متفرق مضامین

خلافتِ احمدیہ کے قیام کا ایک بنیادی مقصد قیامِ نماز

(فضل الرحمٰن ناصر۔ استاد جامعہ احمدیہ یوکے)

نظامِ خلافت سے فیض پانے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ نمازقائم کرو

قرآن کریم میں خلافت کے وعدہ کے فوراً بعد اگلی آیت میں فرمایاکہ

وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ۔ (النور:57)

خلفائےاحمدیت ہمیشہ ہی افرادجماعت کوباربارنماز باجماعت کے قیام کی نہ صرف انفرادی طورپرتلقین کرتے ہیں بلکہ نظام جماعت کوہرسطح پر مستقل طورپرہرفردجماعت کوباجماعت نماز کاپابندبنانے کی نگرانی کی اس کثرت سے تلقین کرتے ہوئے دکھائے دیتے ہیں کہ بارہایہ احساس ہوتاہے کہ گویاقیام نماز ہی خلافت کاسب سے اہم اوربنیادی مقصدہے۔ چنانچہ ایک موقع پرحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ

’’پس خلافت کی حبل اللہ کو ہمیشہ مضبوطی سے تھامے رکھیں۔یہ بات بھی ہمیشہ یادرکھیں کہ خلافت کے ساتھ عبادت کا بڑاتعلق ہے۔اور عبادت کیاہے؟ نمازہی ہے۔جہاں مومنوں سے دلوں کی تسکین اور خلافت کا وعدہ ہے وہاں ساتھ ہی اگلی آیت میں اَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ کا بھی حکم ہے۔پس تمکنت حاصل کرنے اور نظامِ خلافت سے فیض پانے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ نمازقائم کرو۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍اپریل 2007ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 4؍مئی 2007ء صفحہ 7)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’ایک نماز ایسی چیز ہے کہ کلمہ شہادت کے بعد کوئی عمل نماز کے برابر نہیں۔حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیراجی چاہتاہے کہ جب تکبیر ہوجائے تومیں دیکھوں کہ کون کون جماعت میں نہیں آیا اوران کے گھر جلادوں۔ مگرباوجود اس کے کئی لوگ جونماز باجماعت نہیں پڑھتے تم ان میں سے نہ بنو۔‘‘

(الفضل 6؍اگست 1913ءصفحہ 15)

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بھی نمازوں کو قائم کرنے کے بارے میں بہت نصیحت فرمائی ہے اور خصوصاً ایسی نماز کی جو ہمارے کاموں اور آرام کے اوقات میں آتی ہو اور جسے قرآن کریم نے ’’اَلصَّلٰوۃُ الْوُسْطٰی‘‘کے نام سے یاد کیا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:

’’عبادت کی مثا ل ایسی ہی ہےجیسے ہم ہوا میں سانس لیتے ہیں۔کئی قسم کے زندہ رہنے کے طریق ہیں جو انسان کو لازم کئے گئے ہیں مگر ہوا اور سانس کا جو رشتہ زندگی سے ہے ایسا مستقل دائمی لازمی اور ہر لمحہ جاری رہنے والا رشتہ اور کسی چیز کا نہیں۔پس عبادت کو یہی رشتہ انسان کی روحانی زندگی سے ہے۔ یہ عبادت ذکر الٰہی کی صورت میں ہمہ وقت جاری رہ سکتی ہے لیکن وہ نماز جو قرآن کریم نے ہمیں سکھائی اور سنت نے جسے ہمارے سامنے تفصیل سے پیش کیا یہ وہ کم سے کم نماز ہے،کم سے کم ذکر الٰہی ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔

اس لئے میں خصوصیت کے ساتھ آج پھر جماعت کو نماز کی اہمیت کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔میں جانتا ہوں کہ اکثروہ احباب جو اس وقت مجلس میں حاضر ہیں خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ نمازوں کے پابند ہیں مگر میں حال کے موجودہ دور کی بات نہیں کررہا میں مستقبل کی بات کر رہا ہوں۔وہ لوگ جو آج نمازی ہیں جب تک ان کی اولادیں نمازی نہ بن جائیں جب تک ان کی آئندہ نسلیں ان کی آنکھوں کے سامنے نماز پر قائم نہ ہوجائیں۔اس وقت تک احمدیت کے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔اس وقت تک احمدیت کے مستقبل کے متعلق خوش آئند امنگیں رکھنے کا ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا۔اس لئے بالعموم ہرفرد بشر،ہراحمدی بالغ سے خواہ وہ مرد ہو یاعورت ہو میں بڑے عجز کے ساتھ یہ استدعا کرتا ہوں کہ اپنے گھروں میں اپنی آئندہ نسلوں کی نمازوں کی حالت پر غور کریں۔ان کا جائزہ لیں،ان سے پوچھیں اورروز پوچھا کریں کہ وہ کتنی نمازیں پڑھتے ہیں معلوم کریں کہ جو کچھ وہ نماز میں پڑھتے ہیں اس کا مطلب بھی ان کو آتا ہے یانہیں اوراگر مطلب آتا ہے تو غور سے پڑھتے ہیں یا اس انداز میں پڑھتے ہیں کہ جتنی جلدی یہ بوجھ گلے سے اتار پھینکا جاسکے اتنی جلدی نماز سے فارغ ہوکر دنیا طلبی کے کاموں میں مصروف ہوجائیں۔اس پہلو سے اگر آپ جائزہ لیں گے اورحق کی نظر سے جائزہ لیں گے،سچ کی نظر سے جائزہ لیں گے تو مجھے ڈر ہے کہ جو جواب آپ کے سامنے ابھریں گے وہ دلوں کے بے چین کردینے والے جواب ہوں گے۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسی بات ایسی مجلس میں کرنا جس میں تمام دنیاسے مختلف ممالک کے نمائندے آئے ہوں یہ اچھا اثر پیدا نہیں کرے گا،کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ اقرار جو تمام دنیا میں تشہیر پاسکتا ہے اور مخالف اس سے خوش ہوسکتے ہیں ایسی مجلس میں کرنا کوئی اچھی بات نہیں مگر مجھے اس کی ادنیٰ بھی پرواہ نہیں کہ دنیا سچائی کے اقرار کے نتیجہ میں ہمیں کیاکہتی ہے۔جب تک آپ سچائی کے اقرار کی جرأت پیدا نہیں کرتے آپ کی دینی حالت درست نہیں ہوسکتی،آپ کی اخلاقی حالت درست نہیں ہوسکتی۔آپ کی روحانی حالت درست نہیں ہوسکتی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ22؍جولائی1988ء

مطبوعہ خطبات طاہر جلد 7صفحہ507تا508)

ذیلی تنظیموں کا بڑااہم مقصد نماز باجماعت کی نگرانی

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے جب انصاراللہ کاقیام فرمایاتو اس کے ساتھ ہی نماز باجماعت کی نگرانی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

’’اس تنظیم کے ذریعہ علاوہ اور کاموں کے اس امر کی بھی نگرانی رکھی جائے گی کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے جو مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے کا پابند نہ ہو۔ سوائے ان زمینداروں کے جنہیں کھیتوں میں کام کرناپڑتا ہے۔یا سوائے ان مزدوروں کے جنہیں کام کے لئے باہر جانا پڑتا ہے۔ گو ایسے لوگوں کے لئے بھی میرے نزدیک کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہئے جس کے ماتحت وہ اپنی قریب ترین مسجدمیں نماز باجماعت پڑھ سکیں۔‘‘

(الفضل یکم اگست 1940ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقع پر جماعت کی ذیلی تنظیموں کوتوجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

’’پس ذیلی تنظیمیں بھی اور جماعتی نظام بھی اپنے کام اور خاص طور پر وہ کام جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمارا مقصد پیدائش قرار دیا ہے اس میں ایسی منصوبہ بندی کریں اور ایسا پروگرام بنائیں کہ وقت کے ساتھ سستی اور کمزوری کی بجائے ہر دن ترقی کی طرف لے جانے والا ہو۔ہماری عبادتوں کی ترقی ہی ہمیں کامیابیاں دلانے والی ہے۔پس یہ بہت اہم چیز ہے۔ تمام نظام کو اس بارے میں بہت سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ لجنہ اماءاللہ کو بھی اس بارے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

بچوں کی نمازوں کی گھروں میں نگرانی کرنا اور انہیں نمازوں کی عادت ڈالنا اور مردوں اور نوجوانوں کو مسجدوں میں جانے کے لئے مسلسل توجہ دلاتے رہنا یہ عورتوں کا کام ہے۔ اگر عورتیں اپنا کردار ادا کریں تو یہ غیر معمولی تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ27؍جنوری 2017ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍فروری2017ءصفحہ5)

رپورٹس میں نماز باجماعت کے جائزہ کی طرف خاص توجہ

خلفائے احمدیت کے سامنے جب بھی کوئی رپورٹ پیش ہوتی ہے اس میں نمازباجماعت کے قیام کے جائزے کو خاص توجہ سے ملاحظہ کرتے ہیں۔چنانچہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت کے نوجوانوں یعنی خدام الاحمدیہ کی طرف سے پیش ہونے والی ایک اچھی رپورٹ کوملاحظہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’گزشتہ دنوں خدام الاحمدیہ پاکستان کی طرف سے شوریٰ کے فیصلہ جات کی تعمیل کی ایک رپورٹ آئی جس میں انہوں نے لکھا کہ تعداد کے لحاظ سے تربیتی فیصلہ جات میں ہم نے یہ یہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔بڑی اچھی بات ہے۔ ترقی کی طرف قدم بڑھے ہیں۔ان تربیتی امور کی بہت سی باتوں میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ میرا خطبہ جمعہ سننے کی طرف اتنے ہزار خدّام کی توجہ پیدا ہوئی ہے۔لیکن جو قابل فکر بات ہے وہ یہ کہ نماز باجماعت کے عادی جمعہ کا خطبہ سننے والوں کا قریباً تیسرا حصہ تھے یا اس سے تھوڑا سا زیادہ تھے۔اسی طرح نمازوں کے عادی خدّام کی تعداد بھی خطبہ سننے والوں سے کافی کم تھی۔ ایسا خطبہ سننے کا کیا فائدہ جس سے ہماری توجہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف نہ ہو اور اس بنیادی فرض کی طرف نہ ہو جو انتہائی ضروری ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ20؍جنوری2017ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل10؍فروری2017ءصفحہ7)

ہردوسرے تیسرے خطبہ میں نمازباجماعت یاعبادت کی یاددہانی

خلفائےاحمدیت نماز باجماعت کی یاددہانی کراتے ہوئے کبھی نہیں تھکے بلکہ اس کو خلافت احمدیہ کاایک ضروری فرض کام سمجھتے ہوئے احباب جماعت کویہ بات باورکرواتے چلے جاتے ہیں کہ ہماری تمام ترکامیابیاں نماز باجماعت کے قیام سے ہی وابستہ ہیں۔اس کے بغیرکسی طرح کی حقیقی کامیابی کا تصورایک طمع خام ہے۔چنانچہ ایک موقع پر ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ

’’جیسا کہ میں نے کہا کہ میں تو ہر دوسرے تیسرے خطبہ میں نماز باجماعت یا عبادت کے بارے میں بات کرتا ہوں۔ اگر اس کا اثر ہی نہیں ہونا تو صرف تعداد کی خانہ پوری کرنے کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔پاکستان میں جیسے احمدیوں کے حالات مَیں نے بیان کئے ہیں اگر اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوگی تو پھر کب ہو گی؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ کا نعوذ باللہ امتحان لینا چاہتے ہیں کہ ہم نے تو ایسے ہی رہنا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ ہمارے حالات بدلے۔اگر یہی اظہار ہونے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ سے شکوے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں نہیں فرمایا کہ تم جو چاہے کرتے رہو، میرے حق ادا کرو یا نہ کرو کیونکہ تم نے مسیح موعود کو مان لیا ہے اس لئے مَیں تمہیں کامیابیاں دوں گا۔ کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ20؍جنوری2017ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل10؍فروری2017ءصفحہ7)

حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:

’’ہماری کامیابی اُسی وقت حقیقت کا روپ دھارے گی جب ہر طرف سے آوازیں آئیں گی کہ نماز کے قیام کی کوشش کرو۔ ورنہ صرف یہ عقیدہ رکھنے سے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہو گئے، یا قرآنِ کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے، یا تمام انبیاء معصوم ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہی مسیح ومہدی ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی تھی، تو اس سے ہماری کامیابیاں نہیں ہیں۔ ہماری کامیابیاں اپنی عملی حالتوں کو اُس تعلیم کے مطابق ڈھالنے میں ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دی۔ جس میں سب سے زیادہ اہم نماز کے ذریعے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے۔ ورنہ ہمارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ شرک نہیں کروں گا۔ شرک تو کر لیا اگر اپنی نمازوں کی حفاظت نہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے تو حکم دیا ہے کہ نمازیں پڑھو۔ نمازوں کے لئے آؤ۔ اگر نمازوں کی حفاظت نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ نماز کی جگہ کوئی اور متبادل چیز تھی جس کو زیادہ اہمیت دی گئی تو یہ بھی شرکِ خفی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ30؍ مارچ 2012ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍اپریل2012ءصفحہ7تا8)

نماز باجماعت کےلیے انتہائی کوشش کی تلقین

خلفائے احمدیت نہ صرف نماز کی ادائیگی کی تلقین کرتے ہیں بلکہ نما ز باجماعت کے قیام کے لیے اپنی انتہائی کوشش کرنے کی تلقین کرتےہیں۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’سوائے بیماری اور معذوری کی صورت کے نماز باجماعت ادا کرنے کی انتہائی کوشش کرنی چاہئے۔اگر قریب کوئی مسجد اور نماز سینٹر نہیں ہے تو علاقے کے کچھ لوگ کسی گھر میں جمع ہو کر نماز باجماعت پڑھ سکتے ہیں۔ اگر یہ سہولت بھی نہیں تو گھر کے افراد مل کر نماز باجماعت پڑھیں۔ اس سے بچوں کو بھی، نوجوانوں کو بھی نماز اور باجماعت نماز کی اہمیت کا احساس ہو گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ29؍ستمبر2017ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍اکتوبر2017ءصفحہ5)

عہدیدار خاص طور پر نمازوں کی باجماعت ادائیگی میں سستی نہ دکھائیں

نماز باجماعت کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پرحضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ

’’عہدیدار خاص طور پر نمازوں کی باجماعت ادائیگی میں اگر سستی نہ دکھائیں کیونکہ ان کی طرف سے بھی بہت سستی ہوتی ہے، اگر وہی اپنی حاضری درست کر لیں اور ہر سطح کے اور ہر تنظیم کے عہدیدار مسجد میں حاضر ہونا شروع ہو جائیں تو مسجدوں کی رونقیں بڑھ جائیں گی اور بچوں اور نوجوانوں پر بھی اس کا اثر ہو گا، اُن کی بھی توجہ پیدا ہو گی۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کا رتبہ کسی عہدے کی وجہ سے نہیں ہے۔دنیا کے سامنے تو بیشک کوئی عہدیدار ہو گا، اور اُس کا رتبہ بھی ہو گا لیکن اصل چیز خداتعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہے اور وہ اس ذریعے سے حاصل ہو گا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز معراج ہے۔اس معراج کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

پس پہلے عہدیدار اپنے جائزے لیں اور پھر اپنے زیرِ اثر بچوں، نوجوانوں اور لوگوں کو اس طرف توجہ دلائیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ30؍ مارچ 2012ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍اپریل 2012ءصفحہ7)

انفرادی ملاقاتوں میں نمازوں کاجائزہ

احمدیوں کی زندگی میں خلفائے احمدیت سے انفرادی ملاقات زندگی کاوہ سنگ میل اورخوش قسمت ترین لمحہ ہوتاہے جس کاکوئی متبادل نہیں۔جس کی خاطر بچے، نوجوان، بوڑھے، مرد،عورتیں بعض اوقات سالہاسال انتظارکرتے ہیں۔ خلفائے احمدیت اس قیمتی وقت میں بھی احباب جماعت کو نماز باجماعت کی یاددہانی کوانتہائی ضروری سمجھتے ہیں۔اوراحباب جماعت میں سے ایسے متعدد افراد ملتے ہیں جو اپنے پیارے امام اس بابرکت ملاقات کے دوران اپنے دل میں یہ عہدکرکے اٹھتے ہیں کہ آئندہ ہمیشہ نماز باجماعت کی پابندی کریں گے۔چنانچہ ایک موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’مَیں نے بعض دفعہ ملاقاتوں میں جائزہ لیاہے کہ نمازوں کی طرف باقاعدگی سے متعلق اگر پوچھو کہ توجہ ہے کہ نہیں تو اکثر یہ جواب ہوتا ہے کہ کوشش کرتے ہیں یا پھر کوئی گول مول سا جواب دے دیتے ہیں۔حالانکہ نمازوں کے بارے میں تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز کو قائم کرو۔ باجماعت ادا کرو۔ اور نماز کوو قت مقررہ پر ادا کرو۔ جیسا کہ فرمایا

اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(النساء:104)

یقیناً نماز مومنوں پر وقت مقررہ کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’مَیں طبعاً اور فطرتاً اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جاوے اور نماز مَوْقُوتَہ کے مسئلہ کو بہت ہی عزیز رکھتا ہوں ‘‘۔

(الحکم جلد نمبر6نمبر42مورخہ 24؍ نومبر1902ء صفحہ1 کالم 2)

ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو وقت مقررہ تو علیحدہ رہا، نمازوں میں اکثر سستی کر جاتے ہیں۔ کیا ایسا کرکے ہم اس حکم پر عمل کر رہے ہیں کہ

حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی۔ وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ(البقرۃ:239)

تو نمازوں کااور خصوصاً درمیانی نماز کا پورا خیال رکھو۔ اور اللہ کے فرمانبردار ہو کر کھڑے ہو جاؤ۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍جون 2005ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل8؍جولائی2005ءصفحہ5)

شدید مصروفیت کے ایام میں بھی نماز باجماعت کے التزام کی تلقین

جلسہ سالانہ کے ایام بہت مصروفیت کے دن ہوتے ہیں۔خصوصیت سے وہ احباب جماعت جو ڈیوٹی پرمقررہوں خطرہ ہوتاہے کہ وہ نماز کی ادائیگی کی طرف پوری توجہ نہیں دے سکیں گے۔مگرخلفائے احمدیت ہمیشہ ان مصروفیت کے ایام میں بھی احباب جماعت کو نماز باجماعت کے التزام کی تاکیدکرتے ہیں۔چنانچہ ایک جلسہ سالانہ کے آغاز پرجلسہ سالانہ کے بارے ہدایات دیتے ہوئے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’جلسہ کے ایام ذکر الٰہی اور درود شریف پڑھتے ہوئے گزاریں …ان ایام میں پورے التزام سے نمازوں کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دیں۔ لنگر خانے یا جہاں جہاں بھی ڈیوٹیاں ہیں وہاں بھی کارکنان کی باقاعدہ نمازوں کی ادائیگی کا انتظام ہونا چاہئے۔ اور ان کے افسران کی ذمہ داری ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں۔ نمازوں کے دوران جو آپ مارکی کے اندر نمازیں پڑھنے کے لئے آتے ہیں تو نماز شروع ہونے سے پہلے ہی آ کے بیٹھ جایا کریں۔ کیونکہ یہاں لکڑی کے فرش ہیں گو اس کے اوپر پتلا سا قالین تو بچھا ہواہے لیکن چلنے سے اس قدر آواز اور شور آتا ہے کہ جب نماز شروع ہو جائے تو پھر نماز خراب ہو رہی ہوتی ہے۔دوسروں تک جو نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں آواز ہی نہیں پہنچتی۔‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جولائی 2004ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍اگست2004ءصفحہ7تا8)

نمازوں کاجائزہ لینے اور یاددہانی پراعتراض کاجواب

بعض لوگو ں میں یہ غلطی فہمی پائی جاتی ہے کہ نماز بندے اورخداکاذاتی معاملہ ہے اس لیے اس بارے کسی کویاددہانی کروانے یاجائزہ لینے کی ضرورت نہیں۔ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کئی مواقع پر سمجھاکراس غلط فہمی کودورکیا۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

’’اسی طرح میں یہاں ایسے لوگوں کی درستی کرنا چاہتا ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ نہ ہمیں نمازوں کے متعلق کہو، نہ پوچھو کیونکہ یہ ہمارا اور خدا کا معاملہ ہے۔ کئی عورتوں کی شکایت آتی ہے کہ اگر ہم اپنے خاوندوں کو توجہ دلائیں تو وہ لڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو میں کہتا ہوں کہ یہ بیشک بندے اور خدا کا معاملہ ہے لیکن توجہ دلانا اور پوچھنا نظام جماعت کا کام ہے۔اسی طرح بیویوں کا بھی کام ہے بلکہ فرض ہے۔ اگر صرف اتنا ہی ہوتا کہ مرضی ہوتی یا مرضی ہوئی تو پڑھ لوں گا، نہ ہوئی تو نہیں۔ یا فجر کی نماز پر ہم گہری نیند سوتے ہیں اور دن بھر کے تھکے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے رات کو گہری نیند آتی ہے اس لئے ہمیں جگانا نہیں۔ اگر یہ مرضی پر ہوتا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیوی اور خاوند کو یہ ارشادنہ فرماتے کہ جو نماز کے لئے پہلے جاگے وہ دوسرے کو نماز کے لئے جگائے اور اگر نہ جاگے یا سستی دکھائے تو پانی کے چھینٹے مارے۔ بعض جگہ تو آپ نے بہت زیادہ سخت تنبیہ فرمائی ہے۔ گزشتہ جمعہ میں بعض احادیث مَیں نے پیش بھی کی تھیں۔ پس یہ سوچ غلط ہے کہ ہم ایسے معاملے میں آزاد ہیں۔ ہمارا اور خدا کا معاملہ ہے۔ جس نظام سے اپنے آپ کو منسلک کر رہے ہیں اگر وہ اپنی جماعت کا جائزہ لینے کے لئے نمازوں کی ادائیگی کے بارے میں استفسار کرتا ہے تو بجائے چِڑنے اور غصہ میں آنے کے تعاون کرنا چاہئے۔ ہاں اگر انسان خودنمازیں پڑھ کر پھر دنیا کو بتانے والا ہو اور بتاتا پھرے اور بڑے فخر سے بتائے کہ میں نمازیں باجماعت پڑھتا ہوں تو پھر یہ برائی ہے اور غلط ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ27؍جنوری 2017ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍فروری2017ءصفحہ5تا6)

نمازباترجمہ سیکھنے اورنمازوں سے متعلق بعض مسائل اور آداب کی یاددہانی

حضرت الحاج حکیم مولوی نورالدین، خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے نماز کے بارے ضروری معلومات سے احباب جماعت کوآگاہ کرنے کےلیے ایک مختصر دینیات کاپہلارسالہ تیارکیا۔اس رسالے میں ابتدائی اسلامی مسائل مثلاً وضو، اذان اور نماز وغیرہ کا تفصیلی ذکر ہے۔اوقات نماز، نماز پڑھنے کا طریق، شرائط نماز، ارکان نماز اور واجبات نماز،مفسدات ومکروہات نماز، وغیرہ تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ بچوں، نومسلموں اور دینیات کی ابتدائی تعلیم سیکھنے والوں کے لیے اس رسالےکا مطالعہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جس میں دین اور ایمان کی باتیں سلیس انداز میں درج ہیں۔

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے نہ صرف عبادت اورنماز پر متعدد خطبات ارشاد فرمائے جو ’’ذوق عبادت اور آداب دعا‘‘کے نام سے شائع شدہ ہیں بلکہ ایم ٹی اے پرنشرہونے والی بچوں کے ساتھ اردو کلاس میں نماز کاترجمہ ٹھہرٹھہرکر بعض ضروری تفصیلا ت کے ساتھ سمجھاسمجھاکر یادکروایا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی اس بارے اپنے متعدد خطبات میں نماز میں پڑھی جانے والی دعائیں اورتسبیحات پربصیرت افروز روشنی ڈ الی نیز اپنے ایک خطبہ میں نماز کے بعض اہم مسائل اورآداب کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ مسلمہ میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں سے لوگ آ کر شامل ہوتے ہیں۔ بعض باتیں جو وہ پہلے کرتے تھے جماعت احمدیہ کا اس پر تعامل نہیں ہوتا کیونکہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو باتیں بتائی ہیں اور ہم نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حَکم اور عدل مانا ہے تو جو آپ نے فرمایا ہم نے اس کے مطابق کرنا ہے جبکہ وہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے بھی ثابت ہوتی ہو۔انہی باتوں میں ایک بات رفع یدین کی ہے۔ یعنی نماز کی ہر تکبیر پر تکبیر اور ہر حرکت پر ہاتھ اٹھانا، اوپر کانوں سے لگانا اور انہی چھوٹی چھوٹی باتوں نے مسلمانوں میں فرقہ در فرقہ بندی پیدا کی ہے اور یہی نہیں بلکہ لڑائیوں تک نوبت آئی ہے۔ کفر کے فتوے ایک دوسرے پر دیتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی دوسرے فرقے کے آدمی کا جنازہ پڑھ لے تو مولوی کہتے ہیں نکاح ٹوٹ گیا۔ اور یہ صرف پرانی بات نہیں ہے بلکہ آجکل بھی یہی باتیں ہو رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ہندوستان کی ایک خبر تھی کہ ایک فرقے کے لوگوں نے دوسرے فرقے کے امام کے پیچھے کسی کا جنازہ پڑھ لیا تو فتویٰ آ گیا کہ نکاح ٹوٹ گیا اور پھر سارا گاؤں یا قصبہ جمع ہو کر اس مولوی کے پاس گیا اور ایک لائن لگی ہوئی ہے۔ نئے سرے سے سب کے نکاح ہو رہے ہیں۔ تو مذہب کو انہوں نے مذاق بنا لیا یا فتنہ کا ذریعہ بنالیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو سب جھگڑوں کو ختم کرنے آئے تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ میں حَکَم اور عَدل ہوں مجھے مانو اور اس کے حل بھی پیش فرمائے۔ جو معمولی فرق تھے کہ اگر کوئی اِس طرح بھی کر لے یا اُس طرح بھی کر لے تو ان کو آپ نے جائز بھی قرار دیا۔ چنانچہ رفع یدین کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ

’’اس میں چنداں حرج نہیں معلوم ہوتا‘‘(کوئی حرج نہیں ) ’’خواہ کوئی کرے یا نہ کرے۔احادیث میں بھی اس کا ذکر دونوں طرح پر ہے۔ اور وہابیوں اور سنّیوں کے طریق عمل سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ کیونکہ ایک تو رفع یدین کرتے ہیں اور ایک نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وقت رفع یدین کیا اور بعد ازاں ترک کر دیا۔‘‘(البدر 3 اپریل 1903ء جلد 2 نمبر 11 صفحہ 85)۔یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعامل نہیں رہا۔ لیکن اگر ایک وقت میں کیا اور اس کو بعض لوگ مانتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ اس میں لڑنے کی ضرورت کوئی نہیں۔ لیکن آپ نے اسی تعامل کو جاری رکھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ عمل کیا۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ27؍جنوری 2017ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍فروری2017ءصفحہ6)

نماز میں لذت اورسرور حاصل کرنے کاطریق

خلفائے احمدیت نے ہمیشہ احباب جماعت کو نماز رسم اورعادت کے طور پراداکرنےکی بجائے نماز خوب توجہ سے اداکرنے اور اس کی لذت سے آشناہونے کی طرف توجہ دلائی۔چنانچہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے متعدد خطبات میں اس حوالے سے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے اقتباسات کی روشنی میں نماز کی حقیقی لذت کے حصول کاطریق سمجھایا۔آپ فرماتے ہیں :

’’پس نماز کا حظ اور سرور حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل مانگنے کے لئے پھر اسی کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے اور چلتے پھرتے بھی اس کا ذکر کرنے کی ضرورت ہے اور خشوع مانگنے کی ضرورت ہے۔ یہ حالت انسان پیدا کرے تو پھر نمازوں کا بھی مزا آتا ہے۔

پھر نماز میں لذّت نہ آنے کی وجہ اور اس کا علاج بتاتے ہوئے آپ(حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ناقل) فرماتے ہیں کہ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگ نمازوں میں غافل اور سست اس لئے ہوتے ہیں کہ اُن کو اس لذّت اور سرور سے اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے اور بڑی بھاری وجہ اس کی یہی ہے۔ پھر شہروں اور گاؤں میں تو اَور بھی سستی اور غفلت ہوتی ہے۔‘‘(جو آبادیوں میں رہنے والے لوگ ہیں، زیادہ مصروف ہیں۔ وہ اپنے کاموں کی وجہ سے اَور بھی زیادہ سست ہو جاتے ہیں۔ فرمایا کہ) ’’سو پچاسواں حصہ بھی تو پوری مستعدی اور سچی محبت سے اپنے مولائے حقیقی کے حضور سر نہیں جھکاتا۔ پھر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ان کو اس لذت کی اطلاع نہیں اور نہ کبھی انہوں نے اس مزا کو چکھا۔ اَور مذاہب میں ایسے احکام نہیں ہیں۔‘‘(دوسرے مذہب جو ہیں اُن میں باقاعدگی سے عبادت کرنے کے ایسے احکام نہیں ہیں۔) فرمایا’’کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مؤذن اذان دے دیتا ہے۔پھر وہ سننا بھی نہیں چاہتے گویا ان کے دل دُکھتے ہیں۔ یہ لوگ بہت ہی قابل رحم ہیں۔‘‘(اذان ہو گئی مگر اذان پہ کان نہیں دھرا۔ یا نماز کا وقت ہو گیا اور اس کی طرف توجہ نہیں دی۔) فرمایا کہ ’’یہ لوگ بہت ہی قابل رحم ہیں‘‘۔آپ نے فرمایا کہ ’’بعض لوگ یہاں بھی ایسے ہیں کہ ان کی دکانیں دیکھو تو مسجدوں کے نیچے ہیں مگر کبھی جا کر کھڑے بھی تو نہیں ہوتے۔‘‘(یعنی نماز کے لئے نہیں جاتے۔) فرمایا کہ ’’پس مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہئے کہ جس طرح پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزہ چکھا دے۔ کھایا ہوا یاد رہتا ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’کھایا ہوا یاد رہتا ہے۔ دیکھو اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اسے خوب یاد رہتا ہے۔ اور پھر اگر کسی بدشکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت باعتبار اس کے مجسم ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہو تو کچھ یادنہیں رہتا‘‘۔ (بدصورتیاں اور خوبصورتیاں بھی انسان کو اس لئے یاد رہتی ہیں کہ ایک توجہ دے کر دیکھ رہا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی تعلق نہ ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسے کچھ نہیں یاد رہتا۔) فرمایا کہ’’اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اٹھ کر سردی میں وضو کر کے خوابِ راحت چھوڑ کر، کئی قسم کی آسائشوں کو کھو کر پڑھنی پڑتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اُسے بیزاری ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’اصل بات یہ ہے کہ اسے بیزاری ہے۔ وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس لذت اور راحت سے جو نماز میں ہے اس کو اطلاع نہیں ہے‘‘(اس کو پتا ہی نہیں کہ نماز میں کیا لذّت اور راحت ہے۔) فرمایا ’’پھر نماز میں لذّت کیونکر حاصل ہو‘‘۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سرور نہیں آتا تو وہ پے در پے پیالے پیتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو ایک قسم کا نشہ آجاتا ہے۔ دانشمند اور بزرگ انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور وہ یہ کہ نماز پر دوام کرے‘‘۔ (باقاعدگی کرے۔ جب تک مزا نہ آئے نمازیں پڑھتا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا جائے کہ اے اللہ! مجھے نماز میں وہ سرور اور حظ دے جو اَور چیزوں میں تو نے دیا ہوا ہے۔) فرمایا ’’دوام کرے اور پڑھتا جاوے یہاں تک کہ اس کو سرور آ جاوے۔ اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذت ہوتی ہے جس کا حاصل کرنا اس کا مقصود بالذات ہوتا ہے۔ اسی طرح سے ذہن میں اور ساری طاقتوں کا رجحان نماز میں اسے سرور کا حاصل کرنا ہو‘‘۔(ساری جو قوتیں ہیں اس طرف لگائے کہ میں نے نماز میں سرور حاصل کرنا ہے۔ نماز کا مزا اٹھانا ہے۔) فرمایا’’اور پھر ایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق و کرب کی مانند ہی ایک دعا پیدا ہو کہ وہ لذّت حاصل ہو تو مَیں کہتا ہوں‘‘۔(آپ فرماتے ہیں اس لذت کے حاصل کرنے کے لئے اگر یہ دعا پیدا ہو، ایک کرب پیدا ہو، اضطراب پیدا ہو تو آپؑ فرماتے ہیں ) ’’تو مَیں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ یقیناً یقیناً وہ لذت حاصل ہو جاوے گی‘‘۔پھر آپ فرماتے ہیں ’’پھر نماز پڑھتے وقت ان مفاد کا حاصل کرنا بھی ملحوظ ہو جو اس سے ہوتے ہیں اور احسان پیش نظر رہے۔

اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ (ہود:115)‘‘۔

فرماتے ہیں:’’نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں۔‘‘(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔) ’’پس ان حسنات کو اور لذات کو دل میں رکھ کر دعا کرے کہ وہ نماز جو کہ صدیقوں اور محسنوں کی ہے وہ نصیب کرے۔ یہ جو فرمایا ہے

اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ(ہود: 115)۔

یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کو دُور کرتی ہے یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے۔نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ باوجودنماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نہ روح اور راستی کے ساتھ۔‘‘ (نمازوں میں روح کوئی نہیں ہوتی۔) فرمایا ’’وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں۔ان کی روح مردہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا اور یہاں جو حسنات کا لفظ رکھا، اَلصَّلوٰۃ کا لفظ نہیں رکھا باوجودیکہ معنی وہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حسن و جمال کی طرف اشارہ کرے کہ وہ نماز بدیوں کو دور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی روح رکھتی ہے‘‘۔(وہ نماز بدیوں کو دُور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی روح رکھتی ہے۔)’’اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے۔ وہ نماز یقیناً یقیناً برائیوں کو دور کرتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’نماز نشست و برخاست کا نام نہیں ہے۔‘‘(نماز صرف اٹھنے بیٹھنے کا نام نہیں ہے۔)’’نماز کا مغز اور روح وہ دعا ہے جو ایک لذت اور سرور اپنے اندر رکھتی ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 162 تا 164۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

نماز کی روح اور مقصد کو حاصل کرنے کی کس طرح کوشش کرنی چاہئے؟ ارکانِ نماز جو ہیں، قیام ہے۔ رکوع ہے۔ سجدہ ہے۔ قعدہ ہے۔ یہ جو ساری حالتیں نماز میں ہیں اس لئے رکھی گئی ہیں کہ اس مقصد کو حاصل کیا جائے۔ اس روح کو حاصل کیا جائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ29؍ستمبر 2017ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍اکتوبر2017ءصفحہ6تا7)

نماز باجماعت میں حائل خطرات کی نشاندہی

خلفائے احمدیت جہاں نماز کی لذات اور حقیقی سرور کے حصول کی توجہ دلاتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان خطرات کوبھی خوب کھول کربیان کرتے ہیں جن کی وجہ سے عام طورپرنمازیں ضائع ہوجاتی ہیں۔چنانچہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیںکہ

’’برائیوں میں سے آجکل ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ کی بعض برائیاں بھی ہیں۔ اکثر گھروں کے جائزے لے لیں۔ بڑے سے لے کر چھوٹے تک صبح فجر کی نماز اس لئے وقت پر نہیں پڑھتے کہ رات دیر تک یا تو ٹی وی دیکھتے رہے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہے، اپنے پروگرام دیکھتے رہے، نتیجۃًصبح آنکھ نہیں کھلی۔ بلکہ ایسے لوگوں کی توجہ بھی نہیں ہوتی کہ صبح نماز کے لئے اٹھنا ہے۔اور یہ دونوں چیزیں اور اس قسم کی فضولیات ایسی ہیں کہ صرف ایک آدھ دفعہ آپ کی نمازیں ضائع نہیں کرتیں بلکہ جن کو عادت پڑ جائے ان کا روزانہ کا یہ معمول ہے کہ رات دیر تک یہ پروگرام دیکھتے رہیں گے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہیں گے اور صبح نماز کے لئے اٹھنا ان کے لئے مشکل ہو گا بلکہ اٹھیں گے ہی نہیں۔ بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو نماز کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ نماز جو ایک بنیادی چیز ہے جس کی ادائیگی ہر حالت میں ضروری ہے حتیٰ کہ جنگ اور تکلیف اور بیماری کی حالت میں بھی۔ چاہے انسان بیٹھ کے نماز پڑھے، لیٹ کر پڑھے یا جنگ کی صورت میں یا سفر کی صورت میں قصر کر کے پڑھے لیکن بہرحال پڑھنی ہے۔ اور عام حالات میں تو مردوں کو باجماعت اور عورتوں کو بھی وقت پر پڑھنے کا حکم ہے۔ لیکن شیطان صرف ایک دنیاوی پروگرام کے لالچ میں نماز سے دُور لے جاتا ہے اور اس کے علاوہ انٹرنیٹ بھی ایک ایسی چیز ہے جس میں مختلف قسم کے جو پروگرام ہیں، پھر ایپلی کیشنز(applications) ہیں، فون وغیرہ کے ذریعہ سے یا آئی پیڈ(iPad) کے ذریعہ سے، ان میں مبتلا کرتا چلا جاتا ہے۔ اس پر پہلے اچھے پروگرام دیکھے جاتے ہیں۔ کس طرح اس کی attractionہے۔ پہلے اچھے پروگرام دیکھے جاتے ہیں پھر ہر قسم کے گندے اور مخرّب الاخلاق پروگرام اس سے دیکھے جاتے ہیں۔ کئی گھروں میں اس لئے بے چینی ہے کہ بیوی کے حق بھی ادا نہیں ہو رہے اور بچوں کے حق بھی ادا نہیں ہورہے اس لئے کہ مرد رات کے وقت ٹی وی اور انٹرنیٹ پر بیہودہ پروگرام دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں اور پھر ایسے گھروں کے بچے بھی اسی رنگ میں رنگین ہوجاتے ہیں اور وہ بھی وہی کچھ دیکھتے ہیں۔ پس ایک احمدی گھرانے کو ان تمام بیماریوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مومنین کو شیطان کے حملوں سے بچانے کی کس قدر فکر ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اپنے صحابہ کو شیطان سے بچنے کی دعائیں سکھاتے تھے اور کیسی جامع دعائیں سکھاتے تھے، اس کا ایک صحابی نے یوں بیان فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا سکھلائی کہ اے اللہ! ہمارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ہماری اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا۔ اور ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا۔ اور ہمیں ظاہر اور باطن فواحش سے بچا۔ اور ہمارے لئے ہمارے کانوں میں، ہماری آنکھوں میں، ہماری بیویوں میں اور ہماری اولادوں میں برکت رکھ دے اور ہم پر رجوع برحمت ہو۔ یقینا ًتُو ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر کرنے والا اور ان کا ذکر خیر کرنے والا اور ان کو قبول کرنے والا بنا اور اے اللہ ہم پر نعمتیں مکمل فرما۔

(سنن ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب التشہد حدیث 969)

پس یہ دعا ہے جو دنیاوی غلط تفریح سے بھی روکنے کے لئے ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍مئی 2016ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جون2016ءصفحہ7)

جماعت کی مساجد کااوّلین مقصد عبادت

نماز باجماعت کے قیام کے لیے ایک نہایت اہم چیز مساجد کی تعمیر ہے۔خلفائے احمدیت ہمیشہ ہی مساجدکی تعمیرکی طرف غیرمعمولی توجہ دیتے رہے اور احباب جماعت بھی بڑی محبت سے مساجدکی تعمیر کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیاکے دوسوسے زائدملکوں میں جماعت احمدیہ کی ہزاروں مساجدہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کینیڈامیں ایک مسجدکے افتتاح کے موقع پرفرمایا:

’’جماعت احمدیہ اپنی مساجد کی تعمیر کرتی ہے اور اس میں عبادت کے لئے جاتی ہے۔ہماری مساجد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ایک نشان ہوتی ہیں۔ اور ہونی چاہئیں اور اسی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ایک لمبے عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے کل آپ کو، کیلگری جماعت کو، اپنی مسجد بنانے کی اللہ توفیق عطا فرما رہا ہے۔ انشاء اللہ کل بنیاد رکھی جائے گی۔ اللہ کرے کہ آپ کو اس مسجد کی جلد سے جلد تکمیل کی بھی توفیق عطا ہو۔ اور اللہ کرے جن لوگوں نے اس مسجد کی تعمیرمیں حصہ لینے کے لئے وعدے کئے ہوئے ہیں وہ جلد ان وعدوں کو پورا کر سکیں اور جنہوں نے حصہ نہیں لیا وہ جلد اس میں حصہ لینے کی توفیق پائیں۔ اللہ کرے کہ اس مسجد کی تعمیر ان تمام دعاؤں سے حصہ لینے والی ہو اور اس کی تعمیر میں حصہ لینے والے اور اس میں نمازیں پڑھنے والے بھی ان تمام د عاؤں کے وارث ہوں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے کی تھیں۔ آپ کی اولاد در اولاد اور آپ کی آئندہ نسلیں بھی تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اس مسجد میں آنے والی ہوں اور آپ کی یہ مسجد بھی اپنے آقا اور مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں بنائی جانے والی مسجد میں شمار ہو جس کی بنیادیں تقویٰ پر اٹھائی گئی تھیں۔ وہ ایسی بابرکت مسجد ہے کہ اس کی بنیادیں تقویٰ پر اٹھائے جانے کی گواہی خداتعالیٰ نے دی ہے۔ جیسا کہ فرمایا

لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوَیٰ مِنْ اَوَّلِ َیوْمٍ (التوبۃ:108)

یعنی وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍جون 2005ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم جولائی2005ءصفحہ5)

خلافت کی طرف سے نماز باجماعت کی یاددہانی اور احباب جماعت کی اطاعت

خلفائے احمدیت کی طرف سے نماز باجماعت کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششیں اور یاددہانی کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتی بلکہ ہریاددہانی کے بعد احباب جماعت بڑی توجہ کے ساتھ اپنے پیارے امام کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور اپنے امام کے لیے تسکین کاباعث بنتے ہیں ۔چنانچہ ایک خطبہ جمعہ میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جب قیام نماز کی یاددہانی کروائی تو اس سے اگلے ہی خطبہ میں احباب جماعت کی طرف سے انفرادی طور اور جماعت کے مختلف عہدیداران اور ذیلی تنظیموں کی طرف سے ہونے والے اجتماعی رد عمل کاذکرکرتے ہوئے فرمایاکہ

’’گزشتہ خطبہ میں میں نے نمازوں کی اہمیت اور ان کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی تھی۔ کئی لوگوں کے مجھے ذاتی خط اس طرف توجہ دینے کے لئے آئے اور اپنی سستیوں پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ کئی جگہ سے جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں سے خط آئے کہ واقعی اس معاملے میں سستی ہے۔ آئندہ سے اس طرف توجہ کا مضبوط پروگرام بنا رہے ہیں اور یہ بھی کہ انشاء اللہ آئندہ بھرپور کوشش کریں گے کہ سستیاں دور ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اس کی توفیق دے اور ہماری مساجد حقیقت میں آبادی کے بھرپور نظارے پیش کرنے والی ہوں۔ لیکن انتظامیہ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر کام کے اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کے لئے مستقل مزاجی شرط ہے۔ شروع میں تو ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو بڑے جوش سے کام شروع کرتے ہیں لیکن پھر کچھ عرصے بعد سستی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ انسانی فطرت بھی ہے۔ افراد میں سستی پیدا ہونی اتنے خطرناک نتائج پیدا نہیں کرتی گو کہ یہ بھی بہت قابل فکر بات ہے لیکن نظام میں سستی پیدا ہونا تو انتہائی خطرناک ہے۔ اگر افراد کو توجہ دلانے والا نظام ہی سست ہو جائے یا اپنے کام میں عدم دلچسپی کا اظہار کرنے لگ جائے تو پھر افراد کی اصلاح بھی مشکل ہو جاتی ہے، اور ایک فطری تقاضے کے تحت اُن میں جو سستی پیدا ہوتی ہے اس کی اصلاح ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ27؍جنوری 2017ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍فروری2017ءصفحہ5)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button