متفرق مضامین

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کی دعا کا ایک تازہ بتازہ اعجاز

(چودھری عطاء الرحمن محمود۔ سویڈن)

سب کچھ ایسا آناً فاناً ہوا کہ ہمیں لگا کہ ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہیں۔لیکن یہ خواب نہیں حقیقت تھی، سچ تھا اور یہ ہمارے پیارے آقا( جن پر ہماری جانیں قربان ہوں) کی دعاؤں کے صدقے نازل ہونے والا اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم تھا

خاکسار نے 2018ء میں اپنی فیملی(بیوی،بیٹے اور بیٹی) کے ہم راہ سویڈن میں اسائلم کیا تھا۔ سویڈن میں محکمہ مائیگریشن (امیگریشن) نے ہمارے Documents کو سویڈش میں ترجمہ کروائے اور پڑھے بغیر ہمارا اسائلم کا کیس نامنظور کر دیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ اگرچہ یہ درست ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کے خلاف قانون سازی کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود احمدی لوگ پاکستان میں رہ سکتے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ان کو سویڈن میں اسائلم دیا جائے۔

خاکسارنے پیارے آقا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ للہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنے کیس کے نامنظور ہوجانے کی اطلاع دیتے ہوئے دعا کی درخواست کی تو پیارے آقا کے دستخط کےساتھ جو جواب مجھے موصول ہوا اس سے ساری فکر اور پریشانی دور ہوگئی۔پیارے آقا نے اپنے خط میں تحریر فرمایا تھا:

’’آپ کا خط موصول ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانیاں دور فرمائے۔ مشکلات آسان فرمائے۔ مسائل حل فرمائے۔ دین و دنیا کی بہترین حسنات سے نوازے۔ ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے اور فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے کیس کو اعجازی رنگ میں کامیاب فرمائے۔ آمین۔‘‘

اسائلم کیس کی نامنظوری کے خلاف ہم نے سویڈن کی عدالت میں اپیل دائر کردی۔ جس کی تاریخ سماعت 11؍مارچ 2021ء مقرر ہوئی۔ہماری طرف سے جو مزید Documents جمع کروائے گئے ان میں پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم(قتل، احمدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک، احمدیہ مساجد اور قبرستانوں کی بےحرمتی اور توڑ پھوڑ وغیرہ کے بارے میں رپورٹس اور خبروں) کے ساتھ ساتھ خاکسار کے الفضل انٹرنیشنل لندن اور مجلس انصار اللہ سویڈن کے رسالہ ’’الہدیٰ‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین بھی شامل تھے۔اپیل میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان مضامین میں جماعتِ احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات و فرمودات پیش کیے گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق امام مہدی ، مسیح موعود اور نبی اللہ مانتے ہیں اور پاکستانی قانون میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی ماننا سنگین جرم ہےکیونکہ یہ توہینِ رسالت ہے جس کی سزا موت ہے۔

تاریخِ سماعت سے صرف 2 دن پہلے 9؍مارچ 2021ء کو عدالت کی طرف سے ہمیں ای میل موصول ہوئی جس میں عدالت نے ہمارے Documentsپر مائیگریشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے لگائے جانے والے اعتراضات بھجوا کر ان کا جواب دینے کا کہا تھا۔وقت بہت کم تھا اور اعتراضات کی ایک لمبی چوڑی فہرست تھی۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے رات دن ایک کر کے اعتراضات کے جوابات تحریر کیے۔مزید دستاویزات بھی بھجوائی گئیں۔ اس کام میں مکرم کریم لون صاحب، مکرم عامر منیر چودھری صاحب، مکرم ملک نسیم احمد صاحب اور میرے داماد مکرم عثمان احمد صاحب نے بہت مدد اور تعاون کیا۔اللہ تعالیٰ ان سب کو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے اور دینی و دنیوی حسنات سے نوازے۔آمین۔

11؍مارچ 2021ء کو ایک بجے سماعت شروع ہوئی۔ عدالت میں چار ججز تھے اور ہمارے بالمقابل مائیگریشن کی نمائندہ آن لائن موجود تھیں۔ عدالت نے تعارف اور حاضری کے ساتھ کارروائی کا آغازکیا۔ اس کے بعد چیف جج نے مائیگریشن والوں کو پوچھا کہ کیا آپ کو اس فیملی کی اپیل کے حوالے سے تمام Documents مل گئےہیں اور کیا آپ کو آپ کے اٹھائے گئے اعتراضات کے جوابات بھی مل گئے ہیں؟ مائیگریشن کی نمائندہ نے بتایا کہ ہمیں ان کی طرف سے ارسال کردہ تمام چیزیں موصول ہوگئی ہیں۔چیف جج نے دوبارہ مائیگریشن کی نمائندہ سے پوچھا کہ ان اعتراضات کے جوابات کے بعد بھی کیا آپ اپنےموقف پر قائم ہیں یا آپ اپنے اعتراض واپس لیتے ہوئے اپنا فیصلہ بدلنا چاہتی ہیں؟ مائیگریشن کی نمائندہ نے کہا کہ ہم اپنے موقف پر قائم ہیں۔ہمارے نزدیک اس فیملی کو سویڈن میں اسائلم کا حق نہیں ملنا چاہیے اور پاکستان میں قطعاً ایسے حالات نہیں ہیں کہ اگر یہ فیملی واپس جائے تو انہیں جان کا کوئی خطرہ ہو۔

چیف جج نے ہمارے وکیل کو مخاطب کر کے کہا کہ چونکہ مائیگریشن والے اپنا فیصلہ واپس لینے کو تیار نہیں ہیں اس لیے آپ اپنے دلائل کا آغاز کریں۔چنانچہ ہمارے وکیل نے بات کا آغاز کرتے ہوئے عدالت سے درخواست کی کہ میں کیس کے حوالے سے اپنی بات کرنےسے پہلے مائیگریشن کے اٹھائے گئے اعتراضات پر بات کرنا چاہوں گا تاکہ ان اعتراضات کے جوابات کے بعد عدالت کو ہمارا موقف سمجھنے میں آسانی ہوسکے۔عدالت نے ہمارے وکیل کو اس کی اجازت دےدی۔

ہمارے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مائیگریشن نے پہلا اعتراض یہ کیا ہے کہ ثبوت کے طور پر الفضل انٹرنیشنل لندن میں عطاء الرحمٰن محمود کے جن مضامین کا حوالہ دیا گیا ہے، ہم نے Googleپر عطاء الرحمٰن محمود کے نام سے تلاش (Search) کیا ہےاوراس نام کا کوئی شخص موجود نہیں ہے اور جو نام سامنے آتے ہیں وہ اس نام سے مختلف ہیں۔ اور اسی طرح الفضل انٹرنیشنل بھی گوگل پر نہیں کھلتا ہے۔

ہمارے وکیل نےعدالت سے استدعا کی کہ آپ کی اجازت سے میں سکرین پر آپ کو یہ مضمون گوگل پر سرچ کر کے دکھانا چاہتا ہوں۔ پھر ہم نے عدالت کی سکرین پر انگریزی میں Alfazl International 19 July 2019لکھا ہوا دیکھا۔پھر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اب میں اس لنک کو کھولوں گا۔اور پھر وکیل کے Clickکرتے ہی سکرین پر الفضل انٹرنیشنل نظر آنا شروع ہوگیا۔وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جس مضمون کا حوالہ ہم نے دیا ہے وہ اس اخبار کے صفحہ نمبر 13 پر ہے۔پھر اس نے صفحہ نمبر 13کھولا۔ اور اس صفحہ کو سکرین پر بڑا کر کے دکھایا۔ سکرین پر واضح طور پر مضمون کا عنوان لکھا ہوا نظر آرہا تھا۔

’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی۔ برکات و ثمرات‘‘ (عطاء الرحمٰن محمود۔ سویڈن)

یہاں پر ہمارے وکیل نے عدالت کی طرف سے مقرر کردہ ترجمان (Translator)کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ کو سکرین پر اردو زبان میں کچھ لکھا ہوا نظر آرہا ہے؟ ترجمان کے اثبات میں جواب دینے پر وکیل نے کہا کہ اس مضمون کے عنوان کے بائیں ہاتھ نیچے کی طرف جو چھوٹی سی لائن ہے وہ پڑھ کر بتائیں کہ کیا لکھا ہے؟ ترجمان نے بتایا کہ یہ ’’عطاء الرحمٰن محمود۔ سویڈن‘‘ لکھا ہوا ہے۔وکیل نے ترجمان سے کہا کہ آپ ذرا اونچی آواز میں ایک بار پھر بتائیں کہ کیا لکھا ہوا ہے؟ترجمان نے دوبارہ اونچی آواز میں بتایا کہ ’’عطاء الرحمٰن محمود۔ سویڈن‘‘ لکھا ہوا ہے۔

عدالت کا یہ منظر قابل دید تھا۔مائیگریشن کی نمائندہ نے اپنا مائیک آن کیا اور کہا کہ مائیگریشن اپنا اعتراض واپس لیتی ہے۔مجھے یوں لگا کہ وہ ابھی کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن ہمارے وکیل نے اپنی بات کا آغاز کر دیا کہ اب میں مائیگریشن کے دوسرے اعتراض کا جواب پیش کروں گا۔

مائیگریشن کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ فیملی کی طرف سے جو Documents جمع کروائےگئے ہیں ان میں ایک رسالہ ’’الہدیٰ ‘‘ ہے۔ (یہ رسالہ سویڈن کی مجلس انصار اللہ کا ترجمان ہے) ’’الہدیٰ‘‘ میں عطاء الرحمٰن محمود کا جو مضمون شائع ہوا ہے اس میں نام ’’چودھری عطاء الرحمٰن محمود‘‘ لکھا ہوا ہےجبکہ مائیگریشن کے ریکارڈ میں ان کا نام ’’عطاء الرحمٰن محمود‘‘ ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دو مختلف لوگ ہیں۔

وکیل نے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ چودھری عزت اور Respectکا ایک لفظ ہے جو پاکستان میں بہت سے لوگ اپنے نام کے ساتھ لگاتے ہیں اور جہاں تک اس فیملی کا تعلق ہے تو عطاء الرحمٰن محمود کے والد صاحب کے نام کے ساتھ چودھری لکھا جاتا تھا جس کا ثبوت عطاء الرحمٰن محمود کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ہے جہاں ان کے نام کے ساتھ یہ لفظ موجود ہے۔اس موقع پر پھر عدالت میں ایک قابل دید منظر سامنے آیا۔ مائیگریشن کی نمائندہ نے اپنا مائیک آن کیا اور کہا کہ مائیگریشن اپنا یہ اعتراض بھی واپس لیتی ہے۔

مائیگریشن کا تیسرا اعتراض رسالہ ’’الہدیٰ‘‘ میں شائع ہونے والی میری ایک تصویر پر تھا کہ یہ تصویر واضح اور صاف نہیں ہے اور مائیگریشن کے ریکارڈ میں موجود عطاء الرحمٰن محمود کی تصویر سے Match نہیں کرتی۔

اس اعتراض کا جواب وکیل نے عدالت کے سامنے یوں پیش کیا کہ انہوں نے میری 4 بڑی بڑی تصاویر عدالت کے چاروں ججز کو پیش کیں اور پھر واپس اپنی جگہ پر آکر عدالت سے یوں مخاطب ہوئے۔میں نے اپنے موکل عطاء الرحمٰن محمود کی وہ تصویر جس پر مائیگریشن نے اعتراض اٹھایا تھا اس کی صاف واضح کاپیاں آپ کو پیش کر دی ہیں اور عطاء الرحمٰن محمود اس وقت عدالت میں آپ کے سامنے موجود ہیں۔

وکیل کے ان الفاظ کے ساتھ ہی عدالت کا ماحول بدل گیا۔مائیگریشن کی نمائندہ نے اس بار پھر اپنا مائیک آن کیا اور وہ یوں گویا ہوئیں۔مائیگریشن اپنے اعتراضات کو واپس لیتی ہے اور تسلیم کرتی ہے کہ الفضل انٹرنیشنل میں شائع ہونے والے مضامین کی وجہ سے اس فیملی کو پاکستان واپسی پر مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن کی پاداش میں ان کو پاکستانی قانون کے تحت سخت سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ اس لیے مائیگریشن اس فیملی کے متعلق اپنا پہلا فیصلہ واپس لیتے ہوئے انہیں سویڈن میں اسائلم دینا منظور کرتی ہے۔

مائیگریشن کی نمائندہ جب یہ اعلان کر رہی تھی تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی مائیگریشن کی نمائندہ ہے جو محض چند منٹ پہلے یہ کہہ رہی تھی کہ ہمیں اس فیملی کے سویڈن میں اسائلم کرنے پر تحفظات ہیں نیز یہ کہ پاکستان میں احمدیوں کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ انہیں ایسے خطرات لاحق ہوں جن کی بنا پر انہیں سویڈن میں اسائلم دیا جائے۔ہم نے پیارے آقا کے الفاظ کو اپنی آنکھوں سے من و عن پورا ہوتے دیکھا۔عدالت کی کارروائی کے دوران تائید و نصرت الٰہی کے زبردست اور حیرت انگیز نظارے دیکھے۔پوری کارروائی کے دوران ہر لمحے ہمیں یہی محسوس ہوتا رہا کہ ہمارا رحیم و کریم اور مہربان خدا ہماری مدد کے لیے خود ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے مائیگریشن والوں پر اپنا ایسا رعب ڈالا ہوا ہے کہ وہ بے بس ہو کر ہتھیار ڈال رہے ہیں۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عام طور پر سویڈن میں مائیگریشن اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتی بلکہ عدالت میں اپنے فیصلے کا بھرپور دفاع کرتی ہے۔ پھر مائیگریشن کی طرف سے عین تاریخ سماعت سے صرف دو دن پہلے اعتراضات کا پلندہ بھجوانا،عدالت میں سماعت کے آغاز میں اپنا فیصلہ واپس نہ لینے اور کیس کی کارروائی شروع کرنے کا اظہار کرنا ان کے اس موقف کا واضح ثبوت تھا۔لیکن پھر وہی مائیگریشن اپنا فیصلہ اور اعتراضات واپس لے کر ہمارے اسائلم کیس کو منظور کر لیتی ہے۔یہ ہے وہ معجزہ جو پیارے آقا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کے طفیل رونما ہوا۔ الحمد للہ۔

اللہ تعالیٰ حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی عمر اور فیض میں برکت عطا فرمائے اور ہم تمام احمدی دعاؤں کے اس خزانے سے فیضیاب ہوتے رہیں۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button