متفرق مضامین

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی عید

(‘ابن مبارک’)

جس نے عیدین کی راتوں میں خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی چاہنے کےلیے قیام اللیل کیا تو جس دن دل مردہ ہوں گے اُس کا دل مردہ نہیں ہوگا

عید یعنی خوشی کا ایسا موقع جو بار بار آئے اور اس کے بار بار آنے کی خواہش برقرار رہے۔ خوشی اور مسرت کے ایسے تہواروں کے انداز واَطوار، رنگ ڈھنگ، موجبات ومحرکات اور اغراض ومقاصد مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ان خوشیوں کا استقلال و دوام اوران کا ایسی عید ہوجانا جس کے عَود کر آنے کی خواہش ہمیشہ بڑھتی ہی رہے، تبھی ممکن ہے جب یہ خوشیاں حقیقی اور فطری ہوں۔ آئیے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں میں حقیقی اور سچی عید کی جھلک دیکھتے ہیں۔

رمضان المبارک اور حج بیت اللہ ہر دو اَرکانِ اسلام کے ساتھ عیدوں کو باندھ کر آنحضورﷺ نے بتایا کہ حقیقی خوشی خدا کے حکموں کی اطاعت اور فرمانبرداری ہی میں مضمر ہے اور اس خوشی کے اظہار کا طریق بھی اللہ تعالیٰ کی تکبیر وتحمید، ذکر الٰہی اور شکرِ نعمت ہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (البقرة: 186)

یعنی اللہ …چاہتا ہے کہ تم (سہولت سے) گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اُس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو۔

تکبیرات کا وِرد

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا طرزِ عمل یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے شکر اور اس کے احسانات اور اس کے فضلوں کو یاد کرکے ذکر الٰہی میں مشغول رہا کرتے تھے۔ ان عیدوں کے مواقع پر اللہ تعالیٰ کی کبريائی کا بیان ہر ایک کی زبان پر جاری رہتا تھا۔

اَللّٰہُ اَكْبَرُ، اَللّٰہُ اَكْبَرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اَللّٰہُ، واَللّٰہُ اَكْبَرُ، اَللّٰہُ اَكْبَرُ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ

کی صداؤں سے مدینہ کی فضا معطر ہوجاتی تھی۔

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ عید الفطر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر سے نکلتے تو نماز کی جگہ پہنچنے تک تکبیرات کا وِرد کیا کرتے تھے۔

(سنن الدار قطنی، کتاب العیدین، روایت نمبر1714)

عید الاضحی کے موقع کا ذکر کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کے دن یعنی 9؍ذی الحجہ کی فجر سےایام التشریق کے آخریعنی تیرہ ذی الحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد ان تکبیرات کو دُہرایا کرتے تھے اورصحابہ کرامؓ بھی آپ کے تتبع میں ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب صلوٰۃ العیدین، روایت نمبر1111)

صحابہ کرامؓ کے عمل سے ثابت ہے کہ حج اور عید الاضحی کےان دِنوں میں تکبیرات کہنے کا یہ عمل ہمہ وقت جاری رہتا تھا۔ روایات میں ذکر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے خیمے میں بھی تکبیرات دُہراتے رہتے تھے، اور اسی طرح مسجد والے مسجد میں اور بازاروں والے بازاروں میں تکبیرات دُہرایا کرتے تھے، یہاں تک کہ منیٰ تکبیرات سے گونج اُٹھتی تھی۔

(صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ، باب التکبیر أیام منی)

حضرت ام عطیہؓ بیان کرتی ہیں کہ عورتیں مردوں کے پیچھے ان کے تکبیرات کہنے کے ساتھ تکبیرات کہا کرتی تھیں۔

(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب التکبیر أیام منی، روایت نمبر971)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ ان ایام میں (یعنی حج کے دنوں میں)وہ بازار بھی تکبیرات کہتے ہوئے جایا کرتے تھے اس پر لوگ بھی ان کے ساتھ ساتھ تکبیرات کہنے لگ جاتے تھے۔

(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب فضل العمل فی ایام التشریق)

صدقۃ الفطریعنی فطرانہ

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عید منانے کا جو ڈھنگ ہمیں سکھایا ہے وہ تو ہے ہی یہ کہ تعظیم لامر اللّٰہ اور شفقت علیٰ خلق اللّٰہ۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کا اظہار تو تکبیرات کے ذریعہ کیا اور صدقۂ فطر مقرر کرکے مخلوق پر شفقت کو لازم ٹھہرایا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ ا لفطر (یعنی فطرانہ) ہر مسلمان پر فرض کیا ہے خواہ وہ غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا۔ اور آپؐ نے حکم دیا ہے کہ نماز کے لیے نکلنے سے قبل اسے ادا کیا جائے۔

(صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب صدقۃ الفطر، روایت نمبر1503)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اَناج میں سے صدقۂ فطر ایک صاع جَو، یا کھجور، یا پنیر، یا کشمش دیا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب صدقۃ الفطر صاع من طعام، روایت نمبر1506) ایک صاع تقریباً تین کلوگرام کا ہوتا تھا۔

صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ صحابہ کرامؓ فطرانہ کی ادائیگی عید سے ایک دو دِن پہلے ہی کرچکے ہوتے تھےاور ان کا عمل یہ تھا کہ وہ اپنے خاندان کے تمام افراد اور زیر کفالت گھرانوں کا فطرانہ بھی خود ادا کیا کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق ذکر ملتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے چھوٹے اور بڑے سب افراد کی طرف سے صدقہ فطر دیا کرتے تھے حتیٰ کہ اپنے آزاد کردہ غلام نافع کے بیٹوں کا فطرانہ بھی وہی ادا کیا کرتے تھے۔ امام بخاریؒ نے اس موقع پر یہ وضاحت بھی بیان کی ہے کہ فطرانہ وصول کرنے والوں کو پکڑایا جاتا تھا نہ کہ(بلاواسطہ) محتاجوں کو۔

(صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب صدقۃ الفطر علی الحر والمملوک، روایت نمبر1511)

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائےراشدین کے دَور میں فطرانہ کا جمع کیا جانا اور پھر ضرورت مندوں اور محتاجوں میں تقسیم کیا جانا نظام کے تحت ہوتا تھا۔

زیب وزینت

صفائی اور نظافت تو آنحضورﷺ کی طبیعت کا خاصہ تھی۔ عید کے دن بھی آپؐ اس کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ مسواک، غسل اور صاف ستھرے کپڑے پہننا اور خوشبو لگانا آپؐ کی عادتِ مستمرہ تھی۔ اگر اس موقع پر نئے کپڑے میسر ہوتے تو آپؐ انہیں زیبِ تن فرما لیتے تھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عیدین میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ دھاری دار چارد میں ملبوس دیکھا ہے۔

(السنن الکبریٰ للبیھقی، کتاب صلوٰۃ العیدین، باب الزینۃ للعید، روایت نمبر6204)

جعفر بن محمد کی روایت ہے کہ عیدوں کے موقع پر آپؐ عمامہ باندھتے اور عمدہ قسم کا یمنی لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے۔

(معرفة السنن والآثار، كتاب صلوٰۃ العيدين، باب الزينة للعيد)

صحابہ کرامؓ کی عیدیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ ہی کا عکس تھیں۔ وہ بھی غسل کرنے اور عمدہ لباس پہننے اور خوشبو لگانے کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ گھروں میں پیچھے رہ جانے والے (بیمار)، خواتین اور بچے بھی اچھے اور خوبصورت ملبوسات پہنا کرتے تھے۔

(سنن ابن ماجه، كتاب اقامة الصلوٰة، باب ماجاء في الاغتسال في العيدين) (السنن الکبریٰ للبیھقی، کتاب صلوٰۃ العیدین، باب الزینۃ للعید) (فتح الباری لابن رجب الحنبلی، باب في العيدين والتجمل فيهما)

عیدالفطر کی نماز سے پہلے کچھ کھانا

بلاشبہ عید کے دن کھانے پینے کے دن ہیں جن میں قسمہا قسم کے کھانوں کی خواہش ہوتی ہے۔ اس دن خالی پیٹ روزہ کی حالت میں رہنا عید کے تصوّر کے منافی ہے۔ عید الفطر کے موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق یہ تھا کہ آپؐ نمازِ عید پر جانے سے قبل کھجوریں تناول فرمایا کرتے تھے۔ بعض روایات میں یہ بھی وضاحت ملتی ہے کہ آپؐ کھجوریں طاق تعداد میں کھایا کرتے تھے۔

(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب الأکل یوم الفطر قبل الخروج، روایت نمبر953)

صحابہ کرامؓ آپؐ کی اس سنت کو بھی زندہ رکھے ہوئے تھے۔ (مؤطا إمام مالك، كتاب العيدين، باب الأمر بالأكل قبل الغدو في العيد) وہ کہا کرتے تھے کہ (عیدالفطر پر) ہمیں کچھ کھا کر جانا چاہیے تاکہ اس نماز میں (وقت کے متعلق) جلدبازی نہ کرلیں۔

(مسند احمد بن حنبل، مسند عبد اللہ بن العباس، جزءاوّل صفحہ313)

عیدالاضحی کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق یہ تھا کہ آپؐ نمازِ عید اور خطبہ عید سے فارغ ہوکر قربانی کے گوشت سے ناشتہ فرمایا کرتے تھے۔ (سنن الدارمی، ابواب العیدین، باب فی الأکل قبل الخروج یوم العید) لیکن ایک اور روایات میں قربانی کے گوشت سے کھانے کا ذکر نہیں، صرف یہ ذکر ہے کہ نمازِ عید سے فارغ ہوکر کھانا کھاتے تھے۔ (سنن الترمذي، أبواب العيدين، باب في الأكل يوم الفطر قبل الخروج) جہاں آپؐ کی یہ سنت قابلِ تقلید ہے وہیں بيمار، مجبور اور مضطر کے لیے نماز پر جانے سے قبل کچھ کھاکر جانے کی رخصت بھی بعض صحابہؓ کے عمل میں موجود ہے۔

حضرت ابو بردہ بن نیارؓ نے عید الاضحی کے ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کیا کہ وہ، ان کے اہل وعیال اور ان کے ہمسائے نمازِ عید پر آنے سے قبل کھانا کھا چکے ہیں۔ آنحضورﷺ نے انہیں نمازِ عید سے قبل ذبح کرنے سے تو منع فرمایا لیکن اس کھانا کھانے کے عمل پر نہ تو انہیں کوئی تنبیہ فرمائی اور نہ ہی آپؐ نے صحابہ کو آئندہ نماز سے قبل کھانا کھانے سے منع فرمایا۔

(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب الأکل یوم النحرروايت نمبر954، 955، باب كلام الامام والناس في خطبة العيد، روايت نمبر983و984)

نمازِ عید کا وقت

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم دونوں عیدوں کی نمازیں طلوعِ آفتاب کےبعد اوّل وقت میں ادا کیا کرتے تھے۔ عیدالاضحی نسبتاً جلدی اور عیدالفطر کچھ تاخیر سے پڑھا کرتے تھے۔ خلفائے راشدین کا تعامل بھی یہی تھا۔ بعد کے زمانہ میں جب کسی عید پر امام نے آنے میں تاخیر کردی تو اس موقع پر موجود صحابیٔ رسول حضرت عبداللہ بن بُسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم تو اس وقت فارغ بھی ہوجاتے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب نمازِ اشراق پڑھی جاتی ہے۔

(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب التبکیر الی العید)

نمازِ عید کے لیے جانا

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ پیدل چل کر جایا کرتے تھے اور آپؐ کے اسی عمل کو صحابۂ کرامؓ نے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا، سوائے کسی عذر يا مجبوری کے وہ بھی پیدل جانے کو پسند فرمایا کرتے تھے۔ (ترمذي، ابواب العيدين، باب في المشي يوم العيد) دراصل یہ امر تو ضرورت پر مبنی ہے۔ وہ صحابہ جو دُور کی مسافت طَے کر کے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھنے کی خواہش لے کر آتے تھے، اُن کا بروقت پہنچنا تو یقیناً سوار ہوکر آنے پر ہی منحصر ہے۔ امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ وہ سنت جو جاری ہے جس میں ہمارے نزدیک کچھ بھی اختلاف نہیں، یہ ہے کہ امام عید الفطر اور عید الاضحی کے لیے اُس وقت گھر سے نکلے کہ عیدگاہ تک پہنچتے پہنچتے نماز کا وقت ہوجائے۔

(موطأ امام مالك، كتاب العيدين، باب غدو الامام يوم العيد)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عموماً نمازِ عید کھلے میدان میں ہی ادا کیا کرتے تھے لیکن ایک موقع پر مسجد میں بھی آپؐ نے نمازِ عید پڑھی ہے۔

(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوٰۃ، باب ماجاء فی صلوٰۃ العیدفی المسجد)

اُس زمانہ میں چونکہ مساجد چھوٹی ہوتی تھیں اس لیے کھلے میدانوں میں نماز عید پڑھی جاتی تھی، لیکن اب چونکہ مساجد میں اس کا انتظام ہوتا ہے اس لیے مساجد میں پڑھی جاتی ہیں۔

نمازِ عید

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ دونوں بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمراور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ عیدیں پڑھی ہیں۔ یہ سب نمازِ عید خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔

(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب الخطبۃ بعد العید، روایت نمبر962) (مؤطا امام مالک، كتاب العيدين، باب الامر بالصلوٰۃ قبل الخطبۃ فی العیدین)

اسی طرح کتب احادیث میں متعدد صحابہ سے مروی ہے کہ عید کی نماز اذان اور اقامت کے بغیر پڑھنا سنت ہے۔ اس بارے میں امام مالکؒ کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک یہ سنتِ متواترہ ہے جس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے۔

(مؤطا امام مالک، كتاب العيدين)

دونوں عیدوں کی نماز ایک جیسی ہے۔ حضرت سعد بن عائذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں عیدوں کے موقع پر پہلی رکعت میں قراءت سے قبل سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قراءت سے قبل پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے۔

(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوٰۃ، باب ما جاء فی کم یکبر الامام فی صلوٰۃ العیدین، روایت نمبر1277)

بعض روایات میں تکبیرات کی تعداد مختلف بھی بیان ہوئی ہے لیکن کبار صحابہؓ حضرت عبد الله بن عمروؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عمرو بن عوفؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہنے کا ہی ذکر کیا ہے۔

(سنن الترمذی، ابواب العیدین، باب فی التکبیر فی العیدین)

(سنن ابی داؤد، کتاب العیدین، باب التکبیر فی العیدین)

ان تکبیرات میں سے ہر تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اُٹھانا اور کھلے چھوڑ دینا اور آخری تکبیر پر ہاتھ باندھ کر قراءت بالجہر کرنا سنت ہے۔

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریمﷺ دونوں عیدوں اور جمعہ کی نماز میں سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی اور ہَلۡ اَتٰٮکَ حَدِیۡثُ الۡغَاشِیَۃِ کی قراءت کیا کرتے تھے اور اگر کبھی عید اور جمعہ ایک ہی دن میں اکٹھے ہوجاتے تب بھی آپؐ انہی دونوں سورتوں کی تلاوت کیا کرتے تھے۔

(سنن الترمذی، ابواب العیدین، باب القراءۃ فی العیدین)

حضرت سمرہ بن جندبؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے بھی سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ ہی کا ذکر کیا ہے۔

(مسند احمد بن حنبل، حديث سمرة بن جندب، جزء5 صفحہ14)(سنن ابن ماجه، كتاب العيدين، باب ما جاء في القراءة في صلوٰة العيدين)

ایک روایت میںیہ بھی ذکر ملتا ہے کہ آنحضورﷺ نےسورۃ الفاتحہ کے بعد سورة ق اور سورۃ القمر کی تلاوت فرمائی۔

(صحیح مسلم، کتاب صلاۃ العیدین، باب مایقرأ بہ فی صلاۃ العیدین)

خطبہ عید

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر جب نماز سے فارغ ہوجاتے تو صحابہؓ صفوں ہی میں بیٹھے رہتے۔ آپؐ اُن کی طرف رُخ فرما کر کھڑے ہوجاتے اور خطبہ دیا کرتے تھے جس میں آپؐ وعظ ونصیحت فرماتے اور احکام دیا کرتے تھے۔ پھر اگر کسی مہم کو روانہ کرنا ہوتا تو اُسے روانہ فرماتے یا اگر کوئی اور ارشاد فرمانا ہوتا تو فرمایا کرتےتھے۔

(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب الخروج الی المصلى، روایت نمبر956)

جمعہ کی طرح آپؐ عید کے بھی دو خطبے دیا کرتے تھے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کھڑے ہوکر عید کا خطبہ دیا پھر آپؐ تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر(خطبہ ثانیہ کے لیے) کھڑے ہوگئے۔

(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوٰۃ، باب ما جاء فی الخطبۃ فی العیدین)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ذکر ہے کہ آنحضورﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا سہارا لیتے ہوئے کھڑے ہوکر خطبہ عید ارشاد فرمایا۔ آپؐ نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے اور اس کی اطاعت کرنے کی نصیحت فرمائی۔ پھر آپؐ عورتوں کے پاس گئے اور انہیں بھی وعظ ونصیحت فرمائی پھر آپؐ نے انہیں فرمایاکہ صدقہ دیا کرو۔ اس پر عورتیں اپنے زیورات اُتار اُتار کر صدقہ میں پیش کرنے لگیں۔

(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ العیدین)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ کو خیال ہوا تھا کہ آپؐ عورتوں تک آواز نہیں پہنچا سکے، لہٰذا آپؐ ان کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں نصائح فرمائیں اور وعظ کیا اور آپؐ نے انہیں صدقہ کا حکم دیا۔ حضرت بلالؓ اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے اور عورتیں اپنی انگوٹھیاں، چھلّے اور دیگر چیزیں اس میں ڈال رہی تھیں۔

(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ العیدین)

نمازِ عید اور خطبہ عید کی اہمیت

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلا کام جو ہم اپنے اس دن میں کرتے ہیں وہ یہ ہےکہ ہم نماز پڑھتے ہیں۔

(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب سنۃ العیدین لاھل الاسلام، روایت نمبر951)

لہٰذا عید کی نما زایک مستقل عبادت ہے جس کی ادائیگی کا حتی المقدور التزام کرنا چاہیے۔ آنحضورﷺ تو عورتوں کو بھی اس میں شمولیت کا تاکیداً ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ تمام صحابیاتؓ حتی ٰکہ بچے بھی خطبہ عید کے اس موقع پر لازماً حاضر ہوا کرتے تھے۔

حضرت اُمّ عطیہؓ بیان کرتی ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم بوڑھی عورتوں، پردہ نشين جوان عورتوں اور حیض والی عورتوں کو بھی عید کے لیے نکالا کریں۔ آپؐ نے فرمایا: حائضہ خواتین نماز کی جگہ سے الگ رہیں لیکن نیک کاموں اور مومنوں کی دعا میں وہ بھی شریک ہوا کریں۔ ایک عورت نے پوچھا: یارسول اللہ! اگر ہم میں سے کوئی اوڑھنی نہ ہونے کی وجہ سے عید پر نہ آئے تو کیا کوئی حرج ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اس کے ساتھ والی اپنی اوڑھنی دےدے۔یعنی جس کے پاس زائد ہوں وہ عاریۃً اسےدیدے۔

(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب خروج النساء والحیض الی المصلى، باب اذا لم يكن لها جلباب في العيد)

خادمِ رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ جنہوں نے عمر کے آخری حصے میں بصرہ کے قریب زاویہ نامی بستی میں سکونت اختیار کرلی ہوئی تھی، ان کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ جب وہ نمازِ عید کے لیے بصرہ نہ پہنچ پاتے تو اپنے بچوں اور خادموں کو اکٹھا کرتے اورانہیں نمازِ عید پڑھالیتے تھے۔ کبھی آپؓ اپنے آزادکردہ غلام عبد اللہ بن ابی عتبہ کو کہہ دیتے تو وہ دو رکعت نمازِ عید پڑھا دیتے تھے۔

(السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب صلوٰۃ العیدین، باب صلوٰۃ العیدین سنۃ أھل الاسلام حیث کانوا)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے شاگرد عکرمہ کہا کرتے تھے کہ بستیوں اور زمینوں میں رہنے والے عید کے موقع پر اکٹھے ہوکراسی طرح نمازِ عید ادا کرلیا کریں جس طرح امام کرتا ہے۔

(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب اذا فاتہ العید یصلی رکعتین)

موجودہ مشکل وبائی حالات میں جبکہ بڑے اجتماع کرنا ممکن نہیں، چھوٹے پیمانے پر اور گھروں اور خاندانوں کی صورت میں نمازِ عید باجماعت ادا کرنے میں صحابہ وتابعین کے یہ واقعات وروایات یقیناً مشعلِ راہ ہیں۔

عید اور جمعہ کا ایک ہی دن اکٹھے ہوجانا

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں ایک بار عید اور جمعہ ایک ہی دن میں اکٹھے ہوگئے تھے۔ آپؐ نے (خطبہ عید دیتے ہوئے)فرمایا: تمہارے اس دن میں دو عیدیں اکٹھی ہوگئی ہیں۔ پس جو چاہے تو اُس کے لیے عید کی نماز پڑھنا جمعہ کے لیے کافی ہوجائے گا اور ہم تو ان شاء اللہ جمعہ (بھی) پڑھیں گے۔ حضرت زید بن ارقم اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے بھی اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت میں ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا: جو جمعہ کے لیے آنا چاہے وہ آجائے اور جو پیچھے رہنا چاہے وہ رہ جائے۔

(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فیما اذا اجتمع العیدان فی یوم)

ابو عبیدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان بن عفانؓ کے ساتھ عید کی نماز ادا کی اور وہ جمعہ کا دن تھا۔ آپؓ نے پہلے نمازِ عید پڑھائی پھر خطبہ دیا اور فرمایا: لوگو!آج کے دن تمہارے لیے دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں (یعنی عید اور جمعہ)پس عوالی (یعنی مدینہ کی اطراف) میں سے آیا ہوا جو شخص پسند کرے جمعہ کا بھی انتظار کرلے اور جو واپس جانا چاہے تو وہ واپس جاسکتا ہے میں اسے اجازت دیتاہوں۔

(صحیح البخاری، کتاب الاضاحی، باب ما یؤکل من لحوم الأضاحی وما یتزود منھا، روایت نمبر5572)

عید الاضحی کے موقع پر قربانی

حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم اپنےاس دن میں پہلا کام جو کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم نماز (عید) پڑھتے ہیں پھر وہاں سے لوٹ کر قربانی کرتے ہیں۔ جس نے ایسا کیا اُس نے ہمارے طریقے کے مطابق عمل کیا اور جس نے (نمازِ عید) سے پہلے ذبح کرلیا تو وہ صرف گوشت ہی ہے جو اُس نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا ہے۔ اس کا قربانی سے کچھ تعلق نہیں۔

(صحیح البخاری، کتاب الاضاحی، باب سنۃ الأضحیۃ، روایت نمبر5545)

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا ہوں۔ (صحیح البخاری، کتاب الاضاحی، باب فی أضحیۃ النبیﷺ بکبشین) وہ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر کہا اور انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔

(صحیح البخاری، کتاب الاضاحی، باب التکبیر عند الذبح، روایت نمبر5565)

حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے کسی نے پوچھا کہ آنحضرتﷺ کے عہدِ مبارک میں قربانیاں کیسی ہوتی تھی؟ آپؓ نے فرمایا: ایک آدمی ایک بکری اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کیا کرتاتھا۔ وہ خود بھی اس میں سے کھاتے اور لوگوں کو بھی کھلایا کرتے تھے۔

(سنن الترمذی، ابواب الأضاحی، باب ما جاء ان الشاۃ الواحدۃ تجزی عن أھل بیت)

وہ دَور غربت اور تنگ دستی کا تھا اور قربانی کرنے میں بھی ایک دوسرے کا خیال رکھا جاتا تھا۔ حضرت سلمہ بن اکوَع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو تم میں سے قربانی کرے تو تین دن کے بعد صبح کو ایسی حالت میں نہ اٹھے کہ اس کے گھر میں اس قربانی کے گوشت سے کچھ باقی ہو۔ (یعنی اسے چاہیے کہ جمع کرنے اور محفوظ کرنے کی بجائے عزیز واقارب اور حاجت مندوں میں تقسیم کرکے تین دن میں ختم کردے۔ ) جب اگلا سال ہوا تو لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! کیا ہم اسی طرح کریں جس طرح گذشتہ سال کیا تھا؟ آپؐ نے فرمایا: (نہیں بلکہ) کھاؤ، کھلاؤ اور ذخیرہ بھی کرلو۔ کیونکہ اُس سال لوگوں کو بھوک کی سخت تکلیف تھی اس لیے میں نے چاہا تھا کہ تم اس قحط میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ چنانچہ اس اجازت کے بعد صحابہ قربانی کا گوشت (حج سے واپسی پر) بطور زادِ راہ مدینہ بھی لے آیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ قربانی کے گوشت میں سے کچھ گوشت ہم نمک لگا کر رکھ چھوڑتے تھے اور اسے مدینہ لے آتے تھے۔ لیکن بعض صحابہ نبی کریمﷺ کے پہلے حکم پر ہی پابند رہے اور وہ تین دن سے زیادہ گوشت کو رکھنا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بھی انہی میں سے تھے۔

(صحیح البخاری، کتاب الاضاحی، باب ما یؤکل من لحوم الأضاحی وما یتزود منھا)

نبی کریمﷺ اپنے صحابہ کا خاص خیال رکھا کرتے تھے۔ ذکر ملتا ہے کہ ایک موقع پر آپؐ کے پاس کچھ بکریاں تھیں تو آپؐ نے حضرت عقبہ بن عامرؓ کے ذریعہ بعض صحابہؓ میں ان بکریوں کو قربانی کے لیے تقسیم کروا دیا۔

(صحیح البخاری، کتاب الاضاحی، باب فی اضحیۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بکبشین، روایت نمبر5555)

حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ میں ہی اونٹ کی یا دوسرے جانور کی قربانی کیا کرتے تھے۔

(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب النحر والذبح یوم النحر بالمصلى)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عید الاضحی کے موقع پر میں نے نبیﷺ کو دیکھا۔ آپؐ خطبہ ختم کرکے منبر سے نیچے تشریف لائے۔ پھر آپؐ کے پاس ایک مینڈھا لایا گیا۔ آپؐ نے بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبرکہتے ہوئے اُسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور آپؐ نے کہا کہ یہ میری طرف سے میری اُمت کے اُن لوگوں کی طرف سے ہے جنہوں نے قربانی نہیں کی۔

(سنن الترمذی، ابواب الاضاحی، باب ما جاء ان الشاۃ الواحدۃتجزی عن أھل بیت)

قربانی کے گوشت کی تقسیم کے بارے میں جو مستحب طریق ہمیں ملتا ہے وہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی ایک حدیث میں مذکور ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک تہائی حصہ کھاؤ اور ایک تہائی حصہ جن (عزیزواقارب) کو کھلانا چاہو انہیں کھلاؤ اور ایک تہائی حصہ مساکین میں صدقہ کردو۔

(المغنی لابن قدامۃ، مَسْأَلَةٌ الِاسْتِحْبَابُ أَنْ يَأْكُلَ ثُلُثَ أُضْحِيَّته وَيُهْدِيَ ثُلُثَهَا وَيَتَصَدَّقَ بِثُلُثِهَا، جزء9صفحہ448)

نمازِ عید سے واپسی کا طریق

نمازِ عید پر جانے اور آنے کے لیے مختلف راستوں کا استعمال بھی سنتِ نبویﷺ ہے۔ اس کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملاقات ہوکر بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی اور مودّت والفت کا دائرہ وسیع تر ہوتا ہے اور جذباتِ اخوت فروغ پاتے ہیں۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کے لیے ایک راستہ سے جاتے اور کسی دوسرے راستہ سے واپس آیا کرتے تھے۔

(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب من خالف الطریق اذا رجع یوم العید، روایت نمبر986)

حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابورافع رضی اللہ عنہم نے بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ کا ذکر کیا ہے۔

(سنن الترمذی، ابواب العيدين، باب ماجاء في خروج النبيﷺ الی العیدفی طریق ورجوعہ من طریق آخر)

اسلام دقّت اور تکلیف میں مبتلا نہیں کرتا۔ صحابہ کرامؓ جہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حرکت وسکون کا تتبع کرتے تھے وہیں ان کا طرزِ حیات دین میں بلاوجہ کی شدت اور سختی سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔

حضرت بکر بن مبشر انصاری رضی اللہ عنہ جو قباء کے قریب سکونت پذیر تھے بیان کرتے ہیں کہ میں عید الفطر اور عید الاضحی کے دن دیگر صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح سویرے عیدگاہ آیا کرتا تھا۔ ہم وادیٔ بطحان میں سے گزر کر نماز کی جگہ پر پہنچتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھایا کرتے تھے۔ پھر واپس بھی ہم وادیٔ بطحان میں سے ہوکر ہی اپنے گھروں کو جایا کرتے تھے۔

(سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب اذا لم یخرج الامام للعیدمن یومہ)

باہم ملنا جلنا اور ایک دوسرے کو برکت کی دعادینا

عيد کے دن ایک دوسرے کو ملنے، مبارکباد کہنے اور دعائیں دینے کا رواج بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے عمل سے ہم تک پہنچا ہے۔

حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تو آپؐ نے فرمایا:

تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَمِنْكَ۔

یعنی اللہ تعالیٰ ہم سے بھی اور تم سے بھی قبول فرمائے۔

(السنن الكبرى للبيهقي، كتاب صلوٰة العيدين، باب ما روي في قول الناس يوم العيد بعضهم لبعض)

حضرت جبیر بن نفیرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ عید کے دن جب آپس میں ملا کرتے تو وہ ایک دوسرے کو بابرکت ہونے کی دعا دیتے ہوئے کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے بھی اور آپ سے بھی قبول فرمائے۔

(الجامع الصحیح للسنن والمسانید، التھنئۃ للعید)

غرباء اور مستحقین کے ساتھ عید کی خوشیاں بانٹنا

خدمتِ خلق اور بنی نوع انسان کے دکھوں کو دُور کرنا ہی تو عید کی حقیقت ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کے موقع پر صدقۃ الفطر ہر ایک پر واجب قرار دے کر اور عید الاضحی کے موقع پر قربانیوں کے گوشت میں غرباء کا حصہ مقرر فرما کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ محروم طبقات اور تکلیفوں اور تنگیوں میں مبتلا افراد کو عید کے موقع پر یاد رکھنا اور ان کو اپنی عید کی خوشیوں میں شامل کرنا بھی تمہاری ذمہ داری ہے۔ نیز آپؐ نے صدقۃ الفطر کو ایک نظام کے تحت اکٹھا کرکے منظم صورت میں تقسیم کرنے کا طریق سکھا کر، غرباء کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے ان کی مدد اور اعانت کرنے کا اسوہ قائم فرمایا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نمازِ عید سے فارغ ہوکر صدقۃ الفطر (یعنی فطرانہ) محتاجوں میں تقسیم فرما رہے تھے اور آپؐ فرماتے جاتےتھے کہ انہیں آج کے دن تو لوگوں کے آگے پیچھے پھرنے سے آزاد کردو۔

(الجامع لابن وھب، جزءاوّل صفحہ115)

تفریح، کھیل کود اور خوشی کی تقریبات

عید کے ایام تفریحات، کھیل کود اور خوشی منانے کے دِن ہیں۔ اچھی، مفید اور صحت مند کھیلوں کا انعقاد بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عیدوں کے موقع پر کیا کرتے تھے۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عید کے موقع پرمسجدِ نبوی میں اہل حبشہ ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیلتے ہوئے اپنی جنگی مہارت کا مظاہرہ کررہے تھے۔ آنحضورﷺ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر کے یہ کرتب دکھائے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضورﷺ کھیلنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی فرما تے رہے۔

(صحیح مسلم، کتاب صلوٰة العیدین، بَابُ الرُّخْصَةِ فِي اللَّعِبِ الَّذِي لَا مَعْصِيَةَ فِيهِ فِي أَيَّامِ الْعِيدِ)

پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ایک دفعہ عید کے دن انصار کی دو لڑکیاں میرے پاس بیٹھی دف بجاتے ہوئے جنگ بعاث کے نغمے سنا رہی تھیں کہ آنحضورﷺ تشریف لے آئے۔ آپؐ بسترپر دوسری طرف منہ کر کے لیٹ گئے اور انہیں منع نہیں فرمایا۔ کچھ دیر بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف آئے تو انہوں نے ان لڑکیوں کو گاتا دیکھ کر ڈانٹ دیا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ابوبکرؓ ! انہیں رہنے دو۔ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔

(صحیح مسلم، کتاب صلوٰة العیدین، بَابُ الرُّخْصَةِ فِي اللَّعِبِ الَّذِي لَا مَعْصِيَةَ فِيهِ فِي أَيَّامِ الْعِيدِ)

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھے اور صاف ستھرے گیت سننے سنانے کا شغف بھی صحابہ کرامؓ میں موجود تھا۔ یقیناً یہ گیت قوم میں شجاعت اور بہادری جیسی صفات کو اُبھارنے اور اُنہیں بیدار رکھنے کا باعث بنتے تھے۔

عید کے ایام میں نوافل اور ذکر الٰہی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ دن کھانے پینے اور ذکر الٰہی کے دن ہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب تحریم صوم أیام التشریق)لہٰذا روحانی کھانے یعنی ذکر الٰہی اور عبادات کا شغف بھی عید کے ایام کا ایک خاصا ہے۔

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے عیدین کی راتوں میں خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی چاہنے کےلیے کو قیام اللیلکیا تو جس دن دل مردہ ہوں گے اُس کا دل مردہ نہیں ہوگا۔

(سنن ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب فیمن قام فی لیلتی العیدین)

ایک روایت میں ہے کہ اہل مدینہ میں سے بزرگ اور بہترین لوگ عیدین کی راتوں میں مسجدِ نبوی میں رات کا ایک حصہ دعاؤں، ذکر الٰہی اور تكبيرات میں مشغول رہ کر گزارا کرتے تھے۔

(فضائل الاوقات للبيهقي، باب في فضل العيد)

عید کے موقع پر نوافل کی ادائیگی کے متعلق ایک احتیاط کی بھی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے لیے نکلے تو آپؐ نے نمازِ عید سے پہلے کوئی نفل نماز نہیں پڑھی اور نہ اس کے بعد۔

(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب الصلاۃ قبل العید وبعدھا)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت کعب بن عجرہؓ سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔ لہٰذا صحابہ کرامؓ مقامِ عید میں نوافل ادا نہیں کرتے تھے۔ ہاں جب واپس آجاتے تو پڑھا کرتے تھے۔

(مسند الشافعی، کتاب العیدین)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی عیدوں کو لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہکا اقرار کرنے، اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنےاور اُس کی حمد اور اس کی کبریائی کے ذکر سے مزیّن کیا کرو۔

(حلیۃ الاولیاء، جزء2صفحہ288)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو وہ حقیقی عید نصیب فرمائے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عید تھی۔ ایسی عید جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی عید تھی اور بنی نوع انسان کے دکھوں کو کم کرنے کی خوشیوں کی عید تھی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button