سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

سوامی دیانند کے نام کھلا خط بصورت اعلان

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کھلا خط لاہور کے رسالہ برادرِہند(جس کے ایڈیٹر جناب پنڈت شونرائن اگنی ہوتری تھے) بابت جولائی 1878ء میں شائع کرا دیا۔ اور پھر جواب کا انتظار کرنے لگے۔ مگر پنڈت دیانند صاحب کو حوصلہ نہیں ہوا کہ وہ اس مباحثہ میں آتے۔ اس اعلان پر پنڈت شونرائن صاحب اگنی ہوتری نے اپنی رائے نہایت آزادانہ الفاظ میں ظاہر کی۔ اور انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ حضرت مرزا صاحب کے مضامین نے نہ صرف آریہ سماج کے ممبروں کو قدم آگے بڑھانے کی تحریک کی۔ بلکہ پنڈت دیانند صاحب اپنے عقیدہ سے ہٹ گئے۔ روحوں کے بے انت ہونے کا جو اعلان ان کی طرف سے بڑے زور شور سے کیا گیا تھا وہ انہیں واپس لینا پڑا۔ آریہ سماج کے سوامی دیانند صاحب کی لائف میں تعجب ہے، اس عظیم الشان واقعہ کا ذکر نہیں کیا۔ ممکن تھا اس مباحثہ اور اس میں سوامی جی کی شکست کا حال مشکوک ہو جاتا۔ اگر یہ حالات خود ان کی زندگی میں ہی چھپ کر شائع نہ ہو گئے ہوتے۔ برادر ہند رسالہ ایک ایسے شخص کے قلم سے ایڈٹ ہوتا تھا۔ جو اسلام کا اسی طرح مخالف تھا جس طرح پر سوامی جی مخالف تھے۔ مگر اس میں ایک انصاف پسند روح تھی۔ اور وہ دونوں کے کلام پر ایک صحیح ججمنٹ(Judgement) لکھ سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے جو فیصلہ کیا۔ اور جو ریمارک اس مباحثہ پر لکھے وہ میں پہلے درج کرتا ہوں۔ اور پھر اعلان درج کرتا ہوں۔

جنا ب پنڈت شونرائن اگنی ہوتری کا فیصلہ حضرت مسیح موعودؑ اور سوامی دیانند صاحب کے مباحثہ پر

پنڈت شو نرائن اگنی ہوتری مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان اور آریہ سماج کے عنوان سے اپنے رسالہ بابت جولائی 1878ء میں لکھتے ہیں:

’’سوامی دیانند سرسوتی مذہب کا جس قدر وعظ کرتے ہیں اور اس کے متعلق جن مسائل کا بیان فرماتے ہیں وہ سب وید کے موافق کہتے ہیں ان کے مقلد یہ یقین کر کے اور وید کو خدا کا کلام مان کر اندھا دھند کچھ سوامی صاحب کے منہ سے سن لیتے ہیں۔ وہ خواہ کیسا ہی علم و عقل کے مخالف ہو۔ مگر اس کے پیرو ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ چند ماہ سے بعض آریہ سماج کے لائق ممبروں اور ہمارے رسالہ کے مضمون نگار صاحب کے درمیان جو کچھ مباحثہ جاری ہے۔ اس سے ہمارے ناظرین بخوبی واقف ہیں۔ سوامی صاحب کے مقلد باوجود خدا کے قائل ہونے کے سوامی جی کی ہدایت کے موافق یا یوں کہوکہ وید کے احکام کے موافق اپنا یہ یقین ظاہر کرتے ہیں کہ ارواح بے انت یعنی لاانتہا ہیں۔ اور خدا ان کا پیدا کرنے والا نہیں ہے۔ اور جب سے خدا ہے تب ہی سے ارواح بھی ہیں۔ یعنی وہ انادی ہیں۔ اور نیز خدا کو ارواح کی تعداد کا علم نہیں ہے۔ ماسوائے کسی روح کو نجات ابدی نہیں حاصل ہوتی۔ اور وہ ہمیشہ تناسخ یعنی آواگون کے سلسلہ میں مبتلا رہتی ہے۔ ہم اگرچہ ان میں سے کسی مسئلہ کے قائل نہیں ہیں۔ اور حقیقت کے مخالف ہونے کے باعث ان کو محض بے ہودہ اور لغو خیال کرتے ہیں۔ تاہم اس رنج طبعی سے بھی ہم اپنے آپ کو بری نہیں دیکھتے۔ کہ ہمارے بہت سے ہم وطن باوجود علم و عقل رکھنے کے پھر ان کے فیض سے فیضیاب نہیں ہوتے۔ اور مثل ایسے لوگوں کے جن کے دماغ علم اور عقل سے خالی ہیں۔ محض تقلید کی غلامی کرتے ہیں۔ باوجود دولت رکھنے کے پھر اس کو کام میں نہیں لاتے۔ اور مفلسانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ باوجود سوجاکھے ہونے کے آفتاب نیمروز کی روشنی میں بھی اندھوں کی طرح حرکت کرتے ہیں۔ ابھی تک آریہ سماج والے ارواح کے بے انت ہونے کے یقین کرتے رہے ہیں۔ اور بایں خیال کہ اس مسئلہ کو بھی مثل اور مسئلوں کے سوامی جی نے انہیں وید کی ہدایت کے موافق بتلایا تھا۔ اس پر نہایت مضبوطی کے ساتھ دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ مگر اب ہمارے مضمون نگار مرزا غلام احمد صاحب کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر کار جب مرزا صاحب نے مسئلہ مذکور کو اپنی بحث میں باطل ثابت کر دیا تو لاچار سوامی جی نے مرزا صاحب کو یہ پیغام بھیجا کہ حقیقت میں ارواح بے انت نہیں ہیں لیکن تناسخ صحیح ہے۔ خیر کچھ ہی ہو۔ مگر اس موقعہ پر ہم اپنے ناظرین پر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ سوامی جی کے اس اقرار سے چار باتیں ان پر صادق آتی ہیں۔ اوّل جبکہ وہ وید کی ہدایت کے موافق آریہ سماج میں اپنے مقلدوں کو یہ یقین دلا چکے تھے کہ ارواح انادی اور لا انتہا ہیں۔ پھر اس کے خلاف اس مسئلہ کے باطل ثابت ہو نے پر یہ اقرار کرنا کہ ارواح حقیقت میں بے انت نہیں ہیں۔ صاف دلالت کرتا ہےکہ جس کتاب کی ہدایتوں کو وہ خدا کا کلام یقین کرتے ہیں۔ اس کے مخالف انہوں نے اپنا یقین ظاہر کیا ہے۔ دوم اگر یہ پایا جاوےکہ درحقیقت وید میں یہی لکھا ہے کہ جو انہوں نے پیچھے سے اپنا یقین ظاہر کیا ہے۔ تو پھر اس سے یہ ضرور لازم آتا ہےکہ ان میں خود وید کے سمجھنے کے لئے بہت بڑی لیاقت موجود ہے۔ اور نیز اوروں کے سمجھانے کا بھی خوب ملکہ حاصل ہے۔ یعنی ایک وقت میں وید سے جس قسم کی ہدایت ظاہر کی جاتی ہے۔ دوسرے وقت میں حسب موقع ٹھیک اس کے برعکس بھی بتلائی جا سکتی ہے۔

سوم۔ اگر فی الواقعہ یہ مسئلہ ہی وید میں موجود نہیں ہے۔ اور سوامی جی نے صرف اپنی رائے کے موافق ہی اپنے مقلدوں کو بتلایا تھا۔ تو اس سے معلوم ہوتا ہےکہ سوامی جی کا یہ وید عجیب ہےکہ جس میں ریلوے اور تاربرقی کے علوم تک کا تو ذکر ہو مگر خاص دھرم کے متعلق جو مسائل ہیں ان کا کچھ بیان نہ ہو۔ اور باوجود وید کے مقلد رہنے کے ان کو پھر اسی سچے وید کی ہدایت کا محتاج ہونا پڑے۔ جس کو عقل کہتے ہیں۔ چہارم-سوامی جی کے اس برتاوٴ سے کہ جس میں وہ اپنے کسی یقین کے غلط ثابت ہونے پر اس کو چھوڑ صحیح یا راست امر کی طرف رجوع کرتے ہوئے معلوم ہوتے رہے ہیں۔ ان کی اس عمدہ خوبی کا بھی اظہار ہوتا ہےکہ ان میں انصاف پسندی کی عادت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ یہ ایک مذکورہ بالا حرف اوّل ہے۔ مثال نہیں ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے یقین کو تبدیل کیا ہے۔ بلکہ اس سے پہلے بارہا ایسا کر چکے ہیں۔ چند سال ہوئےکانپور میں جب انہوں نے ایک اشتہار اپنا دستخطی مشتہر کیا تھا تو اس میں انہوں نے اوّل اوّل اکیس شاستروں کو’’ایشر کرت‘‘ (خدا کے اپنے تصنیف کئے ہوئے) قرار دیا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ جب انہوں نے ان میں بہت سی خرابیاں دیکھیں۔ تو سب کو چھوڑ چھاڑ صرف چار ویدوں کو ’’ایشر کرت‘‘ بتلانے لگے۔ پھر اس کے بعد جب ویدوں کا ایک حصّہ جس کو برہمن کہتے ہیں۔ ان کی نظروں میں صحیح ثابت نہیں ہواتو اب صرف اس کے اس حصّہ کو جس کو منتر بھاگ کہتے ہیں الہامی کہتے ہیں۔ اس سے اگرچہ ان کی کسی قدر متلون مزاجی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ مگر ساتھ ہی اس کے طبیعت میں راستی پسندی کا بھی ثبوت پایا جاتا ہے۔ ہاں اس میں صرف ایک بہت بڑی کسر یہ باقی ہےکہ وہ اوّل ایک چیز کی نسبت پہلے ہی سے ایک یقین پیدا کر لیتے ہیں۔ پھر جب کبھی حسب اتفاق اس یقین کا بطلان انہیں معلوم ہو جاتا ہے۔ تب اس کو چھوڑتے ہیں۔ مگر اس قِسم کی تحقیقات سچے محققوں کے اصول تحقیقات سے بالکل مخالف ہیں۔ کیونکہ جب تم نے پہلے سے ہی ایک قسم کا یقین اپنے دل میں قائم کر لیا۔ تو پھر اس میں خواہ مخواہ تمہاری طبیعت کا یہ مقتضی ہو جاتا ہے کہ اس کے بارے میں تم جو کچھ سوچتے ہو۔ وہ زیادہ تر وہی ہوتا ہے۔ جو تمہاری طبیعت کے موافق ہو کر تمہارے پہلے قائم کئے ہوئے یقین کی اعانت کرتا ہے۔ پس اگر وہ یقین غلط قائم ہو گیا ہے۔ تو اس سے نکلنا ایک دفعہ نہایت مشکل بلکہ عنقریب ناممکن کے ہو جاتا ہے۔ پس اگر سوامی جی واقعی اپنے تئیں ایک سچے محقق کی مثال بنانا چاہتے ہیں۔ تو ان کو چاہیئے۔ کہ وہ پیشتر اس کے کہ تحقیقات ختم ہو کسی چیز کے موافق یا منافق یقین پہلے ہی سے پیدانہ کر لیں۔ بلکہ ثالث بالخیر ہو کر مثل ایک سچے جج کے جب مقدمہ کی کل تحقیقات ختم ہوجائے۔ تب فیصلہ کو دخل دیں۔ کاش کہ ہمارے فاضل سوامی جی اب بھی ویدوں کے منتر بھاگ کو پہلے سے ہی الہام ماننے سے گریز کریں۔ اور بعدتحقیقات کامل کے جو اس انیسویں صدی میں چنداں مشکل نہیں ہے۔ پھر حسب نتیجہ اپنی رائے کو قائم کریں۔

خیر اب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ امرتسر آریہ سماج کے لائق سیکرٹری باوا نرائن سنگھ صاحب اور نیز ان کے دیگر وید بھائیوں نے پہلے جس زور شور کے ساتھ سوامی جی کی ہدایت کے موافق ارواح کے بے انت ہونے کا دم بھرتے تھے۔ اسی سرگرمی اور شد ومد کے ساتھ وہ اپنے پہلے یقین کے برعکس سوامی جی کے پچھلے اقرار کے موافق ارواح کے بے انت ہونے کے مسئلہ پر یقین کرنے کو مستعد ہیں یا نہیں ؟اس مختصر مقدمہ کے بعد ہم مرزا صاحب کے اس اعلان کو بمعہ مضمون درج کرتے ہیں۔ جو انہوں نے اس بحث کے ضمن میں اس رسالہ میں مشتہر کرنے کی غرض سے ہمارے پاس بھیجا ہے۔ (ایڈیٹر)

’’اعلان‘‘

’’سوامی دیانند سرسوتی صاحب نے بجواب ہماری اس بحث کے جو ہم نے روحوں کا بے انت ہونا باطل کر کے غلط ہونا مسئلہ تناسخ اور قدامت سلسلہ دنیا ثابت کیا تھا۔ معرفت تین کس آریہ سماج والوں کے یہ پیغام بھیجا ہےکہ اگرچہ ارواح حقیقت میں بے انت نہیں ہیں۔ لیکن تناسخ اس طرح پر ہمیشہ بنا رہتا ہےکہ جب سب ارواح مکتی پا جاتے ہیں۔ تو پھر بوقت ضرورت مکتی سے باہر نکالی جاتی ہیں۔ اب سوامی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ہمارے اس جواب میں کچھ شک و شبہ ہو۔ تو بالمواجہ بحث کرنی چاہیئے۔ چنانچہ اسی بارے میں سوامی صاحب کا ایک خط بھی آیا۔ اس خط میں بھی بحث کا شوق ظاہر کرتے ہیں۔ اس واسطے بذریعہ اس اعلان کے عرض کیا جاتا ہے کہ بحث بالمواجہ ہم کو بسر و چشم منظور ہے۔ خواہ سوامی صاحب کسی طرح ہمارے سوالوں کا جواب دیں۔ مناسب ہے کہ سوامی صاحب کوئی مقام ثالث بالخیر کا واسطے انعقاداس جلسہ کے تجویز کر کے بذریعہ کسی مشہور اخبار کے تاریخ و مقام کو مشتہر کر دیں۔ لیکن اس جلسہ میں شرط یہ ہےکہ یہ جلسہ بحاضری چند منصفان صاحب لیاقت اعلیٰ کے تین صاحب ان میں سے ممبران برہمو سماج اور تین صاحب مسیحی مذہب ہوں گےقرار پائے گا۔ اوّل تقریر کرنے کا ہمارا حق ہو گا کیونکہ ہم معترض ہیں۔ پھر پنڈت صاحب برعایت شرائط تہذیب جو چاہیں گے جواب دیں گے۔ پھر اس کا جواب الجواب ہماری طرف سے گزارش ہو گا۔ اور بحث ختم ہو جائے گی۔ ہم سوامی صاحب کی اس درخواست سے بہت خوش ہوئے۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ کیوں سوامی صاحب اور اور دھندوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اور ایسے سخت اعتراض کا جواب نہیں دیتے۔ جس نے سب آریہ سماج والوں کا دم بند کر رکھا ہے۔ اب اگر سوامی صاحب نے اس اعلان کا کوئی جواب مشتہر نہ کیا۔ تو بس یہ سمجھوکہ سوامی صاحب صرف باتیں کر کے اپنے توابعین کے آنسو پوچھتے تھے اور مکت یابوں کی واپسی میں جو جو مفاسد ہیں۔ مضمون مشمولہ متعلقہ اس اعلان میں درج ہیں۔ ناظریں پڑھیں اورانصاف فرماویں۔‘‘

المعلن مرزا غلام احمد رئیس قادیان10جون 1878ء

پنڈت دیانند صاحب نے باوجودیکہ خود مباحثہ کا پیغام دیا تھا۔ مگر جب حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے آمادگی کا اعلان ہوا۔ اور آپؑ نے انعامی اشتہار دے دیا۔ تو پھر پنڈت دیانند صاحب کو جرأت نہیں ہوئی کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ مباحثہ کرتے۔ ‘‘

(حیات احمدؑ جلداول صفحہ 180تا186)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button