متفرق مضامین

خلافت اک نورِ یزدانی …

(ابن قدسی)

اب دوبارہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا دَور شروع ہوکر جاری وساری ہے۔اسی خلافت کے زیر سایہ اسلام کا حقیقی پیغام پوری دنیا میں پھیلایا جا رہا ہے۔پیشگوئی کے مطابق اس خلافت کا دَور قیامت تک ہے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیزوتکفین میں مصروف تھے تو انصار کے کچھ لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں امیر منتخب کرنے کے لیے جمع ہو گئے۔جب حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ بھی ادھر پہنچ گئے۔امیر مقرر کرنے پر مشاورت شروع ہوئی اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ انصار میں سے کسی نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک قریش میں سے۔حالات کچھ ایسے بن گئے کہ حضرت عمرفاروق ؓنے خلیفہ کے لیے حضرت ابوبکرصدیقؓ کا نام تجویز کیا اور ان کی بیعت کر لی گئی اور اس کے بعد مدینے کے لوگوں کی اکثریت نے اپنی خوشی سے حضرت ابوبکرصدیق ؓکے ہاتھ پر بیعت کی۔حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اپنے بعد حضرت عمرؓ کی نامزدگی سے متعلق اکابر صحابہؓ کی رائے جاننے کے لیے مشورہ کیا ۔کبار صحابہ کے اتفاق کرنے پر حضرت عمر فاروقؓ کو خلیفہ نامزد کیا ۔

حضرت عمر ؓخلیفہ بنے تو آپ کے دَورِخلافت کے آخری سال حج کے دنوں میں ایک شخص نے کہا کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہواتو میں فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا، کیونکہ ابوبکرصدیقؓ کی بیعت بھی تو اچانک ہی ہوئی تھی اور وہ کامیاب ہو گئی۔یہ بات حضرت عمرؓ تک پہنچی تو مدینہ جاکر آپؓ نے مسجد نبوی میں خلافت کے حوالے سے تاریخ ساز خطبہ دیا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ تم میں سے کوئی کہتا ہے ‘‘اگر عمر ؓمرجائیں گے تو میں فلاں کی بیعت کرلوں گا۔‘‘ تمہیں کوئی شخص یہ کہہ کر دھوکا نہ دے کہ ابوبکرؓ کی بیعت ہنگامی حالات میں ہوئی اور پھر کامیاب ہوگئی، سن لو کہ وہ ایسی ہی تھی لیکن اللہ نے اس (طرح کی) بیعت کے شر سے (امت کو) محفوظ رکھا۔پھر تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جس میں ابوبکرؓ جیسی فضیلت ہو؟ جس سے ملنے کے لیے لوگ سفر کرتے ہوں۔اس کے علاوہ اس خطبے میں حضرت عمرؓ نے کہا کہ اب جس کسی نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کی تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے۔

جب حضرت عمرؓ کو زخمی کیا گیا تو لوگوں نے آپؓ کو خلیفہ مقرر کرنے کا کہا تو آپؓ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا اور اگر میں خلیفہ مقرر کروں تو مجھ سے بہتر و افضل حضرت ابوبکرؓ مقرر کر چکے ہیں اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر نہ کروں تو مجھ سے بہتروافضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ جب آپؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو میں جان گیا کہ آپؓ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں فرمائیں گے۔

جب حضرت عمرؓ آخری وصیتیں فرما رہے تھے تب لوگوں نے عرض کیا : امیرالمومنین کسی کو خلیفہ بنا دیں؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرے نزدیک ان لوگوں سے زیادہ کوئی خلافت کا مستحق نہیں ہے جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال کے وقت راضی تھے پھر آپ نے حضرت علیؓ، عثمانؓ، زبیرؓ، طلحہؓ، سعدؓ، عبدالرحمٰنؓ بن عوف کا نام لیا اور فرمایا کہ عبد اللہ بن عمرؓ تمہارے پاس حاضر رہا کریں گے مگر خلافت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔پھر حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد وہ لوگ جو حضرت عمرؓ کی نظر میں خلافت کے مستحق تھے جمع ہوئے۔ ان چھ صحابہ نے اتفاق رائے سے اپنے میں سے تین لوگ منتخب کر لیے۔ پھر ان تینوں نے اتفاق رائے سے خلیفہ تجویز کرنے کا اختیارحضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓکو دے دیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے بہت سوچ بچار، عام لوگوں کا رجحان کس طرف ہے اور کئی صحابہ کرامؓ سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت عثمانؓ کو خلیفہ منتخب کیا۔ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ مقرر کرنے کے لیے عبدالرحمٰن بن عوفؓ اکابر سے بھی مشورہ کرتے …اجتماعاً بھی اور متفرق طور پر بھی۔ اکیلے اکیلے سے بھی اور دو دو سے بھی۔ خفیہ بھی اور علانیہ بھی، حتیٰ کہ پردہ نشین عورتوں سے بھی مشورہ کیا۔ مدرسے کے طالب علموں سے بھی اور مدینہ کی طرف آنے والے سواروں سے بھی،حج سے واپس گزرتے ہوئے قافلوں سے بھی دریافت کیا، بدوؤں سے بھی جنہیں وہ مناسب سمجھتے۔ تین دن اور تین راتیں یہ مشورہ جاری رہا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ ان تین دن اور تین راتوں میں بہت کم سوئے۔ وہ اکثر نماز، دعا، استخارہ اور ان لوگوں سے مشورہ میں وقت گزارتے تھے جن کو وہ مشورہ کا اہل سمجھتے۔ آخر اس استصوابِ عام سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اکثر لوگ حضرت عثمانؓ کے حق میں ہیں۔

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت باغی اور شورش پسند عنصر مدینہ پر چھایا ہوا تھا۔ انہوں نے شہر کی ناکہ بندی کی ہوئی تھی۔ پورے شہر کا نظم و نسق باغیوں میں سے ہی ایک شخص غافقی بن حرب کے ہاتھ میں تھا۔ یہی شخص 5 دن تک امامت کے فرائض بھی انجام دیتا رہا۔ شرپسندوں کا یہ گروہ حضرت عثمانؓ کو شہید کر دینے تک تو متفق تھا لیکن آئندہ خلیفہ بنانے میں ان میں اختلاف تھا۔ مصری حضرت علیؓ کو، کوفی حضرت زبیرؓ کو اور بصری حضرت طلحہؓ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔ لیکن ان تینوں حضرات نے انکار کر دیا۔ پھر یہ لوگ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس بھی گئے لیکن ان دونوں حضرات نے بھی صاف انکار کر دیا۔

معتبر روایتوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور دوسرے اہلِ مدینہ ان (حضرت علیؓ) کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ ’’یہ نظام کسی امیر کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، لوگوں کے لیے ایک امام کا وجود ناگزیر ہے، اور آج آپ کے سوا ہم کوئی ایسا شخص نہیں پاتے جو اس منصب کے لیے آپ سے زیادہ مستحق ہو، نہ سابق خدمات کے اعتبار سے، اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قُرب کے اعتبار سے۔‘‘ انہوں نے انکار کیا اور لوگ اصرار کرتے رہے۔ آخر کار انہوں نے کہا ’’میری بیعت گھر بیٹھے خفیہ طریقہ سے نہیں ہو سکتی، عام مسلمانوں کی رضا کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔‘‘ پھر مسجد نبویؐ میں اجتماع عام ہوا اور تمام مہاجرین اور انصار نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ صحابہؓ میں سے 17 یا 20 ایسے بزرگ تھے جنہوں نے بیعت نہیں کی تھی۔

مندرجہ بالا تمام تر تفاصیل کتب احادیث(صحیح بخاری وغیرہ) اورکتب تاریخ (طبری،ابن اثیر، البدایہ والنہایہ وغیرہ )میں موجود ہیں ۔یکجائی شکل میں خلافت و ملوکیت از مولانا مودودی اور خلافت وجمہوریت از عبدا لرحمٰن کیلانی میں مل جائے گی ۔

ان تفاصیل کو سرسری نظر سے پڑھنے پرمسلمانوں کے خلیفہ کا انتخاب ایک جمہوری طرز پر معلوم ہوتا ہے ۔کبھی چند اورکبھی مسلمانوں کی موجود اکثریت کسی ایک شخص کے ہاتھ پر جمع ہوجاتے ہیں اور پھر عام مسلمان بھی خلیفۃ المسلمین کی بیعت کر لیتے ہیں ۔اب بظاہر یہ انتخاب باہم مشورہ کرکے ،دلائل کے تبادلے اور گفتگو کے بعد ہوتا ہے لیکن خلافت کا مقام ومرتبہ اپنی جگہ بلند قامتی کا حامل ہے ۔

جامع ترمذی کی روایت ہے:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہمیں نماز فجر کے بعد ایک مؤثر نصیحت فرمائی جس سے لوگوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں اور دل لرز گئے، ایک شخص نے کہا: یہ نصیحت ایسی ہے جیسی نصیحت دنیا سے ( آخری بار ) رخصت ہو کر جانے والے کیا کرتے ہیں، تو اللہ کے رسول! آپ ہمیں کس بات کی وصیت کرتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’میں تم لوگوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے، امیر کی بات سننے اور اسے ماننے کی نصیحت کرتا ہوں، اگرچہ تمہارا حاکم اور امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ تم میں سے آئندہ جو زندہ رہے گا وہ ( امت کے اندر) بہت سارے اختلافات دیکھے گا تو تم (باقی رہنے والوں) کو میری وصیت ہے کہ نئے نئے فتنوں اور نئی نئی بدعتوں میں نہ پڑنا، کیونکہ یہ سب گمراہی ہیں۔ چنانچہ تم میں سے جو شخص ان حالات کو پالے

فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ

تو اسے چاہیے کہ وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر قائم اور جمار ہے اور میری اس نصیحت کو اپنے دانتوں کے ذریعے مضبوطی سے دبا لے‘‘ ( اور اس پر عمل پیرا رہے )

(جامع ترمذی ،حدیث نمبر 2676،کتاب: علم اور فہم دین،باب: سنت کی پابندی کرنے اور بدعت سے بچنے کا بیان)

سنن ابو داؤد میں یہی روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے :

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ

تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

(سنن ابوداؤد ،حدیث نمبر 4607،کتاب:سنتوں کا بیان،باب: سنت کی پیروی ضروری ہے )

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد فتنوں کا ذکر فرمایا لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا گویا خلفائے راشدین کی پیروی سے گمراہی سے بچا جاسکتا ہے۔یہ وہی خلفائے راشدین ہیں جن کے طرز انتخاب کا ذکر گذشتہ سطور میں ہوچکا ہے ۔

پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ میں واقع ہونے والے قیامت تک کے حالات کا تذکرہ پیشگوئی کے رنگ میں یوں بیان فرمایا:

قَالَ حُذَیْفَۃُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم : تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللّٰہُ إِذَا شَاءَ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ فِیْکُمْ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا فَتَکُوْنُ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَ اللّٰہُ أَنْ یَّرْفَعَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیًّا، فَتَکُوْنُ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَ اللّٰہُ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ، ثُمَّ سَکَتَ۔

(مسند احمد ،حدیث نمبر 12034،کتاب:کتاب الفضائل،باب:فصل: نبوت، خلافت اورملوکیت کے مراحل پر مشتمل سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ایک جامع حدیث )

حضرت حذیفہؓ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق کچھ عرصہ تک نبوت قائم رہے گی، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہیں گے اسے اٹھا لیں گے۔ نبوت کے بعد اس کے طریق پر اللہ کی مرضی کے مطابق کچھ عرصہ تک خلافت ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ اسے ختم کر دیں گے، پھر اللہ کے فیصلے کے مطابق کچھ عرصہ تک بادشاہت ہو گی، جس میں ظلم و زیادتی ہو گا، بالآخر وہ بھی ختم ہو جائے گی، پھر جبری بادشاہت ہو گی، وہ کچھ عرصہ کے بعد زوال پذیر ہو جائے گی، اس کے بعد نبوت کے طریق پر پھر خلافت ہو گی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔

اس پیشگوئی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق نبوت کی طرز اور منہج پر خلافت کے جاری ہونے کا ذکر فرمایا ۔یہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا سلسلہ بادشاہت سے الگ ہے کیونکہ بعد میں بادشاہتوں کے جاری ہونے کا بھی ذکر فرمایا ۔گویا خلافت علی منہاج النبوۃ کو بادشاہت نہیں کہہ سکتے۔اور یہ خلافت علی منہاج النبوۃ کس طرح جاری ہوئی اس کا ذکر گذشتہ سطور میں موجود ہے۔ان سطور کو پڑھنے کے بعد جو یہ تاثر بنا تھا کہ لوگوں کے مشورہ اور رائے سے خلافت کا قیام ہورہا ہے دراصل وہ نظام اللہ تعالیٰ کی منشا اور مرضی سے ہو رہا تھا ۔بظاہر مومنین کی رائے سے قائم ہونے والا سلسلہ دراصل نبوت کی طرز پر اللہ تعالیٰ سے تائید یافتہ ہوتا ہے ۔اس مضمون کی مزید تائید قرآن کریم کی اس آیت کریمہ سے ہوتی ہے

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِم۪ۡ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ

(النور:56)

تم میں سے جولوگ ایمان لائے اورنیک اعمال بجالائے ان سے اللہ تعالیٰ نے پختہ وعدہ کیاہے کہ انہیں ضرورزمین میں خلیفہ بنائے گاجیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اوران کے لئے ان کے دین کوجواس نے ان کے لئے پسندکیاضرورتمکنت عطاکرے گااوران کی خوف کی حالت کے بعدضرورانہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہرائیں گے اورجواس کے بعدبھی ناشکری کرے تویہی وہ لوگ ہیں جونافرمان ہیں۔

(ترجمۃ القرآن ازحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ،صفحہ606)

ایمان اور عمل صالح کرنے والوں سے خلافت کا وعدہ کیا گیا ہے ۔جب تک ایمان اور عمل صالح ہے خلافت کی نعمتوں سے متمتع ہونا مقدر ہے ۔ایمان اور عمل صالح کی کمی خلافت سے دوری کا باعث بن جاتی ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے معاًبعد خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کا ذکر فرمایا لیکن ساتھ ہی پیشگوئی بیان فرمائی کہ یہ خلافت حقہ کتنا عرصہ قائم رہے گی ۔

سنن ابو داؤد کی روایت ہے:

عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللّٰهُ الْمُلْكَ أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ ،قَالَ سَعِيدٌ:قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ أَبَا بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، وَعُمَرُ عَشْرًا،وَعُثْمَانُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ وَعَلِيٌّ كَذَا

(سنن ابوداؤد ،حدیث نمبر 4646،کتاب:سنتوں کا بیان،باب: خلفاء کا بیان )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خلافت علی منہاج النبوۃ ( نبوت کی خلافت ) تیس سال رہے گی، پھر اللہ تعالیٰ سلطنت یا اپنی سلطنت جسے چاہے گا دے گا سعید کہتے ہیں: سفینہ نے مجھ سے کہا: اب تم شمار کر لو: ابوبکر رضی اللہ عنہ دو سال، عمر رضی اللہ عنہ دس سال، عثمان رضی اللہ عنہ بارہ سال، اور علی رضی اللہ عنہ اتنے سال۔

اسی طرح کی پیشگوئی جامع ترمذی میں بھی موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’میری امت میں تیس سال تک خلافت رہے گی، پھر اس کے بعد ملوکیت آ جائے گی‘‘

(جامع ترمذی ،حدیث نمبر 2226،کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں،باب: خلافت کا بیان)

اور یہ تیس سال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر پورے ہوجاتے ہیں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بعد قائم ہونے والی اس خلافت علی منہاج النبوۃ کے حوالے سے تقدیر الٰہی کا علم دے دیا گیا تھا ۔بظاہر مشورہ اور رائے سے ہی خلافت کا قیام ہوا لیکن اس کے پس پردہ تقدیر الٰہی اپنا کام کر رہی تھی ۔بظاہر مومنین کا ہی انتخاب تھا لیکن سب اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہو رہا تھا ۔پڑھنے والوں کوتو نظر آرہا تھا کہ سقیفہ بنو ساعدہ میں چند اصحاب جمع ہوئے اور انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے تجویز کیا اورصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی رائے کے بعد نامزد کردیا یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد چھ رکنی کمیٹی میں سے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے مشورہ اور رائے سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان کیا یا مخصوص حالات کے باعث لوگوں کے کہنے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت لی ۔بظاہر ایسا ہی ہوا لیکن اصل میں یہ انتخاب اللہ تعالیٰ کا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام اور اس کے تیس سال تک قائم رہنے کے متعلق بھی بتایا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس خلافت کی مسند پرمتمکن ہونے والوں کے متعلق بھی آگاہی دے دی گئی تھی ۔

سب سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دس احباب کے متعلق خبر دی گئی کہ وہ جنت میں داخل ہوںگے۔وہ دس احباب یہ ہیں:

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ وَعُمَرُ فِي الْجَنَّة،وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ،وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعِيدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي الْجَنَّةِ۔

(جامع ترمذی ،حدیث نمبر 3747،کتاب: فضائل و مناقب،باب: عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبدالرحمٰن بن عوف جنتی ہیں، سعد جنتی ہیں، سعید ( سعید بن زید ) جنتی ہیں اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں ( رضی اللہ علیہم اجمعین )‘‘

پہلے تین خلفاء کے حوالے سے ایک روایت میں اس طرح بھی ذکر موجود ہے ۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے آپ کے پاس جو لکڑی تھی اس(کی نوک)کو پانی اور مٹی کے درمیان ماررہے تھے کہ ایک شخص نے(باغ کا دروازہ) کھولنے کی درخواست کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دروازہ کھول دو اور اس (آنے والے)کو جنت کی خوشخبری سنادو۔(ابو موسیٰ علیہ السلام نے) کہا : وہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ، میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انہیں جنت کی بشارت دی ، کہا : پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول دو اور اسے ( بھی)جنت کی خوشخبری سنادو ۔ میں گیا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انہیں جنت کی بشارت دی ، اس کے بعد ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی،کہا : تو آپ (سیدھے ہوکر) بیٹھ گئے ، پھر فرمایا : دروازہ کھولو اور فتنے پر جو ( برپا ) ہوگا، انہیں جنت کی خوشخبری دے دو۔کہا : میں گیا تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ کہا : میں نے دروازہ کھولا اور انہیں جنت کی خوشخبری دی اور آپ نے جو کچھ فرمایا تھا ، انہیں بتایا۔انہوں نے کہا : اے اللہ صبر عطا فرمانا اور اللہ ہی ہے جس سے مدد طلب کی جاتی ہے۔‘‘

(صحیح بخاری ،حدیث نمبر 6216،کتاب: اخلاق کے بیان میں،باب:کیچڑ پانی میں لکڑی مارنا،صحیح مسلم ،حدیث نمبر 6212،کتاب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب،باب:حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل)

اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قائم ہونے والی خلافت کی خبر اس طرح بیان ہوئی :

’’ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ابر کا ٹکڑا ہے جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے میں دیکھتا ہوں کہ لوگ انہیں اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں۔ کوئی زیادہ اور کوئی کم اور ایک رسی ہے جو زمین سے آسمان تک لٹکی ہوئی ہے۔میں نے دیکھا کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر اسے پکڑا اور اوپر چڑھ گئے پھر ایک دوسرے صاحب نے بھی اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چڑھ گئے پھر ایک تیسرے صاحب نے پکڑا اور وہ بھی چڑھ گئے پھر چوتھے صاحب نے پکڑا اور وہ بھی اس کے ذریعہ چڑھ گئے۔پھر وہ رسی ٹوٹ گئی، پھر جڑ گئی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔مجھے اجازت دیجیے میں اس کی تعبیر بیان کر دوں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیان کرو۔انہوں نے کہا سایہ سے مراد دین اسلام ہے اور شہد اور گھی ٹپک رہا تھا وہ قرآن مجید کی شیرینی ہے اور بعض قرآن کو زیادہ حاصل کرنے والے ہیں، بعض کم اور آسمان سے زمین تک کی رسی سے مراد وہ سچا طریق ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قائم ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پکڑے ہوئے ہیں یہاں تک کہ اس کے ذریعہ اللہ آپ کو اٹھا لے گا پھر آپ کے بعد ایک دوسرے صاحب آپ کے خلیفہ اوّل اسے پکڑیں گے وہ بھی مرتے دم تک اس پر قائم رہیں گے۔ پھر تیسرے صاحب پکڑیں گے ان کا بھی یہی حال ہو گا۔پھر چوتھے صاحب پکڑیں گے تو ان کا معاملہ خلافت کا کٹ جائے گا وہ بھی اوپر چڑھ جائیں گے۔یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے بتائیے کیا میں نے جو تعبیر دی ہے وہ غلط ہے یا صحیح۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بعض حصہ کی صحیح تعبیر دی ہے اور بعض کی غلط۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: پس واللہ! آپ میری غلطی کو ظاہر فرما دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم نہ کھاؤ۔‘‘

(صحیح بخاری ،حدیث نمبر 7046،کتاب: خوابوں کی تعبیر کے بیان میں،باب:اگر پہلی تعبیر دینے والا غلط تعبیر دے تو اس کی تعبیر سے کچھ نہ ہوگا)

ایک روایت میںاس طرح بھی ذکر ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا:

’’تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے؟‘‘ ایک آدمی نے کہا: میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک ترازو اترا، آپ اور ابوبکر تولے گئے تو آپؐ ابوبکر سے بھاری نکلے، ابوبکر اور عمر تولے گئے، تو ابوبکر بھاری نکلے، عمر اور عثمان تولے گئے تو عمر بھاری نکلے پھر ترازو اٹھا لیا گیا۔

(جامع ترمذی ،حدیث نمبر2287،کتاب:خواب کے آداب واحکام، باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں ترازو اور ڈول دیکھنے کا بیان)

سنن ابو داؤد میں روایت ہے :

عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ:أَنَّ رَجُلاً قَالَ:يَا رَسُولَ اللّٰهِ إِنِّي رَأَيْتُ كَأَنَّ دَلْوًا دُلِّيَ مِنَ السَّمَاءِ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيْهَا فَشَرِبَ شُرْبًا ضَعِيْفًا، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيْهَا فَشَرِبَ حَتَّى تَضَلَّعَ، ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيْهَا فَشَرِبَ حَتَّى تَضَلَّعَ،ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيْهَا فَانْتَشَطَتْ وَانْتَضَحَ عَلَيْهِ مِنْهَا شَيْءٌ .

(سنن ابو داؤد ،حدیث نمبر 4637،کتاب:سنتوں کا بیان،باب: خلفاء کا بیان )

ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے دیکھا گویا کہ آسمان سے ایک ڈول لٹکایا گیا پہلے ابوبکر آئے تو اس کی دونوں لکڑیاں پکڑ کر اس میں سے تھوڑا سا پیا، پھر عمر آئے تو اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں اور انہوں نے خوب سیر ہو کر پیا، پھر عثمان آئے اور اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں اور خوب سیر ہو کر پیا، پھر علی آئے اور اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں، تو وہ چھلک گیا اور اس میں سے کچھ ان کے اوپر بھی پڑ گیا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف خلافت علی منہاج النبوۃ کی ہی خبر نہیں دی بلکہ ترتیب کے ساتھ ان خلفاء کے بارے میں پہلے ہی بتا دیا تھا ۔اور صرف ان خلفاء کے ناموں سے ہی آگاہ نہیں فرمایا تھا بلکہ ان خلفاء کے ادوار میں ہونے والے واقعات کے بارے میں بطور پیشگوئی بتا دیا تھا ۔صحیح بخاری میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ

’’ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے پوچھا: تم میں سے کسی کو فتنے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد ہے؟حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انسان کا فتنہ(آزمائش ) اس کی بیوی، اس کے مال، اس کے بچے اور پڑوسی کے معاملات میں ہوتا ہے جس کا کفارہ نماز، صدقہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کر دیتا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا بلکہ اس فتنے کے بارے میں پوچھتا ہوں جو دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا۔حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ امیرالمومنین آپ پر اس کا کوئی خطرہ نہیں اس کے اور آپ کے درمیان ایک بند دروازہ رکاوٹ ہے۔عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا کھولا جائے گا؟بیان کیا توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر تو وہ کبھی بند نہ ہو سکے گا۔میں نے کہا جی ہاں۔ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا عمر رضی اللہ عنہ اس دروازہ کے متعلق جانتے تھے؟ فرمایا کہ ہاں، جس طرح میں جانتا ہوں کہ کل سے پہلے رات آئے گی کیونکہ میں نے ایسی بات بیان کی تھی جو بےبنیاد نہیں تھی۔ ہمیں ان سے یہ پوچھتے ہوئے ڈر لگا کہ وہ دروازہ کون تھے۔ چنانچہ ہم نے مسروق سے کہا ( کہ وہ پوچھیں ) جب انہوں نے پوچھا کہ وہ دروازہ کون تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ دروازہ عمر رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘

(صحیح بخاری ،حدیث نمبر 7096،کتاب:فتنوں کے بیان میں،باب:اس فتنے کا بیان جو فتنہ سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار کر اٹھے گا)

اس حدیث کے راوی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ ہیں یہ راز دار رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہلاتے ہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ ہونے والے کئی واقعات کے حوالے سے خاص طور پر انہیں بتایا ہوا تھا ۔ان سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خاص فتنہ کے متعلق دریافت فرمایا۔اس کا مطلب آپ رضی اللہ عنہ کو بھی اس فتنے کے بارے میں کسی حد تک علم تھا۔پھر روایت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوان کے دَور خلافت میں ہونے والے واقعات کے حوالے سے علم تھا اس لیے آپ نے فتنوں کے متعلق زیادہ تفصیل نہیں پوچھی بلکہ دروازے کے متعلق پوچھا۔اور دروازہ توڑے جانے کے الفاظ بتاتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوگی۔اور اسی طرح ہوا ۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم بیٹھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کررہے تھے، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ایک بیوی کے گھر سے نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے، ہم بھی آپؐ کے ساتھ کھڑے ہوگئے، آپ کا جوتا ٹوٹ گیا، حضرت علی ؓاس کی مرمت کے لیے پیچھے رک گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلتے رہے، پھر آپ علی ؓکے انتظار میں کھڑے ہو گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بعض لوگ اس قرآن مجید کی تاویل و تفسیر کے مطابق لڑیں گے، جیسے مَیں لڑا ہوں۔ ہم نے گردنیں اٹھا کر دیکھا کیونکہ ہمارے اندر ابو بکرؓ اور عمرؓ بھی موجود تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ آدمی تو جوتا مرمت کرنے والا ہے۔پس ہم علی ؓکو خوشخبری سنانے کے لیے ان کے پاس گئے، تو گویا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ پہلے ہی سنے ہوئے تھے (اس لیے خوشی کا اظہار نہیں کیا)۔‘‘

(مسند احمد ،حدیث نمبر 8466،کتاب:نزول قرآن کی کیفیت کے ابواب،باب:قرآن مجید کے ساتھ جھگڑا کرنے یا اس کی تاویل کرنے یا بغیر علم کے اپنی رائے کے ساتھ اس کی تفسیر کرنے والے کی وعید کا بیان)

اس روایت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ہونے والی لڑائیوں میں مشابہت بیان فرمائی اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کو پہلے سے خبر دے کر ذہنی طور پر اس کے لیے تیار بھی کر دیا تھا ۔ایسا لگ رہا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آئندہ آنے والے ہر خلیفہ کے متعلق بلکہ ان کے ادوار میں ہونے والے واقعات کا علم دے دیا گیا تھا ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دَو ر میں بھی ہونے والے واقعات کا اشارہ پیشگوئی کی صورت میں اس طرح دیا ۔مسند احمد میں ایک روایت ہے کہ

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے،کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھی، آپؐ نے فرمایا: عائشہ!کاش ہمارے پاس کوئی ایسا آدمی ہوتا جو ہمارے ساتھ باتیں کرتا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں ابوبکر ؓکو پیغام بھیج دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: کاش ہمارے پاس کوئی آدمی ہوتا جو ہمارے ساتھ باتیں کرتا۔ میں نے کہا: کیا میں عمرؓ کو پیغام بھیج دوں؟ لیکن آپ اس بار بھی خاموش رہے، کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خادم کو بلوایا اور راز دارنہ انداز میں اس کے ساتھ کوئی بات کی، وہ چلا گیا،تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ عثمانؓ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، آپؐ نے انہیں اجازت دی اور وہ اندر تشریف لے آئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافی دیر تک ان کے ساتھ سرگوشی کرتے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان! اللہ تعالیٰ تمہیں ایک قمیص پہنائے گا، اگر منافقین اس قمیص کو اتارنے کا مطالبہ کریں تو ان کے کہنے پر تم اسے نہ اتارنا، کیونکہ اس کے اتارنے میں کوئی عزت نہیں رہے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات دو تین مرتبہ دہرائی۔

(مسند احمد ،حدیث نمبر 12238،کتاب:کتاب الفضائل،باب:فصل: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ کرنا)

یہی قمیص نہ اتارنے والی روایت ان کتب میں بھی ہے ۔(1) سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر 112،کتاب:سنت کی اہمیت وفضیلت،ب اب:عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب۔(2) مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث نمبر 6077،کتاب:كتاب المناقب،باب:حضرت عثمان ؓکے مناقب کا بیان

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دَور میں بعینہٖ اسی طرح واقعہ ہوا کہ آپؓ سے خلافت کی قمیص اتارنے کا مطالبہ کیا گیا لیکن آپؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کے مطابق اسے نہیں اتارا ۔واضح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوان حالات کی آگاہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حد تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی اس سے آگاہ فرما دیا تھا ۔

اب خلافت علی منہاج النبوۃ کے متعلق پیشگوئیوں اور ان پیشگوئیوں کے مطابق وقوع پذیر حالات کو پڑھنے کے بعد دوبارہ اس مضمون کی ابتدائی سطور میں انتخاب خلافت کے حالات پڑھیں تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اگرچہ انتخاب کے وقت مومنین کی رائے شامل تھی اور انہوں نے اپنی مرضی سے رائے دی۔امر خلافت کے متعلق بحث بھی ہوئی ،اختلاف بھی ہوا ،دلائل کا تبادلہ بھی ہوا لیکن ہوا وہی جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا۔خلافت علی منہاج النبوۃ کے لیے انتخاب پہلے ہی ہوچکا تھا ۔اللہ تعالیٰ پہلے ہی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام تر حالات سے آگاہ فرما چکا تھا ۔

اب یہ بات سمجھنا بہت آسان ہے کہ بے شک انتخاب خلافت ایمان اور عمل صالح کرنے والے ہی کرتے ہیں ،وہ رائے بھی دیتے ہیں ،اپنے خیال کا بھی اظہار کرتے ہیں اور اس حوالے سے انہیں مکمل آزادی ہوتی ہےلیکن اس کے پیچھے الٰہی تقدیر کام کر رہی ہوتی ہے ۔مومن بندوں کا انتخاب اللہ تعالیٰ کے انتخاب سے موافقت اختیار کرلیتا ہے پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں پر اس انتخاب کے حوالے سے اطمینان نازل کرتا ہے۔ہاں جو دل ایمان اور عمل صالح سے خالی ہوتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطمینان کا نزول لازم نہیں ۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق پہلی خلافت علی منہاج النبوۃ کا تیس سالہ دَور تقریباً چالیس ہجری میں ختم ہوگیا تھا۔اس کے بعد پیشگوئی کے عین مطابق بادشاہت اور ملوکیت کا دور بھی آیا اور گزر گیا۔اب اس پیشگوئی کے مطابق دوبارہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا دَور شروع ہوکر جاری وساری ہے۔اسی خلافت کے زیر سایہ اسلام کا حقیقی پیغام پوری دنیا میں پھیلایا جا رہا ہے۔پیشگوئی کے مطابق اس خلافت کا دَور قیامت تک ہے ۔اس دَور خلافت کے حوالے سے بھی بے شمار پیشگوئیاں ہیں ان میں سے کچھ پوری ہوچکی ہیں اور جو پوری ہوچکی ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ جو پیشگوئیاں ابھی پوری نہیں ہوئیں وہ بھی پوری ہوجائیں گی۔(ان شاء اللہ)اس وقت اس خلافت علی منہاج النبوۃ کا پانچواں دور چل رہا ہے ۔

مومنین اپنے میں سے جس شخص کے ہاتھ پر جمع ہوتے ہیں وہ اس زمانے میں موجود مومنین میں تقویٰ وطہارت کے لحاظ سے بلند قامتی کا حامل ہوتا ہے ۔اس میں تقویٰ، طہارت اور پرہیزگاری کی قامت بھی مدنظر ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان اور عمل صالح پر قائم رکھے تامطمئن دلوں کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق جاری وساری خلافت علی منہاج النبوۃ سے وابستہ رہیں اور یہ وابستگی قیامت والے دن ہماری نجات کا موجب ہو۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button