اختلافی مسائل

کیا ’’والعاقب الذی لیس بعدہ نبی‘‘ حدیث کا حصہ ہے؟

(ابن قدسی)

غیراحمدی علماءختم نبوت سےیہ مراد لیتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ ثبوت کے طور پر ایک حدیث یہ بھی پیش کرتے ہیں :

عن جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضی اللّٰہ عنہ قال سمعت النبی صل اللّٰہ علیہ وسلم یقول:ان لِي أَسْمَاءً أَنَا مُحَمَّدٌ وَانا أَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللّٰهُ بِي الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ ۔وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ متفق علیہ

(مشکوٰۃ حدیث نمبر 5776، کتاب الفضائل والشمائل باب اسماء النبیﷺ وصفاتہ)

’’جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے نبیﷺ کو فرماتے ہوئے سنا میرے بہت سے نام ہیں میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں اللہ میرے ذریعے کفر کو مٹا دے گا، میں حاشر ہوں کہ تمام لوگ میرے بعد اٹھائے جائیں گے، اور میں عاقب ہوں اور عاقب اسے کہتے ہیں جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (متفق علیہ )‘‘

(مترجم مشکوٰۃ از ابو انس محمد سرور جلد نمبر 3صفحہ نمبر393گوہر مکتبہ اسلامیہ)

غیر احمدیوں کی طرف سے عموماً یہ حدیث مشکوٰۃ المصابیح سے پیش کی جاتی ہے۔ مشکوٰۃ میں اس حدیث کے بعد یہ الفاظ لکھے ہیں ’’متفق علیہ‘‘جس کا مطلب ہوتا ہے کہ صحیحین یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں یہ روایت آئی ہے۔ محدثین کے نزدیک جس حدیث پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہو وہ حدیث روایت کے اعتبار سے اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے۔ غیراحمدی علماء مشکوٰۃ سے اس متفق علیہ حدیث کو پیش کرکے اپنے استدلال کے مضبوط ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔

اس حدیث کی سند اور راویوں کے حوالے سے کسی قسم کی بحث میں پڑے بغیر اس حدیث کی جستجو میں صحیح بخاری کو دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں جو حدیث نظر آتی ہے وہ ان الفاظ کے ساتھ ہے:

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَعْنٌ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللّٰهُ بِي الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ .

(صحیح بخاری حدیث نمبر 3532، کتاب:فضیلتوں کے بیان میں باب:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں کا بیان۔ )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد، احمد اور ماحی ہوں ( یعنی مٹانے والا ہوں ) کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں کہ تمام انسانوں کا ( قیامت کے دن ) میرے بعد حشر ہو گا اور میں عاقب ہوں ‘‘

صحیح بخاری میں یہ حدیث وانا العاقبکے الفاظ پر ختم ہوجاتی ہے اس کے بعد وہ الفاظ نہیں جو مشکوٰۃ میں موجود ہیں یعنی والعاقب الذی لیس بعدہ نبیکہ عاقب اسے کہتے ہیں جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ صحیح بخاری میں ہی یہ روایت ایک اور جگہ پر بھی ہے اور وہاں پر بھی یہی معاملہ ہے کہ حدیث انہیں الفاظ پر ختم ہوجاتی ہے وَأَنَا الْعَاقِبُ اور اس کے بعد عاقب کا مطلب بیان نہیں کیا گیا۔

(صحیح بخاری حدیث نمبر 4896، کتاب:قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب:آیت ( من بعداسمہ احمد ) کی تفسیر)

بخاری کے بعد اسی حدیث کو صحیح مسلم میں دیکھتے ہیں تو وہاں پر مشکوٰۃ والے الفاظ موجود ہیں یعنی

’’وَأَنَا الْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ‘‘

(صحیح مسلم حدیث نمبر 6105، کتاب: انبیاء کرام علیہم السلام کے فضائل کا بیان، باب:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے مبارکہ)

اگلی حدیث بھی انہی الفاظ کے ساتھ ہے ’’وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ أَحَدٌ‘‘یعنی عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نہیں۔ مراد کوئی نبی نہیں۔

(صحیح مسلم حدیث نمبر 6106، کتاب: أنبیاء کرام علیہم السلام کے فضائل کا بیان، باب:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے مبارکہ)

صحیح مسلم میں ان دوحدیثوں کے بعد اس سے اگلی حدیث یعنی حدیث نمبر 6107کچھ اس طرح ہے:

وحَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ كُلُّهُمْ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَفِي حَدِيثِ شُعَيْبٍ، وَمَعْمَرٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي حَدِيثِ عُقَيْلٍ قَالَ: قُلْتُ لِلزُّهْرِيِّ: وَمَا الْعَاقِبُ؟ قَالَ: الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ، وَفِي حَدِيثِ مَعْمَرٍ وَعُقَيْلٍ الْكَفَرَةَ، وَفِي حَدِيثِ شُعَيْبٍ الْكُفْرَ۔

(صحیح مسلم حدیث نمبر 6107، کتاب: أنبیاء کرام علیہم السلام کے فضائل کا بیان، باب:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے مبارکہ)

عقیل، معمر اور شعیب، سب نے زہری سے اسی سند کے ساتھ روایت کی، شعیب اور معمر کی حدیث میں (حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ) یہ الفاظ ( منقول ) ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ عقیل کی حدیث میں ہے کہ میں نے زہری سے کہا : عاقب ( سے مراد ) کیا ہے؟انہوں نے کہا : جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو، معمر اورعقیل کی حدیث میں ہے: کافروں کو ( مٹادے گا ) اورشعیب کی حدیث میں ہے : کفر کو ( مٹادے گا۔)

صحیح مسلم کی اس حدیث نمبر 6107میں صاف لکھا ہے کہ امام زہری سے پوچھا گیا کہ عاقب سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا کہ عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ متفق علیہ حدیث ہونے کے باوجودغیر احمدی صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے یہ حدیث پیش نہیں کرتے بلکہ مشکوٰۃ سے پیش کرتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ’’وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ‘‘کے الفاظ نہیں ہیں۔ صحیح مسلم میں یہ الفاظ موجود ہیں لیکن اگلی روایت میں ہی ان الفاظ کی اصل بیان کر دی گئی ہے کہ امام زہری سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا’’وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ‘‘یعنی یہ قول امام زہری کا ہے۔ شارحین اس حقیقت کو سمجھتے تھے۔

حضرت امام جلال الدین سیوطی نے مؤطا امام مالک کی شرح میں اسی روایت کے حوالے سے لکھا کہ

وَاَنَا الْعَاقِبُ زَادَ مُسْلِم وَغَیْرُہ مِنْ طَرِیْقِ ابْنِ عُیَیْنَہ وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ وَھُوَ مدرج مِنْ تَفْسِیْرِ الزُّھْرِی فَرُوِیَ الطَّبْرَانِیْ مِنْ طَرِیْقِ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّھْرِیْ فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ اِلی قَوْلِہ وَاَنَا العَاقِبُ قَالَ مَعْمر قُلْتُ لِلزُّھْرِی وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ

(تنویر الحوالک شرح علی موطا مالک از امام جلال الدین عبد الرحمن السیوطی الشافعی الجزء صفحہ 163الثالث عیسی البابی الحلبی وشرکاہ بجوار سیدنا الحسین مصر )

اور انا العاقب کے بعد صحیح مسلم اور دیگر نے ابن عیینہ کے طریق سے اضافہ کیا ہے العاقب الذی لیس بعدہ نبی۔ یہ امام زہری کی تفسیر ہے۔ طبرانی نے معمر کے حوالے سے زہری کا قول بیان کیا ہے۔

مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ میں اس حوالے سے وضاحت موجود ہے:

وَاَنَا الْعَاقِبُ زَادَ مُسْلِم وَغَیْرُہ مِنْ طَرِیْقِ ابْنِ عُیَیْنَہ وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ وَھُوَ مدرج مِنْ تَفْسِیْرِ الزُّھْرِی فَرُوِیَ الطَّبْرَانِیْ مِنْ طَرِیْقِ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّھْرِیْ فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ اِلی قَوْلِہ وَاَنَا العَاقِبُ قَالَ مَعْمر قُلْتُ لِلزُّھْرِی وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح از شیخ علی بن سلطان محمد القاری جلد 10، صفحہ 457کتاب الفضائل والشمائل دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان )

کہ صاف ظاہر ہے کہ العاقب الذی لیس بعدہ نبی کسی صحابی یا بعد میں آنے والے شخص نے بطور تشریح بڑھا دیا ہے اور ابن اعرابی نے کہا ہے کہ عاقب وہ ہوتا ہے جو کسی اچھی بات میں اپنے سے پہلے کا قائم مقام ہو۔ اسی سے بیٹے کو آدمی کا عاقبکہا جاتا ہے۔ امام مالک، امام ترمذی اور امام نسائی نے اسی طرح بیان کیا ہے۔

یہی وجہ ہےکہ بعض کتب میں اس حدیث کے بعد حاشیہ میں صاف لکھا ہے:

’’قِیْلَ ھذَا مِنْ قَوْلِ الزُّھْرِی فَیَکُوْن مدرجاً فِی الْحَدِیْثِ ‘‘

(الشمائل المحمدیہ لامام ابو عیسیٰ محمد بن سورۃ الترمذی صفحہ 177 دارالحدیث بیروت لبنان )

یعنی کہا جاتا ہے کہ یہ امام زہری کا قول ہے۔

کیا غیر احمدی علماء کو ان تمام تر تفاصیل اور شروحات کا علم نہیں؟ کیا اس کے باوجود بھی وہ اس حدیث کو اپنے تراشیدہ ’’ختم نبوت‘‘کے عقیدے کو بیان کرنے کے لیے بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔ ان علماء کے حق چھپانے کی ایک چھوٹی سی مثال دیکھیں۔ ایک مشہور غیر احمدی عالم علامہ وحیدالزمان ہیں جنہوں نے متعدد احادیث کی کتب کا ترجمہ کیا اور اس حوالے سے ان کا ایک بڑا نام ہے۔ صحیح مسلم کا ترجمہ کرتے ہوئے انہوں نے حدیث نمبر 6105اور حدیث نمبر 6106کا ترجمہ کیا لیکن جب حدیث نمبر 6107کی باری آئی تو وہاں لکھ دیا ’’ترجمہ وہی جو اوپر گزرا ‘‘حالانکہ معمولی عربی پڑھنے والا بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ حدیث نمبر 6105اور6106کے وہ الفاظ نہیں جو 6107کے ہیں۔ یہ صرف انہوں نے اس لیے کیا کہ اگر وہ 6107کا بھی ترجمہ کر دیتے تو واضح ہوجاتا کہ

وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ

کے الفاظ حدیث کے نہیں بلکہ یہ امام زہری کا قول ہے۔ ثبوت کے طور پر کتاب کا سکین ملاحظہ کریں۔

اب صرف ایک بات رہ جاتی ہے کہ عاقب سے مراد کیا ہے۔ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ابن اعرابی اور دیگر علماءکے حوالے سے درج ہو چکا ہے کہ عاقب وہ ہوتا ہے جو کسی اچھی بات میں اپنے سے پہلے کا قائم مقام ہو۔

عربی لغت میں بھی عاقب کے یہی معانی ملتے ہیں چنانچہ لکھا ہے کہ

’’وَالْعَاقِبُ اَلَّذِیْ یَخْلِفُ السَّیِّدُ ،وَالَّذِیْ یَخْلِفُ مَنْ کَانَ قَبْلَہٗ فِی الْخَیْرِ‘‘

(القاموس المحیط زیر لفظ عقب)

عاقب وہ ہوتا ہے جو بھلائی اور خیر میں اپنے سے پہلے کی قائم مقامی کرتا ہے۔

شیعہ مکتبہ فکر کی مشہور کتاب ’’بحار الانوار‘‘از محمد باقر مجلسی میں قاموس اور النہایہ کے حوالے سے عاقبکے وہی معنی لکھے ہیں جو اوپر قاموس کے حوالے سے لکھے جاچکے ہیں۔

(بحار الانوار جلد 100صفحہ 316تا317دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان )

اب غیر احمدی علماء حق چھپاتے ہوئے نہ صرف امام زہری کے قول کو حدیث کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ایسی بات جو رسول کریمﷺ نے بیان ہی نہیں فرمائی اسے رسول کریمﷺ کی حدیث بیان کرتے ہیں بلکہ عاقب کے وہ معنی چھوڑ دیتے ہیں جو متقدم علماء اور اہل لغت نے بیان کیے ہیں۔

(مرسلہ:ابن قدسی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button