متفرق مضامین

قیامِ خلافت سے متعلق خلفائے کرام کی ہم سے توقعات

(بشارت احمد انیس۔ سوئٹزرلینڈ)

اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت ہے کہ وہ مخلوق کی ہدایت اور اصلاح کے لیے اپنے انبیاء اور رسول دنیا میں مبعوث فرماتا ہے۔اسی طرح اس کی یہ بھی سنت ِقدیمہ ہے کہ نبی کی وفات کے بعد اس کے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے خلافت کا نظام قائم فرماتا ہے۔

چنانچہ ہمارے پیارے آقا حضرت خاتم الا نبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کوئی نبوت ایسی نہیں گزری کہ اس کے بعد خدا نے خلافت کا سلسلہ قائم نہ کیا ہو۔‘‘

(کنزالعمال )

قرآنِ کریم میں مسلمانوں کے ساتھ واضح طور پر اس نعمت ِعظمیٰ کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِم۪ۡ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ (النور:56)

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو ،جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ،ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا ۔وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جونافرمان ہیں ۔

اسی طرح حدیث شریف میں آتا ہے :

عَنۡ حُذِیۡفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُ قَالَ: قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ تَکُوۡنُ النُّبُوَّ ۃُ فِیۡکُمۡ مَا شَآ ءَ اللّٰہُ اَنۡ تَکُوۡنَ ثُمَّ یَرۡفَعُھَااللّٰہُ تَعَالٰی ثُمَّ تَکُوۡنُّ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنۡھَاجِ النُّبُوَّ ۃِ مَا شَآءَ اللّٰہُ اَنۡ تَکُوۡنَ ثُمَّ یَرۡ فَعُھَااللّٰہُ تَعَالٰی ثُمَّ تَکُوۡنُ مُلۡکًا عَاضًّا فتَکُوۡنَ مَا شَآءَ اللّٰہُ اَنۡ تَکُوۡنَ ثُمَّ یَرۡفَعُھَا اللّٰہُ تَعَالٰی ثُمَّ تَکُوۡنُ مُلۡکًا جَبۡرِیَّۃً فَیَکُوۡنُ مَا شَآ ءَ اللّٰہُ اَنۡ تَکُوۡنَ ثُمَّ یَرۡ فَعُھَااللّٰہُ تَعَا لٰی ثُمَّ تَکُوۡنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنۡھَاجِِ النُّبُوَّ ۃِ ثُمَّ سَکَتَ۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ273 مشکوٰۃ بَاب الۡا نۡذَارِ وَالۡتَحۡذِیۡرِ)

حضرت حذیفہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اُٹھا لے گا اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا ۔پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی (جس سے لو گ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے)جب یہ دَور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم وستم کے دَور کو ختم کر دے گا ۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی ۔ یہ فرما کر آپؐ خاموش ہو گئے ۔

پس قرآنِ کریم اور حدیث شریف کی رُو سے واضح ہو گیا کہ خدا تعالیٰ مسلمانوں کو اس انعام سے محروم نہیں رکھے گا۔بلکہ اس کے فضل و کرم سے تمام مشکلات و مصائب کے باوجود اسلام نظامِ خلافت کے ذریعے سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا ۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرتؐ کی وفات کے بعد مختلف قسم کے مسائل پیدا ہو گئے یہاں تک کہ بعض قبائل نے بغاوت تک کر دی ۔کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ۔مگر خلافتِ حقہ کی برکت سے نہ صرف اِن مسائل پر قابو پا لیا گیا بلکہ اسلام ترقی پر ترقی کرتا چلا گیا۔

آیت استخلاف میں جہاں مسلمانوں سے خلافت عطا کرنے ،دین کو تمکنت دینے ،خوف کی حالت کو امن میں بدلنے اور توحید کے قیام کا وعدہ فرمایا ہے اسی طرح اس سے واضح طور پر یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ چار ذمہ داریوں کے ساتھ مشروط ہے۔اوّل یہ کہ مسلمانوں کی جماعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلافتِ راشدہ کے قیام کے وعدے پر ایمان رکھتی ہو۔دوئم یہ کہ خلافتِ حقہ کی منشا کے مطابق اعمالِ صالحہ بجا لائے۔سوئم یہ کہ توحید کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہو۔چہارم یہ کہ ہر حال میں خلیفۂ وقت کی اطاعت کو مقدم رکھتی ہو۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہےمسلمانوں نے جب تک اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا خدا نے انہیں خلافتِ راشدہ سے نوازے رکھا ۔مگر جب صورتِ حال اس کے بر عکس ہو گئی اور مسلمانوں میں اختلاف اور انتشار پھیل گیا ۔ اطاعت اور فرمانبرداری کی روح ختم ہوگئی تو اُن سے یہ انعام چھین لیا گیا۔اور آنحضرتؐ کی پیشگوئیوں کے مطابق ظالم حکمرانوں کا لمبا دَور شروع ہو گیا اور مسلمان کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے ۔ یہ ایسی افسوسناک حقیقت ہے کہ کوئی اس سے انکار کر ہی نہیں سکتا ۔

حدیث کی رُو سے اس زمانے کے متعلق رسولِ کریم ؐکی ایک اہم پیشگوئی یہ تھی کہ بادشاہت کے بعد دوبارہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔الحمد للہ۔

خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت مسیح موعودؑکی آمد کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر امت مسلمہ میں خلافت کے قیام نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی اس عظیم پیشگوئی کو پورا فرما دیا۔عجیب بات ہے کہ ہمارے مخالف ہمیں کافر کہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ جو مومن اور اعمالِ صالحہ بجا لانے والے ہیں انہیں اس انعام سے نوازا جائے گا کیا خدا تعالیٰ کی یہ فعلی شہادت ہماری سچائی کا ثبوت نہیں ؟پھر ہمارے مخالفین تو حضرت مسیح موعود ؑکی آواز کو قادیان سے بھی باہر نہیں نکلنے دینا چاہتے تھے۔اور کیسے کیسے متکبرانہ اعلانات کر رہے تھے مگر آپ نے بڑی تحّدی کے ساتھ فرمایا:

’’سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سُنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی( یعنی ا پنے وصال کی خبر سے۔ناقل) غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی… میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے ‘‘

(رسالہ الوصیّت ،روحانی خزئن جلد 20صفحہ305تا306)

27؍مئی1908ءتاریخِ اسلام اور احمدیت میں ہمیشہ زندئہ جاوید رہے گی۔ہاں یہی تووہ دن تھا جب حضرت مسیح موعودؑکی وفات کی وجہ سے دل بے قرارو کباب تھے۔ آنکھوںسے آنسوؤں کے سمندر رواں تھے اور ہر طرف غم کے بادل چھائے ہوئے تھے ۔کسی کو بھی چین و آرام نہیں تھا سوائے مخالفینِ احمدیت کے جو اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ شاید اب یہ سلسلہ برباد ہو جائے گا مگر خدا تعالیٰ نے اُن کی خوشیوں کو پا مال کرتے ہوئے حضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکو منصبِ خلافت پر متمکن فرما دیا۔ہاں ایک آواز ہی تو تھی جس نے بے شمار مُردوں کو زندہ کردیااور غم خوشی میں بدل گیا۔جانتے ہیں وہ آواز کیا تھی؟ہاں وہ آواز یہ تھی کہ آؤبیعت کرلیں ۔اس طرح حضرت مسیح موعود ؑکی پاک وصیّت کے مطابق خلافت کا قیام ہوا ۔اور جماعتِ احمدیہ خدمتِ اسلام کے سفر پر تیزی کے ساتھ آگے بڑھتی رہی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکی وفات پر ایک بار پھر جماعت کا امتحان ہوا۔مگر خدا تعالیٰ نے نہ صرف جماعت کو اس امتحان میں کامیاب کیا بلکہ ایک ایسے موعود خلیفہ سے نوازا کہ جس نے باون سال تک خلافت کے عظیم مرتبے پر متمکن رہتے ہوئے وہ کارنامے سر انجام دیے کہ جس کی مثال نہیں ملتی ۔اور ایک طرف غیر مسلمانوں خصوصاً عیسائیوں اور ہندوؤں کا اور دوسری طرف غیر از جماعت مسلمانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اس سلسلے میں کچھ اپنوں نے بھی آپ کو ناکام کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا یہاں تک کہ وہ قادیان سے لاہور جاتے وقت بیت المال بھی خالی کر گئے اور سمجھے کہ اب سلسلہ کے کام کیسے چلیں گے اور ہمارے بغیر کامیابی کیسے ممکن ہو سکتی ہے ؟مگر جسے خدا نے خلیفہ بنایا ہو اُسے کون ناکام کر سکتا ہے ۔

چنانچہ حضر ت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں :

’’پھر مَیں یہ نہیں کہتا کہ مَیں آپ ہی خلیفہ بن گیا ہوں بلکہ مَیں ساتھ ہی یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے ۔اب یہ واضح بات ہے کہ اگر مَیں اپنے اس دعویٰ میں جھوٹا ہوں توخدا خود مجھے سزا دے گا اور اگر مَیں سچا ہوں تو لوگوں کی مخالفت میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ۔‘‘

(تفسیرِ کبیر جلد 10صفحہ166)

اسی قسم کے الفاظ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے بھی ان لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہے تھے ۔اور شاید اسی وجہ سے وہ کچھ خاموش بھی ہوئے۔چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں :

’’مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے …اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے۔اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں تم ان سے بچو۔ پھر سُن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا ہے اور نہ مَیں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے۔پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ مَیں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی رداء کو مجھ سے چھین لے ۔‘‘

(حیاتِ نور صفحہ563)

دراصل خلافتِ حقّہ کی پہچان ہی یہ ہے کہ جو بھی کھڑا ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی منشاء اور مرضی سے کھڑ اہوتا ہے اور خدائی تائید ونصرت اُس کے شامل ِحال ہوتی ہےجس کا مظاہرہ جماعت احمدیہ نے ہر انتخاب خلافت کے موقع پر کیا ہے۔چنانچہ خلافت رابعہ کے انتخاب کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک معروف احمدی شاعر نے کیا خوب کہا

یہ شکر خدا کا کچھ کم ہے ناصر جو لیا طاہر بخشا

ورنہ ہم تو مر جاتے سر ٹکرا کے دیواروںسے

یہ واقعہ تو شاید کچھ پرانا ہے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات پر ہماری کیا حالت تھی ؟گویا ہم مردہ ہو گئے۔مگر خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑسے کیے گئے وعدے

اِنِّیْ مَعَکَ یَا مَسْرُوْر

کے مطابق ہمیں پھر سے زندہ کردیا۔اور جماعت ترقیات کی شاہ راہ پر رواں دواں رہی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بڑے جلال سے فرمایا تھا کہ’’ربوہ کی ایک ایک گلی گواہ ہے بڑے سے بڑا ابتلاء جو ممکن ہو سکتا تھا۔تصور میں آسکتا تھا وہ آیا اورگزر گیا اور کوئی زخم نہیں پہنچا سکا…

یہ وہ آخری بڑے سے بڑا ابتلا ممکن ہوسکتا تھا جو آیا اور جماعت بڑی کامیابی کے ساتھ اس امتحان سے گزر گئی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہوئے۔اب آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ خلافتِ احمدیہ کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا۔جماعت اپنی بلوغت کے مقام پر پہنچ چکی ہے خدا کی نظر میں۔اورکوئی دشمن آنکھ، کوئی دشمن دل،کوئی دشمن کوشش اس جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گی اور خلافت احمدیہ انشاء اللہ تعالیٰ اسی شان کے ساتھ نشو و نما پاتی رہے گی جس شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے وعدے فرمائے ہیں کہ کم از کم ایک ہزار سال تک یہ جماعت زندہ رہے گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍جون1982ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد اوّل صفحہ17تا18)

خلافت کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے مگر شرائط کو پورا کرنا ہمارا کام ہے۔اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں اور یقیناً ہم چاہتے ہیں کہ یہ انعام ہمیشہ ہمارے پاس رہے اور اسلام احمدیت ترقی پر ترقی کرتی جائے تو ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی کرنا ہو گی اور خلیفۂ وقت کی ہر آواز پر من و عن لبیک کہتے ہوئے عمل کرنا ہو گا ۔

آج اسلام کی جو حالتِ زار ہے اس کی تبدیلی بھی خلافت سے وابستگی اور اطاعت سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کا اعتراف تو ہمارے مخالفین بھی کسی نہ کسی رنگ میں کر دیتے ہیں۔

چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :

’’مجھے یاد ہے میری خلافت کے ابتدائی زمانہ میں پادری والٹر WALTER سیکرٹری لٹریچر آل انڈیا وائی۔ ایم۔سی۔اے پادری ہیوم HUMEاور فورمن کرسچن کالج لاہور کے پرنسپل مسٹر لیوکسLUCAS مجھ سے ملنے کے لئے قادیا ن آئے اور مختلف امور پر بات چیت کرتے رہے واپس جا کر مسٹر لیوکس نے کولمبومیں عیسائیوں کے سامنے ایک لیکچر دیا کہ آپ لوگ شاید یہ سمجھتے ہوں گے کہ عیسائیت کی جنگ بڑے بڑے شہروں یا بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں لڑی جائے گی ۔لیکن مَیں آپ لوگوں کو بتاتا ہوں کہ مَیں اس وقت ایک ایسے گاؤں میں سے ہو کر آیا ہوں جس میں ریل بھی نہیں جاتی (اس وقت تک قادیان میں ریل نہیں آئی تھی ) جس میں ا بھی تار بھی نہیں (اس وقت تک قادیان میں تار بھی نہیں تھی)اور جو نہایت ہی ادنیٰ حیثیت میں ہے ۔ زیادہ سے زیادہ اسے ایک معمولی قصبہ کہا جا سکتا ہے۔مگر مَیں وہاں عیسائیت کے مقابلہ کی ایسی تیاری دیکھ کر آیا ہوں کہ مَیں سمجھتا ہوں اسلام اور عیسائیت کی آئندہ جنگ جس میں یہ فیصلہ ہو گا کہ اب اسلام زندہ رہے یا عیسائیت وہ کہیں اور نہیں لڑی جائے گی بلکہ قادیان کے قصبہ میں لڑی جائے گی یہ فورمن کرسچن کالج کے پرنسپل کی رائے ایک سیلون کے ا خبار میں چھپی تھی۔مگر بدقسمتی سے وہی مسلمان جن کو ذلّت کے مقام سے نکالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اِس آسمانی سلسلہ کو قائم کیا تھا وہی اس عظیم الشان تحریک سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے اس راستہ میں قسم قسم کی روکیں پیدا کرتے رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اُن کی آنکھیں کھولے اور انہیں سچا ایمان اور تقویٰ نصیب کرے ۔‘‘

(تفسیرِ کبیر جلد 10صفحہ 74)

ایک معروف پادری کا یہ اعتراف اور آپؓ کا یہ ارشاد تو بہت پرانا ہے مگر آج بھی ہمارے مخالفین جو ذ لّت پر ذلّت اور رسوائی پر رسوائی دیکھتے ہیں اسلام کی ناگفتہ بہ حالت کو دیکھتے ہوئے بھی اس خدائی نظام میں شامل ہونے کی بجائے اس کے مٹانے کی لاحاصل کوشش کر رہے ہیں ۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ ساری دنیا میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا بول بالا ہو رہا ہے ۔مشرق و مغرب ،شمال و جنوب میں تبلیغِ اسلام کے لیے کثرت سے نئے نئے مشنوں کا قیام،ستّر سے زائد زبانوں میں قرآنِ کریم کے ترجمے، سینکڑوں زبانوں میں لٹریچر کی اشاعت ،ساری دنیامیں مبلغین اور داعیان الی اللہ کا پہنچانا یہ خلافتِ حقہ کی برکت اور دعاؤں سے ہی ممکن ہوا ۔اور پھر باوجود محدود ذرائع کے ایم ٹی اے کے ذریعے تبلیغ و اشاعت کا عظیم منصوبہ کیاکسی معجزہ سے کم ہے؟

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اجتماعی صورت حال ہو یا انفرادی،خلافت سے وابستگی اور تعلق ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں خلفاء کی راہ نمائی کی بدولت کامیابیوں نے مومنین کے قدم چومے ۔ حضرت عمر فاروق ؓکے زمانے کا معروف واقعہ ہے کہ آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک آپؓ نے مضمون سے ہٹ کر فرمایا ’’یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ‘‘اے ساریہ! پہاڑ کے دامن میں پناہ لو۔لوگ حیران تھے کہ آپؓ نے یہ کیا کہا ۔چنانچہ بعد میں آپؓ سے پوچھا گیا تو آپؓ نے فرمایا کہ اچانک مجھے کشف میں میدانِ جنگ دکھایا گیا یہاں ساریہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہیں اور دشمن انہیں گھیرے میں لینے کی کوشش کررہا ہے تو مَیں نے بے اختیار کہا کہ اے ساریہ پہاڑ کے دامن میں پناہ لو۔چند دن بعد میدانِ جنگ سے کچھ لوگ واپس آئے اور انہوں نے بتایا کہ ہم بڑی مشکل میں پھنس گئے تھے کہ اچانک ہمیں حضرت عمرؓ کی آواز آئی اور ہم نے اس ہدایت پر عمل کیا جس کی وجہ سے ہماری بظاہر یقینی شکست فتح میں تبدیل ہو گئی۔اور خدا تعالیٰ نے ہمیں بہت بڑے نقصان سے بچا لیا۔ سبحان اللہ کیسا عظیم نظام ہے کہ ہزاروں میل دُور خلیفۂ وقت اِذنِ الٰہی سے اپنی قوم کی راہ نمائی فرما رہا ہے۔اور اُن کے غموںکو خوشیوں میں تبدیل کردیتا ہے۔خلیفہ کیونکہ خدا بناتا ہے اس لیے وہ خود ہی اس کی راہ نمائی بھی فرماتا ہے اسی طر ح وہ مومنین کی غیر معمولی محبت بھی اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور اُن کے بعد اُن کے خلفاء دِن رات ہمدردیٔ خلق ِخدا کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اُن کے لیے غیر معمولی دعائیں کرتے ہیں ۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :

’’جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں ان کو سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ مَیں اُن کے لئے دعا کرتا ہوں۔دُعا ایسی چیز ہے کہ خشک لکڑی کو بھی سر سبز کر سکتی ہے اور مُردہ کو زندہ کر سکتی ہے ۔ اس میں بڑی تاثیریں ہیں ۔ جہاں تک قضاوقدر کے سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کوئی کیسا ہی معصیّت میں غرق ہو دُعا اس کو بچا لے گی ۔اللہ تعالیٰ اس کی دستگیری کرے گا اور وہ خود محسوس کر لے گا کہ مَیں اب اَور ہوں ۔دیکھو جو شخص مسموم ہے کیا وہ اپنا علاج آپ کر سکتا ہے اس کا علاج تو دوسرا ہی کرے گا ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے تطہیر کے لئے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور مامور کی دُعائیں تطہیر کا بہت بڑا ذریعہ ہوتی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد نمبر 3صفحہ نمبر 100،ایڈیشن1988ء)

جماعت احمدیہ آپ کے اس ارشاد کے مطابق ہمیشہ آپؑ سے اور آپؑ کے خلفاء سے دُعائیں حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے ۔

ایک اور موقع پر آپؑ نے فرمایا :

’’مثلاً یہ پیشگوئی کہ

یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ

جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک جگہ سے اور دُور دراز ملکوں سے نقد اور جنس کی امداد آئے گی اورخطوط بھی آئیں گے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 75)

آپؑ کے اس ارشاد کی تعمیل میں آپ کے صحابہ بکثرت آپ کی خدمت میں خطوط لکھتے اس طرح آپ کو ان کے حالات سے آگاہی بھی ہوجاتی اور اُن کے مسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دُعا بھی کرتے۔اور یہ طریق اب بھی جاری ہے۔اور دنیا کے کونے کونے سے ہر طبقۂ فکر کے لوگ جن میں مرد و زن بڑے چھوٹے سب شامل ہیں اپنے آقا کے حضور دُعا کے لیے خطوط لکھتے ہیں اور بکثرت فیضیاب ہوتے ہیں ۔

خلافت کی مضبوطی اور دوام کے لیے ضروری ہے کہ مومنین خلیفۂ وقت کے ساتھ اپنا قریبی تعلق صرف قول سے نہیں بلکہ فعل سے بھی ثابت کریں۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں :

’’مَیں ایک بات اَور کہناچاہتا ہوںاور یہ وصیّت کرتا ہو ں کہ تمہارا اعتصام حبل اللہ کے ساتھ ہو۔قرآنِ کریم تمہارا دستور العمل ہو ۔باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضانِ الٰہی کو روکتا ہے۔موسیٰ کی قوم جنگل میں اسی نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی ۔رسول اللہ ﷺ کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہو گئے اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے۔اس لئے چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میّت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں وہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔استغفار کثرت سے کرو اور دُعاؤں میں لگے رہووحدت کو ہاتھ سے نہ دو۔دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو۔تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا۔پس اس نعمت کا شکر کرو کیونکہ شکر کرنے پراز دیاد نعمت ہوتا ہے ۔

لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَ زِیۡدَ نَّکُمۡ (ابراہیم :8)۔

لیکن جو شکر نہیں کرتا وہ یاد رکھے

اِنَّ عَذَ ابِیۡ لَشَدِیۡدُ(ابراہیم :8)‘‘

(خطباتِ نور صفحہ 131)

حضور ؓکے اس ارشادمیں جو زرّیں نصائح فرمائی گئی ہیں وہ ہر احمدی کی حرکات و سکنات سے واضح ہونی چاہئیں اور صرف اطاعت نہیں محبت و ادب کی انتہا ہونی چاہیے۔

مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہےجو مکرم ڈاکٹر عبد الغفار صاحب مبلغ سلسلہ نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نور مسجد فرانکفرٹ میں تشریف فرما تھے ا ور ملاقاتیںہو رہی تھیں اور جیسا کہ خلفائے احمدیت کا معمول رہا ہے وہ صرف احمدیوں سے ہی نہیں بلکہ غیر از جماعت مسلمانوں اور غیرمسلموں سے بھی ملاقاتیں کرتے ہیں۔جن میں اُن کے مسائل کا حل اور دُعاؤں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ایک دوست جن کا تعلق غالباً البانیہ سے تھا وہ بھی ملاقات کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے ۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ مسجد میں کافی رش تھا اور وہ وضو کے لیے جگہ کا پوچھ رہے تھے مَیںنے انہیں کہا کہ ابھی نماز کا تو وقت نہیں وہ ٹھہر کر ادا کی جائے گی ۔اس پر انہوںنے جواب دیاکہ

’’مَیں نماز کے لیے تو وضو نہیں کرنا چاہتا بلکہ مَیں تو اس لیے وضو کرنا چاہتا ہوں کہ مَیں خلیفہ سے ملنے جا رہا ہوں !!‘‘

اگر ایک غیر از جماعت دوست کی یہ حالت ہے تو ہماری کیفیت کیا ہونی چاہیے؟

الٰہی ہمیں تو فراست عطا کر

خلافت سے گہری محبت عطا کر

ہمیں دکھ نہ دے کوئی لغزش ہماری

رہے گا خلافت کا فیضان جاری

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’یاد رکھیں وہ سچے وعدوں والا خدا ہے۔وہ آج بھی اپنے مسیحؑ کی اس پیاری جماعت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا۔وہ آج بھی اپنے مسیح سے کئے ہوئے وعدوںکو اسی طرح پورا کر رہا ہے جس طرح وہ پہلی خلافتوں میں کرتا رہا ہے۔وہ آج بھی اسی طرح اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نواز رہا ہے جس طرح وہ پہلے نوازتا رہا ہے اور انشاء اللہ نوازتا رہے گا۔…پس دُعائیں کرتے ہوئے اور اس کی طرف جھکتے ہوئے اور اس کا فضل مانگتے ہوئے ہمیشہ اس کے آستانہ پر پڑے رہیں اور اس مضبوط کڑے کو ہاتھ ڈالے رکھیں تو پھر کوئی بھی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا ۔اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍مئی 2004ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل4؍جون2004ءصفحہ9)

موجودہ دَور میں اسلام اور آنحضرت ﷺ کے خلاف ساری دنیا خصوصاً یورپ و امریکہ میںنہایت مکروہ اور بےہودہ پراپیگنڈا کیا جارہا ہے اور مسلمان باوجو د بے شمار وسائل کے بےبس دکھائی دیتے ہیں ۔اس کا مقابلہ بھی ہم ہی نے کرنا ہے اور یہ کام بھی خلافت سے وابستہ رہ کر ہی ہو سکتا ہے۔لہٰذا ہمیں اپنے دلوں میں خلافت کی عظمت کو اَور بھی بڑھانا ہو گا ۔اور اپنے دل و دماغ میں خلافت کی اہمیت کو تازہ کرنا ہو گا اور اپنے دلوں کی گہرائیوں میں اس بات کوفولادی میخوں کی طرح گاڑنا ہو گا کہ اسلام احمدیت کی ترقی و بقا صرف اور صرف خلافت سے وابستہ ہے۔خدام بار بار خلافت سے وفاداری کے عہد کو دہرائیں ۔بچے ذہن نشین کریں کہ ان کا مستقبل صرف خلافت سے وابستگی کے نتیجے میں روشن ہو سکتا ہے ۔غرض ہر شخص بڑا ہو یا چھوٹا مرد ہو یا عورت یہ بات اپنے پلے باندھ لے کہ خلافت سے دوری دراصل موت ہے۔خداتعالیٰ سے عاجزانہ دُعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے کی تو فیق دے اور خلافتِ احمدیہ ہمیشہ قائم و دائم رہے۔اور ہمارے جان سے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیشہ ہم سے خوش رہیں۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے خدا کی رضا بھی اسی میںہے۔اےاللہ! ہمیں ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلا۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button