متفرق مضامین

رمضان المبارک اور حصول تقویٰ کے ذرائع

(‘ابو فاضل بشارت’)

اسلامى مہىنوں مىں سےنواں مہىنہ رمضان المبارک مومنىن پراللہ تعالىٰ کى عظىم نعمت ہے۔ اس بابرکت مہىنے مىں اللہ تعالىٰ کى طرف سے انوار و برکات کابے بندفىضان جارى ہوتاہے اور اس کى رحمتىں موسلادھار بارش کى طرح برستى ہىں۔ ماہ رمضان قرب الٰہی ونزول ملائکہ، حصول تقوىٰ وموجب مغفرت، تنوىرقلب وتطہىرروح، تزکىہ نفس وتزکىہ اموال، فراخى رزق و کشائشِ امور، حصول خىرودفع شر، ازدىادحسنات وامحائےسىئات اوردخول بہشت و نجات جہنم کابہترىن ذرىعہ ہے۔

انہى برکات کے پىش نظراس بابرکت مہىنہ سے دو ماہ قبل جب رجب کا مہىنہ آتا تو رسول اللہﷺ ىہ دعا فرماتے کہ

’’اللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ‘‘

(شعب الاىمان للبىھقى جزء5صفحہ348)

کہ اے اللہ! ہمارے لىے رجب اور شعبان کے مہىنے مىں بھى برکت دے اور ہمىں ماہ رمضان تک بھى رسائى نصىب ہوجائے۔

سىد الشہوررمضان المبارک کى فضىلت کااندازہ اس بات سے لگاىاجاسکتاہےکہ اللہ تعالىٰ نےاپنى آخرى جامع اورمکمل شرىعت اس مہىنہ مىں نازل فرمائى۔ قرآن کرىم مىں اللہ تعالىٰ فرماتاہے:

شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ

(البقرہ:186)

رمضان کامہىنہ جس مىں قرآن انسانوں کےلئےاىک عظىم ہداىت کےطورپراُتاراگىااوراىسےکھلےنشانات کےطورپرجن مىں ہداىت کى تفصىل اورحق وباطل مىں فرق کردىنےوالےامورہىں۔

رسول اللہﷺ نےرمضان المبارک کى فضىلت کےبارے مىں فرماىا:

’’اےلوگو!تم پراىک بڑى عظمت(اورشان)والا، مہىنہ ساىہ کرنےوالاہے۔ ہاں اىک برکتوں والامہىنہ جس مىں اىک اىسى رات ہےجو(ثواب وفضىلت کےلحاظ سے)ہزارمہىنوں سےبہترہے، اللہ تعالىٰ نےاس کے روزے فرض کیےہىں اوراس کى رات کى عبادت کونفل ٹھہراىاہے۔ اس مہىنہ مىں جوشخص کسى نفلى عبادت کے ذرىعہ اللہ تعالىٰ کاقرب حاصل کرنےکى کوشش کرےتواسےاس نفل کاثواب عام دنوں مىں فرض ادا کرنے کے برابرملےگااورجس نےاس مہىنےمىں اىک فرض اداکىااسےعام دنوں کےسترفرض کے برابرثواب ملےگا۔

اور ىہ مہىنہ صبرکا(مہىنہ)ہےاورصبرکاثواب جنت ہے۔ ىہ ہمدردى وغمخوارى کامہىنہ ہےاوراىسامہىنہ ہےجس مىں مومن کا رزق بڑھاىاجاتاہے۔ اورجوشخص اس مہىنہ مىں روزہ دارکى افطاری کرواتاہےتوىہ عمل اس کےگناہوں کى معافى کاذرىعہ بن جاتاہےاوراسےآگ سے آزاد کىا جاتا ہے۔ اوراسےروزہ دارکے اجرکےبرابر ثواب ملتاہے بغىر اس کےکہ روزہ دارکےاجرمىں کچھ کمى ہو۔ (صحابہ کرامؓ بىان کرتےہىں)ہم نے حضورﷺ سےسوال کىاہم مىں سےہر اىک کى اتنى توفىق نہىں کہ روزہ دارکى افطارى کاانتظام کر سکے تو رسول اللہﷺ نےفرماىا:اللہ تعالىٰ افطارى کاىہ ثواب اس شخص کوبھى عطاکرتاہےجوروزہ دارکواىک گھونٹ دودھ مىں پانى(دودھ کى کچى لسى)سےىاکھجورسےىاپانى کےاىک گھونٹ سےہى روزہ کھلوا دىتا ہے اور جو روزہ دار کو سىر کر کے پىٹ بھر کے کھلائے گا۔ تو اللہ تعالىٰ اسے مىرے حوض سے اىسا شربت پلائےگاکہ اسےکبھى پىاس نہىں لگےگى۔ ىہاں تک کہ وہ جنت مىں داخل ہوگا۔

اورىہ اىسا مہىنہ ہےجس کى ابتدانزول رحمت ہےاورجس کا وسط مغفرت کاوقت ہے۔ اورجس کاآخرکامل اجرپانےىعنى آگ سےآزادى کازمانہ ہے۔ اورجوشخص اس مہىنےمىں اپنے مزدورىا خادم سےاس کےکام کابوجھ ہلکا کرتا ہےاورکم خدمت لىتاہےتواللہ تعالىٰ اس شخص کوبھى بخش دے گااوراسےآگ سے آزاد کردے گا۔‘‘

(شعب الايمان للبىھقى جزء5صفحہ224)

ملائکہ سے مشابہت

پس رمضان المبارک کےبےشماربرکات وفضائل ہىں۔ روزہ اىک اىسى عبادت ہےجس سےانسان ملائکہ سےمشابہت اختىار کرلىتاہے۔ فرشتے اللہ تعالىٰ کےمقرب ہىں اوران کى اىک صفت قرآن کرىم مىں ىہ بىان ہوئى ہے کہ

لَا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ (التحريم:7)

کہ وہ اللہ کى، اُس بارہ مىں جووہ انہىں حکم دے، نافرمانى نہىں کرتےاوروہى کرتے ہىں جووہ حکم دىئےجاتےہىں۔

روزہ داربھى اللہ کےحکم پرروزہ رکھتاہےاوراس حالت مىں جواللہ نےاحکام دىےہىں ان پرعمل کرتے ہوئےتقوىٰ کى راہ پر قدم مارتاہےاورىوں وہ فرشتوں کى مشابہت اختىارکرتاہے۔

رمضان المبارک حصول تقوىٰ کا بہترىن ذرىعہ

پس حصول تقوىٰ کےلىےرمضان المبارک سےبڑھ کرکوئى مہىنہ مومنىن کومىسرنہىں آسکتاجىساکہ قرآن کرىم مىں روزوں کى فرضىت کابنىادى مقصدہى تقوىٰ بىان کىاگىاہےچنانچہ فرماىا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔ (البقرہ:184)

اےوہ لوگوجواىمان لائےہو!تم پرروزےاسى طرح فرض کردىئےگئےہىں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پرفرض کئےگئےتھےتاکہ تم تقوىٰ اختىارکرو۔

پس روزےکابنىادى مقصدہى ىہ ہےکہ انسان تقوىٰ اللہ اختىار کرتے ہوئے اپنے نفس کو دنىوى و نفسانى خواہشات کى ملونى سےپاک کرکےاسےاللہ تعالىٰ کےاحکام کاپابنداوراىمانى وروحانى تقاضوں کاتابعداربنائےاور احکام الٰہی کے مقابل پرنفس کى خواہشات اورشہوات پرقابوپانےکى عادت ڈال کرمعصىت وگناہ سے بچا رہے۔ اسى کانام تقوىٰ ہےجوانبىاء ورسل کےمبعوث ہونے کى اغراض مىں سےہے۔اس لىےگذشتہ تمام شرىعتوں مىں بھى روزے کاحکم دىاگىاجن کى نوعىت ہرزمانہ کےلحاظ سےمختلف تھى۔ لىکن اسلام نےسال کےبارہ مہىنوں مىں سےاىک مہىنہ خاص طورپرحصول تقوىٰ کےاہم مقصدکےلىےچنا۔

حصول تقوىٰ کےذرائع

اسلام اىسامذہب ہےجوافراط وتفرىط سے ہٹ کرمىانہ روى کى تعلىم پىش کرتاہے۔ انسان ساراسال اکل وشرب اوردنىاوى امورمىں مگن رہتاہےجوقرب الٰہی اورحصول تقوىٰ مىں سستى ورکاوٹ کاباعث بنتے ہیں۔ لىکن رمضان المبارک خداتعالىٰ کى اىک اىسى خاص نعمت ہےجس سےمتمتع ہوتےہوئےروزہ دار الٰہی حکم کےمطابق کھانےپىنےاوردىگرنفسانى خواہشات سےرک کراپنى زندگى مىں مىانہ روى اوراعتدال پىداکرتاہے۔ اور ىہى عدل کى راہ روزہ دارکوتقوىٰ کى منزل پرگامزن کرتى ہے۔ چنانچہ اللہ تعالىٰ قرآن کرىم مىں فرماتا ہے:

اعْدِلُوْا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى (المائدہ:9)

کہ عدل کرو ىہ تقوىٰ کےسب سےزىادہ قرىب ہے۔

اسى کى طرف رسول اللہﷺ نےراہ نمائى فرمائى کہ

’’لِكُلِّ شَيْءٍ زَكَاةٌ، وَزَكَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ‘‘

(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب فى الصوم زکاة الجسد)

ىعنى ہرچىزکى زکوٰة ہے اورجسم کى زکوٰة روزہ ہے۔

رمضان المبارک مىں روزہ دار کے لىے صرف کھانے پىنے سے رک جانا، نفسانى خواہشات پرقابو پانا اور پنجوقتہ نماز باجماعت کا قىام اور معمول کى تلاوت قرآن کرىم وغىرہ ہى کافى نہىں بلکہ اس کےساتھ دىگراہم درج ذىل اموربھى درکارہىں جن پرعمل کرکےحصول تقوىٰ کےساتھ رمضان المبارک کےانواروبرکات حاصل کىے جاسکتے ہىں۔

اخلاص سے عبادات مىں اضافہ

اللہ تعالىٰ نے قرآن کرىم مىں لوگوں کو سب سے پہلا حکم اپنى عبادت کرنےکادىاہے۔ جس کابنىادى مقصدحصول تقوىٰ بىان فرماىا ہے، چنانچہ قرآن کرىم مىں ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔ (البقرہ:22)

اے لوگو! تم عبادت کرو اپنے رب کى جس نے تمہىں پىدا کىا اور ان کو بھى جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم تقوىٰ اختىار کرو۔

پس رمضان المبارک مىں اپنى معمول کى عبادات سے زائد بجالانا حصول تقوىٰ مىں ممدو معاون ہے۔ عام دنوں مىں اگر عبادات، نماز تہجد اورنوافل کى ادائىگى مىں کمى رہ گئى ہوتوماہ رمضان موقع فراہم کرتا ہے کہ اس مىں کثرت سےعبادات کى جائىں اورزىادہ نوافل ادا کىے جائىں۔ کىونکہ نوافل قرب الٰہی اورحصول تقوىٰ کا ذرىعہ ہىں۔ حدىث قدسى ہے کہ

’’مىرا بندہ نوافل کے ذرىعہ مىرے قرىب ہوتا چلا جاتا ہے، ىہاں تک کہ مىں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں (اور جب وہ مىرا پىارا بن جاتا ہے)تومىں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اوراس کى آنکھىں بن جاتا ہوں جن سے وہ دىکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتاہوں جن سےپکڑتا ہے اوراس کى ٹانگىں ہوجاتاہوں جن سےوہ چلتاہے۔‘‘

(بخارى کتاب الرقاق باب التواضع )

رسول اللہﷺ نے ماہ رمضان مىں عبادت اورقىام اللىل کى اہمىت بىان کرتے ہوئے فرماىا:

’’جو شخص رمضان کے مہىنہ مىں حالت اىمان مىں ثواب اور احتساب کى خاطر عبادت کرتا ہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جىسے اُس روز تھا جب اس کى ماں نے اسے جنا۔‘‘

(سنن نسائى کتاب الصیام ذِكْرُ اخْتِلَافِ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ)

نىزفرماىا کہ اللہ تعالىٰ نے رمضان کو تم پر فرض کىا ہے اور مىں نے اس کى راتوں کى عبادت تمہارے لىے بطور سنت قائم کردى ہے۔

(نسائى کتاب الصیام)

رسول اللہﷺ کا اسوۂ حسنہ اورسنت ىہ تھى کہ اىک دفعہ حضرت عائشہؓ سے پوچھا گىا کہ آنحضورﷺ کى رمضان المبارک مىں رات کى عبادت کىسى ہوتى تھى؟انہوں نےفرماىا:

حضورﷺ رمضان اور رمضان کے علاوہ اىام مىں گىارہ رکعتوں سے زائد نہىں پڑھتے تھے۔ ان رکعتوں کے حسن اور لمبائى کے متعلق نہ پوچھو۔ ىعنى مىرے پاس الفاظ نہىں کہ حضورؐ کى اس لمبى نماز کى خوبصورتى بىان کروں۔ پھر اىسى لمبى اور خوبصورت چار رکعات اور ادا فرماتے تھے پھر تىن وترآخر مىں پڑھتے تھے ىعنى کل گىارہ رکعات۔

(بخارى کتاب التھجد باب16)

لىکن ماہ رمضان مىں رسول اللہﷺ کى عبادات کے متعلق آپؓ فرماتى ہىں کہ آنحضورﷺ کو سوائے رمضان کے عام طور پر سارى سارى رات کھڑے ہوکر عبادت کرتے نہىں دىکھا۔

(نسائى کتاب قیام اللیل و تطوع النھار باب قیام اللیل)

کثرتِ تلاوتِ قرآنِ کرىم

رمضان المبارک نزول قرآن کرىم کا مہىنہ ہے۔ اس لحاظ سے اس مہىنہ مىں تلاوت قرآن کرىم کى بے شمار برکات مىں سے اىک برکت حصول تقوىٰ ہے۔ رمضان المبارک مىں روزہ دار معمول سے بڑھ کر قرآن کرىم کى تلاوت کرتا ہے جو تنوىر قلب اور حصول تقوىٰ کا باعث بنتا ہے۔ ىہى رسول اللہﷺ کى سنت مبارکہ ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہرىرہؓ بىان کرتے ہىں کہ

’’جبرئىلؑ رسول اللہﷺ سے ہر سال اىک بار قرآن مجىد سنتے اورسناتے، لىکن جس سال آپؐ کى وفات ہوئى اس سال جبرئىلؑ نے دو بار قرآن مجىدکا دورمکمل کىا۔‘‘

(بخارى کتاب فضائل القرآن بَابُ كَانَ جِبْرِيلُ يَعْرِضُ القُرْآنَ)

اىک اور رواىت مىں ہے کہ رمضان المبارک مىں ہررات جبرئىلؑ رسول اللہﷺ کے پاس تشرىف لاتے اورقرآن کرىم کے نازل شدہ حصوں کا دور کىا کرتے۔

(بخارى کتاب فضائل القرآن بَابُ كَانَ جِبْرِيلُ يَعْرِضُ القُرْآنَ)

چنانچہ اسوۂ رسولؐ پر عمل کرتے ہوئے رمضان المبارک کے بابرکت اىام مىں کم ازکم اىک مرتبہ قرآن کرىم کا دَور ضرور مکمل کرنا چاہىے۔

کثرتِ استغفار

رمضان المبارک مىں روزہ دار عبادات اور تلاوت قرآن کرىم مىں اضافہ کے ساتھ استغفار مىں بھى کثرت کرتا ہے جو حصول تقوىٰ کے ساتھ اس کى مغفرت کا باعث اور آگ سے نجات کا ذرىعہ ہوتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے رمضان المبارک کے درمىانى عشرہ کو مغفرت کا موجب قرار دىا ہے۔ چنانچہ اس مىں کثرت سے استغفار کرناچاہىے، سىدالاستغفاراور دوسرى مغفرت کى دعائىں پڑھتے رہنا چاہىے تاکہ تقوىٰ حاصل ہو اور جسے تقوىٰ حاصل ہوگىا وہ بخشاگیا۔

حضرت کعب بن عجرہؓ بىان کرتے ہىں:

’’رسول اللہﷺ نے اىک دن فرماىا کہ اىک منبر لے کر آؤ تو ہم منبر لے آئے جب رسول اللہﷺ نےپہلے، دوسرے اور تىسرے زىنہ پر قدم رکھا تو’’آمىن‘‘فرماىا۔ جب آپ نىچے تشرىف لائے تو ہم نے پوچھا کہ ىارسول اللہﷺ ! ہم نے آج آپؐ سے اىسى بات سنى ہے جو پہلے کبھى نہىں سنى۔ تو رسول اللہﷺ نے فرماىا کہ حضرت جبرئىلؑ مىرے پاس تشرىف لائے تھے اور کہا کہ ہلاکت ہو اس شخص کے لىے جس نے رمضان المبارک کا مہىنہ پاىا اور بخشا نہ گىا۔ تو مىں نے اس پر آمىن کہا۔‘‘

(المستدرك على الصحيحين للحاكم جزء4صفحہ170)

ماہ رمضان المبارک کےآخرى عشرہ کى طاق راتوں مىں اىک اہم اور عظىم الشان رات لىلة القدر ہے۔ جس مىں خداکى رحمت اپنےنقطۂ کمال پرہوتى ہے اور وہ اپنے بندوں کى دعاؤں کوبطورخاص سنتا اور قبول کرتاہے۔ اس عظىم الشان رات مىں دعا کے بارہ مىں اىک دفعہ حضرت عائشہؓ نے نبى کرىمﷺ سے عرض کىا کہ اگر مىں لىلة القدر پاؤں تو کىا دعا کروں؟آپﷺ نے ىہ دعاسکھائى:

’’اللّٰهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي‘‘

(ترمذى ابواب الدعوات باب 85، سنن ابن ماجہ ابواب الدعاء)

کہ اے اللہ تو بہت معاف کرنے والا ہے، توعفو کو پسند کرتا ہے۔ پس مجھے معاف کردے۔

کثرتِ صدقات

رمضان المبارک مىں کثرت صدقات بھى حصول تقوىٰ کا اہم ذرىعہ ہے۔ نىز ىہ انسان کى آزمائش کا کفارہ بھى ہوتا ہے چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرماىا:

’’فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ، تُكَفِّرُهَا الصَّلاَةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ‘‘

(صحیح بخارى کتاب الصوم بَابٌ الصَّوْمُ كَفَّارَةٌ)

کہ آدمى کى آزمائش اس کے اہل و عىال، اس کے مال اور اس کے ہمسائے کے بارے مىں ہوتى ہے، ان آزمائشوں کا کفارہ نماز، روزہ اور صدقہ ہىں۔

پس ماہ رمضان مىں نماز، روزہ کے ساتھ کثرت سے صدقات دىنے کا بھى خاص اہتمام کرنا چاہىے کىونکہ ىہى سنت رسولﷺ بھى ہے۔ حضرت ابن عباسؓ بىان کرتے ہىں کہ

’’نبى کرىمﷺ سب سے زىادہ سخى تھے مگر آپ کى سخاوت رمضان کے مہىنہ مىں اپنے انتہائى عروج پر ہوتى تھى، جب جبرئىلؑ آپؐ سے ملاقاتىں کرتے تھے اس وقت آپؐ کى سخاوت اپنى شدت مىں تىز آندھى سے بھى بڑھ جاتى تھى۔‘‘

(بخارى کتاب بدء الوحى كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ)

اس سنت نبوىؐ کے مطابق رمضان مىں بطور خاص ہرقسم کے صدقات کا اہتمام کرنا چاہىے۔ فرىضۂ زکوٰةکى ادائىگى کے لىے بھى حسب شرائط ىہ مہىنہ موزوں ہے۔

کثرت صدقات سے ہم معاشرہ مىں اپنے غرىب بھائىوں کے لىے اس بابرکت مہىنہ مىں آسائش کا سامان پىدا کرتے ہىں اور انہىں اللہ تعالىٰ کى نعمتوں سے متمتع ہونے کى توفىق ملتى ہے۔ نىز رمضان المبارک کا مہىنہ کشائش رزق اورہمدردى و غمخوارى کا مہىنہ ہےچنانچہ اس مہىنہ مىں روزہ کے علاوہ کثرتِ صدقات تقوىٰ کے حصول کا ذرىعہ بنتے ہىں۔

صراط مستقیم کی پیروی

حصول تقویٰ کا ایک ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صراط مستقیم کی پیروی بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتا ہے:

وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیۡ مُسۡتَقِیۡمًا فَاتَّبِعُوۡہُ ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمۡ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ؕ ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ (الانعام:154)

اور ىہ (بھى تاکىد کرتا ہے) کہ ىہى مىرا سىدھا راستہ ہے پس اس کى پىروى کرو اور مختلف راہوں کى پىروى نہ کرو ورنہ وہ تمہىں اس کے رستہ سے ہٹادىں گى ىہ ہے وہ جس کى وہ تمہىں تاکىدى نصىحت کرتا ہے تاکہ تم تقوىٰ اختىار کرو۔

یہاں صراط مستقیم کی صراحت اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی دوآیات میں فرمائی ہے:

قُلۡ تَعَالَوۡا اَتۡلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمۡ عَلَیۡکُمۡ اَلَّا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ۚ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ مِّنۡ اِمۡلَاقٍؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُکُمۡ وَ اِیَّاہُمۡ ۚ وَ لَا تَقۡرَبُوا الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ ۚ وَ لَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ۔ وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ ۚ وَ اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ وَ الۡمِیۡزَانَ بِالۡقِسۡطِ ۚ لَا نُکَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ۚ وَ اِذَا قُلۡتُمۡ فَاعۡدِلُوۡا وَ لَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی ۚ وَ بِعَہۡدِ اللّٰہِ اَوۡفُوۡا ؕ ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ (الانعام:152تا153)

تو کہہ دے آؤ مىں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے ربّ نے تم پر حرام کردىا ہے (ىعنى) ىہ کہ کسى چىز کو اس کا شرىک نہ ٹھہراؤ اور (لازم کردىا ہے کہ) والدىن کے ساتھ احسان سے پىش آؤ اور رزق کى تنگى کے خوف سے اپنى اولاد کو قتل نہ کرو ہم ہى تمہىں رزق دىتے ہىں اور ان کو بھى اور تم بے حىائىوں کے جو اُن مىں ظاہر ہوں اور جو اندر چھپى ہوئى ہوں (دونوں کے) قرىب نہ پھٹکو اور کسى اىسى جان کو جسے اللہ نے حرمت بخشى ہو قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ ىہى ہے جس کى وہ تمہىں سخت تاکىد کرتا ہے تا کہ تم عقل سے کام لو۔ اور سوائے اىسے طرىق کے جو بہت اچھا ہو ىتىم کے مال کے قرىب نہ جاؤ ىہاں تک کہ وہ اپنى بلوغت کى عمر کو پہنچ جائے اور ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کىا کرو ہم کسى جان پر اس کى وسعت سے بڑھ کر ذمہ دارى نہىں ڈالتے اور جب بھى تُم کوئى بات کرو تو عدل سے کام لو خواہ کوئى قرىبى ہى (کىوں نہ )ہو اور اللہ کے (ساتھ کئے گئے) عہد کو پورا کرو ىہ وہ امر ہے جس کى وہ تمہىں سخت تاکىد کرتا ہے تاکہ تم نصىحت پکڑو۔

پس صراط مستقیم میں یہ امور بھی شامل ہیں کہ

i.…کسی چیز کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرایا جائے اور صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ جیساکہ فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ (آل عمران:52)

ىقىناً اللہ مىرا بھى ربّ ہے اور تمہارا بھى ربّ ہے پس اسى کى عبادت کرو (اور) ىہى صراط مستقیم ہے۔

ii.…والدین سے حسن سلوک سے پیش آیاجائے۔

iii.…رزق کى تنگى کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کیا جائے۔

iv.…مخفی و ظاہری بے حیائیوں سے بچاجائے۔

v.…کسى اىسى جان کو جسے اللہ نے حرمت بخشى ہو قتل نہ کیا جائے۔

vi.…یتیموں کو ان کے حقوق کما حقہ ادا کیے جائیں اور ان کے اموال کی صحیح نہج پر حفاظت کی جائے۔

vii.…ماپ اور تول میں انصاف سے کام لیا جائے۔

viii.…کسی بھی جان پر اس کی وسعت سے بڑھ کر ذمہ داری اور بوجھ ڈال کر اسے آزمائش میں نہ ڈالا جائے۔

ix.…عدل و انصاف کو ملحوظ خاطر رکھاجائے خواہ وہ کسی قریبی کے ساتھ ہی کوئی معاملہ کیوں نہ ہو۔ عدل و انصاف کا راستہ ہی صراط مستقیم ہے جیساکہ فرمایا:

وَ مَنۡ یَّاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ ۙ وَ ہُوَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ (النحل:77)

جو عدل کا حکم دىتا ہے اور صراط مستقیم(سیدھے راستے) پر(گامزن)ہے۔

x.…اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہوا عہد پورا کیا جائے۔

یہ دس امور ایسے ہیں جو صراط مستقیم پر چلانے والے ہیں اور صراط مستقیم کی پیروی تقویٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں روزہ دار ان تمام امور کو رضائے الٰہی کے حصول کے لیے بجالاتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ صراط مستقیم پر چل کر تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتا ہے اور قرب و رضائے الٰہی کا مورد بنتا ہے۔

ازدىاد حسنات

رمضان المبارک کامہىنہ خاص مہىنہ ہے جو اپنے ساتھ نىکىوں کى بہار لے کرآتا ہے۔ اس مہىنہ مىں نىکىوں کااجر بھى کئى گنا ہوجاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرماىا:

’’جب ماہ رمضان کى پہلى رات آتى ہے تو آسمانوں (جنت) کے دروازے کھول دیے جاتے ہىں اور رمضان کى آخرى رات تک کوئى دروازہ بند نہىں ہوتااور جو مومن بندہ اس ماہ مبارک کى کسى بھى رات مىں نماز پڑھتا ہےتواﷲ تعالىٰ اس کے ہر سجدہ کے عوض اس کے لیے پندرہ سو نىکىاں لکھتا ہے اور اس کے لیے جنت مىں سرخ ىاقوت کا گھر بناتا ہے جس مىں ساٹھ ہزار دروازے ہوں گے اور ہر دروازے کے پٹ سونے کے بنے ہوں گے جن مىں ىاقوت سرخ جڑے ہوں گے۔ پس جو کوئى ماہ رمضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تواﷲتعالىٰ اس کے ماہ رمضان کے اس دن تک کےتمام گذشتہ گناہ معاف کردىتا ہے اور اس کے لیے صبح سے شام تک ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہىں۔ رات اور دن مىں جب بھى وہ سجدہ کرتا ہے اس ہر سجدہ کے عوض اسے (جنت مىں )اىک اىسا درخت عطا کىا جاتا ہے کہ اس کے سائے مىں گھوڑسوار پانچ سو برس تک چلتا رہے۔‘‘

(شعب الايمان للبىھقى جزء5صفحہ 241)

پس ماہ رمضان جو نىکىوں کو جمع کرنے والا مہىنہ ہے اس مىں نىکىوں مىں اضافہ سے تقوىٰ بھى حاصل ہوتا ہے۔

ترک معاصى واجتناب ذنوب

حصول تقوىٰ کے لىے اىک اور اہم بات ترک معاصى اوراجتناب ذنوب ہے۔ رمضان المبارک مىں روزہ کى حالت مىں ىہ اموربجالاناکافى حد تک آسان ہوجاتا ہے۔ ىہى ہمارے آقا و مولارسول اللہﷺ کاحکم ہے، فرماىا:

’’الصِّيَامُ جُنَّةٌ فَلاَ يَرْفُثْ وَلَا يَجْهَلْ، وَإِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ مَرَّتَيْنِ‘‘

(بخارى کتاب الصوم باب فضل الصوم)

ىعنى روزے ڈھال ہىں۔ پس روزہ کى حالت مىں نہ کوئى شہوانى بات کرے نہ جہالت اور نادانى کرے اور اگر کوئى اس سے لڑائى ىا گالى گلوچ کرے بھى تو وہ دو مرتبہ کہے مىں توروزہ دار ہوں۔

اسى طرح فرماىا:

’’وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ حَصِينَةٌ‘‘

(ترمذى ابواب السفر بَابُ مَا ذُكِرَ فِي فَضْلِ الصَّلَاةِ)

کہ روزہ اىک ڈھال اور باحفاظت قلعہ ہے۔ جو روزہ دار کو گناہوں سے بچاکر دوزخ کى آگ سے نجات بخشتا ہے۔

پس تقوىٰ کے حصول کے لىےماہ رمضان المبارک مىں روزہ دار کا صرف کھانا پىنا چھوڑ دىنا ہى کافى نہىں بلکہ اس رحمت ومغفرت کے مہىنے مىں آنکھ، کان اور زبان کے غلط استعمال سے بچنا بھی ضروری ہے۔ اسى طرح جھوٹ، چغلى، غىبت، لغوىات اور فضول باتوں سے پرہىز کرنابھی موجب حصول تقویٰ ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرماىا:

’’مَنْ لَّمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ‘‘

(بخارى کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فى الصوم)

کہ جس نے روزے کى حالت مىں باطل کلام اورباطل کام نہىں چھوڑےتو اللہ تعالیٰ کو اس کے محض بھوکا پىاسا رہنے کى کوئى ضرورت نہىں۔

پھر جو روزہ دار ترک معصىت نہىں کرتے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کى کچھ پرواہ نہىں کرتے ان کے بارے مىں رسول اللہﷺ نے فرماىا:

’’رُبَّ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ، وَرُبَّ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهَر‘‘

(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بَابُ مَا جَاءَ فِي الْغِيبَةِ وَالرَّفَثِ لِلصَّائِمِ)

بہت سے روزہ دار اىسے ہىں کہ ان کو روزے کى برکات مىں سے بھوکا رہنے کے علاوہ کچھ بھى حاصل نہىں ہوتا، اور بہت سے شب باش اىسے ہىں کہ ان کو رات کے جاگنے(کى مشقت)کے سوا کچھ بھى حاصل نہىں ہوتا۔

ىعنى اگر انسان روزہ کى حالت مىں جھوٹ، غىبت، چغل خوری، بدظنى، رىاکارى، تکبر وغىرہ گناہوں سے اجتناب نہىں کرتا تو اس کا روزہ اور نماز تہجد سب عبادات رائىگاں ہىں۔

پس روزہ کے بنىادى مقصد حصول تقوىٰ کےلىے ان سب گناہوں سے کنارہ کشى کرنا بھى لازم ہے۔

ذکرالٰہی اوردعاکاتسلسل

تقوىٰ کے حصول مىں رمضان المبارک کے دوران ذکر الٰہی اور دعاؤں کا بہت اہم کردار ہے۔ کىونکہ اللہ تعالىٰ سورة البقرة مىں روزہ کے احکام بىان کرنے کےبعد فرماتا ہے:

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ(البقرة:187)

اور جب مىرے بندے تجھ سے مىرے متعلق سوال کرىں تو ىقىناً مىں قرىب ہوں مىں دعا کرنے والے کى دعا کا جواب دىتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے پس چاہئے کہ وہ بھى مىرى بات پر لبّىک کہىں اور مجھ پر اىمان لائىں تاکہ وہ ہداىت پائىں۔

رمضان المبارک مىں اللہ تعالىٰ روزہ دار کى دعاؤں کو پاىۂ قبولىت بخشتا ہے۔ کىونکہ اللہ تعالىٰ فرماتا ہے:

’’وَالصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ‘‘

(سنن الترمذي ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّوْمِ)

ىعنى روزہ خاص مىرے لىے ہے اور مىں ہى اس کى جزا دوں گاىا خود اس کى جزا بنوں گا۔

چنانچہ اللہ تعالىٰ روزہ دار کو بطورجزا اپنے دىدار ىا ملاقات سے شرف ىاب کرتا ہے اور اس کى دعاؤں کو قبول کرکے اسے اس کى جزا دىتا ہے۔

حضرت ابوہرىرہ بىان کرتے ہىں کہ رسول اللہﷺ نے فرماىا:

’’ثَلاَثٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ، الإِمَامُ العَادِلُ، وَالصَّائِمُ حِينَ يُفْطِرُ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا فَوْقَ الغَمَامِ، وَتُفَتَّحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ‘‘

(ترمذى ابواب صفة الجنة بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الجَنَّةِ وَنَعِيمِهَا)

کہ تىن آدمىوں کى دعا ردّ نہىں ہوتى (ىعنى ضرور قبول ہوتى ہے)اىک روزے دار کى افطارى کے وقت دوسرے عادل بادشاہ کى، تىسرے مظلوم کى بددعا، اس کو اللہ تعالىٰ بادلوں سے اوپر اٹھالىتاہے اورآسمان کے دروازے اس کے لىے کھول دىے جاتے ہىں۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ بىان کرتے ہىں کہ رسول اللہﷺ نے فرماىا کہ روزہ دار کے لىے اس کى افطارى کے وقت اىک دعا اىسى ہے جو ردّنہىں کى جاتى۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بَابٌ فِي الصَّائِمِ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُ)

پس رمضان المبارک مىں دعائیں اور ذکرالٰہی کثرت سے کرنا چاہىے جس سے تقوىٰ کے حصول مىں معاونت ملتى ہے۔

اللہ تعالىٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالىٰ ہمىں رمضان المبارک کى برکات سے استفادہ کرتے ہوئے حصول تقوىٰ کى توفىق عطا فرمائے۔ آمىن

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button