الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ کے اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم اور دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

ہستی باری تعالیٰ کے متعلق میری ذاتی شہادت

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کے رؤیا اور قبولیتِ دعا کے حوالے سے رقم فرمودہ ایک طویل مضمون کا کچھ حصہ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 4؍مارچ 2013ء میں ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔ قبل ازیں اسی مضمون سے کچھ واقعات 2؍اپریل 1999ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شائع ہوچکے ہیں۔ مضمون کے بقیہ حصے میں بیان فرمودہ چند ایمان افروز واقعات ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ یاد رکھنا چاہیے کہ غیب یعنی آئندہ کا پتہ کسی انسان کو نہیں ہے۔نہ آج تک کوئی ایسا علم ایجاد ہواہے جو غیب تک رہبری کر سکے۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ اس عالم میں ’’اتفاق‘‘کوئی چیز نہیں ہے بلکہ ہر چیز اور ہر واقعہ اور ہرحادثہ کسی باعث یا علم یا عمل کا نتیجہ ہوتا ہے اور مسلسل واقعات کی زنجیر کی ایک کڑی ہوتا ہے اور کسی بات کی بابت یہ کہہ دینا کہ یونہی یا خود بخود یا اتفاقاً ہوگئی، بالکل غلط ہے۔ اسی طرح غیر معمولی یا فوری قبولیت کسی دعا کی یقیناً کسی قادر اور سمیع و بصیر ہستی کے وجود پر ایک پختہ دلیل ہے۔ اس حوالے سے چند مثالیں بیان کرتا ہوں:

٭…عبدالرحمان مصری صاحب کے مرتد ہونے سے آٹھ ماہ قبل مجھے معلوم ہوا کہ’’اتنے … (یہاں ایک خاص عدد ہے) منافق کھلم کھلا نکل جائیں گے۔ فَسَوْفَ یَاتِی اللّٰہ …۔ پیغامی اور احرار اور نئے مرتد یہ تینوں لیڈر ہوں گے۔ مسجد شہید گنج کی خدمت کے لئے احمدی والنٹیئر اور ہم حاضر ہیں۔‘‘ چنانچہ ایک سال پورا نہ ہونے پایا تھا کہ نئے مرتد اور ان کا دوسرے مخالفین کے ساتھ مل جانا میں نے بچشم خوددیکھ لیا۔

٭…حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں مَیں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ چودھویں کا چاند آسمان پر ہے اور وہ میرے دیکھتے دیکھتے پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک ٹکڑا بہت بڑا اور ایک چھوٹا سا اور دونوں ٹکڑے پھر الگ ہو کر ایک دوسرے سے دُور ہو گئے۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے کہ جب کسی کو وہم بھی نہ تھا کہ حضر ت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی خلافت کے وقت یہ جماعت یکدم اس طرح دو حصے ہو جائے گی اور بدرجس سے حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت مراد ہے۔دوٹکڑے ہو کر ایک بڑا حصہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ساتھ ہو گا اور ایک قلیل حصہ الگ اور دُور ہو جائے گا۔ مگر آخر کا ر میں نے اپنی آنکھوں سے اس بات کو بھی پورا ہوتے دیکھ لیا۔

٭…20نومبر1936ء کو مَیں نے خطبہ جمعہ کے دوران یکایک کشفی طور پر دیکھا کہ مسجد کے صحن میں ایک جنازہ رکھا ہوا ہے۔ میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ سید انعام اللہ شاہ صاحب کا جنازہ تھا۔پھر وہ نظارہ جاتا رہا۔ ایک ماہ بعد جلسہ سالانہ کے ایام میں 25دسمبر والے جمعہ کو بعد نماز جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حسب معمول چند آدمیوں کے جنازے پڑھائے۔ جب جنازہ پڑھ کر مَیں باہر نکلا تو ایک صندوق دیکھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ سید انعام اللہ صاحب کا جنازہ ہے۔ مجھے اس سے پہلے قطعاً کوئی علم یا خواب و خیال بھی نہ تھاکہ ان کی نعش حیدر آباد دکن سے، جہاں وہ دفن تھے، کبھی قادیان لائی جاسکتی ہے اور یہ کہ جمعہ کے دن مسجد میں ان کا جنازہ ہو گا۔

٭…٭…٭

مکرم محمد رفیع جنجوعہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 14؍مارچ 2013ء میں مکرمہ ف۔ز صاحبہ نے قبولیتِ دعا کی روشنی میں اپنے والدمحترم محمدرفیع جنجوعہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔

مکرم محمد رفیع جنجوعہ صاحب ستمبر 2011ء میں بعمر 87 سال وفات پاگئے۔ آپ بسلسلہ ملازمت مختلف مقامات پر متعین رہے اور ریٹائرڈ ہونے پر سرگودھا میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ وفات سے چند سال قبل سانس کی تکلیف ہونے پر ربوہ منتقل ہوگئے تھے۔ جہاں بھی قیام کیا، ہر جگہ خدمتِ دین کو مقدّم رکھا اور مطالعہ کتب سے بہت استفادہ کیا۔ خلیفہ وقت سے تعلق اور دعاؤں کا پھل ساری عمر کھایا اور مذکورہ تینوں باتوں کی نصیحت اپنی اولاد کو ہمیشہ کرتے رہے۔ آپ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے۔

آپ 1942ء میں اُس وقت فوج میں بھرتی ہوگئے جب جنگ عظیم جاری تھی۔ اسی دوران جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کے لیے آپ نے تین چار دن کی رخصت مانگی لیکن صرف ایک دن کی رخصت ملی۔ اسی کو غنیمت سمجھ کر آپ لاہور سے قادیان پہنچے اور پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو درخواست کی کہ آپ کی ملاقات حضرت مصلح موعودؓ سے کروادی جائے کیونکہ آپ نے اُسی روز واپس جانا ہے۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے جواب دیا کہ حضور کی مصروفیت کی وجہ سے انفرادی ملاقات ممکن نہیں ہے۔ چونکہ آپ کو صرف ایک دن کی رخصت ملی تھی اس لیے بہت صدمہ ہوا۔ آپ خاموشی سے دفتر کے ایک کونے میں ہی قریباً نصف گھنٹہ دعا میں مصروف رہے کہ جنگ کے دن ہیں، خدا جانے آئندہ خلیفہ وقت سے ملاقات بھی نصیب ہوتی ہے یا نہیں۔ پھر دوبارہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے پاس گئے اور اپنی درخواست دہرائی۔ وہی جواب ملا۔ آپ ابھی وہیں خاموش کھڑے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فون پر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے فرمایا کہ اگر کوئی ملاقاتی ہے تو اسے اوپر میرے پاس بھیج دو۔ یہ ایک معجزہ ہی تھا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مَیں فوجی وردی میں ملبوس تھا۔ اپنی دعا کی قبولیت دیکھ کر حضورؓ کے سامنے پہنچا تو دو زانو ہوکر حضورؓ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اتنا رویا کہ میرے آنسوؤں سے حضورؓ کے ہاتھ بھی گیلے ہوگئے۔ بصد مشکل یہ کہہ سکا کہ حضور! میری سلامتی کے لیے دعا کریں۔ چار پانچ منٹ تک روتا رہا، نہ حضورؓ نے اپنا ہاتھ الگ کیا اور نہ ہی مَیں نے چھوڑا۔ آخر خود ہی احساس ہوا کہ میرے آنسوؤں سے حضور کے دست مبارک بھیگ گئے ہیں، ایسا نہ ہو کہ حضور خود ہی ہاتھ کھینچ لیں، مَیں نے ہاتھ الگ کرلیے۔

آپ بیان کیا کرتے تھے کہ خلیفہ وقت کی دعاؤں کی قبولیت کو مَیں نے ایسے دیکھا ہے کہ خط لکھنے کے بعد اگر پوسٹ نہیں بھی ہوسکا تو حضور کی دعائیں پہنچنا شروع ہوگئیں۔ چنانچہ ایک بار جب آپ اپنی فیملی کے ساتھ شہر سے دُور ایک فوجی کیمپ میں مقیم تھے تو آپ کی ایک بیٹی نے رونا شروع کردیا۔ سوائے دعا کے کوئی چارہ نہ تھا۔ آپ نے خلیفہ وقت کی خدمت میں بھی خط لکھا اور جیب میں رکھ لیا کہ صبح بچی کو شہر ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گے تو خط بھی پوسٹ کردیں گے۔ جب صبح ڈاکٹر کو دکھایا تو اُس نے بتایا کہ بچی کیسے بچ گئی، اسے تو ڈبل نمونیہ ہے۔ آپ نے خط جیب سے نکالا اور ڈاکٹر کو دکھاکر کہا کہ اس خط نے دعاؤں کو جذب کیا ہے۔

جب آپ محکمہ TDA میں بطور مکینک ملازم تھے تو آپ کے Tool Box سے آہستہ آہستہ اوزار غائب ہونا شروع ہوگئے۔ یہ احساس ہونے پر آپ کو شدید صدمہ ہوا۔ عصر کی نماز کا وقت تھا جب آپ نے خوب رو رو کر دعا کی کہ خدایا! میری تو کسی سے کوئی دشمنی نہیں، اگر تُو نے میرے سامان کی حفاظت نہ کی تو اس نقصان کی رقم تو مَیں ساری زندگی نہیں اتار سکوں گا۔ دعا کے پانچویں روز ایک مکینک آپ کے پاس آیا جو بظاہر دوستی کا دَم بھرتا تھا لیکن اندر سے احمدی ہونے کی وجہ سے شدید دشمن تھا۔ اُس نے آپ کو سارے اوزار واپس کیے اور کہا کہ مجھے معاف کردو، چار پانچ دن سے مَیں سو نہیں سکا، کبھی سانپ کبھی شیر اور چیتے کھانے کو دوڑتے ہیں۔ پھر اُس نے درخواست کی کہ یہ بات کسی کو نہ بتانا ورنہ میری عزت خاک میں مل جائے گی۔ یہ بھی ایک معجزہ تھا۔

٭…٭…٭

پتھر کے زمانے کا ایک گاؤں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍اپریل 2013ء میں دبئی کے نزدیک تعمیر کیے جانے والے ایک حیرت انگیز گائوں کا تعارف کروایا گیا ہے جو دراصل پتھر کے زمانے کے ایک گاؤں کی عکاسی کرتا ہے۔

گزرے ہوئے وقت کو نئے انداز میں ڈھالنے کی یہ کوشش دبئی کے ایک شخص علی السعید ابراہیم نے ’’ہتا‘‘ کے مقام پر ایک چھوٹا سا گائوں تعمیر کرکے کی ہے جس میں پتھر اور لکڑی کے علاوہ کوئی دوسرا میٹیریل استعمال نہیں کیا گیا۔

جہاں یہ گائوں آباد ہے یہ زمین دبئی کے حاکم نے 1980ء میں علی سعید ابراہیم کو دی تھی۔ علی ابراہیم کا ارادہ تھا کہ یہاں شجرکاری اور کھیتی باڑی کی جائے۔ ایک روزوہ گاڑی میں بیٹھے اپنی اراضی کی جانب رواں دواں تھے کہ اچانک گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا ۔ انہوں نے گاڑی سے اتر کر دیکھا تو یہ سب ایک پتھر کی وجہ سے ہوا تھا۔ انہوں نے وہ پتھر اٹھایا تو ہاتھ میں لیتے ہی انہیں اس کی خوبصورتی نے اس قدر متاثر کیا کہ ان کے ذہن میں ایک عجیب نقشہ گھوم گیا۔ پتھر کے گائوں یا فارم ہائوس کو بنانے کے پیچھے یہی خیال کار فرما تھا ۔ اس خیال کو تقویت اس خبر سے ملی جس میں علی ابراہیم کو انہی دنوں یہ بتایا گیا کہ یہ زمین بالکل بنجر ہے اور اس پر کسی قسم کی پیداوار ممکن نہیں ہے کیونکہ زیرزمین پانی تک پہنچنے کے لئے 800 فٹ کھدائی کرنا پڑے گی۔ چنانچہ اس جگہ پر پتھر کا گائوں بسانے کا اُن کا ارادہ مزید پختہ ہوتا چلا گیا۔ انہوں نے اس قدیم زمانے کے گائوں کے لیے ’’ارم‘‘نام تجویز کیا۔

علی سعید ابراہیم نے اس گائوں کی تعمیر کا آغاز 1990ء کے شروع میں کیا اور اس پر 10ملین درہم سے زائد خرچ کرچکے ہیں۔ اس تعمیری کام میں 300ٹن مختلف انواع کے پتھر استعمال کئے جا چکے ہیں ۔ ا کثر پتھر ہتاؔ اور ا س کے گردونواح کے علاقوں سے حاصل کیے گئے لیکن انفرادیت پیدا کرنے کے لیے دنیا کے بہت سے علاقوں سے خاص پتھر بھی لائے گئے۔ان میں نیاگرا فالز ، دریائے رائن ، یورپ اور افریقہ کے مختلف علاقوں کے پتھر شامل ہیں لیکن انہیں اس انداز میں نصب کیا گیا ہے کہ سارا ماحول ایک سا نظر آئے۔

پتھر کے اس گائوں میں اس قدر خوبصورت اشیاء تعمیر کی جا چکی ہیں جن کی مثال نہیں ملتی۔ مختلف مجسموں کے علاوہ زندگی کی عکاسی کرتے مناظر کو پتھروں کے ذریعے زمین پر بنایا گیا ہے۔ اسی طرح پتھروں کی راہداریاں اور فرش تعمیر کیے گئے ہیں ۔ اس تعمیری نمونے کی خاصیت یہ بھی ہے کہ کسی جگہ بھی لوہا یا سٹیل استعمال نہیں کیا گیا۔ صرف پتھر اور لکڑی استعمال کی گئی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button