کے مطابق حضور رحمہ اللہ نے اکرا اور Essiam میں مسجد کا افتتاح فرمایا تھا۔

(Mosques around the World Souvenir 1994 USApage 102)

خلافتِ رابعہ

حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن کے سلسلہ میں مغربی افریقہ کا دورہ کیا۔ اور مختلف مساجد میں رونق افروز ہوئے۔اور بعض مساجد کا سنگ بنیاد رکھا اور افتتاح بھی فرمایا۔ان میںسے چند کا ذکر حسبِ ذیل ہے:

جنوری 1988ء: گیمبیا میں 2مساجد کا افتتاح

9؍فروری 1988ء: مشن ہاؤس ٹیما۔غانا اسی طرح اس دورہ میں منگوس (Mangoase) میں مسجدکاافتتاح فرمایا۔

31؍اگست 1988ء: مسجد شیانہ ، کینیا کا افتتاح

13؍ستمبر1988ء : بیت الحمید، ڈوڈھا، تنزانیہ

18؍ستمبر1988ء: New Grove، ماریشس میں مسجد کا سنگِ بنیاد جبکہ ملٹری کوارٹرز(Quareier Militaire) ماریشس کی مسجد ’’بیت طاہر‘‘ کا افتتاح فرمایا۔

حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ کی ربوہ سے ہجرت کے بعد جماعت ترقی کے ایک نئے دَور میں داخل ہوئی اور مساجد کی تعمیر میں خاص توجہ پیدا ہوئی۔الفضل ربوہ کے سیدنا طاہر نمبر میں دورِ خلافت رابعہ میں تعمیر مساجد کا جائزہ کچھ یوںبیان ہوا :

دورِ ہجرت کے پہلے سال 85-1984ء میں نئی مساجد جو دنیا بھر میں قائم ہوئیں ان کی تعداد 32 تھی۔86-1985ء میں یہ تعداد 32 سے بڑھ کر 206 ہو گئی۔87-1986ء میں 136 نئی مساجد تعمیر ہوئیں۔مساجدکی تعمیر اور بنی بنائی مساجد عطا ہونے کی رفتار میں بھی حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا جس کا اندازہ مندرجہ ذیل تین سالوں کے جائزہ سے لگایا جا سکتاہے۔

1999ء میں 1524 مساجد

2000ء میں 1915 مساجد

2001ء میں 2570 مساجد

ہجرت کے کل19سالوں میں مجموعی طور پر کل 13065 نئی مساجد جماعت احمدیہ کو دنیا بھر میں قائم کرنے کی توفیق ملی۔

(ماخوذ از الفضل 27؍دسمبر 2003ء سیدنا طاہر نمبر صفحہ 12)

ظاہرًا غریبانہ لیکن اعلیٰ مثالوں کی حامل افریقن مساجد

حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ نے لاس اینجلس کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر اپنے دورہ افریقہ 1988ء کا ذکر کرتے ہوئے افریقن احباب کی قربانیوں کو سراہا اور تمام مساجد کی تعمیر پر سجدہ تشکر بجا لانے کی ہدایت فرمائی۔آپ ؒ فرماتےہیں کہ

’’میں جانتا ہوں کہ افریقہ کے غریب ممالک میں، چھوٹے چھوٹے دیہات میں ، دوسرے تیسری دنیا کے ممالک میں جماعت نے کثرت کے ساتھ مساجد تعمیر کی ہیں اور آج کے دن کی خوشی میں مَیں نے سوچا کہ ا ن مساجد کا ذکر بھی شامل کر لوں جن کو ظاہری دنیا کے لحاظ سے کوئی عظمت عطا نہیں ہوئی۔

میں نے ایسی غریبانہ مساجد بھی دیکھی ہیں افریقہ میں جو گھاس بھوس کی بنی ہوئی ہیں ، معمولی پتھر کی بنی ہوئی ہیں۔ایسی مساجد بھی دیکھیں جن میں دس دس سال سے جماعت محنت کر کے اینٹیں جوڑ کر، کچھ پیسے جوڑ کر کچھ دوسرا سامان خرید کے وقارِ عمل کے ذریعے جتنی توفیق ملتی ہے اس مسجد کو کچھ آگے بڑھا دیتی ہے اور بعض ایسی مساجد دیکھیں جو چھتوں تک مکمل ہو گئی تھیں لیکن چھت کے ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔کچھ ایسی مساجد دیکھیں جن میں چھتیں پڑ چکی تھیں لیکن دروازوں کے ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ایسی مساجد دیکھیں جہاں دروازے تو تھے مگر فرش بنانے کے لئے پیسے نہیں تھے، دریاں خریدنے کے لئے پیسے نہیں تھےلیکن عظمت کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ دنیا کی کسی دوسری مسجد سے پیچھے نہیں تھیں اور کئی پہلوؤں سے وہ تمام دنیا کی جماعتوں کے لئے اپنے اندر اعلیٰ مثالیں رکھتی تھیں۔

ایسی کثرت سے مجھے جماعتیں دکھائی دیں جنہوں نے آج تک مرکز سے ایک آنے کی امداد کا بھی مطالبہ نہیں کیا۔نہ صرف مرکز سے بلکہ اپنے ملک کے ہیڈ کواٹر سے بھی اور اگر میں وہاں تفصیلی دورہ نہ کرتا اور گاؤں گاؤں جا کر مختلف جماعتوں کے حالات دیکھنے کی توفیق مجھے نہ ملتی تو میرے علم میں بھی یہ بات نہیں آنی تھی کہ افریقہ کے لوگ خدا کے گھربنانے میں کیسی مسلسل قربانیوں کا مظاہرہ کر ر ہیں اور کیسے خلوص کے ساتھ وہ خدا کے گھر بنانے میں مسلسل محنت سے کام لے رہے ہیں۔بہت بڑی بڑی خوبصورت مساجد بھی ہیں ان میں سے لیکن ان کا پسِ منظر بھی یہی ہے کہ مقامی لوگ مل کر جب خدا توفیق دیتا ہے کسی کو کوئی تجارت میں فائدہ ہوتا ہے، کسی اور زمیندارے میں اچانک خدا کی طرف سے ان کی جھولی فضلوں سے بھری جاتی ہے تو ایک بڑا حصہ اس میں سے وہ مساجد کے چندے کے طورپر الگ کرتے ہیں اور ان کو ایک دلی لگن ہے اس کام سے۔

پس کثرت سے ایسی مساجد ہیں جو کسی ذکر میں اور کسی شمار میں نہیں آئیں اور بنانے والوں نے کبھی اس رنگ میں سوچا بھی نہیں کہ یہ مساجد دنیا میں قابل ذکر مساجد ہیں یا ان کے ذکر کی خاطر ہمیں مرکز کو لکھنا چاہئےکہ وہ ہماری مساجد کا نام بھی لیں۔پس وہ مساجد بعید نہیں کہ بعض بڑی بڑی شاندار مساجد کے مقابل پر خدا کے نزدیک زیادہ مقبول ہوں اور مساجد کی مقبولیت کا فیصلہ دراصل آغاز کی نیتیں ہی کیا کرتی ہیں ۔…

پس وہ ساری مساجد جو افریقہ میں بنی ہیں ، نامعلوم ہیں یا انڈونیشیا میں بن رہی ہیں اور نامعلوم ہیں ، جو بنگلہ دیش میں بن رہی ہیں اور نامعلوم ہیں،ہندوستان میں بن رہی ہیں اور نامعلوم ہیں آج ہم ان سب مساجد کو اپنی دعاؤں میں شامل کر لیں گے اور نماز میں جو دعا کی جائے گی اس میں اس مسجد کے اوپر خدا کے حضور صرف سجدہ تشکر ادا نہ کیا جائے بلکہ اس سارے عرصے میں خدا نے جو عظیم الشان توفیق ہمیں عطا فرمائی ہے للہ مساجد بنانے کی اس سب مضمون کو پیشِ نظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍جولائی 1989ء مطبوعہ خطباتِ طاہر جلد 8صفحہ 458تا 464)

خلافتِ خامسہ

خلافتِ خامسہ میں افریقہ میں جماعت احمدیہ کی ترقیات نے تو گویا آسمان مسخر کرنے کی ٹھان لی۔ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں صرف افریقہ میں ہی مساجد کا قیام ہونے لگاجس کا جائزہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ہر سال جلسہ سالانہ یوکے کے دوسرے روز کے خطاب میں پیش فرماتے ہیں۔2010ء میں افریقہ میں بننے والی مساجد کاتفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے حضور انور فرماتے ہیں کہ

’’غانا میں 14نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔غانا میں مساجد کی تعداد 418ہو چکی ہے۔نائیجیریا میں اس سال 9مساجد کی تعمیر ہوئی ہے اور 30اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔یہاں جماعت کی مساجد کی تعداد 943ہے۔سیرالیون میں 67مساجد کا اضافہ ہوا ہے، 17تعمیر ہوئی ہیں اور 50بنی بنائی ملی ہیں۔لائبیریا میں ایک مسجد کی تعمیر ہوئی ہے۔اورگیمبیا میں تین مساجد کی۔

گنی بساؤ میں 4کا اضافہ ہوا۔آئیوری کوسٹ میں تین نئی مساجد تعمیر ہوئیں۔کینیا میں 6مساجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔اور تنزانیہ میں 2نئی مساجدکی۔اللہ کے فضل سے ہر جگہ ان ملکوں میں مساجد کی تعداد 70،60،50سے زائد ہے۔بلکہ بعض جگہ 200،100سے بھی زائد ہے۔یوگنڈا میں دورانِ سال 6مساجد کی تعمیر ہوئی۔برکینا فاسو میں امسال 27مساجد کا اضافہ ہوا۔9تعمیر ہوئیں اور 18بنی بنائی ملیں۔یعنی جب امام اپنی مسجدوں سمیت جماعت احمدیہ میں آ جاتے ہیں۔کنشاسا میں امسال تین مساجد کی تعمیر ہوئی۔بینن میں 10نئی مساجد کی تعمیر ہوئی۔ٹوگو میں ایک مسجد کا اضافہ ہوا۔نائیجیر میں 4مساجد تعمیر ہوئیں اور 7بنی بنائی ملیں۔کیمرون میں اس سال جماعت کی دوسری مسجد تعمیر ہوئی ہے۔‘‘

(خطاب جلسہ سالانہ یوکے 31؍جولائی 2010ء)

افریقہ کے دوروں کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےکئی مساجد میں یادگاری تختیوں کی نقاب کشائی فرمائی جبکہ متعددمساجد کا سنگِ بنیاد یا افتتاح حضور انور ایدہ اللہ کے دستِ مبارک سے ہوا۔

14؍مارچ 2004ء: مسجد ٹی آئی احمدیہ سیکنڈری سکول گوموا پوٹسن کا سنگِ بنیاد

16؍مارچ2004:بیت الصدیق۔احمدیہ ہسپتال ڈابوآسی غانا

21؍مارچ 2004ء: بیت الذکراحمدیہ ہسپتال کوکوفو غانا

22؍مارچ 2004ء: WA غانامیں Limanyiri کے مقام پر ایک نوتعمیر شدہ مسجدکا افتتاح

23؍مارچ 2004ء:ٹمالے، غانا کی مسجدکے پہلے فلور کا افتتاح

31؍مارچ 2004ء : مسجدھدیٰ ،Kaya،برکینا فاسو کا افتتاح

5؍اپریل 2004ء: مسجداحمدیہ Portonovo بینن کا سنگِ بنیاد

7؍اپریل 2004ء:احمدیہ مسجدبیت العافیت پیراکو (Parakou) بینن کا افتتاح

9؍اپریل 2004ء:بیت التوحید Contonou، بینن۔

11؍اپریل 2004ء: Owode اور الارو نائیجیریا میں مساجد کا افتتاح

12؍اپریل 2004: احمدیہ مسجد اوجو کورو کا افتتاح

(ماخوذ ازروزنامہ الفضل ربوہ، افریقہ نمبر 27؍دسمبر 2004ء)

21؍اپریل2008ء: مسجد نور احاطہ جامعہ احمدیہ گھانا، مسجداحمدیہ سیکنڈری سکول پوٹسن گھانا(اس مسجد کا سنگ بنیاد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 14؍مارچ 2004ء کو اپنے دورہ غانا کے دوران رکھاتھا۔)

25؍اپریل2008ء:مسجدالمہدی،بینن(حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے گذشتہ دورہ بینن کے دوران 8؍اپریل 2004ء کو اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔)

27؍اپریل 2008ء: بیت الرحیم اپاٹا، ابادان نائیجیریا۔

26؍اپریل 2008ء: احمدیہ بیت الذکر Ipokia، نائیجیریا۔

29؍اپریل 2008ء : مسجد مبارک ابوجہ (Abuja)، نائیجیریا۔

(ماخوذ از رپورٹس دورہ افریقہ 2008ء)

جماعت احمدیہ کے پاس ایمان کی دولت ہے

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ وہ ہمیں توفیق دے رہا ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں، ہر شہر میں مسجدوں کی تعمیر کریں۔ افریقہ کے غریب ممالک کے دُور دراز کے علاقوں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں اور قصبوں میں بھی مسجد کی تعمیر ہو رہی ہے اور بڑے شہروں میں بھی مساجد بن رہی ہیں۔ اسی طرح یورپ اور دوسرے مغربی ممالک میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مساجد تعمیر ہو رہی ہیں۔ ہر جگہ جماعت بڑی قربانیاں کرکے مسجدیں بنا رہی ہے۔ جماعت احمدیہ کے پاس نہ تو تیل کی دولت ہے، نہ کسی اور ذریعہ سے ہم دولت جمع کرتے ہیں، ہاں ایمان کی دولت ہے جس کی وجہ سے احمدی قربانی کرتے ہیں۔ پس آپ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اس دولت کی ہمیشہ حفاظت کرنی ہے۔ یہ ایک ایسا بے بہا خزانہ ہے جس کوچھیننے کے لئے ہر راستے پر چور، اچکے اور ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہ ان لوگوں سے ہماری راتیں محفوظ ہیں، نہ ہمارے دن محفوظ ہیں بلکہ یہ ڈاکو شیطان کی صورت میں ہمارے خون میں دوڑ رہا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات سے ہوشیار کیا کہ شیطان جو تمہاری رگوں میں دوڑ رہا ہے اس سے بچو۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ آدم کی پیدائش کے وقت بھی شیطان نے یہ عہد کیا تھا کہ مَیں انسانوں کو ضرور ان کے راستے سے بھٹکاؤں گا۔

پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایمان کی دولت ایسی دولت ہے جس کی حفاظت سب سے مشکل کام ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍اپریل 2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل16؍مئی2008ءصفحہ5)

افریقہ میں ازدیادِ ایمان پر مخالفین شرم سےسوچیں

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 2004ء کے دورہ مغربی افریقہ کے ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے مساجد کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

’’مختصراً یہ کہ گھانا میں اس دورہ کے دوران 13مساجد کا افتتاح ہوا اور دو کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور سات متفرق عمارات کا افتتاح ہوا یا سنگ بنیاد رکھاگیا۔

…بورکینا فاسو میں تین نئی مساجد کا افتتاح ہوا اور ایک سکول اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور پھر جو واگاڈوگو ان کا دارالحکومت ہے وہاں احمدیہ ہسپتال کا افتتاح بھی ہوا۔…

بینن…کیپیٹلکوتونووو میں بڑی خوبصورت نئی مسجد بنی ہے اس کا افتتاح ہوا…کوتونووو کے قریب 35کلو میٹر کے فاصلے پرایک جگہ ہے جہاں ان کا پہلے کیپیٹل ہوا کرتا تھا …۔یہاں ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا…۔

نائیجیریا میں بھی تین مساجد کا افتتاح کیا گیا۔انہوں نے بڑی بڑی اور خوبصورت مساجد بنائی ہیں اس کے علاوہ مختلف عمارتوں کے افتتاح اور سنگ بنیاد رکھے گئے یہاں کے لوگوں کے اخلاص اور خلافت سے تعلق اور محبت ناقابل بیان ہے۔…

ایم ٹی اے پر جواب تک دکھایا جا چکا ہے یہ اخلاص و وفا کے نظارے دنیا نے دیکھے ہیں اور ابھی بہت سے پروگراموں میں دیکھیں گے۔ مولوی کہتے ہیں کہ ہم نے افریقہ کے فلاں ملک میں جماعت احمدیہ کے مشن بند کرا دیے اور فلاں میں ہمارے سے وعدے ہو چکے ہیں۔ اور یہ کر دیا اور وہ کر دیا ہے اب ان سے کوئی پوچھے یہ اخلاص و وفا اور نور سے پُر چہرے ایم ٹی اے میں دنیا نے دیکھ لئے اور وہاں جا کر ہم خود دیکھ آئے ہیں۔ یہ کیا ہے سب کچھ؟ کیا یہ مشن بند کروانے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے جو بھی اپنی بڑہیں مارنی تھیں مار لیں۔ اور مار رہے ہیں۔ یہ بھی ہمارے ایمان میں زیادتی کا باعث بنتی ہیں۔ یہ تو صرف چار ملکوں کے مختصر حالات ہیں جو میں نے بیان کئے اور ایم ٹی اے پر مولویوں نے بھی دیکھے ہوں گے۔ اور شاید سن بھی رہے ہوں بعض سنتے بھی ہیں ان کو سننے کا شوق بھی ہوتا ہے۔ مولویوں یا مخالفین کو اگر ذرا بھی شرم ہو تو سوچیں کہ یہ تو صرف چار ملکوں کا قصہ ہے دنیا کے پونے دو سو سے زائد ممالک اخلاص و وفا سے پر احمدیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اگر ان کے نظارے دیکھیں گے تو ان کا کیا حال ہو گا۔ اس عرصے میں ان چار ملکوں میں 21نئی مساجد کا افتتاح ہوا ہے اور دو تین کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس کے علاوہ کافی تعداد میں سکول، ہسپتال اور دوسری عمارتوں کا سنگ بنیاد رکھا یا افتتاح ہوا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍اپریل 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍اپریل2004ءصفحہ6تا8)

افریقہ میں مساجد۔مبلغین کی قربانیوں کا پھل

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’جس زمانے میں میں وہاں تھا اس وقت اس بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھاکہ اتنی عمارتیں بن جائیں گی اور اتنی وسعت پیدا ہو جائے گی۔پھر اس دوران ہی دو مساجد کا افتتاح بھی ہوا، سالٹ پانڈ جہاں ہمارے ابتدائی مبلغین کام کرتے رہے ہیں اس جگہ کو بھی دیکھنے کے لئے گئے۔وہاں صرف معائنہ تھا کیونکہ ابتدئی قربانی کرنے والوں کی قربانی کا پھل ہی آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھا رہے ہیں۔جن میں حکیم فضل الرحمان صاحب، مولانا نذیر احمد علی صاحب، مولانا نذیر احمد مبشر صاحب وغیرہ شامل ہیں۔سالٹ پانڈ کی وسیع خوبصورت مسجد اور مشن ہاؤس وغیرہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ان مبلغین نے مال کی کمی، کمزوری اور وسائل کی کمی کے باوجود ایسی عالی شان اور خوبصورت عمارتیں کھڑی کر دیں۔

اکرا (Accra)میں جہاں اب ہمارا ہیڈ کوارٹر ہے، …. وہاں جب میں 1985ء میں آیا ہوں تو کافی بڑی مسجد اکرا مشن ہائوس کے ساتھ ہی تھی لیکن اب انہوں نے اس کو مزید وسعت دے کر اور دو منزلہ بنا کر تقریباً اس وقت سے بھی تین گنا زیادہ کر لیا ہے۔لیکن اس دورے کے دوران امیر صاحب گھانا کو یہ احساس ہو گیا ہو گا کہ یہ مسجد بھی چھوٹی پڑ گئی ہے۔الٰہی وعدوں کے مطابق جماعت نے تو انشاء اللہ تعالیٰ پھیلنا ہے، جتنی بڑی چاہیں مسجدیں بنائیں وہ چھوٹی ہوتی چلی جائیں گی۔لیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے قربانی کی روح اور اللہ کے گھروں کی تعمیر کی طرف توجہ اور خواہش رہی تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارشیں سنبھالی نہیں جائیں گی….۔

ٹمالے ایک جگہ ہے جو نارتھ میں گھانا کا ایک بڑا شہر ہے۔اس علاقے میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔یہاں ایک بہت بڑی دو منزلہ مسجد کا افتتاح ہوا۔اس جگہ چند سال پہلے یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھاکہ اتنی بڑی مسجد بن سکتی ہے اور پھر نمازی بھی آ سکتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍اپریل 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍اپریل2004ءصفحہ6)

ماریشس میں مساجد بنانے کی طرف توجہ ہے

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ماریشس جماعت کے متعلق فرمایا کہ

’’ماریشس کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی قربانی کرنے والی جماعت ہے…۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے مساجد بنانے کی طرف ان کی بہت توجہ ہے اور اچھی خوبصورت مسجدیں بناتے ہیں۔صفائی کا بھی خیال رکھتے ہیں۔چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں بھی آپ چلے جائیں جہاں چند ایک احمدی موجود ہیں تو وہاں بھی جماعت کی مسجد ہے۔اور محض ایک چھوٹی سی مسجد ہی نہیں بلکہ اچھی اور خوبصورت مسجد انہوں نے بنائی ہوئی ہوتی ہے اور اس مسجد میں تمام سہولتیں مہیا ہیں۔روزہل،جہاں ہماری پرانی اور مرکزی مسجد، بہت بڑی مسجد ہے، اس کے ساتھ جماعت کے دفاتر وغیرہ بھی ہیں۔اس کے ارد گرد تین چار کلومیٹر کے ایریا میں جماعت کی تین چار مساجد ہیں۔جس طرح ربوہ یا قادیان میں ہر محلے میں مسجد بنی ہوئی ہے یہاں بھی چھوٹی چھوٹی جگہوں پر جہاں بھی احمدیوں کی تھوڑی سی آبادی ہے وہاں مسجد بنی ہوئی ہے۔اب تک جن ملکوں میں مَیں گیا ہوں بلکہ جہاں نہیں بھی گیا وہاں بھی میرے خیال میں اس طرح مساجد بنانے کی طرف توجہ نہیں ہے جس طرح ماریشس میں ہے۔اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہمیشہ مساجد کو آباد رکھنے کی بھی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ20؍ جنوری 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل10؍فروری2006ءصفحہ5)

مسجد نبوی کی تصویر پیش کرتی افریقہ کی غریبانہ مساجد

رسول اللہ ﷺ کی مساجد کے بارے میں پیشگوئی بیان کرتے ہوئے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’حدیث میں آتا ہے کہ ’’عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا اور الفاظ کے سو اقرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔اس زمانے کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے‘‘۔ یعنی تمام خرابیوں کا وہی سرچشمہ ہوں گے۔

(مشکوٰۃ کتاب العلم۔الفصل الثالث صفحہ38۔کنزل العُمَّال جلد6صفحہ43)

پس آج ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق ملی۔پس ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ہمیشہ اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ اس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہوں۔زمانے کے امام سے سچا تعلق قائم کرنے والے بھی ہوں۔صرف خوبصورت مسجد ہی ہمارے کام نہیں آئے گی، خوبصورت مسجد بنا دینا ہی کافی نہیں ہے۔اس کے اندر لگے ہوئے قیمتی فانوس جو ہیں یہ ہمارے کسی کام نہیں آئیں گے۔بلند و بالا مسجد جو دور سے نظر آتی ہے ہمارے کسی کام نہیں آئے گی۔آنحضرتﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانے میں بلند و بالا مساجد تعمیر ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی، حقوق اللہ اور حقوق العباد سے بے بہرہ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب فرمایا کہ مسلمان پیدا کرنے کے لئے مسجدیں بناؤ تو ساتھ ہی آپؑ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ضروری نہیں کہ مسجدمرصّع اور پکی عمارت کی ہو۔خداتعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔مسجد نبوی جو تھی ایک لمبے عرصے تک کچی مسجد ہی رہی تھی لیکن تقویٰ پر اس کی بنیادیں تھیں۔جس کی خدا نے بھی گواہی دی۔افریقہ میں ہماری جماعتیں قائم ہوئی ہیں اکثر جگہ غریبانہ سی مسجد ہم بناتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی مسجدیں وہاں مضبوط جماعت کے قیام کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ4؍جولائی 2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل25؍جولائی2008ءصفحہ6)

سو سال بعد بھی قربانیوں کے وہی اعلیٰ معیار

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’مبلغ برکینا فاسو لکھتے ہیں کہ کاری جماعت میں جہاں مسجد کی تعمیر کا کام ہو رہا تھا وہاں ہر فرد ہی مسجد کی تعمیر میں ایک علیحدہ جذبے سے حصہ لے رہا تھا اور لوگوں کو چندہ کی تحریک بھی کی جا رہی تھی۔ہر کوئی اپنے اپنے رنگ میں اس نیکی میں شامل ہو رہا تھا۔ایک دن دو بڑی عمر کے احمدی آئے۔ان کے ہاتھ میں دو مرغ تھے اور کچھ انڈے لیے ہوئے تھے۔اور انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس صرف یہی ہے۔دو مرغے ہیں اور یہ انڈے ہیں۔اس کو ہی ہماری طرف سے مسجد کے لیے بطور چندہ سمجھ لیں تا کہ ہم بھی اس نیک کام میں شامل ہو جائیں۔چنانچہ معلم صاحب نے ان کو اس کی رسید دی۔

سو سال بعد بھی افریقہ کے غریب لوگ اس روایت کو قائم کر رہے ہیں جو آج سے تقریباً اسّی نوے سال پہلے یا سو سال پہلے قادیان کے غریب لوگوں نے قائم کی تھی اور اگر کوئی دیکھے، عقل کی آنکھ سے دیکھے اور سعادت اُس میں ہو تو خود ہی اس کو پتہ لگ جائے گا کہ یہ سچائی نہیں تو اَور کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کرتا ہے کہ کس طرح قربانیاں کرنی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ7؍ اگست 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍اگست2020ءصفحہ8)

مساجد کی تعمیر کا مقصد

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد کی تعمیر کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’پس یہ خوبصورت مسجد(مسجد بیت الوحید) جو آپ نے بنائی ہے اور جس میں آج جمعہ پڑھ رہے ہیں۔یہ بھی آپ نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لئے بنائی ہے اب اس مسجد کو بھی بھرنا آپ کا کام ہے اور اپنے گھروں کو بھی دعاؤں سے لبریز رکھنا آپ کا کام ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا عبادت گزار بندہ بنائے۔ایسا بندہ جس سے اس کا دوستی کا معاملہ ہو۔یاد رکھیں دوستوں کی خاطر قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں یہ نہ ہو کہ جب خدا ہم سے قربانی مانگے تو ہم پیچھے ہٹنے والے ہو جائیں۔نہیں بلکہ کامل وفا کے ساتھ اپنے پیارے خدا کے ساتھ چمٹے رہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی اس کامل اور مکمل کتاب کو ہمیشہ اپنا رہنما بنائے رکھیں۔اس پر عمل کرنے والے بھی ہوں اور اس کا پرچار کرنے والے بھی ہوں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور آئندہ بھی باہم ملنے کے مواقع پیدا فرماتا رہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ9؍اپریل2004ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23؍اپریل2004ءصفحہ4)

غیروں کا اقرار

الحاج عبدالوہاب عسکری (بغداد کے صحافی) لکھتے ہیں:

’’جماعت احمدیہ نے دین اسلام کی جو خدمات سرانجام دی ہیں۔ان میں تبلیغی لحاظ سے وہ ساری دنیا پر فوقیت حاصل کر چکے ہیں …۔یہ لوگ اعلائے کلمۃ الدین کے لئے ہر قسم کے ممکن ذرائع اختیار کرتے ہیں اور ان کے بڑے بڑے کارناموں میں سے محکمہ تبشیر ایک بہت بڑا کارنامہ ہے نیز وہ مسجدیں ہیں جو انہوں نے امریکہ افریقہ اور یورپ کے مختلف شہروں میں بنائی ہیں اور یہی وہ سنت ناطقہ ہے جس کو لے کر وہ کھڑے ہوئے ہیں اور اسی کے ذریعہ اسلامی خدمات بجالارہے ہیں۔بلاشبہ جماعت احمدیہ کے ہاتھوں اسلام کا مستقبل اب روشن ہو گیا ہے۔‘‘

(مشاہداتی فی سماء الشرق صفحہ 43تا 45 ۔بحوالہ تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 533)

احمدیہ مساجد کا ذکر کرتے ہوئے مکرم امیر صاحب سیرالیون ، ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ

’’جب غانا کے سفیر یہاں متعین ہوئے تو میں انہیں مبارک باد دینے گیا اور جماعت کی مساجد ، سکولز، ہسپتالوں کی تعداد بتا کر طبی و تعلیمی سرگرمیوں کا ذکر کیا تو کہنے لگے کہ ہاں ہاں ! میں ملک کے ایک طرف بارڈر تک گاڑی پر سفر کر کے آیا ہوں اور جگہ جگہ احمدیہ مسلم مساجد اور احمدیہ مسلم سکولز کے بورڈ دیکھ کر آیا اندازہ ہو رہا تھاکہ جماعت احمدیہ نے طبی اور تعلیمی میدان میں بہت کام کیا ہے۔‘‘

(اداریہ، روزنامہ الفضل آن لائن 28؍اپریل 2021ء)

طول و عرض میں مساجد ہی مساجد۔ خلافتِ احمدیہ کی محبت کا نشان

خلافت احمدیہ کی خاص توجہ اور ان دو اولین مساجد کا قیام افریقہ میں جماعت کے پھیلاؤ کا سبب بنتا چلا گیا اور ایک سے دو اور دو سے چار ہوتی مساجد اب ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں افریقہ میں بنتی چلی جا رہی ہیں۔جماعت ماریشس کی مرکزی ویب سائٹ کے مطابق پہلی مسجد کے قیام کے بعد سے اب تک 98سالوں میں صرف ماریشس میں 217مساجد قائم ہو چکی ہیں۔جبکہ سیرالیون جماعت کے سو سال مکمل ہونے پرملک کے طول و عرض میں قائم 1300سے زائد چھوٹی بڑی مساجد مسیح دوراں کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جبکہ یہاں کے بسنے والے مقامی احمدی ان مساجد کی بدولت روز بروز خدائے واحد پر ایمان و ایقان میں اور خلافت احمدیہ سے محبت میں ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں۔جیسا کہ خلفائے کرام نے مختلف اوقات میں مخالفین احمدیت کو بار بار یہ باور کروایا ہے کہ کون ہے جو ان دور دیسوں میں یہ محبت پیدا کر رہا ہے۔کون ہے جو ان ظاہرًا پسپا اقوام میں نور کی شمعیں جلا رہا ہے۔اے مخالف غور سے سن! وہ خدائے واحد و یگانہ ہے جس کی رحیمیت و رحمانیت نے اس زمانہ میں مسیح ِ دوراں اور اس کے جانشینوں کے ذریعہ اس ارض بلالؓ کو روحانیت سے مالا مال کر دیا ہے۔اور جماعت کی تاریخ گواہ ہے کہ احمدیت کی ہر دہائی میں اس خطہ ٔ ارض نے امام الزمان کے خلیفہ وقت کی کامل توجہ اور محبت و شفقت سے پہلے سے بڑھ کو حصہ پایا ہے اور پاتا رہے گا۔ان شاء اللہ العزیز۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button