متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم نشان …ڈوئی اور صیہون کا انجام (قسط اول)

(ابو نائل)

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو عظیم الشان نشانات عطا فرمائے، ان میں سے جان الیگزنڈر ڈوئی کے زوال اور اس کی عبرت ناک موت کا نشان ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ جان الیگزنڈر ڈوئی نے اللہ تعالیٰ کے مامور کی موجودگی میں خود مامور اور ایلیا (حضرت الیاس علیہ السلام ) ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور اعلان کیا کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کی راہ ہموار کرنے آیا ہے۔ یہ اعلانات بذات خود اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے کے لیے کافی تھے۔

سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں بارہا اس نشان کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اور ایک مضمون میں اس نشان کی تمام تفصیلات کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن جیسا کہ اس وقت امریکہ سے شائع ہونے والے اخبارات کے حوالے درج کیے جائیں گے، دراصل یہ پیشگوئی ایک نشان نہیں بلکہ بہت سے نشانات کا مجموعہ ہےجو کہ کئی سال بار بار مختلف زاویوں سے پورا ہو کر اتمام حجت کرتا رہا۔ اور دنیا بھر کے بیسیوں اخبارات میں اس کی اتنی تفصیلات شائع ہوئیں کہ سوائے اس کے کہ کوئی تعصب کی شدت کا شکارہو چکا ہو اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ پیشگوئی پوری ہو کرساری دنیا کے لیےنشان بن گئی۔

ڈوئی کو پہلا چیلنج

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ جان الیگزنڈر ڈوئی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے معین الفاظ کیا تھے؟ جب ڈوئی کے دعاوی کی شہرت پوری دنیا میں پھیل گئی اور اس نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے ہلاک ہونے کی پیشگوئی بھی شائع کر دی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو مخاطب کر کے ایک کھلا خط شائع فرمایا جو کہ ڈوئی کو بھی بھجوا دیا گیا۔ اس خط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا:

’’رہے۔ مسلمان تو ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں بآادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کو مارنے کی کیا حاجت ہے؟ ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ڈوئی کا خدا سچا خداہے یا ہمارا خدا۔ وہ بات یہ ہے کہ وہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو بار بار موت کی پیشگوئی نہ سناویں بلکہ ان میں سے صرف مجھے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کردیں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرجائے کیونکہ ڈوئی یسوع مسیح کو خدا جانتا ہے مگر میں اس کو بندۂ عاجز مگر نبی جانتا ہوں۔ اب فیصلہ طلب یہ امر ہے کہ دونوں میں سے سچا کون ہے؟ چاہیےکہ اس دعا کو چھاپ دے اور کم سے کم ہزار آدمی اس پر گواہی لکھے اور جب وہ اخبار شائع ہو کر میرے پاس پہنچے گی تب میں بھی بجواب اس کے یہی دعا کروں گا اور انشاء اللہ ہزار آدمی کی گواہی لکھ دوں گا۔………

لیکن اگر اس نے اس نوٹس کا جواب نہ دیا اور یا اپنے لاف و گزاف کے مطابق دعا کر دی اور پھر دنیا سے قبل میری وفات کے اُٹھایا گیا تو یہ تمام امریکہ کے لئےایک نشان ہوگا۔ ‘‘

(ڈوئی کی اس پیشگوئی کا جواب جو اُس نے تمام مسلمانوں کی ہلاکت کے لئے کی ہے، مکتوباتِ احمد جلد اول صفحہ 261، 262)

یہ چیلنج ستمبر 1902ء کے ریویو آف ریلیجنز میں شائع ہو گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے پہلے ہی یہ چیلنج ڈوئی کو بھجوا دیا گیا تھا۔

ڈوئی کا رد عمل

جان الیگزنڈر ڈوئی اپنی تقاریر میں اپنے مخالفین کو للکارنے میں مشہور تھا۔ لیکن جب اس مباہلہ کا چیلنج اسے پہنچا تو اس نے خاموشی اختیار کر لی اور کوئی معین جواب نہیں دیا۔ لیکن اس نے اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں بد زبانیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس نے 21؍ دسمبر 1902ءکو شکاگو آڈیٹوریم میں ایک تقریر کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تین سوالات پر تبصرہ کیا۔ اور وہ تین سوالات یہ تھے۔ اس وقت مسیح کہاں ہے؟ وہ کب ظاہر ہوگا؟ اور جب وہ زمین پر ظاہر ہوگا تو وہ کیا کام کرے گا؟ اس موقع پر ڈوئی نے کہا:

’’There is one foolish man in India, a Mohammedan Messiah, who persists in writing to me saying that the body of the Christ, is buried in Cashmir, in India and can be found there.

He never says that he has seen it, but the poor, fanatical and ignorant keeps on with the ravings that Jesus died in India.

The Christ reascended into the heavens at Bethany, and he is there in His Celestial body.

I can tell you exactly when He shall appear, and yet I name no day, I name no week, I name no year.‘‘

(Leaves of Healing, 27 Dec 1902،p 306)

ترجمہ: ہندوستان میں (نعوذُ باللہ ) ایک بیوقوف آدمی ہے جو کہ محمدی مسیح ہے۔ وہ مجھے مسلسل لکھتا رہتا ہے کہ یسوع کا جسم کشمیر ہندوستان میں دفن ہے۔ اور اسے وہاں پر پایا جا سکتا ہے۔ وہ یہ کبھی نہیں لکھتا کہ اس نے اسے خود دیکھا ہے۔ لیکن یہ (نعوذُباللہ ) بیچارہ متعصب اور جاہل مسلسل انہی خیالات کو دہراتا رہتا ہے کہ یسوع ہندوستان میں دفن ہے۔ یسوع بیتھنی کے مقام پر آسمانوں پر چلا گیا تھا اور وہ وہاں اپنے آسمانی جسم کے ساتھ موجود ہے۔ میں تمہیں معین طور پر بتا سکتا ہوں کہ وہ کب ظاہر ہو گا لیکن میں کوئی دن معین نہیں کرتا۔ کوئی ہفتہ معین نہیں کرتا کوئی سال معین نہیں کرتا۔

اس کے علاوہ ڈوئی نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بد زبانی کی بھی انتہا کر دی۔ اس نے 8؍فروری 1903ء کو اپنی ایک تقریر میں کہا:

’’How can anyone who knows exactly know what Mohammedinism is, for one single moment imagine that God or man can forever stand that abomination. “Where the Muslim hoof comes no grass grows” is the eastern proverb.

Wherever the accursed teaching of Mahomet has come, there has been an end to all real progress.

The nation has no right to political existence that makes a religion of bestiality, and promises a heaven of harlotry to man-his reward being a number of peri or houri as paramours.

The theology of Mohammedinism is that no woman has a spirit.

The Mohammeden paradise is a place where the satisfaction of man‘s dirty belly, his abominable passions, are the highest form of rewards through endless ages.

It is time that such an organized abomination as that should be swept out.

I pray God for the day to come, when the crescent shall disappear….

May God grant it! It is time when the Moslem Abomination was gone “bag and baggage” as Mr. Gladstone used to say. Let it slink away back into the dessert of Arabia whence the filthy thing emerged.‘‘

(Leaves of Healing 14 February 1903 p 526)

ترجمہ: یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی شخص صحیح طور پر جانتا ہو کہ محمڈن ازم کی حقیقت کیا ہے۔ اور وہ ایک لمحہ کے لیے یہ تصوّر کر لے کہ خدا یا انسان اس مکروہ چیز کو ہمیشہ کے لیے برداشت کر لیں گے۔ ایک مشرقی ضرب المثل ہے کہ جہاں مسلمان کا قدم پہنچے وہاں گھاس نہیں اگتی۔ جہاں (نعوذُ باللہ) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی لعنتی تعلیم پہنچی ہے وہاں تمام حقیقی ترقی رک گئی ہے۔ اُس قوم کو سیاسی طور پر زندہ رہنے کا حق نہیں جس نے درندگی کو مذہب کے طور پر اپنا لیا ہے۔ جس میں ایسی جنت کا وعدہ دیا جاتا ہے جو کہ فحاشی کا اڈہ ہے۔ جس میں مردوں کو انعام کے طور پر پریاں اور حوریں بطور آشنا کے دی جائیں گی۔ محمڈن ازم کی یہ تعلیم ہے کہ کسی عورت کو روح نہیں دی گئی۔ محمدی جنت وہ جگہ ہے جہاں دائمی طور پرمردوں کے گندا پیٹ اور ان کی مکروہ خواہشوں کی تسکین کا سامان وہ سب سے اعلیٰ انعام ہوگا جو کہ انہیں عطا کیا جائے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ایسی منظم برائی کا خاتمہ کر دیا جائے۔ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن آئے جب ہلال غائب ہو جائے۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ جیسا کہ مسٹر گلیڈ سٹون کہا کرتے تھے کہ اسلام کی برائی اپنے بوریے بستر سمیت چلی جائے۔ اسے عرب کے اسی صحرا میں واپس جانے دو جہاں سے یہ گند نکلا تھا۔

امریکہ کے اخبارات میں مباہلے کے اس چیلنج کے بارے میں خبریں شائع ہوتی رہیں۔ اور یہ بھی شائع ہوتا رہا کہ ڈوئی نے یہ چیلنج قبول نہیں کیا۔ اس پر ڈوئی کے پیروکاروں نے ڈوئی کی اس خاموشی کی وجہ بیان کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ امریکہ کے اخبار The St. Paul Globe میں ایک خبر شائع ہوئی۔ اس طویل خبر میں لکھا تھا :

’’Will Dowie Fight Strange Duel with Prayer as Weapon

Dowie has not accepted the challenge. He has not said that he will not. His followers say that he hasn‘t time for any Punjabians, and that he has enough to do in preparing to swoop down upon wicked New York in October, when he intends to scrub the territory between the Bowery and the Bronx.‘‘

(The St Paul Globe July 19, 1903 )

ترجمہ : ڈوئی نے چیلنج قبول نہیں کیا۔ اس نے یہ اعلان نہیں کیا کہ وہ اسے قبول نہیں کرے گا۔ اس کے پیروکار کہتے ہیں کہ اس کے پاس پنجابیوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ اور اکتوبر میں بد کار نیو یارک پر جھپٹنے کے لیے اسے بہت کام کرنا ہے۔ اس وقت وہ باوری اور برونکس کے درمیان کے علاقے کو صاف کرے گا۔

ڈوئی کو دوسرا چیلنج

جب اس کی طرف سے ایک عرصہ گذرنے کے بعد بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو دوبارہ ان الفاظ میں چیلنج بھجوایا:

’’Another sign will appear on Dr. Dowie‘s acceptance of my challenge. If the pretender of Elijahship shows his willingness to enter the lists against me by any direct or indirect means, he shall leave the worlds before my eyes with great sorrow and torment. These two signs are particularly for America and Europe: ah! that they ponder over them and benefit by them.

It should be borne in mind that Dr. Dowie has not given any reply to my challenge sent to him in September last, nor has he even so much as mentioned it in his paper. For an answer to this challenge I will wait for a further period of seven months, from this day 23rd of August, 1903. If he accepts the challenge within this period, and fulfills the condition, as published by me, and makes an announcement to that effect in his paper, the world will soon see the end of this contest. I am about seventy years of age, while Dr. Dowie is about fifty-five, and therefore, compared with me, he is a young man still. But the matter is not to be settled by age, I do not care for this great disparity in years. The whole matter rests in the hands of Him, who is the Lord of heaven and earth, and judge over judges, and he will decide it who is the true claimant.

But if Dr. Dowie cannot, even now, gather courage to appear in the contest against me, let both continents bear witness that I shall be entitled to claim the same victory as in the case of his death in my lifetime if he accepts the challenge. The pretensions of Dr. Dowie will thus be falsified and proved to be an importure. Though he may try as hard as he can to fly from death which awaits him, yet his flight from such a mighty contest will be nothing less than death to him, and calamity will certainly overtake his Zion, for he must take the consequences of either the acceptance of the challenge or its refusal.‘‘

(Review of Religions, Nov & Dec 1903 p 480)

اس کھلے خط کا اردو متن کچھ اس طرح ہے:

’’دوسری یہ گواہی ہے کہ اگر مسٹر ڈوئی میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتاََ یا اشارۃََ میرے مقابلہ پر کھڑا ہوگا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑے حسرت اور دُکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دےگا۔ یہ دو نشان ہیں جو یورپ اور امریکہ کے لئے خاص کئے گئے ہیں۔ کاش! وہ ان پر غور کریں اور ان سے فائدہ اُٹھاوئیں۔

یاد رہے کہ اب تک ڈوئی نے میری اس درخواست مباہلہ کا کوئی جواب نہیں دیا اور نہ اپنے اخبار میں کچھ اشارہ کیا ہے اس لئے میں آج جو 23؍اگست 1903 ہے۔ اس کو پورے سات ماہ کی مہلت دیتا ہوں۔ اگر وہ اس مہلت میں میرے مقابلہ میں آگیا اور جس طور سے مقابلہ کرنے کی میں نے تجویز کی ہے، جس کو میں شائع کر چکا ہوں، اس تجویز کو پورے طور پر منظور کر کے اپنے اخبار میں عام اشتہار دے دیا تو جلد تر دنیا دیکھ لے گی کہ اس مقابلہ کا انجام کیا ہو گا۔ میں عمر میں ستر برس کے قریب ہوں اور وہ جیسا کہ بیان کرتا ہےپچاس برس کا جوان ہے، جو میری نسبت گویا ایک بچہ ہے لیکن میں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پرواہ نہیں کی۔ کیونکہ اس مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہوگا بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا مالک اور احکم الحاکمین ہے وہ اس کا فیصلہ کرے گا۔ اور اگر مسٹر ڈوئی اس مقابلہ سے بھاگ گیا تو دیکھو میں آج تمام امریکہ اور یورپ کے باشندوں کو اس بات پر گواہ کرتا ہوں کہ یہ طریق اس کا بھی شکست کی صورت سمجھی جائے گی۔ اور نیز اس صورت میں پبلک کو یقین کرنا چاہئےکہ یہ تمام دعویٰ اس کا الیاس بننے کا محض زبان کا مکرو فریب تھا اور اگرچہ وہ اس طرح سے موت سے بھاگنا چاہے گا لیکن درحقیقت ایسے بھاری مقابلہ سے گریز کرنا بھی ایک موت ہے۔پس یقین سمجھو کہ اس کے صیہون پر جلد تر ایک آفت آنےوالی ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ضرور ایک صورت اس کو پکڑ لے گی۔ ‘‘

(ڈوئی کے نام دوسرا کھلا خط ، مکتوبات احمد جلد اول صفحہ269)

اس کھلے خط کا انگریزی ترجمہ ڈوئی کو بھی بھجوایا گیا۔ اور اس وقت ریویو آف ریلیجنز میں بھی شائع کیا گیا تا کہ پوری دنیا اس کی گواہ بن جائے۔ اس چیلنج کے الفاظ واضح ہیں۔ اگر ڈوئی چیلنج قبول کرے خواہ وہ اس چیلنج کو واضح طور پر قبول کرے یا ایسا کوئی اشارہ بھی کرے تووہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اس دنیا سے دکھ اور حسرت سے رخصت ہو گا۔ اور اگر وہ ڈر کر اس چیلنج کو قبول نہیں کرے گا تو یہ صورت اس کی شکست ہو گی۔ اس کے علاوہ اس صورت میں بھی کہ وہ اس چیلنج کو قبول نہ کرے پھر بھی جلد ڈوئی کے صیہون پر تباہی آنے والی ہے۔ صیہون یعنی Zionوہ شہر تھا جسے جان الیگزنڈر ڈوئی نے آباد کیا تھا اور اسی شہر میں اس کے مریدوں کی بڑی تعداد آباد تھی اور اس کی تنظیم کے مرکزی دفاتر تھے۔ اور اس کے پیروکار بھیZionistکہلاتے تھے۔ اس لحاظ سے اس لفظ کا اطلاق اس کی تنظیم پر بھی ہوتا تھا۔

دوسرے چیلنج پر رد عمل

یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خواہ ڈوئی چیلنج قبول کرے یا نہ کرے نشان تو بہر حال ظاہر ہوگا۔ جیسا کہ دوسرے اشتہار میں لکھا ہے یہ اشتہار 23؍اگست1903ء کو لکھا گیا تھا۔ اس کے بعد ڈوئی اور اس کی تنظیم کے ترجمان جریدے ’’ لیوز آف ہیلنگ‘‘ کی 23؍ستمبر 1903ء کی اشاعت میں ڈوئی کی ایک سابقہ تقریر میں کیا گیا یہ اعلان شائع کیا گیا :

’’Things too Small for

Zion to Notice

People sometime say to me: “Why do you not reply to this, that and other thing?”

Reply! Do you think I will reply to these gnats and flies?

John L. Sullivan, the heavy-weight prize fighter, was insulted once by a bantam fighter, when someone who stood by said, “Why do you not hit him?”

“Hit him?” said the big fellow “He is not in my class; If I should hit him, I would kill him.”

And you ask me to reply to these little flesh flies; these wretched little gnats?

If I would put my foot on them I would crush out there lives.

I give them a chance to fly away and live.

The idea of bothering about these little things.

Zion has no time to stop its wheel to answer them.

It is like a mouse looking at a buzz saw and saying, “ You stop or I would bite you.”

Let it bite the buzz saw and that is the end of it.(Laughter)‘‘

(Leaves of Healing 26 Sept. 1903 p 726)

ترجمہ:وہ امور جو صیہون کے لیے بہت چھوٹے ہیں

لوگ بعض دفعہ مجھے کہتے ہیں کہ تم اُس کا یا کسی اور بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟

جواب دوں !تمہارا کیا خیال ہے میں ان مچھروں مکھیوں کو جواب دوں۔ ایک کم وزن کے باکسر نے جان ایل سلیوان جو کہ ہیوی ویٹ پیشہ ور باکسر تھا کی توہین کرنی شروع کردی۔ ایک آدمی نے جو وہاں کھڑا تھا اس سے کہا کہ تم اسے مارتے کیوں نہیں۔ اس بھاری بھرکم آدمی نے کہا کہ یہ میرے درجہ کا آدمی نہیں ہے۔ اگر میں اس کی پٹائی کروں گا تو یہ مر جائے گا۔

اور تم مجھے یہ کہتے ہو کہ میں ان چھوٹی مکھیوں اور ان حقیر اور چھوٹے مچھروں کو جواب دوں۔ میں اگر ان پر پائوں رکھ دوں تو ان کی جان نکل جائے۔ میں تو ان کو موقع دیتا ہوں کہ یہ اڑجائیں اور ان کی جان بچ جائے۔ جہاں تک ان لوگوں کو جواب دینے کا تعلق ہے تو صیہون کے پاس اس چیز کا وقت نہیں کہ وہ اپنا پہیہ روک کر ان کو جواب دے۔ یہ تو اسی طرح ہے کہ ایک چوہا ایک بجلی کی آری سے کہے کہ رک جائو ورنہ میں تمہیں کاٹوں گا۔ اسے کاٹنے دو۔ وہی لمحہ اس کا آخری لمحہ ہو گا۔ (اس پر قہقہے بلند ہوئے)

اگر باقاعدہ مباہلہ کا چیلنج نہ بھی ہوتا تو یہ توہین آمیز الفاظ اور ان کا اس طرح شائع کروا دینا خدا کے غضب کو بھڑکانے کے لیے کافی تھا۔ 23؍اگست 1903ء کے اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا تھا کہ اب تک ڈوئی نے اپنے اخبار میں میرے متعلق کوئی اشارہ نہیں کیا لیکن اگر مسٹر ڈوئی میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتاََ یا اشارتاََ میرے مقابلہ پر کھڑا ہوگا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑے حسرت اور دُکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دےگا۔ ڈوئی کے یہ الفاظ جو اوپر درج کیے گئے ہیں ایک اشارے سے بہت بڑھ کر تکبر کی انتہا کا نتیجہ تھے۔ اس کے بعد اس کا خدائی گرفت میں آنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کاایک عظیم نشا ن تھا۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اس پیشگوئی کے نتیجے میں ایک نہیں بلکہ کئی نشانات ظاہر ہوئے تھے۔ اور اس پیشگوئی کے ساتھ ہی ڈوئی کے زوال کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ اس کی تنظیم اور اس کے شہر کا مالی عدم استحکام ظاہر ہونا شروع ہوا۔ ڈوئی کو 24؍ستمبر 1905ءکو مذہبی رسومات کی ادائیگی کے دوران فالج کا حملہ ہوا اور دسمبر تک اس کی حالت اور بگڑ گئی۔ اسے بولنے میں بھی مشکل ہو تی تھی۔ جب طبیعت ذرا سنبھلی تو اس نے جمیکا جانے کا فیصلہ کیا اور پھر وہاں سے میکسیکو چلا گیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہاں پر اپنی تنظیم کے لیے وسیع اراضی خریدے اور نیا شہر بسائے۔ اور یہ تفصیلات پہلے بھی الفضل میں شائع ہو چکی ہیں۔

(John Alaexander Dowie by Gordon Lindsay p161 to 171)

لیکن اس مضمون میں اس نشان کی وہ تفصیلات شامل کی جائیں گی جو کہ 8؍اپریل 1906ء کے بعد اس وقت ظاہر ہونا شروع ہوئیں جب ڈوئی کی تنظیم نے اسے معزول کر دیا۔

ڈوئی کے خلاف بغاوت کا آغاز

اپریل 1906ء میں ڈوئی اپنے آباد کردہ شہر صیہون سے باہر میکسیکو میں تھا۔ اس کی بیوی اور بیٹا اُس وقت صیہون میں ہی موجود تھے۔ صیہون میں یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ ڈوئی کی صحت اب پہلے سے بہت بہتر ہو گئی ہے۔ لیکن یہ خبریں سن کر صیہون میں اس کے قریبی ساتھیوں کو کوئی خوشی محسوس نہیں ہو رہی تھی کیونکہ صیہون کا شہر اور اس کی تنظیم گھمبیر مالی مسائل میں گھر چکی تھی۔ اس پر بہت زیادہ قرض ہو گیا تھا۔ اور قرض خواہوں کے تقاضے بڑھ رہے تھے۔ اس پر مزید یہ کہ ڈوئی کی طرف سے مسلسل پیغامات موصول ہو رہے تھے کہ وہ میکسیکو میں وسیع زمین خریدنے کا مصمم ارادہ کر چکا ہے۔ صیہون کے کرتا دھرتا جانتے تھے کہ یہ مالی طور پر تباہ کن ہو گا کیونکہ اب ان کی تجوریوں میں اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ میکسیکو میں یہ زمین خرید کر نیا شہر آباد کر سکیں۔ انہوں نے ڈوئی سے کئی مرتبہ درخواستیں کیں کہ وہ یہ ارادہ ترک کر دے۔ لیکن ڈوئی نے یہ درخواستیں مسترد کر دیں۔ اب صیہون کے اعلیٰ عہدیداروں کے پاس ایک ہی راستہ بچ گیا تھا۔

(John Alaexander Dowie by Gordon Lindsay p 171 to 180)

ڈوئی کی تنظیم کے اعلیٰ ترین عہدیدار اوورسیئر کہلاتے تھے اور خود ڈوئی جنرل اوورسیئر کہلاتا تھا۔ ڈوئی کی تنظیم میں اوور سیئر وولیوا (Voliva) کی ایک خاص اہمیت تھی اور ڈوئی نے صیہون سے جاتے ہوئے اسے اپنا مختار عام بھی بنایا تھا۔ ڈوئی کی عدم موجودگی میں ڈوئی کی تنظیم کے عہدیداروں نے اسے برطرف کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس فیصلہ کی فوری وجہ ڈوئی کی شاہ خرچی اور صیہون اور اس چرچ کی تنظیم پر چڑھ جانے والا بہت بڑا قرضہ تھا۔ اس وقت امریکہ کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ ڈوئی کو اس بات کی فوری اطلاع مل گئی تھی۔ اس کے جواب میں ڈوئی نے میکسیکو شہر سے ایک بیان جاری کیا۔ اس بیان میں اس نے اعلا ن کیا کہ اس کے مقرر کردہ چھ اوورسیئر برطرف کیے جاتےہیں۔ صیہون کے مالی معاملات کا انچارج بھی برطرف کیا جاتا ہے اور اس کی جگہ پر فیلڈنگ (Fielding)کو مقرر کیا جاتا ہے۔ وولیوا (Voliva) کو دیا گیا مختار نامہ بھی منسوخ کیا جاتا ہے۔ اور یہ کہ ڈوئی واپس صیہون جا کر نظم و نسق سنبھالے گا۔ اس نے باغیوں کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کہ اس کے مقرر کردہ لوگ اسے کس طرح برطرف کر سکتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو چند ہفتے قبل تک اسے وفاداری کے پیغامات بھجوا رہے تھے؟ صیہون میں ہونے والی بغاوت کے باوجود اسے برطانیہ اور امریکہ کے مختلف مقامات سے وفاداری کے پیغامات موصول ہو رہے تھے۔ 5؍اپریل کو ہی ڈوئی اور اس کے ساتھی میکسیکو سے روانہ ہو گئے۔

(The Ottumwa Weekly Corrier, 5 April 1906 p 1)

(The Billings Gazzette 6 April 1906 p1)

جو الزامات ڈوئی پر لگائے گئے ان میں سے ایک الزام جو سب سے زیادہ توجہ کھینچ رہا تھا وہ یہ تھا کہ عام اجلاس میں ڈوئی کی بیوی نے یہ الزام لگایا کہ ڈوئی اسے بھی تعدد ازدواج کا قائل کرنا چاہتا تھا۔ اور اس نے میکسیکو میں وسیع اراضی خرید کر آباد کاری کا منصوبہ اسی لیےبنایا تھا تا کہ وہاں پر تعدد ازدواج کو رواج دیا جائے۔

(Los Angeles Herald April 6 1906 p1)

اب یہ افواہیں اڑ رہی تھیں کہ جب ڈوئی واپس صیہون آئے گا تو اس کے حامیوں اور مخالفین میں مسلح تصادم ہو سکتا ہے۔ ان افواہوں کے اثر کی وجہ سے ڈوئی کی بیوی کو نفسیاتی دورے پڑنے لگے۔ ڈوئی نے صیہون میں اپنے دو قریب ترین ساتھیوں کو پیغامات بھجوائے۔ ان میں سے ایک پیغام اس کے جنرل کونسل V.V. Barnesکے نام تھا اور دوسرا پیغام Wilhiteکے نام تھا۔ ان پیغامات کا مقصد یہ تھا کہ صیہون کی تمام جائیداد اور اموال کا مختار نامہ وولیوا سےWilhiteکے نام منتقل کیا جائے۔ V.V. Barnesنے جواب دیا کہ ڈوئی کے احکامات پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ اور لکھا کہ تمہاری صحت ٹھیک نہیں ہے اور تم ہمارے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ اور تمہارے خلاف شواہد جمع کیے جا چکے ہیں۔ اسی طرح Wilhiteنے ڈوئی کو جواب دیا کہ وہ اس کے مختار نہیں بن سکتے اور جواب دیا کہ یہاں پر تمہارے خلاف جذبات بھڑکے ہوئے ہیں۔

(The Otumwa Corier 7 April 1906)

ڈوئی کو برطرف کیا جاتا ہے

وولیوا نے 8؍اپریل کو ایک عام اجلاس بلایا۔ یہ اجلاس Shiloh Tabernacleکے وسیع ہال میں منعقد ہوا۔ یہ اجلاس دوپہر ڈھائی بجے منعقد ہونا تھا لیکن صبح دس بجے سے ہی شہر کے لوگ مقررہ جگہ پر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔

جب ڈھائی بجے وولیوا اپنی بیوی اور بیٹی کے ہم راہ اس ہال میں داخل ہوا تو یہ ہال کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ اس اجلاس میں وولیوا نے ڈوئی کے خلاف تقریر کرنی شروع کی۔ اس کی ساری تقریر ڈوئی اور اس کی پالیسیوں کے خلاف تھی۔ اور ڈوئی پر لگائے جانے والے زیادہ تر الزامات مالی نوعیت کے تھے۔ وولیوا نے کہا کہ وہ اور دوسرے اوورسیئر بھی قربانی کر کے پچاس ڈالر ماہانہ پر گزارہ کرتے رہے ہیں۔ اور اس کا بھی دسواں حصہ چندے میں دیتے رہے ہیں۔ اور لوگوں کے چندوں کی آمد پر ڈوئی پُر تعیش زندگی گزارتا رہا ہے۔ وولیوا نے اپنی تقریر میں ڈوئی کو شاہ خرچ، جھوٹا، منافق اور لوگوں کے اعتماد کو دھوکا دینے والا قرار دیا۔ کچھ روز قبل تک اس شہر کے لوگ ڈوئی کے ایک ایک لفظ کو حرف آخر سمجھتے تھے اور اب سب وولیوا کی تائید کر رہے تھے۔

وولیوا نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کس کو ان کا لیڈر ہونا چاہیے۔ اس پر سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ وہ وولیوا کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔ وولیوا نے کہا کہ جب صیہون کے لوگ کھانے کو ترس رہے تھے اس وقت ڈوئی اپنے گھر کے لیے مہنگا ترین فرنیچر اور لائبریری خرید رہا تھا۔ وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ یہ اشیاء فروخت کر کے صیہون کے خزانے میں جمع کرائی جائیں۔ اس پر خود ڈوئی کی بیوی نے کرسی سے کھڑے ہو کر تائید کی۔

تقریر کے آخر میں وولیوا نے کہا ڈوئی منگل کے روز صیہون پہنچ رہا ہے۔ اسے اسٹیشن پر لینے کے لیے کوئی نہ جائے۔ اور کہا کہ اسے اپنے سابق گھر میں داخل بھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ سینٹ لوئیس میں ڈوئی سے اظہار وفاداری کیا گیا۔ اور ہارلم (Harlem) کے چرچ میں اس کی مخالفت میں تقریر کی گئی اور اسے پاگل کہا گیا۔ ڈوئی کو یہ علم ہو گیا تھا کہ اس کے سابق پیروکار اسے پاگل قرار دے رہے ہیں۔ اس لیے اس نے میکسیکو میں ایک ماہر نفسیات کو چیک کرا کے یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیا کہ میں پاگل نہیں ہوں۔

(The Birmingham Age-Herald 9 April 1906 p 1)

ڈوئی کا اظہار تکبر

واپسی کے سفر کے دوران ڈوئی کو اپنے خلاف بغاوت کی خبریں مل رہی تھیں۔ اس نے غیظ و غضب کی حالت میں صیہون میں اپنے ایک شخص کو تار دی:

’’یہ دھتکارے ہوئے بیکار لوگ میرے قدموں میں گرائے جائیں گے۔ ان کے نتھنوں سے خون بہ رہا ہو گا۔ اور میں جسے چاہوں گا ٹھیک کروں گا۔ رات کی تاریکی دن میں تبدیل ہو جائے گی۔ اورShiloh Tabernacle کی چھت کے اوپر ایک روشنی یہ اعلان کرے گی کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ میں قیادت سنبھال لوں۔ جن کو میں نے شفا دی تھی وہ دوبارہ معذور ہو جائیں گے اور رحم کی بھیک مانگیں گے۔ جن زہریلے گنہگاروں کو میں نے پاک کیا تھا وہ تکلیف سے تلملائیں گے اور مٹی کھائیں گے۔ ‘‘

اس نے ایک اور اہم شخصیت کو ان الفاظ میں تار دی:

’’میں اپنی واپسی پر ایک معجزہ دکھائوں گا اور ان بیکار لوگوں کو اُس کی طاقت کا علم ہو جائے گا جسےخدا نے مسح کیا ہو۔ آسمان سے آگ کا ایک شعلہ خیمہ گاہ پر نازل ہو گا۔ اور میں شیطان کو صیہون سے نکال دوں گا۔ ‘‘

(The Holmes County Times 13 April 1906)

بہر حال یہ خبریں ملنے کے بعد ڈوئی صیہون کے لیے روانہ ہوا۔ اور واپسی کے سفر میں وہ ٹیکساس میں رکا۔ اس شہرکے صیہونی اب تک اس کے وفادار تھے۔ یہاں پر ان کی ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں ہزار سے اوپر لوگوں نے شرکت کی۔ اس تقریب میں ڈوئی نے خطاب کر کے اپنے موقف کا دفاع کیا۔ اس قیام کے دوران اس نے ایسوسی ایٹ پریس کے نمائندوں کو انٹرویو دیا۔ اور اس انٹرویو میں خاص طور پر اپنی بیوی اور بیٹے سے اپنے اختلافات کے حالات بیان کیے۔

ڈوئی کے اپنی بیوی سے اختلافات

ڈوئی نے کہا کہ اسے اس بات کا صدمہ ہے جو عورت تیس سال اس کی بیوی رہی ہے اور اس سے اس کے تین بچے ہیں اب اس کے خلاف ہو گئی ہے۔ اس نے کہا کہ چونکہ ڈوئی کے پاس صیہون کی بہت زیادہ دولت جمع ہو گئی تھی۔ اس لیے اس کی بیوی اور بیٹے کی توجہ کا مرکز اس کی دولت بن گئی تھی۔ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے ڈوئی نے یہ وصیت کر دی کہ اس کے مرنے پر اس کی 95؍فیصد جائیداد اس کی تنظیم کو منتقل ہو گی اور پانچ فیصد اس کی بیوی اور بیٹے میں تقسیم ہوگی۔ جب یہ وصیت ان دونوں کو سنائی گئی تو وہ سخت نالاں ہوئے اور اس کے خلاف بڑبڑانے لگے۔

یہ دیکھ کر اس نے ایک اور وصیت کی کہ اس کی موت کے بعد صرف ڈھائی فیصد اس کی بیوی کو جائے گا اور باقی سب اس کی تنظیم کو منتقل ہوگا۔ اس کے بیٹے کو ایک وظیفہ ملے گا۔ اس پر یہ دونوں اس کے خلاف ہو گئے۔ یہاں تک کہ اسے ذہنی مریض بھی کہنے لگے۔ اور جب میں نے اپنے جانشین کے متعلق سوچنا شروع کیا تو مجھ پر یہ واضح تھا کہ میرا بیٹا گلیڈسٹون ڈوئی اس قابل نہیں کہ میرا جانشین بن سکے۔ اس چیز پر گلیڈسٹون میرے خلاف اور بھی بھڑک اٹھا۔ اور میرے خلاف علی الاعلان باتیں کرنے لگا۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button