حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (2) (قسط 11)

خدا تعالیٰ کی بعض صفات جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں

یہاں یہ نہایت عجیب نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی بعض صفات جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جس طرح مردوعورت کے ملنے سے بچہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح ان دو صفات کے ملنے سے نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً خبردار رہنا اور ادنیٰ سے ادنیٰ تغیر کو بھی غائب نہ ہونے دینا یہ لطیف ہستی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ یعنی ایسی ہستی جو موجودات کے ہر ذرہ سے ایک کامل اتصال رکھتی ہو۔ اور ایسے اتصال کے لئے لطیف ہونا شرط ہے۔ پس خَبِیْرکی صفت لَطِیْف کیلئے بمنزلہ جوڑے کے ہے۔ اور اس کے ذریعہ سے اس کا بھی ظہور ہوتا ہے۔ یا ان دونوں کا آپس میں روح اور جسم کا تعلق ہے کہ ایک نہ ہو تو دوسری صفت بھی ثابت نہیں ہوتی اور دوسری نہ ہو تو پہلی ثابت نہیں ہوتی۔ اگر خَبِیْرکی صفت

وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَار

سے ثابت نہ ہوتی تو

لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ

بھی ثابت نہ ہوتا بلکہ عدم ثابت ہوتا۔ اس کے مقابلہ میں اگر

لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ

ثابت نہ ہوتا یعنی اس کا لَطِیْف ہونا تو خَبِیْرکی صفت بھی نہیں رہ سکتی تھی۔ کیونکہ جو وجود کامل اتصال نہیں رکھتا وہ خَبِیْر بھی نہیں ہو سکتا۔ غرض لَطِیْف ہستی وہ ہوتی ہے جو باریک در باریک اور ہر ذرّہ میں موجود ہو۔ اور جو ایسی لَطِیْف ہو وہ نظر کبھی نہیں آ سکتی، ضرور ہے کہ وہ مخفی ہو۔

پھر لَطِیْف ہونا خَبِیْر ہونے کا بھی ثبوت ہے۔ کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ایک ہستی ہے جو لَطِیْف ہونے کی وجہ سے ہر ذرہ سے تعلق رکھتی ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ خَبِیْر ہے۔ غرض خدا تعالیٰ کی صفت لَطِیْف اس کے خَبِیْر ہونے پر شاہد ہے۔ اور خَبِیْر ہونے کی صفت اس کے لَطِیْف ہونے کی شہادت دے رہی ہے۔

خدا تعالیٰ کی صفت رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ کا مادی ثبوت

ایک اور صفت خدا تعالیٰ کا رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَہونا ہے اس کے روحانی اور جسمانی دو ثبوت پیش کئے گئے ہیں۔ جسمانی ثبوت تو یہ دیا کہ فرمایا۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ قَرَارًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً وَّ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ ۚۖ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔(المومن : 65)

یعنی زمین اور آسمان اور انسان اور اس کی طاقتیں (یعنی ترقی کی قابلیتیں جن سے وہ زمین و آسمان پر حکومت کرتا ہے اور جو رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ پر جو ترقیات کا سرچشمہ ہے شاہد ہیں)۔ اور اَغْذِیہ وغیرہ جو ان طاقتوں کو قائم رکھتی ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے

رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ

ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

اس سال جب میں کشمیر گیا تو وہاں ایک ایم۔ اے مجھے ملنے کیلئے آئے۔ اور کہنے لگے میں خدا کو تو نہیں مانتا لیکن اگر کوئی خدا ہے تو اس نے ہمیں دنیا میں پیدا کر کے خواہ مخواہ مصیبت میں ڈال دیا۔ ہم نے کب اس سے کہا تھا کہ ہمیں پیدا کر کے دنیا میں بھیج دو؟ میں نے کہا۔ اگر دنیا کی زندگی مصیبت ہے اور آپ اس مصیبت سے نکلتا چاہتے ہیں تو یہ کونسی مشکل بات ہے۔ زہر کھالو اور مر جائو۔ کہنے لگے یہ بھی تو نہیں ہو سکتا مرنے کو دل نہیں چاہتا۔ میں نے کہا۔ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ آپ دنیا کی زندگی کو اچھا سمجھتے ہیں اور صرف منہ سے اس کی برائی بیان کرتے ہیں۔

غرض اللہ تعالیٰ نے زمین کو انسانوں کے لئے قرار کی جگہ بنایا ہے۔ ہندو کہتے ہیں۔ دنیا مصیبت کی جگہ ہے مگر جب بیمار ہوں تو ڈاکٹروں کو سب سے زیادہ فیس وہی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے منہ سے جتنا چاہو کہو کہ دنیا مصیبت کی جگہ ہے لیکن یہاں سے تم ہلنا نہیں چاہتے۔ کیونکہ خدا نے تمہارے لئے اس زمین کو قرار گاہ قرار دیا ہے۔

پھر

وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً

آسمان بھی تمہاری حفاظت کا موجب ہے۔ جو چیزیں زمین کے ذریعہ پوری نہ ہو سکتی تھیں ان کو ہم تمہارے لئے آسمان سے نازل کرتے ہیں۔ کیونکہ آسمان بناء کا موجب ہے۔

وَّ صَوَّرَکُمۡ

پھر اس خدا نے تمہیں شکل دی۔ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ اور بڑی اعلیٰ درجہ کی اور مکمل قابلیتوں والی شکل بنائی۔

وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ

اور تمہارے لئے نہایت اعلیٰ درجہ کی چیزیں پیدا کی ہیں۔ اگر چیزیں خراب ہوتیں تو تمہاری قابلیتیں بھی اعلیٰ درجہ کی نہ ہوتیں۔ مگر ان قابلیتوں کو خرابی سے بچانے کے لئے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے رزق طیب پیدا کیا۔

فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔

پس اے لوگو! یہ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ہے۔ اگر وہ

رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ

نہ ہوتا اور سورج کوئی اور پیدا کرتا اور زمین کوئی اور پیدا کرتا تو سورج اور زمین کا آپس میں کوئی تعلق نہ ہوتا۔ مگر اب دیکھو سورج زمین کی حفاظت کر رہا ہے اور زمین سورج کی۔ یہ سب باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ ایک ہی خدا ہے جس نے یہ سب کچھ پیدا کیا اور وہی رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ

ہے۔

صَوَّرَکُمۡ

میں یہ بھی بتایا ہے کہ بندہ ایسا بنایا گیا ہے کہ باقی سب مخلوق پر حکومت کرتا ہے۔ یہ جسمانی ثبوت ہے خدا تعالیٰ کے

رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ

ہونے کا۔

خدا تعالیٰ کے رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ہونے کا روحانی ثبوت

روحانی ثبوت سورۃ شعراء میں اس طرح دیا کہ بہت سے نبیوں کا ذکر کرتے ہوئے جو مختلف اقوام کی طرف آئے تھے فرمایا

وَ اِنَّہٗ لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ۔ عَلٰی قَلۡبِکَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ۔ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیۡنٍ۔ وَ اِنَّہٗ لَفِیۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِیۡنَ(الشعراء 193تا197)

یعنی یہ قرآن

رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ

خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے اور اس کا روحانی ثبوت یہ ہے کہ یہ کلام سب دنیا کو مخاطب کر کے نازل ہوا ہے۔ جب کہ پہلے کلام صرف مختص القوم اور مختص الزمان تھے اور جب کہ وہ کلام صرف اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے ثبوت تھے۔ یہ کلام ربوبیت عالمین کا ثبوت ہے۔

غرض یہ قرآن کسی ایک قوم کی طرف نہیں آیا کیونکہ اسے خدا تعالیٰ کی

رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ

کی صفت کے ماتحت نازل کیا گیا ہے اور تمام دنیا اس کی مخاطب ہے۔ پھر اس کلام کو روح الامین لے کر نازل ہوا ہے۔ یعنی پہلے نبیوں کے کلام میں خرابیاں آگئی تھیں کیونکہ بندوں نے ان کی حفاظت نہ کی۔ پس خدا تعالیٰ نے اس روح کے ذریعہ سے جو امین ہے۔ محفوظ طور پر وہ پہلے کلام آپ پر نازل کئے ہیں۔ اور چونکہ کلام کے پہنچانے کے لئے اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے تا کہ پہنچانے میں کوئی نقص نہ رہ جائے اس لئے یہ کلام تیرے دل پر نازل کیا گیا ہے۔

غرض بائیبل اور وید وغیرہ کتابیں سب خراب ہو چکی تھیں۔ مگر خدا تعالیٰ کے پاس اصلی تعلیم محفوظ تھی۔ چنانچہ اس نے روح الامین کے ذریعہ اس کلام کو تیرے دل پر نازل کیا تاکہ لوگوں کا جرأت کے ساتھ مقابلہ کر سکے یہ کلام عربی زبان میں ہے جو تمام مضامین کو کھول کر بیان کرنے والی ہے۔ اور اس کے

رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ

کی طرف سے ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ یہ کلام پہلی کتب میں بھی موجود ہے۔ اس رنگ میں بھی کہ ان کے اصول اس میں پائے جاتے ہیں اور اس رنگ میں بھی کہ ان سب کو اکٹھا کر کے اس میں بیان کر دیا گیا ہے۔ گویا اس میں تمام غیر مسلم اقوام کی ذہنیت کا خیال رکھا گیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ

رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ

کی طرف سے ہے۔ اگر یہ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَکی طرف سے نہ ہوتا تو یہ ساری دنیا کی فکر کیوں کرتا۔

پہلی کتب میں قرآن کریم کی موجودگی کے معنی

مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ قرآن کریم کی ساری تعلیم وہی ہے جو پہلی کتابوں میں تھی۔ بلکہ یہ ہیں کہ پہلی کتابوں کی صحیح تعلیم قرآن کریم میں موجود ہے اور اس سے زائد بھی ہے۔ پھر پہلی کتب میں اس کلام کی موجودگی سے یہ بھی مراد ہے کہ ان میں ایک کتاب کی پیشگوئی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح تمام صفات الٰہیہ کا قرآن کریم میں مبسوط بیان ہے۔ مگر اور کتابوں میں اس طرح ذکر نہیں ہے۔ انجیل میں صرف پانچ سات صفات کا ذکر آتا ہے۔ تورات میں نسبتاً زیادہ صفات کا ذکر ہے مگر قرآن نے جتنی صفات پیش کی ہیں اتنی تورات نے بھی پیش نہیں کیں۔ پھر پہلی کتابیں ان صفات کو بطور دلیل پیش نہیں کرتیں بلکہ صرف دعائوں میں ان کا ذکر آ جاتا ہے۔ حالانکہ ضروری ہے کہ صفات الٰہیہ کا نہ صرف بالاستیعاب ذکر ہو بلکہ ان کے الگ الگ کام اور ان کے ثبوت بھی دیئے جائیں مگر یہ کام صرف قرآن کریم نے کیا ہے۔

صفات الٰہیہ کی تشریح بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونی چاہئے

پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف صفات کے نام بھی کافی نہیں جب تک ان کے صحیح معنی بھی بیان نہ کئے جائیں۔ کیونکہ خالی نام صرف شدت محبت کے اظہار کے لئے بھی جمع کئے جا سکتے ہیں جب کہ ان ناموں کے لینے والا ان کی حقیقت سے کچھ بھی واقف نہ ہو۔ جیسے پیار کے وقت انسان بہت سے نام لے لیتا ہے لیکن ان کی حقیقت کا اسے علم نہیں ہوتا۔ پس صرف کسی صفت کا ذکر کر دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ ایک صفت کا ذکر ہو اور پھر اس کی تشریح اور توضیح بھی خداتعالیٰ ہی کے الفاظ میں ہو۔ جیسے گورنمنٹ ایک قانون بناتی ہے تو ساتھ ہی بعض الفاظ کی تشریح بھی کر دیتی ہے کہ فلاں لفظ کے یہ معنی ہیں تا کہ اس میں اختلاف نہ شروع ہو جائے۔ اسی طرح خدائی کلام کا یہ بھی کام ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات بیان کرے اور خود ہی ان کی تشریح کرے۔ چنانچہ دیکھ لو رَحْمٰن کا لفظ عربوں میں موجود تھا۔ اور وہ اسے استعمال کرتے تھے۔ قرآن کریم میں بھی آتا ہے

وَ قَالُوۡا لَوۡ شَآءَ الرَّحۡمٰنُ مَا عَبَدۡنٰہُمۡ(الزخرف :21)

یعنی وہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر رَحْمٰنخدا چاہتا تو ہم اس کے سوا دوسرے معبودوں کی پرستش نہ کرتے۔ خود مسیلمہ کذّاب بھی رحمٰن یمامہ کہلاتا تھا۔ لیکن جب رَحْمٰن کے معنوں کو قرآن کریم نے بیان کیا تو وہ حیران رہ گئے۔ اور چونکہ ان معنوں کے رو سے ان کے مذہب پر زد پڑتی تھی صاف کہہ اٹھے کہ ہم نہیں جانتے رَحْمٰنکیا ہوتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اسۡجُدُوۡا لِلرَّحۡمٰنِ قَالُوۡا وَ مَا الرَّحۡمٰنُ ٭ اَنَسۡجُدُ لِمَا تَاۡمُرُنَا وَ زَادَہُمۡ نُفُوۡرًا (الفرقان:61)

جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رَحْمٰنکی عبادت کرو۔ تو وہ کہتے ہیں رَحْمٰنکون ہے۔ کیا ہم اس کے آگے سجدہ کریں جس کے آگے سجدہ کرنے کا تو حکم دیتا ہے۔ اور یہ بات ان کو نفرت میں اور بڑھا دیتی ہے۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ یہی کہ وہ رَحْمٰنکے اَور معنی کرتے تھے۔ چنانچہ آگے اللہ تعالیٰ نے اس کے معنی بھی کر دیئے اور بتا دیا کہ ان معنوں میں ہم رَحْمٰنکا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اور ان معنوں سے رد کرتے ہیں۔ فرماتا ہے۔

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ جَعَلَ فِیۡہَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیۡرًا۔وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ خِلۡفَۃً لِّمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّذَّکَّرَ اَوۡ اَرَادَ شُکُوۡرًا (الفرقان :62-63)

یعنی رَحْمٰنتو وہ ہے جس نے آسمانوں میں بروج بنائے اور ان میں چمکتا ہوا سورج اور نور دینے والا چاند بنایا۔ اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا۔ مگر ان کے لئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہیں یا شکر گذار بندے بننا چاہیں۔ یہاں رَحْمٰنکی تشریح کر دی۔ اور مطلب بیان کر دیا کہ رَحْمٰنسے مراد خدا تعالیٰ کی وہ صفت ہے جو انسان کے عمل سے بھی پہلے اس کے لئے کام شروع کر دیتی ہے۔ چنانچہ بتایا۔ دیکھو ہم نے چاند اور سورج کو انسان کے پیدا ہونے سے پہلے بنایا۔ اور پھر اس کی ضرورت بھی بیان کر دی۔ اور وہ یہ کہ انسان کو عمل کرنے کے لئے اسباب کی ضرورت ہے۔ اگر اسباب نہ ہوں تو وہ عمل کس طرح کر سکے۔ مثلاً بڑھئی ہو لیکن لکڑی نہ ہو تو وہ کیا کر سکتا ہے۔ پس ضروری تھا کہ انسان پر اس کے اعمال شروع کرنے سے قبل انعام ہوتا۔ اور انعام کے طور پر اس کے لئے اسباب مہیا کئے جاتے تا کہ وہ عمل کر سکتا۔ پس یہ کہنا غلط ہے کہ دنیا کی ہر چیز انسان کے عمل کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے۔ کیونکہ عمل ہو ہی نہیں سکتا جب تک پہلے کچھ انعام نہ ہو۔ پھر یہ وجہ بتائی کہ رحمانیت کی ضرورت انسان کے شکور بننے کے لئے ہے۔ شکور کے لئے عمل کی شرط ہے۔ اور عمل بغیر رحمانیت کے نہیں ہو سکتا۔ اگر اس کی یہ صفت نہ ہوتی اور وہ بلامُزد انعام نہ کرتا تو انسان اپنے پیدا کرنے والے کا شکر بھی ادا نہ کر سکتا اور ایک بلا عمل ہستی رہ جاتا۔

شُکُوۡر کے لفظ میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے کے لئے قلب میں شکریہ کے احساسات کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ اور یہ احساسات بغیر رحمانیت کی صفت کے پیدا نہیں ہو سکتے۔

اسی طرح اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ رحمانیت کے بغیر وہ اعلیٰ محرک عمل جو بے نفسی کا موجب ہوتا ہے پیدا نہ ہو سکتا۔ کیونکہ سب کچھ نتیجہ عمل میں ملتا تو ہر عمل لالچ کی وجہ سے ہوتا۔ مگر چونکہ احسان موجود ہے اور خدا تعالیٰ نے ہر انسان پر اس کے عمل کرنے کے قابل بننے سے پہلے نعمتیں نازل کی ہیں۔ اس لئے اعلیٰ انسان اپنے اعمال کو طلب صلہ کی بجائے شکر ماضی کے ماتحت لے آتا ہے۔ اور وہ خدا تعالیٰ کی شکر گذاری کرتا اور اس کے احکام بجا لاتا ہے۔ نہ اس لئے کہ اب اسے کچھ ملے بلکہ اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کے پہلے احسانات کا شکر ادا کرے۔ اس طرح مومن کے دل میں لالچ اور طمع کو نکال دیا اور محض خدا تعالیٰ کی شکر گذاری کا جذبہ اس میں پیدا کیا۔

غرض تکمیل صفات اور دلائل صرف قرآن کریم نے دیئے ہیں۔ باقی کتب صرف دعا میں بطور ایک ٹونے کے خدا تعالیٰ کے اسماء کو استعمال کرتی ہیں اور وہ ذرہ بھر بھی متشابہ صفات کے فرق اور ان کے دلائل پر روشنی نہیں ڈالتیں۔

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button