متفرق مضامین

قرآنی صداقت کا عالمگیر نشان- نہر سوئز Suez canal

(شہود آصف۔ استاذ جامعہ احمدیہ گھانا)

قرآن کریم کی بیان فرمودہ مستقبل کی عالمگیرعلامتوں میں سے سمندروں کاآپس میں ملنا ایسی عظیم الشان پیشگوئی تھی جس کا چودہ سو سال قبل کسی عرب کے لیے تصوّر کرنا بھی ناممکن تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ یَلۡتَقِیٰنِ۔ بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخٌ لَّا یَبۡغِیٰنِ۔ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ یَخۡرُجُ مِنۡہُمَا اللُّؤۡلُؤُ وَ الۡمَرۡجَانُ۔ (الرحمٰن:20تا23)

وہ دو سمندروں کو ملا دے گا جو بڑھ بڑھ کر ایک دوسرے سے ملیں گے۔ (سر دست) ان کے درمیان ایک روک ہے (جس سے )وہ تجاوز نہیں کر سکتے۔ پس (اے جن و انس)تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے۔ دونوں میں سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں۔

اسی طرح سورة التکویر میں فرماتا ہے:

وَ اِذَا الۡبِحَارُ سُجِّرَتۡ۔ (التکویر:7)

جب سمندروں کو پھاڑ (کرایک دوسرے سے ملا)دیا جائے گا۔

قرآن کریم کے ابتدائی مفسرین (کشاف، ابن کثیر، در منثور وغیرہ) کی توجہ بھی اس طرف نہیں جا سکی کہ سمندوں کو نہر کے ذریعہ ملایا جا سکتا ہےبلکہ ان کی توجہ دیگر معانی کی طرف رہی۔ لیکن جب خدا تعالیٰ کی تقدیر پوری ہونے کا زمانہ آیا تو دنیا نے دیکھا کہ کس عظیم الشان انداز میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کےالفاظ کو ہو بہو پورا فرمایا۔

سورة الرحمٰن کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں :

’’اس میں نہرسویز اور پاناما کا ذکر ہے۔ فرمایا دو سمندر قریب قریب ہیں لیکن ان کے درمیان خشکی ہے۔ ایک دن وہ مل جائیں گے۔ ان کی علامت یہ ہے کہ ان میں سےموتی اور مونگا نکلتا ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں سویز اور پاناما سے بکثرت نکلتی ہیں۔‘‘

(تفسیر صغیر سورة الرحمٰن، زیر آیت مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ یَلۡتَقِیٰنِ)

An aerial port bow view of the aircraft carrier USS AMERICA (CV 66) during its transit through the canal.

بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کے درمیان آبی گزرگاہ کی انسانی خواہش توصدیوں پرانی تھی۔ سولہویں صدی میں عثمانی ترکوں نے بھی ایسا سوچا تھا۔ پھر1798ء میں نپولین کے دَور میں فرانسیسی ماہرین تعمیرات بھی مصر گئے تھے مگر انہوں نے اس کو ناقابل عمل قرار دیا۔ اس کے بعد برطانوی ماہرین کا تجربہ اور اس کا نتیجہ بھی ایسا ہی رہا تھا۔

بالآخر انیسویں صدی میں یہ کامیابی ایک فرانسیسی شخص فرڈینانڈ دے لَیسیپ(Ferdinand de Lesseps) کو ملی جس نےاس جگہ نہر بنانے کا منصوبہ بنایا اور اس کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ نہر سوئزکی تعمیر1859ءمیں شروع ہوئی اور 17؍نومبر1869ءکو اس کا باقاعدہ طور پر افتتاح ہوا۔ ابتدائی تعمیر کے بعد سوئز کینال کی متعدد بار مرمت اور توسیع بھی ہوئی۔ توسیع کے بعد نہر کی موجودہ لمبائی193.3؍کلو میٹرز اور کم از کم چوڑائی205؍میٹر ہے اور اس کی گہرائی24؍میٹر ہے۔ سوئز سے لےکر بحر روم تک یہ نہر تین جھیلوں سے گزرتی ہے۔ اس نہر کی تعمیر سے مشرق و مغرب کے مابین بحری تجارتی سفر میں ایک انقلاب پیدا ہو گیا۔ اس سے قبل مشرق سے یورپ اور امریکہ کی طرف جانے والے جہاز براعظم افریقہ کے چکر لگا کر اپنی منزل مقصود تک پہنچتے تھے۔ مگر نہر کی تعمیر کے بعد یہ سمندری سفر تقریباً 8900؍کلو میٹرز کم ہو گیا۔ سوئز کینال میں پاناما کینال کے برعکس لاک سسٹم نہیں ہے۔ جہاز کو نہر سے گزرنے کے لیے 12 سے 16گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔

مصر میں سوئز کینال کے مقام دریائےنیل اور بحر احمر کو ملانے کے لیے نہر بنانے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ بعض روایات کے مطابق عیسوی سن سےقبل فراعین مصر کے زمانہ میں بھی مصر میں دریائے نیل سے مشرق میں موجود Great Bitter Lake تک نہر کی تعمیر کی گئی تھی جس کا مقصداردگرد کےعلاقے میں آب پاشی کرنا تھا بعد میں آنے والے بادشاہوں کے زمانے میں اس نہر کو بحر احمر سے جوڑ دیا گیا تاکہ سیلاب کے دنوں میں کشتی کی مدد سے سمندر تک بھی رسائی ممکن ہو سکے۔ اس کو Canal Of Pharaohsکہا جاتا تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اسی نہر کو دارا اوّل کے زمانہ میں دوبارہ بھی تعمیر کیا گیا تھا اور پہلے سے بہتر بنایا گیا تھا۔ بعد میں آنے والے زمانے میں یہ نہر معدوم ہو گئی۔

اسلامی روایات کے مطابق خلافت راشدہ کے زمانہ میں عرب میں قحط پڑنے کی وجہ سے حضرت عمرؓ نے مصر کے گورنرحضرت عمرو بن العاصؓ کو حکم دیا کہ وہ مصر سے غلہ بھجوائیں۔ زمینی راستہ کی طوالت کی وجہ سے دریائے نیل سے بحر احمر تک ایک نہر بنائی گی اور اس کے ذریعہ آسانی سے غلہ عرب بھجوایا جانے لگا۔ اس کو نہر امیر المومنین کہا جاتا تھا۔ چند دیگرروایات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں دریائے نیل سے بحر احمر تک بنایا جانے والا یہ راستہ آٹھویں صدی عیسوی تک زیر استعمال رہا۔ بعد میں عباسی خلیفہ المنصور نے سیاسی اور فوجی وجوہات کی بنا پراس کو بند کروا دیا۔ ممکن ہے کہ اس زمانے میں کوئی ایک ایسی نہر یا دریائی گزر گاہ، اس علاقہ میں پہلے سے تعمیر شدہ ہو اور حضرت عمرؓ کے حکم پر اس کی صفائی وغیرہ کروا کر زیر استعمال لا یا گیا ہو۔

سولہویں صدی میں عثمانی بادشاہ نے بحر روم سے بحر احمر تک سمندری راستہ بنانے کا ارادہ کیا مگر منصوبےکی بے تحاشا لاگت کی وجہ سے اس کو ترک کرنا پڑا۔ یورپی حکمرانوں میں سےنپولین بونا پارٹ پہلاشخص تھا جس نے اس جگہ سمندری گزر گاہ بنانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ نپولین کے دَور میں فرانسیسی ماہرین تعمیرات اور انجینئرز نے اس علاقےکا سروے کرنے اور اپنے ابتدائی تعمیراتی تخمینے لگا کر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایسا کوئی بھی منصوبہ حقیقت پسندانہ نہیں ہو گا۔ اس پر یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا۔

1854ء میں اس منصوبےپر عملی پیش رفت فرڈینانڈ دے لَیسیپ (Ferdinand de Lesseps) نے کی۔ اس نے مصری حکمران محمد سعید سے اس علاقہ میں سروے کرنے اور ایک سمندری گزر گاہ تعمیر کرنے کےلیے رضامندی حاصل کی۔ پھر اس مقصد کے لیے15؍دسمبر1858ء کو سوئز کینال کمپنی کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں برطانوی حکومت اس منصوبے کے خلاف تھی کیونکہ اس سے بحر ہند میں ان کی تجارت اور فوجی تسلط کو زک پہنچنے کاخطرہ تھا۔ بعدا زاں اس کمپنی میں فرانس اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے بہت سے افرادنے شیئرز خرید لیے۔ کئی مشکلات سے گزرنے کے بعد25؍اپریل1859ء کو اس منصوبےپر عملی کام شروع ہوا۔ اس نہر کی تعمیر کے لیے شروع میں ہزاروں یورپی کارکن وہاں لائے گئے تھے۔ جب وہ بھی کم پڑ گئے، تو محمد سعید نے 1861ء میں بالائی مصر سے مزید تقریباً 10ہزار کارکنوں کو زبردستی بلوایا، جنہوں نے اس منصوبے میں مدد کی۔ ایک سال بعد اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے مزید 18ہزار کارکن بلانا پڑے تھے۔ نہر کی تعمیر کے دوران ہزاروں کی تعداد میں مزدور جاں بحق بھی ہوئے۔ 17؍نومبر1869ءکو فرانسیسی حکومت کے تحت اس کا افتتاح ہوا۔

1870ء میں اس آبی راستے سے 486؍بحری جہاز گزرے تھے، جن میں تقریباً 27ہزار مسافر سوار تھے۔ 1913ء میں ان بحری جہازوں کی تعداد تقریباً5100؍ہو گئی تھی، جس میں سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد بھی تقریباً دو لاکھ 35ہزار بنتی تھی۔ 1966ءمیں یہاں سے گزرنے والے جہازوں کی تعداد 21250؍تھی۔

تعمیر کے بعد سے اس نہر کی ملکیت زیادہ تر برطانوی فرانسیسی کمپنی سوئز سوسائٹی کے پاس تھی۔ جولائی 1956ء میں مصر کے صدر جمال عبد الناصر نے سوئز نہر کو سوئز کمپنی سے لے کرریاستی ملکیت(Nationalized) میں لے لیا۔ اس پر مصر میں بہت زیادہ خوشیاں منائی گئی تھیں لیکن یورپ میں اس اقدام پر ناامیدی کا اظہار کیا گیا تھا۔ مذاکرات کی ناکامی کے بعد فرانس، برطانیہ نے اسرائیل کی مدد سے مصر پر حملہ کر دیا اور سوئز کینال والے علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ جس کے بعد معاملہ ایک تنازعے کی صورت میں جب اقوام متحدہ میں پہنچ گیا، تو امریکہ اور سابقہ سوویت یونین کے مشترکہ دباؤ کے باعث فرانسیسی، برطانوی اور اسرائیلی دستے اس مصری علاقے سے واپسی پر مجبور ہو گئے تھے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران ایک مرتبہ پھر یہ کینا ل بند کر دی گئی اور پھر1975ءمیں دوبارہ یہ نہر آمد و رفت کے لیے کھول دی گئی۔

2014ءمیں مصر کے صدر نے نہر سوئز کو مزید چوڑا کرنے اور ایک بائی پاس بنانے کے منصوبے کی منظوری دی تاکہ ایک ہی وقت میں بڑ ے جہاز آ اور جا سکیں۔ اس منصوبہ پر کام 2015ء میں مکمل ہو گیا تھا۔ اس کے بعد سے اس آبی راستے کی ٹرانسپورٹ کی اہلیت بھی تقریباً دگنی ہو چکی ہے۔ پہلے اگر روزانہ تقریباً 49؍بحری جہاز ہی اس نہر سے گزر سکتے تھے، تو آج یہ تعداد 100؍ہو گئی ہے۔

یہ آبی راستہ آج بھی مصر کے لیے آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ سال 2020ءمیں اس نہر سے مصر کو حاصل ہونے والی آمدنی 5.61بلین امریکی ڈالرز تھی۔ جبکہ اس نہر سے گزرنے والے جہازوں کی تعداد 18829؍تھی اور تقریباً1.19بلین ٹن کارگو سامان اس نہر سے گزرا۔

نہر سوئز آج بھی مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت کا اہم ذریعہ ہے۔ آج دنیا کی 12؍فیصد تجارت سوئز کینال سے ہو تی ہے اور تقریباً 9؍ارب ڈالرز کا سامان روزانہ اس سے گزرتا ہے۔ شروع میں اس نہر کو’’ہائی وے آف دا برٹش ایمپائر‘‘کا نام دیا گیا تھا اور اس کی وجہ سے لندن اور ممبئی کے درمیان سمندری فاصلہ تقریباً 20ہزار کلومیٹر سے کم ہو کر ساڑھے گیارہ ہزار کلومیٹر رہ گیا تھا۔ اس سے جہاز رانی کی بین الاقوامی صنعت کو بھی بہت ترقی ملی تھی۔ نہر سوئز کی تعمیر کے منصوبے نے اس دَور کے مصر کو بھی بہت زیادہ بدل دیا تھا۔ اس نہر کے کنارے آباد ہونے والے شہروں میں سے پورٹ سعید ایک ایسا بڑا تجارتی مرکز بن گیا، جس کا رابطہ باقی ماندہ ساری دنیا کے تجارتی نیٹ ورک سے قائم ہو گیا تھا۔ نہر سوئز مصر کے لیے شروع سے ہی قومی اہمیت کی ایک علامت ہے اور قاہرہ اسے اپنی ریاستی پیش رفت کا استعارہ بھی سمجھتا ہے۔ نہر سوئز کے افتتاح کے موقع پر مصری حکمران اسماعیل پاشا کی طرف سے 17؍نومبر1869ء کے روز کہی جانے والی بات آج سچ ثابت ہو گئی کہ

’’میرا ملک اب صرف افریقہ کا حصہ نہیں رہا۔ میں نے اسے یورپ کا حصہ بھی بنا دیا ہے۔‘‘

ماخوذ از

https://www.britannica.com/topic/Suez-Canal

https://en.wikipedia.org/wiki/Suez_Canal

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button