متفرق مضامین

تلاوت قرآن کریم کی فضیلت وبرکات (قسط چہارم)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ

رسول کریمﷺ نےجہاں قرآن کریم پڑھنے پڑھانے والوں کو بہترین انسان قرار دیا ہے وہیں آپؐ نے یہ خوشخبری بھی سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ حاملِ قرآن کی دعاؤں کوزیادہ شرفِ قبولیت عطا فرماتا ہے:

خَیۡرُکُمۡ مَنْ قَرَأَ الْقُرۡآنَ وَأَقۡرَأہٗ، لِحَامِلِ الْقُرْآنِ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَہٌ یَدْعُوْ بِہَا فَیُسْتَجَابُ لَہُ

(کنزالعمّال، کتاب الایمان والاسلام، الباب السابع فی تلاوۃ القرآن وفضائلہ، الفصل الاوّل فی فضائل۔ حدیث: 2355)

رسول کریمﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے۔ حاملِ قرآن کی دعا قبول ہوتی ہے وہ جو مانگتا ہے قبول کیا جاتا ہے۔

مَعَ کُلِّ خَتۡمَۃٍ دَعۡوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ

یعنی ہرختم قرآن پر دعا قبول ہوتی ہے۔

لِحَامِلِ الْقُرْآنِ دَعۡوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ

یعنی حامل قرآن کی دعا قبول ہوتی ہے۔

(کنزالعمال، کتاب الایمان والاسلام، الباب السابع، فی تلاوۃ القرآن وفضائلہ حدیث: 2314-2315)

تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے۔ حاملِ قرآن کی دعا قبول ہوتی ہے وہ جو مانگتا ہے اُسے دیا جاتا ہے۔

حفاظت الٰہی کا نسخہ

قرآن کریم کی بے شمار برکات میں ایک برکت یہ بھی ہے کہ اس بابرکت کلام کوپڑھنے سے انسان اللہ کی پناہ اور حفاظت میں آجاتا ہے۔ پس جس انسان کو اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے تو اس کی زندگی بامقصد ہوجاتی ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: جس نے صبح کے وقت سورت مومن کی ابتدائی آیات اور آیت الکرسی تلاوت کی تو شام تک اس کی حفاظت میں آجائے گا اور جس نے ان کی تلاوت شام کے وقت کی اس کی صبح تک حفاظت کی جائے گی۔

(جامع ترمذی، کتاب فضائل القرآن باب فضل سورۃ البقرۃ)

مَنْ قَرَأَ ثَلَاثِیْنَ آیَۃً فِیْ لَیْلَۃٍ لَمْ یُضِرَّہُ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ سَبُعٌ ضَارٌ وَلَا لِصٌّ طَارِقٌ و عونی فِیْ نَفْسِہِ وَأَھْلِہِ وَمَالِہِ حَتَّی یُصْبَحَ۔

(کنزالعمال، کتاب الایمان والاسلام، الباب السابع، فی تلاوۃ القرآن وفضائلہ حدیث: 2412)

جس نے رات کو قرآن کریم کی تیس آیات کی تلاوت کی، اس رات کوئی درندہ یا چور اس کو ضرر نہ پہنچاسکے گا۔ بلکہ وہ اور اس کے اہل خانہ اور مال سب خیروعافیت میں رہیں گے حتیٰ کہ صبح ہوجائے۔

گناہوں سے نجات کا ذریعہ

کوئی چیز اُسی وقت قابل توجہ سمجھی جائے گی جب وہ اپنے وجود کی علت غائی کو اچھے رنگ میں پورا کرے۔ کسی بھی آسمانی کتاب کی اصل غرض یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنی پیروی کرنے والوں کو اپنی تعلیم، اپنی تاثیرات، اپنی قوتِ اصلاح اور اپنی روحانی خاصیت کے ذریعہ گناہ آلود زندگی سے نجات دلا کر اُن کے پیدا کرنے والے کی شناخت کروائے اور انہیں اُس پاک وجود کی معرفت عطا کرے۔ قرآن کریم کے سوا کسی دوسری الہامی کتاب نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اپنے ماننے والوں کو گناہ آلود زندگی سے نجات دلاکر خدا تعالیٰ کا مقرب بنا سکتی ہے جبکہ قرآن کریم نے اپنے ماننے والوں کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوۡا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۙ کَفَّرَ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ اَصۡلَحَ بَالَہُمۡ۔

(سورۃمحمد: 3)

اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اور اس پر ایمان لائے جو محمد پر اتارا گیا، ا ور وہی ان کے ربّ کی طرف سے کامل سچائی ہے، اُن کے عیوب کو وہ دور کردے گا اور ان کا حال درست کردے گا۔

پس گناہ آلود زندگی سے نجات پانے اور گناہوں کی کثرت کی وجہ سے زنگ آلود دلوں کو صیقل کرنے کے لیے قرآن کریم تریاق کی حیثیت رکھتا ہے جو دلوں کی صفائی کرکے اُن میں نور ایمان داخل کرتااور اُنہیں روحانی زندگی عطا کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے دلوں کے زنگ دور کرنے کا ایک اہم ذریعہ تلاوت قرآن کریم کو قرار دیا ہے۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

یقیناً یہ دل بھی صیقل کیے جاتے ہیں جس طرح لوہے کے زنگ آلود ہونے پر اسے صیقل کیا جاتا ہے۔ کہاگیا کہ اے اللہ کے رسول ! اس کی صفائی کیسے کی جائے؟ آپﷺ نے فرمایا: موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کریم کی تلاوت کرنا۔

(مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفضائل القرآن الفصل الثالث)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’یقینا ًیاد رکھو کہ جو شخص سچے دل سے اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اس کی پاک کتاب پر عمل کرتا ہے اور رسول اللہﷺ کی اطاعت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو لا انتہا برکات سے حصہ دیتا ہے۔ ایسی برکات اُسے دی جاتی ہیں جو اس دنیا کی نعمتوں سے بہت ہی بڑھ کر ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک عفوِ گناہ بھی ہے کہ جب وہ رجوع کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ141۔ ناشر نظارت نشرو اشاعت قادیان۔ ایڈیشن2003ء)

بلندئ درجات کا ذریعہ

قرآن کریم کی تلاوت اور اُس کا یاد کرنا جہاں انسان کے لیے ثواب و برکت کا موجب ہے وہیں محبت اور خلوص کے ساتھ تلاوت کرنے والے، فرشتوں کی دعاؤں سےحصہ پاتے ہیں۔ اسی طرح احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ قیامت کےدن قرآن شریف خود بھی صاحبِ قرآن کے لیے اپنے ربّ سے سفارش کرے گاکہ اُسے عزت کا جوڑا اور عزت کا تاج پہنایا جائے۔ قرآن اپنے ربّ کے حضور عرض کرے گا تو اس سے راضی ہوجا اور پھر اُس سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جااور سیڑھیاں چڑھتا جا یعنی اُسے ہر ایک آیت کے بدلے نیکیاں ملیں گی اور اُس کے درجات بلند کیے جائیں گے۔

عَنۡ اَبِیۡ ھُرَیۡرَۃَ عَنِ النَّبِّی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَجِیءُ صَاحِبُ الۡقُرۡاٰنِ یَوۡمَ الۡقِیَامَۃِ فَیَقُوۡلُ یَارَبِّ حَلِّہٖ فَیُلۡبَسَ تَاجَ الۡکَرَامَۃِ ثُمَّ یَقُوۡلُ یَارَبِّ زِدۡہُ فَیُلۡبَسَ حُلَّۃَ الۡکَرَامَۃِ ثُمَّ یَقُوۡلُ یَارَبِّ اَرۡضَ عَنۡہُ فَیَرۡضٰی عَنۡہُ فَیُقَالُ لَہٗ اِقۡرَأۡ وَارۡقَأۡ وَیُزَادُ بِکَلِّ اٰیَۃٍ حَسَنَۃٌ ۔

(جامع ترمذی، اَبۡوَابُ فَضَائِلِ الۡقُرۡاٰنِ، بَابُ مَاجَاءَ فِیۡ مَنۡ قَرَأَحَرۡفًا مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَالَہٗ مِنَ الۡاَجۡرِ، حدیث: 822)

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:

قیامت کے دن صاحب قرآن آئے گا تو قرآن اپنے ربّ سے عرض کرے گا۔ یا اللہ ! اسے جوڑا پہنا پھر اُسے عزت کا تاج پہنایا جائے گا۔ وہ (قرآن) عرض کرے گا: یااللہ! اسے مزید پہنا۔ چنانچہ پھر اُسے عزت کا جوڑا پہنایا جائے گا۔ پھر وہ عرض کرے گا: یا اللہ اس سے راضی ہوجا تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور سیڑھیاں (درجات) چڑھتا جا اور ہر آیت کے بدلے ایک نیکی زیادہ کی جائے گی۔

عَنۡ عَبۡدِ اللّٰہِ بۡنِ عَمۡرٍو عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ قَالَ یُقَالُ یَعْنِی لِصَاحِبِ الۡقُرۡاٰنِ اِقۡرَأۡ وَارۡقِ وَرَتِّلۡ کَمَا کُنۡتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنۡیَا وَاِنَّ مَنۡزِلَتَکَ عِنۡدَاٰخِرِ اٰیَۃٍ تَقۡرَأُبِھَا

(جامع ترمذی، اَبۡوَابُ فَضَائِلِ الۡقُرۡاٰنِ، حدیث: 826)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

صاحب قرآن (یعنی حافظ) سے کہا جائے گا کہ پڑھ اور منزلیں چڑھتا جا اور اسی طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح دنیا میں پڑھا کرتا تھا۔ تمہاری منزل وہی ہے جہاں تم آخری آیت پڑھو گے۔

پس قرآن کریم کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے کے لیے اس کا زیادہ سے زیادہ سیکھنا اور یاد کرنا اسی لیے زیادہ اجرو ثواب اور خیروبرکت کا موجب ہے کیونکہ جس قدر قرآن کریم لوگوں کو یاد ہوگا اُسی قدر اُنہیں اس پر عمل کرنے کی توفیق ملے گی۔ اس کا اندازہ ایک حدیث مبارکہ سے بھی ہوتا ہے۔

عَنِ ابۡنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ اِنَّ الَّذِیۡ لَیۡسَ فِیۡ جَوۡفِہٖ شَیۡئٌ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ کَالۡبَیۡتِ الۡخَرِبِ

(جامع ترمذی، اَبۡوَابُ فَضَائِلِ الۡقُرۡاٰنِ، حدیث: 825)

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

جس کے اندر قرآن میں سے کچھ نہیں (یعنی اسے کچھ قرآن یاد نہیں ) وہ ویران گھر کی مانند ہے۔

والدین کی بلندئ درجات کا موجب

قرآن پڑھنے اور اُس پر عمل کرنے سے نہ صرف انسان کے اپنے درجات بلند ہوتے ہیں بلکہ اس عمل کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اُس انسان کے والدین کے درجات بھی بلند کرتا ہے اور انہیں جنت میں ایسے انعامات سے نوازتا ہے جس کا وہ دنیا کی زندگی میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔

مَنۡ قَالَ سُبۡحَانَ اللّٰہِ الۡعَظِیۡمِ، نَبَتَ لَہٗ غَرۡسٌ فِی الۡجَنَّۃِ، وَمَنۡ قَرَأ الۡقُرۡآن، فَأَحْکَمَہُ وعَمِلَ بِمَا فِیۡہِ ألۡبَسَ اللّٰہُ وَالِدِیۡہِ یَومُ الۡقِیَامَۃِ تَاجًا ضَوْء أَحْسَنَ مِنْ ضَوْءِ الۡقَمَرِ

(کنزالعمال، الکتاب الثانی، الباب السابع، فی تلاوۃ القرآن وفضائلہ، حدیث: 2060)

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

جس نے سبحان اللّٰہ العظیم کہا، اس کے لیے جنت میں ایک درخت اُگ آتا ہے اور جس نے قرآن پڑھا اور اس کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور جو اس میں ہے اس پر عمل کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے والدین کو ایسا تاج پہنائے گا جس کی روشنی چاند کو ماند کرنے والی ہوگی۔

پس قرآن کریم ایسی عظیم کتاب ہے جواس دنیا میں بھی انسان کو بلند روحانی مقام پر فائز فرماتی ہے اور آخرت میں اس کی برکات زیادہ واضح صورت میں دکھائی دیں گی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہےاس میں اتنا حسن ہے کہ انسانی احساس اس کا احاطہ نہیں کرسکتا اور یہ مبالغہ نہیں کیونکہ یہ حسن اس قسم کا ہے کہ عقل احساس انسانی کو بھی حسن بخشتا ہے اور قرآن کریم میں اس قدر نور ہے کہ دنیا کی کوئی روشنی اس کے نور سے مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس لیے نہیں کہ یہ ہماری خوش فہمی ہے بلکہ اس لیے کہ ہمارے ربّ نے یہ فرمایا ہے کہ سورج کو بھی نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے طفیل دیا گیا تو جو طفیلی انوار ہیں ان کا مقابلہ حقیقی انوار سے نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

(خطبات ناصر جلد 2صفحہ 554-555۔ نظارت اشاعت ربوہ 2006ء)

ایک اورروایت سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور اس پر عمل کرنے والے بچوںکے والدین کو بھی جنت میں نمایاں مقام عطا ہوگا جنہوں نے اپنے بچوں کو تلاوت کی عادت ڈالی اور اُن کے بچے اس عادت کی وجہ سے قرآن کریم کو پڑھنے اور اُس پر عمل کرنے والے بن گئے۔

سھل بن معاذ جُھنیؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا تو قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو دو تاج پہنائے جائیں گے۔ جن کی روشنی سورج کی چمک سے بھی زیادہ ہوگی جو ان کے دنیا کے گھروں میں ہوتی تھی۔ پھر جب ان کے والدین کا یہ درجہ ہے تو خیال کرو کہ اُس شخص کا کیا درجہ ہوگا جس نے قرآن پر عمل کیا۔

(ابوداؤد۔ کتاب الوتر باب ثواب قراء ۃ القرآن)

یہی وجہ ہے کہ رسول کریمﷺ نے والدین کو توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اندر قرآن کریم کی محبت پیدا کریں تاکہ وہ اُن کی اولاد اور خود اُن کے لیے بلندی درجات کا موجب ہو۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

اپنی اولاد میں تین خوبیاں ضرور پیدا کرو۔ اپنے نبی سے محبت، نبی کے اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن۔ کیونکہ حاملین قرآن اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اصفیاء کے ساتھ اس روز اللہ کے سائے کے نیچے ہوں گے جس دن کوئی اور سایہ نہیں ہوگا۔

(الجامع الصغیر سیوطی)

مدد، رحمت اور سلامتی

اللہ تعالیٰ قرآن کریم پڑھنے پڑھانے اور سننے سنانے والوں پر سکینت نازل کرتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت کے سائے تلے آجاتے ہیں اور انہیں فرشتے اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

وَمَا قَعَدَ قَوۡمٌ فِی مَسۡجِدِِ یَّتۡلُوۡنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَارَ سُوۡنَہٗ بَیۡنَھُمۡ اِلَّا نَزَلَتۡ عَلَیۡھِمُ السَّکِیۡنَۃُ وَغَشِیَتۡھُمُ الرَّحۡمَۃُ وَحَفَّتۡھُمُ الۡمَلَائِکَۃُ وَمَنۡ اَبۡطَأَبِہٖ عَمَلُہٗ لَمۡ یُسۡرِعُ بِہٖ نَسَبُہٗ

(جامع ترمذی، اَبۡوَابُ الۡقِرَاءَ ۃِ۔ بَاب378، حدیث: 855)

اور کوئی قوم ایسی نہیں کہ وہ مسجد میں بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت یا آپس میں ایک دوسرے کو قرآن سنتے سناتے، سیکھتے سکھاتے ہوں اور ان پر اللہ کی مدد نازل نہ ہو اور اس کی رحمت ان کا احاطہ نہ کرلے اور فرشتے انہیں گھیر نہ لیں اور جس نے عمل میں سستی کی اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا۔

عَنۡ عَبۡدِ اللّٰہِ بۡنِ عَمۡرٍو أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ بِابۡنٍ لَہُ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ اِنَّ ابۡنِی یَقۡرَاُ الۡمُصۡحَفَ بِالنَّھَارِ وَیَبِیۡتُ بِاللَّیۡلِ فَقَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ مَا تَنۡقِمُ أَنَّ ابۡنَکَ یَظِلُّ ذَاکِرًا وَیَبِیۡتُ سَالمًا

(مسند احمد بن حنبل حدیث: 6414)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی اپنے بیٹے کو لے کر نبیﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ ! میرا یہ بیٹا دن کو قرآن پڑھتا ہے اور رات کو سوتا رہتا ہے، نبیﷺ نے فرمایا: اگر وہ سارا دن ذکر میں اور رات سلامتی میں گزار لیتا ہے تو تم اس پر کیوں ناراض ہو رہے ہو؟

حضرت براءؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی سورت کہف پڑھ رہا تھا اور اس کے پاس ایک گھوڑا تھا جو دو لمبی رسیوں سے بندھا ہوا تھا تو اسے ایک بدلی نے ڈھانپ لیا وہ گھومنے لگی اور قریب آنے لگی اور اس کا گھوڑا اس کی وجہ سے بدکنے لگا جب صبح ہوئی تو وہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے اس کا ذکر کیا اس پر حضورؐ نے فرمایاکہ یہ سکینت تھی جو قرآن کی وجہ سے نازل ہوئی۔

(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصرھا، بَاب نُزُولِ السَّکِیۡنۃِ لِقرَائَ ۃِالۡقُرۡآنِ)

شفاعت کے حقدار

رسول کریمﷺ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں ان لوگوں کی شفاعت کرے گا جو اس کی تلاوت میں مشغول رہتے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی پوری کوشش کیا کرتے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نبی کریمﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے:

وَ اَنۡذِرۡ بِہِ الَّذِیۡنَ یَخَافُوۡنَ اَنۡ یُّحۡشَرُوۡۤا اِلٰی رَبِّہِمۡ لَیۡسَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیۡعٌ لَّعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ

(الانعام: 52)

اور اس (قرآن)کے ذریعہ تو انہیں ڈرا جو خوف رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ربّ کی طرف اکٹھے کئے جائیں گے۔ اس (قرآن) کے سوا اُن کا کوئی ولی اور کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہوگا۔ تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔

حضرت ابوامامہ الباھلیؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

قرآن پڑھو کیونکہ قیامت کے دن وہ اپنے پڑھنے والوں کےلیے شفیع کے طور پر آئے گا۔

(صحیح مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب فضل قراء ۃ القرآن حدیث نمبر 1337)

حضرت عبداللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ

روزے اور قرآن قیامت کے دن بندے کی شفاعت کریں گے۔ روزے کہیں گے کہ اے میرے ربّ! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے پینے اور خواہشات سے روکا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا میں نے اسے رات کی نیند سے روکے رکھا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں یعنی روزے اور قرآن کی شفاعت قبول کی جائے گی۔

(مسند احمد۔ مسند المکثرین من الصحابہ حدیث: 7336)

نبی کریمﷺ نے فرمایا:

اِنَّ سُوۡرَۃً مِنَ الۡقُرۡآنِ ثَلَاثُوۡنَ اٰیَۃً شَفَعَتۡ لِرَجُلٍ حَتّٰی غُفِرَلَہٗ وَھِیَ تَبَارَکَ الَّذِیۡ بَیَدِہِ الۡمُلۡکُ۔

(جامع ترمذی، اَبۡوَابُ فَضَائِلِ الۡقُرۡاٰنِ، 360: بَابُ مَاجَاءَ فِیۡ سُوۡرَۃِ الۡمُلۡکِ)

قرآن میں تیس آیتوں والی ایک سورت ہے جس نے ایک شخص کی شفاعت کی اور اسے بخش دیا گیا۔ وہ تَبَارَکَ الَّذِیۡ بَیَدِہِ الۡمُلۡکُ ہے۔

پس قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے اور رات کی گھڑیوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور قیام کی حالت میں اس بابرکت کلام کو پڑھنے والے اُس کے نزدیک بہت مقرب ومکرم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایاہے:

وَ الَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا۔

(الفرقان: 65)

اور وہ لوگ جو اپنے ربّ کے لیے راتیں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔

پس قرآن کریم کی تلاوت ایک انسان کے لیے بہت اعزاز ہے۔ تمام آسمانی صحائف میں قرآن شریف ہی واحد صحیفہ ہے جس کی حفاظت اور کثرت سے پڑھے جانے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے۔ قرآن شریف کامل ابدی شریعت ہے جس کی تعلیمات ہمیشہ تازہ بتازہ نشانات کے ذریعہ اپنے ماننے والوں کے ایمان و ایقان کا باعث بنتی ہیں۔ کثرت سے تلاوت سے قرآن کریم کی حفاظت ہوتی ہے۔ اسی لیے اس کی تلاوت کا اجروثواب مقرر کیا گیا ہے تاکہ لوگ اس کا مطالعہ کرتے رہیں اور اس ذریعہ سے اس کی حفاظت کا بندوبست رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:

اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَ قُرۡاٰنَہٗ

(القیامۃ: 18)

یقینا ًاس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے۔

پس مبارک ہیں وہ جو اس چشمۂ صافی سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور جام معرفت پیتے اور پلاتے ہیں تاکہ اُنہیں حیات جاوداں نصیب ہو۔ قرآن شریف عدیم النظیر کلام ہے جو انسانی حواس خمسہ کی تسکین کے لیے بیش بہا خزانہ ہے۔ یہ آسمانی نصائح سے مزین آسان کلام ہے جس میں انسانی فطرت کے مطابق تعلیم دی گئی ہے۔

وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ

(القمر: 18)

اور یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا۔ پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟

قرآن شریف خالصتاً خدائے رحمان کا کلام ہےجو نبی کریمﷺ کے ذریعہ نوع انسان تک پہنچایا گیا۔

وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی۔ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی۔

(النجم: 4تا5)

اور وہ خواہشِ نفس سے کلام نہیں کرتا۔ یہ تو محض ایک وحی ہے جو اُتاری جارہی ہے۔

پس اس بابرکت اور مبارک کلام کا سیکھنا، سکھانا، پڑھنا، پڑھانا اور دوسروں تک پھیلانا باعث برکت اور موجب ثواب ہے۔

٭…٭… (جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button