حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

معاشرے میں مرد و عورت کا کردار

زندگی کے ساتھی اور اولاد کے حق میں دعائیں

کامیاب عائلی زندگی گزارنے کےلیے دعاؤں کی اہمیت کے حوالے سے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’جب مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں گے تو آئندہ آنے والی نسلیں بھی ماں باپ کے نیک نمونے دیکھ کر ماں باپ کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کی کوشش کریں گی اور جب خدا تعالیٰ کے حضور مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے اور اپنے بچوں کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کی دعا کر رہے ہوں گے اور نسل میں سے متقی پیدا ہونے کی دعا کر رہے ہوں گے کہ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا نیک نسل کی دعا ہی ہے۔ کیونکہ ایک گھرانے کا سربراہ ہی اپنے گھر کا امام ہے۔ جویہ کہتا ہے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا تواس کا مطلب ہے کہ میری نسل میں سے نیک لوگ ہی پیدا کر۔ پس جب مرد یہ دعا مانگ رہا ہو گاتو وہ اپنی بیوی اور بچوں کے متقی ہونے کی دعا مانگ رہا ہو گا۔ جب عورت دعا مانگ رہی ہوگی تو گھر کے نگران کی حیثیت سے وہ اپنے بچو ں کے متقی ہونے کے لئے دعا مانگ رہی ہو گی اور جب اس شوق کے ساتھ دعا ہو گی تو پھر اپنے آپ کو بھی تقویٰ پر قائم رکھنے کی کوشش ہو گی اور ایسا گھر پھر جنت کا نظارہ پیش کرنے والا گھر ہو گاجس میں بڑے، بچے، سب خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے کوشش کر رہے ہوں گےاور پھر ایسے ماں باپ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہ بچے اُن کے لئے ثواب کا موجب بھی بن رہے ہوں گے۔ بچوں کی نیک تربیت کا ماں باپ کو ثواب مل رہا ہو گا۔ باپ کو تو ثواب مل رہا ہو گا لیکن ماں کو بھی ثواب مل رہا ہو گا کیونکہ گھر کے نگران کی حیثیت سے ماں ذمہ وار ہے۔ بچوں کی نیکیاں اُن کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بن رہی ہوں۔ کون مومن ہے جو ایمان کا دعویٰ کرے اور پھر یہ کہے کہ مرنے کے بعد مجھے درجات کی بلندی کی ضرورت نہیں ہے۔ پس یہ دعا ایک ایسی دعا ہے جو نسلوں کے سدھارنے کے بھی کام آتی ہے اور اپنی اصلاح کے بھی کام آتی ہے اور مرنے کے بعد نیک نسل کی دعاؤں اور اعمال کی وجہ سے درجات کی بلندی کے بھی کام آتی ہےاور پھر اس میں مومن کی شان کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ مومن چھوٹی چھوٹی باتوں پر راضی نہیں ہوتا بلکہ ترقی کی منازل کی طرف قدم مارتا ہے۔ اُس کے قدم آگے بڑھتے ہیں۔ متقی خود بھی تقویٰ میں بڑھتا ہے اور اپنی نسل کو بھی تقویٰ میں بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔

پس خوش قسمت ہیں وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کی تربیت کی فکر میں رہتے ہیں۔ اُن کو دین کے قریب کرتے ہیں۔ اُن میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرتے ہیں اور پھر اپنی حالتوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کر کے اپنی دنیا و عاقبت بھی سنوارتے ہیں۔ پس اس دعا کو بہت شدت سے اور سمجھ کر پڑھنے کی ہر احمدی عورت اور مرد کو ضرورت ہے۔ بہت سے لوگوں کو اولاد سے شکوہ ہوتا ہے کہ اولاد بگڑ گئی۔ اگر نیک تربیت اور دعاؤں کی طرف توجہ ہو تو اللہ تعالیٰ پھر فضل فرماتا ہے۔ اولاد کو اِلَّا مَا شَآ ءَ اللّٰہ بگڑنے سے بچاتا ہے۔ ‘‘

(جلسہ سالانہ جرمنی، خطاب از مستورات فرمودہ 25؍جون2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍اپریل2012ء)

اسی موضوع پر حضورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک اور خطبہ میں فرماتے ہیں:

’’یہ جو اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی ہے کہ

رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا (الفرقان: 75)

تواولاد کے قرۃ العین ہونے کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہئے۔ تو جب ہر وقت انسان یہ دعا کرتارہے کہ اے اللہ !تو ہم پررحمت کی نظر کر، اور ہم پر رحمت کی نظر ہمیشہ ہی رکھنا، کبھی شیطان کو ہم پر غالب نہ ہونے دینا، ہماری غلطیوں کو معا ف کردینا اور ہم تجھ سے تیری بخشش کے بھی طالب ہیں، ہمارے گناہ بخش اور ہمارے گناہ بخشنے کے بعد ہم پر ایسی نظر کرکہ ہم پھر کبھی شیطان کے چنگل میں نہ پھنسیں اور جب اتنے فضل تُوہم پر کردے تو ہمیں اپنی نعمتوں کا شکرادا کرنے والا بنا، ان کو یاد رکھنے والا بنا اور سب سے بڑی نعمت جو تو نے ہمیں دی ہے وہ ایمان کی نعمت ہے، ہمیشہ ہمیں اس پر قائم رکھ، کبھی ہم اس سے دور جانے والے نہ ہوں اور دعا پڑھتے رہیں۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ (آل عمران: 9)

اے ہمارے ربّ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہواور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقیناً تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔ اگر دعاؤں کی طرف توجہ نہیں ہوگی تو شیطان مختلف طریقوں سے، مختلف راستوں سے آکر ورغلاتا رہے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے بغیر نہیں بچا جا سکتا، جیسے کہ میں پہلے بیان کرتا آرہاہوں۔ اللہ تعالیٰ اس سے ہی بات کرتاہے جو پیشگی اس سے دعائیں مانگے اور جس پر اس کی رحمت ہواور یہ رحمت اس وقت اور بھی بہت بڑھ جاتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہوجائے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ12؍دسمبر2003ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6؍فروری2004ء)

(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 51تا54)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button