سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

پنڈت کھڑک سنگھ کون تھا

’’The Missions‘‘ میں پنڈت کھڑک سنگھ صاحب نے عیسائی ہونے کے بعد اپنا تعارف خود بھی لکھا ہے۔ اس میں سے مختصر طور پر یہاں بیان کردیتاہوں۔ پنڈت صاحب لکھتے ہیں کہ

’’My father‘s name was Bahadur singh, who was the ’’Ala‘‘, or chief ’’Lambardar ‘‘ (head-man) of Uddoke.”

(The Missions by Rev.Robert Clark page:86)

یعنی میرے والد کا نام بہادر سنگھ تھا اور وہ اودوکی کا نمبردار تھا۔

اس کے بعد پنڈت صاحب لکھتے ہیں کہ

’’When I was a boy I lived chiefly at Kulloki in the Hoshiarpur district…..there I met with a Hindu Fakir, and through his influence I left the Sikh religion, when I was eleven years old, and became a Hindu sadhu, or fakir, taking the Hindu name of Narain Das‘‘.

(The Missions by Rev.Robert Clark page:87)

یعنی جب میں ابھی لڑکا ہی تھا تو میں کلوکی ضلع ہوشیار پور میں رہتا تھا۔ وہاں میں ایک ہندو فقیرسے ملا اور اس سے متأثر ہوکر میں نے سکھ ازم کو چھوڑ دیا اور ہندوسادھو بن گیااس وقت میری عمر گیارہ سال تھی۔ اور میں نے اپنا نام نرائن سنگھ کی جگہ نرائن داس رکھ لیا۔

مزید لکھتے ہیں کہ

’’I was baptized by Mr.Clark in Amritsar, on the 1st March 1874, when I was fifty-two years old‘‘.

(The Missions by Rev.Robert Clark page:91)

میں نے یکم مارچ 1874ء کو مسٹر کلارک کے ذریعہ بپتسمہ لیا تھا۔ اس وقت میری عمر باون سال تھی۔

پنڈت کھڑک سنگھ صاحب نے عیسائی ہونے کے بعد اپنی زندگی انجیل کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقف کردی تھی۔ دی مشنز کا مصنف اس بارہ میں لکھتاہے کہ

’’From that time until his death, on 5th February 1900, he lived to make the Gospel of Jesus Christ known, as far as possible, to everyone everywhere, from Kashmir and Peshawar to Karachi, on the one side of India and to Benares on the others; He travelled everywhere to hold meetings and discussions and deliver addresses as a teacher of the Gospel of Christ‘‘.

(The Missions by Rev.Robert Clark page:96)

یعنی پنڈت کھڑک سنگھ عیسائی ہونے سے لے کر اپنی وفات یعنی5فروری 1900ء تک جس قدر ممکن تھا لوگوں کو انجیل سکھانے میں مصروف رہا۔ اس نے کشمیر اور پشاور سے کراچی تک اور بنارس تک یعنی ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک انجیل کی تعلیم دینے کی غرض سے سفر کیے۔ اور اس نے انجیل کے ایک استاد کے طور پر مختلف جگہوں کے سفر بھی اختیار کیے۔ اور کئی اجلاسات کرکے ان میں خطابات بھی کیے۔

پنڈت صاحب اگرچہ عیسائی ہوگئے تھے مگر ایک بار پھر وہ پنڈت سوامی دیانند صاحب کے ساتھ ملے اور آریہ دھرم قبول کرلیا۔ چنانچہ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب لکھتے ہیں کہ

’’I again met with Swami Dayanand Saraswati, the founder of the Arya Samaj…….I began again to lecture on the Vedas…….the Christians had now left me.They no longer looked on me as a Christian‘‘.

(The Missions by Rev.Robert Clark page:92,93)

یعنی میں ایک بار پھر سوامی دیانند سرسوتی سے جو کہ آریہ سماج کے بانی ہیں ملا۔ اور میں نے دوبارہ ویدوں کے لیکچر دینے شروع کردیے۔ عیسائی مجھے بالکل چھوڑ چکے تھے۔ اور وہ مجھے اب عیسائی نہیں سمجھتے تھے۔

مگر ایک مرتبہ پھر پنڈت کھڑک سنگھ عیسائیت کو اختیار کرلیتاہے اور سوامی دیانند اورویدوں کے خلاف ہوجاتا ہے۔ چنانچہ لکھتاہے کہ

’’I had before found out that he was an untrue guide…. He tried to make the ancient Vedas agree with the science of modern times.‘‘

(The Missions by Rev.Robert Clark page:93)

یعنی میں نے سوامی دیانند کو ایک جھوٹا رہنما پایا۔ وہ کوشش کرتا تھا کہ قدیم ویدوں اورجدیدسائنس میں کوئی مطابقت پیداکرسکے۔

آریہ سماج کے ساتھ ساتھ برہموسماج کے ساتھ ایک اور محاذ پراس جری اللہ نے مقابلہ کیا۔ برہموسماج وحی والہام اور نبوت کے قائل نہیں۔ ان کے دلائل کاتفصیلی رد تو براہین احمدیہ میں موجودہے۔ یہاں برہموسماج کے ایک مشہورپنڈت اوربرہموسماج کے ایک بہت بڑے لیڈر کے ساتھ تحریری مضامین کے سلسلہ کاذکرکرنامقصودہے جوحضورعلیہ السلام کے مقابل پرآیا۔ اوریہ صاحب تھے پنڈت شیونرائن اگنی ہوتری، جو کہ لاہورسے ایک رسالہ برادرہند/ہندوباندھوبھی نکالتے تھے۔ اس کے مالک وایڈیٹر تھے۔ اورلاہورکے ایک گورنمنٹ سکول میں ڈرائنگ ماسٹرتھے۔ ان کے رسالہ میں آریہ سماج کے خلاف حضورؑ کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ اسی سلسلہ میں مسئلہ الہام پرحضورؑ سے خط وکتابت شروع ہوگئی۔

اور تعجب انگیزبات ہے کہ یہ صاحب بھی حضورؑ سے اس بحث کے بعد اپنے عقائد پرقائم نہ رہ سکے اور برہموسماج کوترک کرکے ایک نئے سماج، دیوسماج کی بنیاد رکھی اور وہ جو کل تک وحی والہام کولایعنی اور غیرضروری سمجھ کرمخالفت کررہاتھا آج دیوسماج کے بانی کی حیثیت سے خود دعویٰ کیا کہ خدا مجھ سے ہمکلام ہوتاہے۔ یہ حضرت اقدسؑ کے دلائل کی ایک فتح نمایاں تھی کہ جس نےان بڑے بڑے علماء اور پنڈتوں کے عقائدکوان کے دل ودماغ کی جڑوں سے ہلاکررکھ دیا۔

پنڈت شیونرائن اگنی ہوتری صاحب کاتعارف

دیوسماج کے بانی پنڈت شیونرائن جی اگنی ہوتری (بعدمیں آپ نے اپنانام ستیانندرکھ لیا) کانپورکے نزدیک ایک گاؤں کے رہنے والے تھے۔ آپ ایک برہمن خاندان میں سے تھے۔ جب آپ سولہ برس کے ہوئے توآپ رڑکی کالج میں داخل ہوگئے۔ اورامتحان پاس کرکے وہاں ہی ملازم ہوگئے۔ اس کا لج کے ایک استادویدانتی تھے۔ شیونرائن جی پہلے ان کے زیراثررہ کر ویدانتی ہوگئے اورانہوں نے اوران کی بیوی نے بت پرستی بالکل چھوڑدی۔ بلکہ پردہ بھی توڑدیا۔

جب آپ کی عمر 23 برس کی ہوئی توآپ گورنمنٹ سکول لاہورمیں ڈرائنگ ماسٹر مقررہوئے۔ 1873ء کاواقعہ ہے اس وقت لاہورمیں برہموسماج کا بڑازور تھا آپ برہمو ہو گئے۔ دوسال بعدآپ برہموسماج کے پرچارک بن گئے۔ لوگ ان کی تقریریں سننے اکثر آیا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں لاہورمیں آریہ سماج بھی قائم ہوئی تھی چنانچہ شیونرائن جی نے آریہ سماج کے خلاف جہاد شروع کردیا۔

آپ نے اس زمانے میں بہت سی کتابیں بھی لکھیں اورمکتی فوج کے نمونہ پرایک برمھہ سینابھی بنائی۔ ڈرائنگ ماسٹری سے مستعفی ہوکروہ اپناساراوقت دھرم کارجوں میں صرف کرنے لگے۔ آخربرہمہ سماج کے کچھ ممبروں سے اختلاف ہوگیااورچونکہ پنڈت ستیانندجی بڑے خود پسند اورخودرائے واقع ہوئے تھے انہوں نے برہموسماج چھوڑچھاڑ کر ایک نئی سماج کی بنیادڈالی اوراس کا نام دیوسماج رکھا۔ سچ تویہ ہے کہ آپ دوسروں پرحکومت کرناچاہتے تھے اورلوگوں کو شک ہوگیاکہ وہ گرو بننا چاہتے ہیں چنانچہ اس خیال کودل میں لیتے ہوئے انہوں نے 1887ء میں دیوسماج کی بنیاد ڈال دی۔ اور دیوگوروکالقب اختیار کیااورکہنے لگے کہ مجھ میں دیوجیون کا وکلس ہواہے یعنی میں اعلیٰ ترین روحانی طاقتوں کا مصدر اورمنبع ہوں۔ ممبر کےلیے سیوک کالفظ اختیارکیاگیا۔ دیوسماج کا ممبریاسیوک بننے کے لیے مندرجہ ذیل آٹھ گناہوں سے بچناضروری قراردیاگیاہے۔

(1)سب طرح کے نشوں سے (2) گوشت خوری سے (3) جوئے سے( 4) چوری سے (5) رشوت لینے سے (6)بدچلنی سے۔ اورایک بیوی ہوتے ہوئے دوسری شادی کرنے سے (7) خیانت سے اور (8)قتلِ بےجاسے۔

یہاں حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کے بیان کے ساتھ آریہ سماج اور برہموسماج کے ساتھ بحث مباحثہ کی تفصیل کوختم کرتاہوں۔ آپؓ لکھتے ہیں :

’’اس وقت تک آپ کے تحریری مباحثات آریہ سماج سے ہو رہے تھے۔ اور عیسائیوں سے بھی قلمی جنگ شروع تھی۔ اس لئے کہ لدھیانہ کے عیسائی اخبار نور افشاں میں اسلام اور حضرت نبی کریمﷺ کے خلاف نہایت دل آزار اور غیر شریفانہ مضامین اور اعتراضات کا سلسلہ شروع تھا۔ آپؑ نے ان کے جوابات کے لئے اخبار منشور محمدی بنگلور کو منتخب کیا۔ جو اسی غرض کے لئے جاری ہوا تھا۔ آپؑ کے مضامین اس میں نکلنے شروع ہوئے۔ اور عیسائی کیمپ میں ایک شور مچا۔ اس کا ذکر میں بعد میں کروں گا۔ اس وقت براہم سماج سے مباحثات کے سلسلے کے متعلق لکھنا چاہتا ہوں۔ اس لئے بھی کہ واقعات کے سلسلہ کی زنجیر یہی چاہتی ہے۔ لاہور میں براہم سماج قائم ہو چکا تھا۔ اور پنڈت شو نرائن اگنی ہوتری (جو لاہور کے گورنمنٹ سکول میں اس وقت ڈرائینگ ماسٹر تھے ) براہم سماج کے بہت بڑے لیڈر اور ہندو باندھو کے مالک و ایڈیٹر تھے۔ براہم سماج وحی، نبوت اور الہام ربانی کا قائل نہیں۔ حضرت اقدسؑ کے مضامین ہندو باندھو میں شائع ہو رہے تھے۔ اسی سلسلہ میں مسئلہ الہام پر اس براہمو لیڈر سے خط وکتابت کا سلسلہ برنگ مباحثہ جاری ہو گیااور یہ سلسلہ 21مئی 1879ء سے 17جون 1879ء تک جاری رہا۔ پنڈت شونرائن صاحب نے اس خط و کتابت کو شائع کیا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت شونرائن صاحب سے مطالبہ کیا تھاکہ وہ ایک برہمو اور ایک کسی انگریز کو اس معاملہ میں منصف مقرر کر کے ان کے فیصلہ کے ساتھ شائع کر دیں۔ اور آپ نے کشیپ چندر سین صاحب کا نام تجویز بھی کر دیا تھا۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ پنڈت شونرائن صاحب نے کسی کو منصف اور حَکم نہ بنایا۔ اور اس خط و کتابت کو شائع کر دیا۔ اس سے بحث نہیں کہ انہوں نے کیوں ایسا کیا۔ مگر یہ حقیقت اب مخفی نہیں۔ قریباً پچاس برس کا زمانہ اس پر گزر گیا ہے۔ اس کے بعد پنڈت شونرائن صاحب اگنی ہوتری کی زندگی میں ایک تغیر ہوا۔ اور وہ یہ کہ انہوں نے برہم سماج سے استعفیٰ دے دیا اور آپ ایک اور مشن دیو سماج کے بانی ہوئے۔ اور یہ دعویٰ کیا کہ خدا تعالیٰ ان سے ہمکلام ہوتا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں انہوں نے متعدد کتب لکھیں۔ کیا یہ خدائی ہاتھ نہیں کہ جو شخص الہام الٰہی کا منکر تھا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس مضمون پر بحث کرتا تھا۔ اور براہین احمدیہ کی اشاعت کے وقت اس پر اس نے مخالفانہ ریویو کر کے اعتراضات کئے۔ (اس کا ذکر براہین احمدیہ کی اشاعت کے ضمن میں آئے گا۔ )وہی خود الہام الٰہی کا مدعی ہوا۔ یہ ایک کھلم کُھلاحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فتح تھی۔ یہ دعویٰ غلط تھا یا صحیح اس وقت اس کی تنقید پر بحث نہیں۔ بلکہ صرف اس امر کا اظہار مقصود ہےکہ اس شخص نے منکر الہام ہو کر بحث کی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے اور اپنے درمیان اس کے مقبولہ اشخاص کو حکم بنانا تسلیم کر لیا۔ بلکہ ایک ان میں سے خود براہم سماج ہی کا گویا بانی تھا۔ مگر اس نے اس سے عملاً پہلو تہی کی۔ اس طرح پر یہ فیصلہ مشکوک ہو سکتا تھاکہ کون حق پر ہے۔ مگر اس نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل زبردست اور حق پر مبنی تھے۔ چنانچہ وہ ایک عرصہ دراز تک اس عقیدہ کے ساتھ اپنی سماج کا اعلان کرتا رہا۔ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب نے تو اپنی شکست اور آریہ سماج کے باطل ہونے کا اعتراف عیسائی ہو کر کیا۔ اور اگر وہ حضرت مرزا صاحب سے مباحثہ کرنے سے پہلے عیسائی ہو جاتا تو دوسری بات ہوتی۔ لیکن مباحثہ کے بعد آریہ مذہب کو چھوڑ دینا اپنی شکست کا اعتراف تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس نے میرے سامنے زبانی بھی بمقام بٹالہ اعتراف کیا۔ جبکہ میں اس سے ملنے گیا تھا۔ جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں۔ اسی طرح یہاں پنڈت شو نرائن صاحب اگنی ہوتری نے اس خط و کتابت اور مباحثہ کے بعد اور براہین احمدیہ پر ریویو لکھ کر الہام کا منکر ہونے کا اعلان کرنے کے بعد پھر یہ اقرار کیا کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور اس طرح پر حضرت صاحبؑ کے دلائل کے سامنے سر جھکا دیا۔‘‘

(حیات احمدؑ جلداول صفحہ 359-361)

بہرحال شیونارائن صاحب سے یہ سلسلہ 21 مئی 1879ء سے17؍جون 1879ء تک جاری رہا۔ یہ خط وکتابت روحانی خزائن جلد2صفحات20تا33، نیزمکتوبات احمدؑ صفحہ21تا33اور حیات احمدؑ جلداول میں متعلقہ بحث دیکھی جاسکتی ہے۔

…………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button