متفرق مضامین

تلاوت قرآن کریم کی فضیلت وبرکات (قسط پنجم۔ آخری)

(ظہیر احمد طاہر۔ جرمنی)

دجال کے فتنے سے بچانے کا ذریعہ

قرآن کریم کی کچھ آیات ایسی ہیں جن کی باقاعدگی سے تلاوت انسان کو دجال کے فتنے سے محفوظ کر دیتی ہیں۔ انہی آیات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درج ذیل ارشاد عمل کے لائق ہے۔

عَنۡ أَبِیۡ الدَّرۡدَاءِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنۡ حَفِظَ عَشۡرَ آیَاتٍ مِنۡ أَوَّلِ سُورَۃِ الۡکَھۡفِ عُصِمَ مِنَ الدَّجَّالِ۔

(صحیح مسلم،کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصرھا، 15:بَاب فَضۡلِ سُورَۃِ الۡکَھۡفِ وَآیَۃِ الۡکُرۡسِیِّ، حدیث:1334)

حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایاکہ جس نے سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیات حفظ کیں وہ دجال سے بچایا گیا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

’’درحقیت ہماری زندگی کا سارا مدار ہی قرآن کریم پر ہے۔ اگرہماری جماعت قرآن کریم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو سارے مصائب اور ساری مشکلات آپ ہی ختم ہوجائیں۔ در حقیقت خدا تعالیٰ سے بُعد کے نتیجہ میں ہی مشکلات آنے پر خدا تعالیٰ سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 28صفحہ 415)

سفرو حضر میں برکت کا ذریعہ

آنحضرتﷺ نے قرآن کریم کو خیروبرکت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم کے بغیر ایک مومن کی زندگی کچھ حقیقت نہیں رکھتی کیونکہ جو لوگ اس نور سے دور ہیں ان کے مقدر میں ظلمات کے اندھیرے ہیں۔

حضرت ابوذرؓ بیان کرتےہیں کہ مَیں نے عرض کیا یارسول اللہ! مجھے کچھ وصیت فرمادیں۔ حضورﷺ نے فرمایا:

اللہ سے ڈرنے کو اپنے لیے ضروری سمجھو کیونکہ یہ تمام کاموں کی جڑہے۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کچھ اور وصیت فرمادیں۔ آپؐ نے فرمایا: قرآن کی تلاوت کو ضروری سمجھو کیونکہ تلاوت زمین پر تمہارے لیے نور اور آسمان میں تمہارے لیے ثواب کا ذخیرہ ہے۔

(اخرجہ ابن حبان، حیاۃ الصحابہ(مترجم) جلد 3صفحہ 297۔ دارالاشاعت اردو بازار کراچی۔ جنوری 2003ء )

حضرت جبیر بن مطعمؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے جبیر! کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ جب تم سفر پر جایا کرو تو تمہاری حالت سب سے اچھی اور تمہارا توشہ سب سے زیادہ ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: تم یہ پانچ سورتیں پڑھا کرو۔

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ، اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ، قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ، قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ اور قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ

ہر سورت کے شروع میں بھی

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

پڑھواور آخر میں بھی

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡم

پڑھو۔

(اخرجہ ابویعلی الھیثمیجلد10صفحہ134۔ حیاۃ الصحابہ(مترجم) جلد 3صفحہ 300۔ دارالاشاعت اردو بازار کراچی۔ جنوری 2003ء )

بلندی اور رفعت عطا کرنے والی کتاب

اسلام کا یہ منشا ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کے ہر عمل میں روحِ اخلاص پیدا کردے جو در حقیقت اعمالِ صالحہ کی جان ہے۔ اسی وجہ سے اسلامی عبادات میں جذبات محبت اور ذوق وشوق بہت اہمیت رکھتے ہیں جبکہ اُن عبادتوں کی کچھ قیمت نہیں جن میں ذوق وشوق اور جذبات محبت موجزن نہ ہوں۔ قرآن کریم کے اندر یہ معجزانہ شان پائی جاتی ہے کہ وہ انسان کوتاریکی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر ترقیات کے بام عروج تک پہنچا دیتا ہے۔ پس اسی کتاب کی روحانی تاثیرات نے غالب آنا ہے اور اسی کے ذریعہ دنیا اور آخرت کی کامیابیاں انسان کا مقدر بنیں گی۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے :

اِنَّ اللّٰہَ یَرۡفَعُ بِھَذَا الۡکِتَابِ أقۡوَامًا وَیَضَعُ بِہِ آخَرِیۡنَ

(صحیح مسلم، کتاب صلٰوۃ المسافرین وقصرھا)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کے فیوض و برکات سے فیضیاب ہونے کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’قرآن شریف کے شروع کرنے کے وقت اللہ تعالیٰ کی ذات جامع صفات کاملہ کی رحمانیت اور رحیمیت سے استمداد اور برکت طلب کی جائے۔ صفت رحمانیت سے برکت طلب کرنا اس غرض سے ہے کہ تا وہ ذاتِ کامل اپنی رحمانیت کی وجہ سے ان سب اسباب کو محض لطف اور احسان سے میسر کردے کہ جو کلام الٰہی کی متابعت میں جدوجہد کرنے سے پہلے درکار ہیں۔ جیسے عمر کا وفا کرنا۔ فرصت اور فراغت کا حاصل ہونا۔ وقتِ صفا میسر آجانا۔ طاقتوں اور قوتوں کا قائم ہونا۔ کوئی ایسا امر پیش نہ آجانا کہ جو آسائش اور امن میں خلل ڈالے۔ کوئی ایسا مانع نہ آپڑنا کہ جو دل کو متوجہ ہونے سے روک دے۔ غرض ہر طرح سے توفیق عطا کئے جانا یہ سب امور صفتِ رحمانیت سے حاصل ہوتے ہیں۔ اور صفت رحیمیت سے برکت طلب کرنا اس غرض سے ہے کہ تا وہ ذات کامل اپنی رحیمیت کی وجہ سے انسان کی کوششوں پر ثمرات حسنہ مترتب کرے اور انسان کی محنتوں کو ضائع ہونے سے بچاوے اور اس کی سعی اور جدوجہد کے بعد اس کے کام میں برکت ڈالے پس اس طور پر خدائےتعالیٰ کی دونوں صفتوں رحمانیت اور رحیمیت سے کلام الٰہی کے شروع کرنے کے وقت ہر یک ذیشان کام کے ابتدا میں برکت اور استمداد چاہنا یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی صداقت ہے جس سے انسان کو حقیقت توحید حاصل ہوتی ہے اور اپنے جہل اور بے خبری اور نادانی اور گمراہی اور عاجزی اور خواری پر یقین کامل ہوکر مبدء فیض کی عظمت اور جلال پر نظر جا ٹھہرتی ہے اور اپنے تئیں بکلی مفلس اور مسکین اور ہیچ اور ناچیز سمجھ کر خداوند قادر مطلق سے اس کی رحمانیت اور رحیمیت کی برکتیں طلب کرتا ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 422تا423حاشیہ در حاشیہ نمبر 11)

خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کریم دنیا وآخرت میں فلاح اور کامیابی کی راہ اور اللہ کے قریب کرنے والی واحد کتاب ہے۔ اگر کوئی انسان دنیا و آخرت کی نعمتوں سے وافر حصہ پانا چاہتا ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو قرآن کریم سے وابستہ کرلے اور اس کی تعلیم کے مطابق اپنے تمام اعمال کو ڈھال لے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’اصل یہی ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں سکھایا ہے جب تک مسلمان قرآن شریف کے پورے متبع اور پابند نہیں ہوتے وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کرسکتے۔ جس قدر وہ قرآن شریف سے دور جارہے ہیں اسی قدر وہ ترقی کے مدارج اور راہوں سے دور جارہے ہیں۔ قرآن شریف پر عمل ہی ترقی اور ہدایت کا موجب ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 379)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:

’’حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ پاکستان کے ایک وزیر مائوزے تنگ کے زمانے میں چائنا (China)کے دورے پر گئے۔ انہوں نے ماؤ صاحب سے پوچھا کہ آپ نے اپنی قوم میں یہ انقلاب پیدا کیا ہے اس کی وجہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا تم مجھ سے کیا پوچھتے ہو۔ جاؤ اپنے نبی کا اُسوہ دیکھو اور اپنے قرآن کریم کو پڑھو اور اس پر عمل کرو تو تمہیں سب کچھ مل جائے گا۔ تو غیروں کو بھی جو عقلمند ہیں چاہے وہ مانیں نہ مانیں لیکن قرآن کریم میں ایک نور نظر آتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍جولائی 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم اگست 2014ء صفحہ 6)

تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے اپنے آپ کو تعلیم قرآن کے ساتھ وابستہ رکھا اور اسلام کے انقلاب آفرین پیغام سے بھرپور فائدہ اٹھایا اُس وقت تک اُنہوں نے حیرت انگیز انقلابی کارنامے سر انجام دیے۔ مگر جوں جوں وہ اس زندگی بخش پیغام سے دُور ہٹتے چلے گئے، ذلت ونکبت اُن کا مقدر بنتی چلی گئی اور وہ زوال و ادبار کے طوفانِ بلا خیز کا شکار ہو کر پستی میں گرتے چلے گئے۔ پس مسلمانوں کی کامیابی اور ترقی کی کنجی قرآن کریم کے زندگی بخش پیغام میں مضمر ہے۔ اگر وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت اور رفعت دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں قرآن کریم کے آگے اپنی گردنیں جھکانا پڑیں گی اور اُسوۂ رسولﷺ کی روشنی میں اس راہِ ہدایت سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ پس اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے حصول کے لیے اس بابرکت کلام کی قدر کرنااور اللہ تعالیٰ کے اس فضل واحسان پر خوش ہونا بہت ضروری ہے۔

قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَ بِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ (یونس:59)

تُو کہہ دے کہ (یہ ) محض اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے۔ پس اس پر چاہئے کہ وہ بہت خوش ہوں۔ وہ اُس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button