از افاضاتِ خلفائے احمدیتمتفرق مضامین

اصلی اور حقیقی عید

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں اصلی اور حقیقی عید

عید ہم سے کچھ مطالبات کرتی ہے جن پر پورا اترکر ہم حقیقی عید منانے والے بن سکتے ہیں ۔ زمانے کے امام حضرت اقدس مسیح موعودؑنے ہمیںحقیقی عید منانے کےطریق سکھائے ہیں۔آپؑ کے بعد آپؑ کے خلفائےکرام نے بھی افراد جماعت کو حقیقی عیدکے فیوض وبرکات کے حصول کی طرف توجہ دلائی ہے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے بھی اپنے خطبات عیدین میں ہمیں عید کی حقیقی خوشیاں حاصل کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے۔ذیل میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات میں سے چند اقتباسات پیش ہیں:

اللہ تعالی کی رضاحاصل کرنا ہی حقیقی عید اور کامیابی ہے

’’یاد رکھنا چاہیے کہ عید اصل میں خوشی کا نام ہے اور خوشی اس وقت ہوتی ہے جب انسان کسی کام میں کامیابی حاصل کرے۔ اگر کامیابی نہیں تو کون عقل مند ہے جو خوش ہو گا بلکہ الٹا ناکامی پر روئے گا۔ پس عید کو بھی ہمیں اسی طرح دیکھنا ہو گا۔ جب کوئی عید مناتا ہے تو اصل میں وہ اپنی کامیابی کا دعویٰ کر رہا ہوتا ہے۔ جب یہ کامیابی کا دعویٰ ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کیا حقیقت میں کامیابی ہے اور کیا اس کامیابی کی وجہ سے اسے حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ عید منائے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایک دن ہم عید کا مقرر کر کے اس دن ہم اچھے کپڑے پہن لیں، کھانا پینا اچھا کر لیں، ظاہری طور پر رونق لگالیں، شورشرابا کر لیں، دعوتیں کھا لیں اور کھلا دیں۔ان سب چیزوں میں ہم کچھ نہ کچھ خرچ کرتے ہیں۔یہ سارے کام مفت نہیں ہوتے۔ تو جس عید پر ہم صرف خرچ کرتے ہیں اور وہ ہمیں کچھ دے کر نہیں جاتی تو پھر وہ عید نہیں ہو سکتی۔ یا کچھ حاصل بھی کیا تو وقتی خوشی۔ عید تو وہ ہے جو ہمیں کچھ دے کر جائے اور وہ باطنی عید ہے۔ اندرونی عید ہے۔ دلی عید ہے۔ وہ عید ہے جو ہماری روح کو سیراب کرے، جو ہمیں کچھ دے۔ اور ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی دولت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے اور ہونا چاہیے اور یہی حقیقی عید ہے کیونکہ اس میں کامیابی نظر آ رہی ہے۔‘‘

(خطبہ عیدالفطر فرمودہ 24؍مئی 2020ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24؍نومبر2020ءصفحہ 6)

محبتِ الٰہی کی خاطر ہر کام کرنا حقیقی عید ہے

’’ایک تو اُس شخص کی عید ہے جس نے اپنے رب سے ملنے کی کوشش کی۔ اخلاص سے عبادت کی۔ محبتِ الٰہی کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خدمت کی۔دلی صفائی کے ساتھ خدا سے اور اس کے بندوں سے صلح کی۔ نمازیں پڑھیں ا ور صرف خدا کے لیے پڑھیں۔جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسی اسلامی تعلیم کی روشنی میں ہمیں نصیحت فرمائی ہے کہ عبادتیں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ہوں نہ کہ ذاتی اغراض کے لیے، نہ ہی دوسروں کو دکھانے کے لیے۔ روزے رکھے تو صرف خداتعالیٰ کی خاطر، دوسروں کو دکھانے کے لیے نہیں۔خدا تعالیٰ کے لیے رکھے جانے والے روزے جو ہیں ان کی جزا بھی اللہ تعالیٰ ہوتا ہے۔ ہر روزے کی جزا نہیں ہوتا۔ دکھاوے کے روزوں کی اللہ تعالیٰ جزا نہیں ہوتا۔ جس میں یہ خواہش ہو کہ لوگ کہیں گے کہ بڑا روزے دار ہے تو پھر تو وہ لوگوں کے لیے روزے ہوئے۔ ذکرِ الٰہی کیا ،تو محض خدا کے لیے کیا۔اس لیے نہیں کیا کہ لوگ کہیں کہ اس کے ہونٹ ہروقت ذکر الٰہی میں ہلتے رہتے ہیں۔ صدقہ و خیرات دیا تو صرف اس لیے دیا کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو، لوگوں پر احسان جتانے یا نیک نامی حاصل کرنے کے لیے نہیں۔ حج کیا تو محض حاجی کہلانے یا سیر کرنے کے لیے نہیں بلکہ محض اس لیے کہ خدا اس سے راضی ہو جائے…پس ایسے شخص نے خدا کو پا لیا اور اس کے خدا نے بھی اپنے گمشدہ بندے کو ڈھونڈ لیا اور جدائی اور فراق کی گھڑیاں کٹ گئیں۔دو بچھڑے ہوئے ملے۔عاشق اپنے معشوق کی صحبت میں بیٹھ گیا۔ ایسے بندوں کی آج بھی عید ہے اور کل بھی بلکہ ایسے بندے کی ہمیشہ عید ہوتی ہے۔‘‘

(خطبہ عیدالفطرفرمودہ 24؍مئی 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍نومبر2020صفحہ6تا7)

صرف ظاہری عید حقیقی عید نہیں بلکہ ماتم کی پیش خبری ہے

’’دوسری قسم کے لوگوں کی عید ہے جنہوں نے اپنی توفیق کے مطابق عمدہ کھانے بھی کھائے، اچھے کپڑے بھی پہنے، عطر اور خوشبو بھی لگائی، عید کے تحفے بھی دیے اور وصول بھی کیے۔ وہ خوش بھی ہیں کہ انہیں ظاہری طور پر عید مل گئی لیکن وہ عید ان سے اتنی ہی دور ہے جتنا مشرق مغرب سے دور ہے۔مگر باوجود اس کے وہ خوش ہیں اور باوجود اس کے وہ عید کی خوشیوں میں شامل ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے مثال دی ہے کہ ان کی خوشی بالکل اس بچے کی سی ہے جو نادانی سے ایک سانپ کو دیکھتا ہے ۔اور اس کی چمکیلی آنکھوں کو دیکھ کر اسے کھلونا سمجھتا ہے۔ تب وہ محبت اور پیار سے اسے پکڑ لیتا ہے۔ اگر سانپ نہ ہلے بعض دفعہ بچے پکڑ بھی لیتے ہیں اور سمجھتا ہے کہ مجھے بڑی اچھی چیز حاصل ہو گئی حالانکہ جس وقت وہ خوشی سے جھوم رہا ہوتا ہے جس وقت وہ مسرت اور انبساط سے اپنے جامے میں پھولا نہیں سماتا اس وقت سانپ کا زہر جو اسے ایک منٹ میں اس جہان سے اگلے جہان میں پہنچانے والا ہوتا ہے اس کے بدن میں سرایت کر رہا ہوتا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ تھوڑی دیر میں اس کی تمام خوشی جاتی رہے گی، اس کی تمام مسرتیں خاک میں مل جائیں گی اور وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ یہی مثال اس شخص کی ہوتی ہے جو خوش ہوتا ہے اور شاید اپنی نادانی میں ان خدا رسیدہ لوگوں سے بھی زیادہ خوش ہو جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر چکے ہوتے ہیں ۔مگر یہ نادانی اور غفلت کی جو خوشی ہے بےشک اس کے خیال میں یہ عید ہے لیکن ماتم کی پیش خبری ہے۔ افسوس ناک خبر کی پیش خبری ہے۔ پس جو خدا کو بھول کر، اس کے حقوق بھول کر اس کی مخلوق کے حقوق بھول کر صرف اپنی اور اپنے قریبیوں کی خوشی کر رہے ہوتے ہیں اور عید منا رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور ناپسندیدگی کو مول لے کر اپنی دنیا اور عاقبت خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ کچھ پاتے نہیں بلکہ کھوتے ہیں اور ایسے لوگوں کی عید حقیقی عید نہیں کہلا سکتی۔‘‘

(خطبہ عیدالفطرفرمودہ 24؍مئی 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍نومبر2020صفحہ7تا8)

خداتعالیٰ کے آگےشرمندہ اور نادم ہونے والا حقیقی عید سے محروم نہیں رہتا

’’لیکن ایک تیسری قسم بھی ہے۔ یہ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو ان دونوں سے بالکل مختلف ہیں، الگ قسم ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ ہم گناہ گار ہیں، ان کو احساس ہے، جو دل میں خیال کرتے ہیں کہ روزے تو رکھے لیکن روزوں کا حق ادا نہیں کیا۔دل میں ایک شرمندگی ہے۔ جو نمازیں بھی پڑھتے ہیں لیکن دل میں شرمندہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی شرطوں کے مطابق نماز نہیں ادا کر سکے۔ایسے لوگوں میں سے ہر ایک یہ سمجھتا ہےکہ آج بھی عید پر شاید ایک رسم اور لوگوں کو دکھانے کے لیے عمدہ لباس پہن کر مجلس میں آگیا ہوں اور عمدہ کھانا بھی کھا رہا ہوں مگر اس کا دل رو رہا ہوتا ہے، اس کا دماغ پریشان ہے۔ اس کی ایک نظر اپنے بھائیوں پر پڑتی ہے اور ایک نظر اپنے تاریک دل پر ڈالتا ہے۔ہر تَر لقمہ، ہر وہ لقمہ جس کو اپنے مزے میں کھانے کے لحاظ سے بھرپور لقمہ کہہ سکتے ہیں اسے جھنجھوڑتا ہے اور اس کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔اچھے سفید کپڑے تو پہنے ہوئے ہیں لیکن انہیں دیکھ کر اس کا دل روتا ہے۔ کہ کاش میرا اندرونہ بھی ایسا ہی صاف ہوتا۔اپنے بھائی پر نظر پڑے تو اپنی کمزوریاں اَور اُبھر کر سامنے آ جاتی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کو دیکھ کر جن کا اللہ تعالیٰ سے خاص قرب ہے اور سمجھتا ہے کہ میری حالت کی چوری پکڑی گئی۔شاید میرے گناہ اسے نظر آ گئے ہیں، شاید میرے نقائص اسے نظر آ گئے ہیں۔ ہر دفعہ جب اپنے بیوی بچوں اور دوستوں اور ہمسایوں پر نگاہ دوڑاتا ہے اور پھر اپنے نفس پر غور کرتا ہے تو شرمندہ ہو جاتا ہے اور ندامت سے اپنا سر جھکا لیتا ہے۔ظاہر میں تو مجلس میں شامل ہوتا ہے لیکن دل اپنے گناہوں کی وجہ سے ندامت اور شرمندگی سے پُر ہوتا ہے۔خیال کرتا ہے کہ شاید اس مجلس میں مَیں ہی ایسا ہوں جو حقیقی عید سے محروم ہے اور ضمیر ملامت کرتا ہے کہ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔ نہ اُن میں شامل ہوں جو غفلت اور نادانی سے عید منا رہے ہیں اور نہ ان میں شامل ہوں جو وصالِ الٰہی کی خوشی میں عید منا رہے ہیں۔ پھر سوچتا ہے کہ خدا تعالیٰ بڑا ستار ہے اگر میں ظاہر میں عید منا لوں تو کیا تعجب کہ خدا تعالیٰ مجھے باطن میں بھی عید منانے کی توفیق دے دے۔‘‘

(خطبہ عیدالفطرفرمودہ 24؍مئی 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍نومبر2020ءصفحہ8)

محمدﷺ کاتشریف لانا ہی سب سے بڑا اور حقیقی عیدکا دن ہے

’’پس اس نظر سے ہم دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ خوشی درحقیقت اجتماع کا نام ہے اور اس لحاظ سے عید اجتماع کا نام ہے اور سب سے بڑی عید وہی ہو سکتی ہے جس میں سب سے بڑا اجتماع ہو اور اس سب سے بڑے اجتماع کی بنیاد کب پڑی جس کی وجہ سے سب سے بڑی عید کا موقع پیدا ہوا ؟ وہ اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ کے ایک پیارے انسان نے تمام دنیا کو پکار کر کہا کہ

قُلْ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا۔(الاعراف:159)

کہ اے انسانو! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔

دنیا نے چھوٹی چھوٹی بہت سی عیدیں دیکھی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت بھی عید ہوئی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے وقت بھی عید ہو ئی۔حضرت مسیح اور تمام انبیاء کے وقت میں عیدیں ہوئیں لیکن یہ تمام عیدیں ان علاقوں میں ہوئیں جہاں یہ نبی پیدا ہوئے یا جس قوم میں مبعوث ہوئے۔ اس لیے یہ سب چھوٹی چھوٹی عیدیں ہیں مگر حضرت آدمؑ سے لے کر اگر دنیا میں کوئی بڑی عید ہوئی تو وہ وہی ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک انتہائی پیارے کو کہا کہ تم اپنے ذریعہ سے تمام جہان کو ایک جگہ جمع کرو۔پس یہی بڑی عید تھی جس میں خدا تعالیٰ نے اپنے خاص کلام کے ذریعہ تمام جہان کو ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا، اپنے محبوب کی معرفت یہ حکم دیا، تمام دنیا کو کہہ دیا کہ اس کے ہاتھ پر جمع ہو جاؤ۔ اس میں کسی قوم، کسی ملک، کسی علاقے کی شرط رکھی نہیں گئی۔ خواہ کوئی مصری ہو، چینی ہو، ایرانی ہو، عرب ہو، یورپین ہو، امریکن ہو، جزائر کا رہنے والا ہو، کوئی ہو سب جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ اب یہ نہیں کہا جائے گا کہ میں اپنے موتی سؤروں کے آگے نہیں ڈالتا اور نہ یہ کہا جائے گا کہ میں اپنی روٹی کتوں کے آگے نہیں پھینکتا۔ حضرت مسیحؑ کے آنے کے وقت بھی عید ہوئی تھی، مگر وہ عید صرف ان کی اپنی قوم کے لیے ہی تھی۔ اگر وہ غیروں کو کھانا کھلاتے تو پھر ان کی قوم کیا کھاتی، ان کی عید کس طرح ہوتی۔ اس لیے حضرت مسیحؑ نے کہا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اَور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ پس ان کا آنا صرف بنی اسرائیل کے لیے ہی عید تھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خدا تعالیٰ نے بھیجا تو ایسے خزانوں کے ساتھ بھیجا کہ جن میں چاہے جتنا بھی خرچ کیا جائے کوئی کمی نہیں آسکتی…پس آپؐ کو دوسرے انبیاء پر یہ فضیلتیں ہیں۔پہلے انبیاء کے پاس اگر کوئی غیر قوم کا سوالی آتا تو کہتے تھے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے صرف اپنی قوم کے لیے ہے ،تمہیں کچھ نہیں دے سکتے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خزانہ دیا گیا ہے اس کے بارے میں نہ صرف یہ کہا کہ دھتکارو نہیں بلکہ محتاجوں کو گھر گھر جا کر دینے کا حکم ہے۔پس آپؐ نے روحانی خزانے بھی گھر گھر بانٹے اور دنیاوی خزانے بھی گھر گھر بانٹے، بلکہ تاقیامت اس تقسیم کے لیے روحانی خزانے چھوڑ دئیے۔پس یقینا ًآپؐ کا آنا سب سے بڑی عید کا دن تھا ۔‘‘

( خطبہ عید الفطر فرمودہ 5؍جون 2019ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16؍جولائی 2019ءصفحہ14)

اصلی اور بڑی عید سب لوگوں کا ایک دین پر جمع ہوناہے

’’پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی یہ پیغام اور کام ہے جس کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے ہی طفیل جو یقیناً عرش سے ٹکرائیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شکل میں آپؐ کو ایک غلام صادق عطا فرمایا۔ چنانچہ اس غلام صادق کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے آقا و مطاعؐ کی اتباع میں یہ اعلان کرنے کا فرمایا کہ

قُلْ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا (الاعراف:159)

کہ مسیح موسویؑ نے تو مانگنے والوں کودھتکار دیا تھا ،لیکن مسیح محمدؐی کو اس غلامی کی وجہ سے وسیع دستر خوان عطا فرمایاجہاں کسی کو بیٹھنے سے دھتکارا نہیں گیا بلکہ بلا بلا کر کہا جا رہا ہے کہ اس دستر خوان سے کھاؤ۔ اس لیے ہر نئی روح جو اس دستر خوان پر بیٹھ کر ہم میں شامل ہوتی ہے، ہمارے لیے خوشی اور عید کا باعث ہوتی ہے۔یہ شریعت کے احکام پر جمع ہونے کی عید ہے اور جب سب لوگ عملی زندگی میں ایک دین پر جمع ہو جائیں گے تو اس کے نتیجہ میں جو عید ہو گی وہ اصل عید اور بڑی عید ہو گی اور اس عید کا کرنا اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے۔‘‘

(خطبہ عید الفطر فرمودہ5؍جون 2019ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16؍جولائی 2019ءصفحہ15)

حضرت مسیح موعود ؑکا پیغام جب ساری دُنیا میں پہنچے گا تو اُس وقت اصل عید ہوگئی

’’یہ عیدیں جو ہم منا رہے ہیں اس کے لیے ہم بڑی تیاریاں کرتے ہیں حسب توفیق کپڑوں سے لے کر کھانے پینے کے انتظامات تک سب کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سب خرچ ہم کوئی فائدہ اٹھانے کے لیے نہیں کرتے بلکہ ایک اجتماع کی خوشی میں کرتے ہیں۔یقیناً اس بات پر ہی خوشی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ خوشی کرو اور یہ بھی اللہ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے جس کے لیے کرتے ہیں لیکن ویسے کوئی مادی فائدہ تو ہمیں نہیں پہنچ رہا۔ہاں روحانی فائدہ پہنچ رہا ہے اور یقیناً پہنچتا ہے اگر ہم نیک نیتی سے اس عید کو اس لیے کریں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رمضان کے بعد عید مناؤ اور آج کے دن خوشی کرو اور کھاؤ پیو۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر سرور اور خوشی حاصل کرنے کے انتظام کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو تمام دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لیے رسول بھیجا ہے اس طرف ہم میں سے ہر ایک کی توجہ اس طرح نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔ اس رسول کے پیغام کو پھیلانے کے لیے ہماری کوشش وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے اس اجتماع کے بڑھانے میں ہم جتنا حصہ لے رہے ہوں گے، جتنی ہم تیاری کر رہے ہوں اور پھر اس لیے کوشش کریں کہ اس اجتماع کو ہم نے بڑھانا ہے جس کے لیے رسول بھیجا گیا تھا تو اس کا ثواب بھی خدا تعالیٰ ہمیں دے گا اور اس حقیقی عید پہ اس سے بہت زیادہ دے گا جو عید کی خوشیاں منانے سے دیتا ہے۔ گویا یہاں صرف خرچ نہیں کیا جا رہا بلکہ ہر قسم کا فائدہ بھی مل رہا ہے۔اللہ تعالیٰ کی رضا پہلے سے بڑھ کر مل رہی ہے۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ جڑ کر اس بڑی عید کے زمانے کا حصہ بننے والوں میں ہم شامل ہیں۔ مسیح موعود کا زمانہ وہ ہے جب اسلام کو تمام دینوں پر غلبہ حاصل ہو جائے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کی جماعت کے ذریعہ پھیلا کر سب دنیا کو ایک جگہ پر جمع کر دیا جائے گا۔اس وقت ان شاء اللہ ہماری اصل عید ہو گی۔ جب تک وہ عید نہیں ہے صرف ان عیدوں پر خوش نہیں ہو جانا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کا آپؑ نے ہم سے وعدہ بھی لیا ہوا ہے پس اس کے لیے ہمیں کوشش کی ضرورت ہے۔‘‘

(خطبہ عید الفطر فرمودہ5؍جون 2019ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16؍جولائی 2019ءصفحہ16)

رمضان میں کی گئی عبادات کو جاری رکھنا عید کا حقیقی مقصد ہے

’’آج عید کا دن ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے اور یاد کروانے والا ہونا چاہئے کہ جن نیکیوں کے مزے ہم نے ایک مہینے میں چکھے ان کو ہم نے جاری رکھنا ہے۔ان باتوں جن کی طرف عموماً ہماری رمضان کے مہینے میں توجہ رہتی ہے، ان میں عبادتیں بھی ہیں اور صدقات اور مالی قربانیاں اور حقوق العباد کا خیال رکھنا بھی ہے یہ باتیں اب اجتماعی طور پر ایک خاص ماحول کے تحت کرنے کا عرصہ تو ختم ہو گیا لیکن ایک مومن کی حقیقی ذمہ داری اور مقام یہی ہے کہ نیکیوں کو نہ صرف جاری رکھے بلکہ ان میں بڑھے۔پس کل سے اس سال کے فرض روزوں کے دن تو ختم ہو گئے جن میں ہم نے بہت سی نفلی عبادتیں بھی کیں لیکن جن دوسری عبادتوں اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ ہوئی اسے ہمیں جاری رکھنا چاہئے۔ نوافل کی طرف توجہ ہوئی تو اسے جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ نمازوں کی باقاعدگی کی طرف توجہ ہوئی تو اسے جاری رکھنا ہے۔ اپنے نفس پر کنٹرول کی ٹریننگ ہوئی تو اس پر قائم رہنے کی کوشش ہم نے کرنی ہے۔ ہمدردیٔ خلق کے جذبے کی طرف توجہ ہوئی تو اس پر اپنے آپ کو قائم رکھنا ہے۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ نماز باقاعدگی سے پڑھیں لیکن اگر وہ اپنے نفس کو ٹٹولیں تو یہ ان کے نفس کا دھوکہ ہے، وہ کوشش کرتے ہی نہیں۔ نماز کی ادائیگی کی ذمہ داری کو سمجھتے ہی نہیں۔اگر سمجھتے ہوں تو کبھی کوشش ناکام ہو ہی نہیں سکتی۔آخر رمضان کے مہینے میں عموماً بہتر صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان دنوں میں حقیقی کوشش ہوتی ہے…اور یہی عید کا حقیقی مقصد ہے۔ اگر یہ نہیں تو آج خاص طور پر تیار ہونا، اچھے کھانے کھانا اور دوستوں کو ملنا اور دوسرے پروگرام بنانا یہ تو بے مقصد ہے۔اصل روح تو آج کی خوشیوں کے پیچھے یہ ہے کہ ایک مہینہ خاص طور پر اپنی تربیت کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے حکم سے بعض جائز کاموں سے رکے اور خوشی سے اور قربانی کرتے ہوئے رکے۔آج ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں سے ہی اس کی خوشی منا رہے ہیں کہ یہ ہم نے مہینہ گزارا لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی عہد کرتے ہیں کہ اس مہینے کی تربیت کی وجہ سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف ہم آئندہ بھی توجہ دیتے رہیں گے۔‘‘

(خطبہ عید الفطر فرمودہ 16؍جون 2018ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 4؍جنوری2019ءصفحہ 1اور15)

عید کے موقع پرہمدردیٔ خلق اور حقوق العباد کی ادائیگی ہی اصلی عیدہے

’’میں آج ہمدردیٔ خلق اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر اس عید کے حوالے سے توجہ دلانی چاہتا ہوں۔اللہ تعالیٰ کے بندوں کا حق ادا کرنا بھی ایک عبادت ہے اور عبادت کے زمرے میں ہی آ جاتا ہے اور اس بات کا ادراک ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑا واضح کر کے دیا۔پس آج ہم عید منا رہے ہیں۔خاص طور پر ان ترقی یافتہ ملکوں میں رہنے والے احمدی اور اچھے حالات میں رہنے والے احمدی اس بات کا خیال رکھیں کہ دنیا میں بیشمار لوگ بہت برے حالات میں رہ رہے ہیں یہاں تک کہ ایک اندازے کے مطابق آٹھ سو پندرہ ملین لوگ بھوکے رہتے ہیں، ان کو کھانا نہیں ملتا۔ روزانہ ہر نو میں سے ایک شخص بھوکا سوتا ہے، بغیر کھانا کھائے سارا دن فاقے سے سوتا ہے۔ ہر تیسرا شخص خاص طور پر بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں یا مناسب غذا نہیں مل رہی۔بلکہ یہ اعداد و شمار جو دئے جاتے ہیں میرے خیال میں صحیح نہیں ہیں اس سے بہت زیادہ لوگ بھوک کا شکار ہیں اور اب یہ عراق اور شام اور یمن لیبیا وغیرہ میں جنگ کی وجہ سے کئی لوگ خاص طور پر بچے خوراک اور علاج سے محروم ہیں اور یہ تعداد وہاں بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایک تصویر چل رہی تھی جس پر یہ لکھا ہوا تھا کہ ایک ڈاکٹر کسی بچے کو روٹی دے رہا ہے اور وہ بچہ ڈاکٹر کو کہہ رہا ہے کہ کیا کوئی ایسی دوائی تمہارے پاس ہے جس سے مجھے کبھی بھوک محسوس نہ ہو اور ڈاکٹر اس بچے کی یہ بات سن کر رو پڑا۔ تو یہ تصویر صحیح ہے یا غلط لیکن یہ حقیقت ہے کہ بھوک سے دنیا میں بچوں کا یہ حال ہے۔ لیکن جنگ کے جنونیوں کو اس کا کوئی خیال نہیں کہ بچوں کا کیا حال ہورہا ہے۔بچے اپنے ماں باپ سے محروم کئے جا رہے ہیں اور نہ صرف محروم کئے جارہے ہیں بلکہ اس وجہ سے پھر فاقوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔تو بہرحال ان حالات میں ہم پیٹ بھر کر کھانے والوں اور آج عید کے دن اچھا کھانے والوں کو یہ احساس بڑھ کر پیدا ہونا چاہئے کہ ہم ان لوگوں کا بھی خیال رکھیں۔‘‘

(خطبہ عید الفطر فرمودہ16؍جون2018ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 4؍جنوری 2019ءصفحہ 15)

بچوں میں عیدی کی رقم غریب بچوں پر خرچ کرنےکی عادت ڈالیں

’’پس جماعت کا ایک حصہ مالی لحاظ سے بھی اور افرادی قوت کے لحاظ سے بھی رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر کے یہ کام کرتا ہے۔ دوسروں کو بھی چاہئے، بہت سے ایسے ہیں جو اس کار خیر میں حصہ نہیں لیتے ان کو بھی چاہئے کہ جیسا کہ میں نے کہا اپنی خوشی کے موقع پر نیک کاموں میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے حصہ لیں اور حقیقت میں اس سے جو خوشی آپ کو اس کی عادت پڑ جانے کے بعد ہو گی وہ ان عارضی خوشیوں سے کہیں زیادہ ہو گی۔اسی طرح اپنے بچوں میں بھی یہ عادت ڈالیں کہ جو اُن کے بڑے انہیں عید کے روز عیدی دیتے ہیں اس میں سے کچھ نہ کچھ دنیا کے غریب بچوں کے لئے بھی دیں۔یہ ابھی سے بچوں کو عادت ڈالیں گے تو یہ عادت مستقبل میں ان کو جہاں خدمت خلق اور خرچ کرنے والا بنائے گی، لوگوں سے ہمدردی کرنے والا بنائے گی وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل کا حامل بناتے ہوئے ان کی زندگی کی مشکلات میں ان مشکلات سے بچانے والا بھی بنائے گی۔ نیکیوں پر قائم رہنے والے ہوں گے۔پس یہ جاگ اگلی نسلوں میں بھی لگتی چلی جانی چاہئے اور یہی عید کی حقیقی خوشیاں ہیں۔‘‘

(خطبہ عید الفطر فرمودہ 16؍ جون 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 4؍جنوری 2019ء صفحہ 15)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button