متفرق

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 70)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

خدا سےابتلا کی حالت میں روٹھنا نہیں چاہیئے

ایک دوست کو دشمنوں نے سخت تکلیف دی اور ان کی شکائتیں بھی افسران بالادست سے کیں۔ جس کانتیجہ یہ ہوا کہ ان کو وہاں سے تبدیل ہوناپڑا۔ اُنہوں نے اس کے متعلق دعاکے لیے عرض کیاکہ اس سے دشمن خوش ہوں گے یہ نہیں ہوناچاہیے۔ اس کے متعلق جو فرمایا اس کاخلاصہ یہ ہے۔

خداکے ساتھ روٹھنا نہیں چاہیے اور خداتعالیٰ کا شکوہ کرناکہ اس نے ہماری نصرت نہیں کی سخت غلطی ہے۔ مومنوں پر ابتلا آتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ برس تک کیسی تکلیفیں اٹھاتے رہے۔ طائف میں گئے تو پتھرپڑے۔ اس وقت جبکہ آپؐ کے بدن سے خون جاری تھا۔ آپؐ نے کیسا صدق اور وفا کانمونہ دکھایا۔ اور کیا پاک الفاظ فرمائے کہ یا اللہ میں یہ سب تکلیفیں اس وقت تک اُٹھاتا رہوں گا۔ جب تک تو راضی ہو۔ امتحان کا ہوناضروری ہے۔ نبیوں اور صادقوں پر ابتلا آتے ہیں۔ حضرت مسیحؑ کودیکھو کہ کیسا ابتلا آیا۔ ایلی ایلی لما سبقتنی۔ کہنا پڑا۔ یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھادیا۔ غرض مومن کو گھبرانا نہیں چاہیے اور خدا سے روٹھنا نہیں چاہیئے۔

اس مضمون پر ایک لمبی تقریر حضرت اقدسؑ نے فرمائی جس کا خلاصہ آپ ہی کے اشعار میں یہ ہے:۔

صادق آں باشد کہ ایام بلا

مے گذارد با محبت با وفا

گر قضا را عاشقے گردد اسیر

بوسد آں زنجیر را کز آشنا

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 373)

اس حصہ میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے اپنے فارسی کے دو الہامی اشعا ر کا ذکر ہوا ہے۔

صَادِقْ آں بَاشَدْ کِہ اَیَّامِ بَلَا

مِے گُذَارَدْ بَا مَحَبَّتْ بَا وَفَا

گَرْ قَضَا رَا عَاشِقِے گَرْدَدْ اَسِیْر

بُوْسَدْ آں زَنْجِیْر رَا کَزْ آشِنَا

ترجمہ: (خدا کی نظر میں )صادق وہ شخص ہوتا ہے کہ جو بلا کے دنوں کو محبت اور وفا کے ساتھ گذارتا ہے۔

اگر اتفاقا ًکوئی عاشق قید میں پڑ جائے تو اس زنجیر کو چومتا ہے جس کا سبب آشنا ہوا۔

جیسا کہ ذکر ہوا یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےدو الہامی اشعارہیں جو آپؑ کی تصنیف لطیف کتاب البریہ کےسر ورق پر موجود ہیں۔ نیز آپ علیہ السلام نے اپنی تصنیف تریاق القلوب روحانی خزائن جلدنمبر15صفحہ نمبر342، 341پرتحریرفرمایا:

’’…ایک گروہ تو اس مقدمہ اور دوسرے مقدمہ میں جو مسٹر ڈوئی صاحب کی عدالت میں فیصلہ ہوا صدق دل سے اور کامل ہمدردی سے تڑپتا پھرا۔اور انہوں نے اپنی مالی اور جانی کوششوں میں فرق نہیں رکھا۔اور دکھ اٹھا کر اپنی سچائی دکھلائی۔اور دوسرا گروہ وہ بھی تھا کہ ایک ذرہ ہمدردی میں شریک نہ ہو سکےسو ان کے لئے وہ کھڑکی بند ہے جو ان صادقوں کےلئے کھولی گئی۔ پھر یہ الہام ہوا کہ صَادِقْ آں ْ بَاشَدْ کِہ اَیَّامِ بَلَا۔ مِے گُذَارَدْ بَا مَحَبَّتْ بَا وَفَا۔ یعنی خد اکی نظر میں صادق وہ شخص ہوتا ہے کہ جو بلا کے دنوں کو محبت اور وفا کے ساتھ گزارتا ہے۔ پھر اس کےبعد میرے دل میں ایک اور موزوں کلمہ ڈالا گیا لیکن نہ اس طرح پر کہ جو الہام جلی کی صورت ہوتی ہے بلکہ الہام خفی کے طور پر دل اس مضمون سے بھر گیا۔ اور وہ یہ تھا۔ گَرْ قَضَا رَا عَاشِقِے گَرْدَدْ اَسِیْر۔ بُوْسَدْ آںْ زَنْجِیْر رَا کَزْ آشِنَا۔ یعنی اگر اتفاقا ًکوئی عاشق قید میں پڑ جائے تو اس زنجیر کو چومتا ہے جس کا سبب آشنا ہوا‘‘۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button