یادِ رفتگاں

تھا لب خاموش لیکن ایک بحر بیکراں

(رضوانہ نثار اہلیہ نثار یوسف۔ سویڈن)

(نہایت شفیق اور مہربان والد محترم چودھری حمید اللہ صاحب کی یاد میں)

7؍فروری 2021ء کے دن ہمارے ابو محترم چودھری حمیداللہ صاحب ہم سے بچھڑ کے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اناللّٰہ و انا الیہ راجعون۔

بُلانے والا ہے سب سے پیارا

اُسی پہ اے دِل تو جاں فدا کر

میرے ابو نہایت شفیق اورمہربان باپ تھےآپ صرف ہمارے ابو ہی نہیں ہمارے دوست بھی تھے۔ باوجود ان کے رعب کے ہم تینوں بچےان سے گپ شپ اور ہر بات شیئر کر لیتے تھے۔ وہ بالکل بھی ایسے ابو نہیں تھے جن سے بچوں کو کچھ چھپانا پڑے۔ لیکن ان کا رعب ایسا تھا کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے ہم تینوں بچوں کو ڈر ہوتا تھا کہ یہ بات ان کو ناراض نہ کر دےاور ہم وہ بات نہیں کرتے تھے۔ آپ نے ہمیں بہت لمبی تقریریں کر کے کبھی نہیں سمجھایا۔ جب بھی نصیحت کرتے بہت نرمی سے غیر محسوس طریقے سے کرتے۔ مجھے کبھی احساس نہیں ہوا کہ انہوں نے زبردستی یا سختی سے کچھ کہا ہو۔ سب سے زیادہ جو آپ کا تربیت کا طریقہ تھا وہ ذاتی عمل تھا۔ میں نے سب سے زیا دہ جو آپ سے سیکھا وہ آپ کا خاموش طرزِعمل تھا جو میرے لیے با عث تربیت تھا۔ مثال کے طور پہ آپ کاصبح فجر کے لیے اٹھنا اور بہت نرمی اور پیار سے فجر کی نماز کے لیے اٹھانا۔ جتنے مان اور پیار سے وہ اٹھاتے تھے مجھے نہیں یاد میں کبھی نہ اٹھی ہوں یا کبھی انہوں نے ڈانٹا ہو۔ ہمیشہ مسجد جانے سے پہلے اٹھاتے اور اگر کبھی آنکھ نہ کھلتی تو مسجد سے واپس آکے پیار اور فکر بھری آواز میں کہتے کہ جلدی سے پڑھ لو ابھی بھی وقت ہے۔ امی اپنے کمرے میں تہجد پڑھتی تھیں اور ابو برآمدے میں پڑھتے تھےاور چھوٹے ہوتے بعض اوقات میرے کمرے میں بھی پڑھتے تھے۔ ابو کا تہجد میں لمبے سجود و قیام اور تکرار کے ساتھ ’اے قادرو توانا آفات سے بچانا‘ مجھے یاد ہے۔ میں نے جب بھی آپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا بہت آرام سےنماز کو انہماک سےپڑھتے ہوئے دیکھا۔

آپ ہمیشہ مسجد میں نماز پڑھتے تھے۔ میں جب بھی فون کرتی تھی اس میں بھی اکثر سلام دعا کے بعد کہتے تھےمیں نماز پڑھنے جا رہا ہوں۔ جب میں نے بی اے کا امتحان دیا تو اس کے بعد مَیں گھر ہی تھی تو ابو نے مجھے کہا کہ اب کالج نہیں جانا ہوتا تو تہجد شروع کر دو خواہ دو نفل ہی پڑھو اور روز صبح تہجد کے وقت اٹھا دیتے تھےاور اللہ کے فضل سے مجھے شادی سے پہلے ہی تہجد کی عادت ہو گئی تھی خواہ دو چار نفل ہی سہی لیکن ایک اچھی عادت ابو نے ڈال دی۔ اس کے علاوہ چھوٹے ہوتے ایک بات جو ابو نے مجھے سکھائی جب کبھی ابو پیسے یا کھانے کی کوئی چیز دیتے تو بچے جیسے ہاتھ پھیلا کے لیتے ہیں میں بھی ایسا کرتی تھی تو مجھے سکھایا کہ ایسے فقیروں کی طرح ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ اس طرح پکڑتے ہیں اور کئی دفعہ یہ حدیث بھی سنائی کہ اوپروالا ہاتھ نیچےوالے ہاتھ سے بہتر ہے۔ خرچ کے بارے میں یہ بھی بتایا کرتے تھے کہ بانٹنے سے رزق اور نعمتیں بڑھتی ہیں جیسے ایک ندی کا بہاؤ جاری رہتا ہے اور ایک کھڑے ہوئے پانی میں بو پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح رننگ (running)میں رہنے سے پیسہ اورنعمتیں آتی رہتی ہیں۔ اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا کمبلوں والا واقعہ بھی سناتے تھے۔

بچپن میں میرا کمرہ آپ کے ساتھ تھا۔ آپ اکثر سردیوں میں میرا لحاف کمرے میں آکر ٹھیک کرتے تھے۔ چھوٹے ہوتےگرمیوں میں باہر صحن میں چارپائیوں پہ سونے سے پہلے اکثر کہانی بھی سناتے تھے جن میں سے ایک چکوراور چکوری کی کہانی مجھے یاد ہے جو سناتے تھے اور پھر میری شادی کے بعد جب سویڈن آتے تو میرے بچوں کو بھی کہانیاں سناتے تھے۔ میرے بچے جب چھوٹے تھے اس وقت ابو نے بچوں کی تربیت سے متعلق ایک خط لکھا جو آپ سب کے ساتھ شیئر کر رہی ہوں۔

’’عزیزم اعتزاز احمد کی فکر کریں۔ اب جلد قاعدہ یسرنا القرآن اسکو ختم کر لینا چاہیے۔ اردو پڑھنا بھی ساتھ سکھا دیں۔ یہ پڑھ جائے گا توانشاءاللہ ایّاز اسکے پیچھے چلے گا۔ بچوں کے بارے میں چار باتیں بنیادی ہیں۔ صحت، تعلیم، اخلاق، نماز پڑھنے کی عادت (تلاوت کی عادت)۔ ان کا خیال رکھنا باقی باتیں ان کی لپیٹ میں آ جاتی ہیں۔ ہم حتی الوسع آپ سب کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔‘‘

جس زمانے میں ابو ناظر ضیافت تھے مسجد مبارک میں فجر کی نماز پڑھتے تھے اور واپسی پر دارالضیافت سے ہوکر آتے اور دن کی پلاننگ کرتے تھے۔ جب ابو کو ناظر ضیافت کی خدمت ملی تو وہ پہلے دن فجر کے بعد دارالضیافت گئے اور کچن میں گئے تو وہاں جو باورچی تھے وہ آپس میں ابو کے بارے میں ہی تبصرہ کر رہے تھے کہ ابو وہاں پہنچ گئے۔ باورچی فجر کےوقت آپ کو کچن میں دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو دارالضیافت کو منظم کرنے کا موقع دیا۔ سب سے پہلی چیز جوآپ نے آرگنائز کی وہ یہ کہ کھانا کسی صورت ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے آپ نے پیمانے بنوا ئے کہ ایک آدمی کتنی روٹی اور کتنے چاول کھاتا ہے اور پھر 100 لوگوں کا اور اسی طرح مزید۔ آپ چونکہ حساب دان تھے، ریاضی میں ایم اےکیا ہوا تھاآپ کو اکانومی آرگنائز کرنے اور تخمینہ لگانے پر ملکہ حاصل تھا۔ پھر آپ نے ہدایت دی کہ آدھی رات کو بھی کوئی مہمان آئے تو اس کے استقبال کے لیے کوئی ڈیوٹی پر ہو۔ پھر استقبال کا کمرہ بہت خوبصورت بنایا۔ پھر کمروں کے فرنیچر، دارالضیافت کی خوبصورتی اور ڈیکوریشن کی طرف بھی بہت توجہ کی۔ آپ کے زمانے میں دارالضیافت کےنئے بلاک کی تعمیر بھی ہوئی۔

ہمارے ابو ہمارے لیے دعاؤں کا خزانہ تھے۔ کوئی بھی مسئلہ ہوتا ہم جلدی سے امی ابو کو فون کر کے دعا کے لیے کہہ کے خود ہر فکر سے آزاد ہو جاتے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ خاکسار نے حضور انور سے ایک ملاقات میں کسی بات کے لیے دعا کی درخواست کی تو حضور نے فرمایا کہ امی ابو سے کہو۔ اس وقت مجھے بات سمجھ نہیں آئی اور بعد میں مجھے سمجھ آئی کہ یہ تو ایک اعزاز کی بات ہے۔ ایک دفعہ میری کوئی پریشانی تھی جس کا ابو سے ذکر کیا تو اس کے بعداکثر رات 9۔ 10 بجے ابو کا فون آجاتا اور حال احوال پوچھتے اور اس وقت پاکستان میں صبح کے دو تین بجے ہوتے تھے۔ مجھے احساس ہو جاتا کہ ابو کو میری فکر لگ گئی ہے۔ میرے بچوں کے امتحانات جب ہوتے تو بچے آپ کو دعا کے لیے کہتےتو جب تک نتیجہ نہ آجاتا پوچھتے رہتے اور بچوں سے بھی ان کے امتحان کے بارے میں پوچھتے۔ تفصیل سے پوچھتے کہ فزکس، کیمسٹری کا ٹیسٹ تھا تو کس ٹاپک کا تھا، ریاضی کا تھا تو کس چیز کا تھا وغیرہ۔ آخری بیماری میں جب ہسپتال تھے تو پہلا ہفتہ ہم سب بچوں سے فون پر بات ہوتی رہی۔ آخری بیماری میں ایک دن میں نے ابو کا حال پوچھنے کے لیےفون کیا تو ابو نے پوچھا شما ئلہ(میری بیٹی) کا امتحان ہونا تھا کیسا ہوا۔ میرے بیٹوں اعتزاز اور ایازکی پڑھائی کے بارے میں پوچھا۔ مجھے ابو کی فکر تھی اور ان کو آخری بیماری میں بھی ہماری اور ہمارے بچوں کی فکر تھی۔ جب میں نے بتایا کہ میں نے اور میری بہن طیبہ نے کورونا ٹیسٹ کروایا ہے جس کا نیگیٹو ہوا وہ ان شاءاللہ پاکستان آجائے گی، پہلے تو نہیں مانے۔ کہنے لگے میری اجازت کے بغیر نہ آنا اور افرا تفری کی ضرورت نہیں۔ اور مجھے کہا کہ تم ایک دم چھلانگ مار کے نہ آجانا۔ جب میں نے کہا کہ حضور سے مشورہ کر کے آئیں گے توپھر آواز میں تسلی آگئی، کہا ٹھیک ہے۔ پھر اگلے دن میں نے کہا امی نہیں آنے دے رہیں تو کہنے لگے اچھا صبح امی سےاس بات کو دوبارہ ڈسکس کر لیتے ہیں۔ اور امی کو ہسپتال سے ٹیکسٹ بھی لکھی کہ میری بیماری سے بچوں کو باخبر رکھنا۔ غالبا ًان کو اپنے آخری وقت کا کوئی احساس تھا لیکن اس کا بہت کھلا اظہار نہیں کرتے تھے کہ بچوں کو پریشان کر دیں۔ امی بھی نہیں چاہتی تھیں کہ کورونا پھیلا ہوا ہے تو بچے سفر پر نکلیں۔ مجھے بھی امی کہنے لگیں ہم نے تو زندگی گزار لی ہے تم لوگوں نے بچوں کی خوشیاں دیکھنی ہیں اس لیے چپ کر کے اپنے اپنے گھر بیٹھے رہو۔

مجھے یاد ہے جب میرے دادا فوت ہوئے تو میں چھوٹی تھی، اداس تھی تو میرے ابو نے مجھے سمجھایا کہ جو زیادہ نقصان اس وقت ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وہ دعائیں جو وہ ہمارے لیے کرتے تھے وہ ہمیں ملنا بند ہو گئی ہیں۔ اس لیے ا ب ہم نے وہ دعائیں خودکرنی ہیں۔ بہت چھوٹے ہوتے سے ہی انہوں نے اس چیز کا فہم دماغ میں ڈال دیا کہ والد کے فوت ہونے سے کیا نقصان ہوتا ہے۔ پھر یہ بات ساری عمر ذہن میں رہی۔

جب سے ہوش سنبھالا آپ صبح ناشتہ کے بعد دفتر چلے جاتے۔ دوپہر دیر سے گھر آتے، عصر تک آرام کرتے اور پھر شام دفتر چلے جاتے جہاں سے رات گئے واپس آتے۔ اور رات کو جب دیر سے آتے تو مجھے کبھی نہیں یاد کہ امی کو جگا تے کہ کھانا گرم کر کے دو۔ خود ہی کھانا گرم کر کے کھا لیتے تھے۔ ہمارے گھر میں اس پرکبھی کوئی بات نہیں ہوئی کہ کھانا گرم نہیں کیا۔ یا یہ کیوں پکا؟ اور یہ کیوں نہیں پکا؟یا کبھی دوپہر دیر سے میٹنگ سے آئے ہوں اور کہا ہو جلدی کھانا لاؤ بہت بھوک لگی ہے یا کھانا ٹھنڈا تھا یا کھانے سے متعلق کبھی کوئی ایشو میرے ابو نے بنایا ہو، کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا۔ کھانا کتنا بھی لیٹ کھا رہے ہوں، بہت آرام سے نفاست سے اور بہت خوبصورتی سے کھانا کھاتے تھے اور کھانا کھاتے ہوئے بالکل نہیں بولتے تھے۔ اور اگر میٹنگ ہوتی اور کھانا باہر کھانا ہوتا تو امی کوفون کر کے بتا دیتے تھے۔ مجھے بچپن میں عادت تھی کہ ابو جب کھانے کے لیے بیٹھتے تو اکثر میں ان کی پلیٹ میں سے ایک لقمہ لیتی تھی جس کا مجھے بہت مزا آتا تھا۔ امی مجھے ڈانٹ دیتیں کہ تھکے ہوئے آئے ہیں آرام سے کھانا کھانے دو لیکن ابو نے مجھےکبھی کچھ نہیں کہا بلکہ ایک دفعہ کہنے لگے میری طبیعت پر بوجھ نہیں ہوتا اگر بچے میرے کھانے میں سے سارا بھی لے لیں۔

بچپن میں جب مجھے امتحانات سے پہلے پڑھائی میں مدد کی ضرورت ہوتی تو اکثر آپ فجر کے بعد وقت نکالتے تھے۔ رات تو اکثر آپ دیر سے آتے تھے، میٹنگز وغیرہ ہوتی تھیں۔

چھوٹے ہوتے جب امی سے ڈانٹ پڑتی اور میں ناراض ہو کر دوسرے کمرے میں چلی جاتی اور بھوک ہڑتال کر دیتی تو ابو بار بار کمرے میں آتے اور مناتے کہ اٹھو کھانا کھا لو۔ اس کے علاہ مجھے اپنے بچپن کا واقعہ یاد ہےغالبا ًنویں کلاس میں میرے کسی سائنس کے مضمون میں نمبر کم آئے اور ٹیچر نے کہا کہ اپنے پیپر پرکل اپنے ابو کے سائن کروا کے لانا۔ ٹیچر کا خیال تھا اس کے کان کھینچے جائیں گے۔ میں نے گھر آکے ابو سے کہا۔ ابو وہ جو آپ بڑے والے انگلش کے سائن کرتے ہیں وہ کر کے دیں۔ ابو نے آرام سے سائن کر دیے اور نرمی سے تھوڑا سا سمجھایا کہ اب پڑھائی کرو اور اگلے امتحان میں اچھے نمبر لینے ہیں۔ لیکن جہاں تربیت کی بات ہوتی وہاں ہمیں ان کی آواز کی ٹون سے ہی پتہ چل جاتا تھا کہ یہ ان کے لیےناپسندیدہ بات ہے۔ ایک دفعہ شادی کے بعد میں نے اپنے سسرال کی کوئی بات کی تو انہوں نے کہا جیسے اپنی فیملی کا پردہ رکھتی ہو ان کا بھی رکھو اور مجھے دوبارہ ہمت نہیں ہوئی کہ ان کے سامنے کوئی بات کروں۔ میرے میاں کی اورسسرال کی ہمیشہ بہت عزت کی۔ اسی طرح جب کبھی میں فون کرتی تو امی کے ساتھ حال احوال اور بچوں کی باتوں کے بعد جب گپ شپ شروع ہوتی تو کہتے اب چغلیاں شروع ہو گئیں مَیں تو جا رہا ہوں۔ میں بعض اوقات ابو کو لطیفے سناتی تو ہمیشہ زیرلب مسکراتے۔ میں نے کبھی آپ کو اونچی آواز میں قہقہےلگاتے نہیں دیکھا۔ غیبت، چغلی، بدظنی، حسد آپ کی شخصیت کا حصہ نہیں تھے۔ آپ خاموش طبع، نیک مزاج اور بے نفس انسان تھے۔ ستاری، نرمی، پردہ پوشی اور محنت آپ کی ذات کا حصہ تھا۔ ساری عمرمیں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ آپ کے دل میں کسی کے لیے غصہ یا بغض ہے۔ شادی کے بعد ایک دفعہ یہاں مجھے کسی نے پوچھا کہ چودھری صاحب کا دوست کون ہے تو میرے منہ سے جو جواب نکلا وہ تھا ’سب‘۔ بعد میں مَیں نے کئی دفعہ سوچا تو میرے سامنے کوئی ایک نام نہیں آیا سوچنے پربھی یہی جواب تھا کہ سب۔ ایک دفعہ کسی نے ابو سےکہا کہ فلاں مبلغ تو لوکل زبان میں خطبہ دیتا ہے حالانکہ بعد میں آیا ہے اور فلاں لوکل زبان میں نہیں دیتا جب کہ پہلے آیا ہےتو آپ نے کہا ہاں وہ چھوٹی عمر کا ہے۔ انسان چھوٹی عمر میں زبان جلدی سیکھ لیتا ہے اور دوسرا عمر میں بڑا ہے زبان سیکھنے میں وقت لگتا ہے۔ اس طرح جب بھی کوئی ایسی بات کرتا تو اس کابہت مثبت جواب دیتے۔ ایک دفعہ میں پاکستان گئی تو میں نے شاپنگ کرنے لاہور جانا تھا۔ میرے تینوں بچے بہت چھوٹے تھے اور میں پریشان تھی کہ شاپنگ کرنا بچوں کے ساتھ میرے لیے مشکل ہےتو ابو میرے ساتھ چلے گئے کہ تم شاپنگ کر لینا میں تمہارے بچوں کو دیکھ لوں گا۔ میں شاپنگ کرنے گئی تو ابو میرےتینوں بچوں کو میکڈونلڈ لے گئے اور میں نے آرام سے شاپنگ کرلی۔ بعد میں میری بیٹی نے بڑے ہونے پر بتایا کہ ہم نے نانا جان کو کتنا تنگ کیا تھا۔ ایاز میرا چھوٹا بیٹا میکڈونلڈ میں بچوں کے گھر میں جو کھیلنے کے لیے بنے ہوتے ہیں سب سے اوپر جا کے چھپ گیا اور نانا جان کو ایک دم پریشانی ہو گئی۔ وہ سمجھےکہ ایاز گم ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ ایاز اس گھر میں اوپر چھپا ہوا تھا۔ لیکن ابو نے اس واقعہ کا میرے سے کوئی ذکر نہیں کیا۔

ہم بچوں کی برتھ ڈے کا دن ابو کو ہمیشہ یاد ہوتا تھااور امی کو کہتے آج کچھ اچھا پکاؤ۔ اور اپنی شادی کی اینی ورسری (anniversary)کا دن بھی ہمیشہ یاد ہوتا تھا۔ ابھی بھی بعض اوقات فون پر بتاتے کہ آج میری اور تمہاری امی کی شادی ہوئی تھی۔ امی کے گھر میں جوبچہ فرحان ساتھ رہتا ہے اور روز مرہ کے امور سرانجام دیتا ہے اس نے بھی بتایا کہ ایک دن مجھے بھیجا کہ جامعہ کے پاس سے جو سموسے ملتے ہیں وہ لےکر آؤ۔ اس نے بتایاکہ جب میں لےکر آیا تو پھر بتایا کہ آج ہماری شادی کی اینی ورسری ہے بی بی کو بھی دو اور تم بھی کھاؤ۔ اس طرح چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا اور احساسات کا بہت خیال رکھتے تھے۔

خود بھی بہت حساس طبیعت کے مالک تھے اور دوسروں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ فرحان نے مجھے بتایا کہ بی بی جب کبھی ابو سے اس کی شکایت کرتیں تو مجھے کبھی بھی بی بی کے سامنے نہ کچھ کہتے بلکہ الگ سے آرام سے سمجھا دیتے۔

دنیاوی چیزوں سے آپ کو کوئی دلچسپی نہیں تھی کوئی کتنا بڑا تحفہ دے جائے میں نے آپ کی آنکھوں میں کبھی کوئی چمک نہیں دیکھی۔ آپ کی آنکھوں کی چمک اور دلچسپی صرف جماعتی کاموں میں ہوتی تھی۔ تحفہ میری امی کو لا کر دے د یتے اور امی ہی کھول کے بتاتیں کہ اس میں کیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الربعؒ نے بھی خلافت سے پہلے آپ کو ایک خط میں لکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی آنکھ عطا فرمائی ہے جو دنیا کی ظاہری چمک دمک سے متاثر نہیں ہوتی۔

اس کے علاوہ حضورؒ نے لندن ہجرت کے بعد مئی 1984ء میںہم تینوں بہن بھائیوں کے نام ایک خط لکھا جو یقیناً حضورؒ کے دل میں ہمارے ابو کے لیے موجود محبت کی وجہ سے لکھا۔

ابو کے پاس ایک چھوٹا سا Nokia کا بٹنوں والا فون تھا۔ وہ آپ کو پسند تھا۔ اس کو کچھ عرصہ استعمال کیا۔ پھر ٹچ موبائل آگئے لیکن ٹچ موبائل آپ نے ایک آدھ دفعہ ہی استعمال کیا۔ گھر کا فون آپ نے اپنے بیڈ کے ساتھ رکھا ہوتا تھا۔ رات کو بھی کوئی کال کرتا تھا تو فون خود اٹھاتے تھے۔

ایک دفعہ میں پاکستان گئی ہوئی تھی تو اس وقت جاپان سے کوئی جاپانی صاحب جوغالباً جاپانی زبان میں قرآن کریم کے ترجمے کے لیےآئے ہوئے تھےانہوں نے واپس جاپان جانا تھا۔ ان کی فلائٹ غا لباً صبح کے تین بجے تھی۔ دفتر کا جو آدمی ان کو چھوڑنے جا رہا تھا اس کو ابو نے ہدایت دی ہوئی تھی کہ مجھے سارے راستے اطلاع کرنی ہے۔ ربوہ سےنکلتے ہوئے اس نے فون کیا پھر فون آیا چودھری صاحب چنیوٹ کراس کر لیا ہے۔ پھر فون آیا چودھری صاحب پنڈی بھٹیاں کراس کر لیا ہے۔ پھر فون آیا اب موٹر وے پرآگئے ہیں۔ اب شاہدرہ کراس کرلیا ہے۔ اب ایئر پورٹ پہنچ گئے ہیں۔ اب جاپانی صاحب کی بورڈنگ ہوگئی ہے۔ میں امی کے کمرے میں ہی تھی۔ میں نے کہا ابو آپ ساری رات جاگتے رہے ہیں مجھے تو دیکھ کے کچھ ہو رہا ہے۔ اتنا پریشر کیوں لیتے ہیں تو کہنے لگے کہ وہ حضور کے مہمان تھے۔ ابو نے بالکل اس طرح ان سے متعلقہ معاملات کو دیکھا جیسے کوئی دنیا دار ہیرے جواہرات کی فکر کرتا ہے کہ وہ خیریت سے پہنچ جائیں۔

اسی طرح جب یورپ اورکینیڈا کےجامعہ سے فارغ التحصیل طلباء پاکستان جاتے توامی بعض اوقات فون پر بتاتیں کہ تمہارے ابو تو آج کل دن رات جامعہ کے بچوں کے ساتھ مصروف ہیں اور گھر بس سونے آتے ہیں۔ بچوں کا خیال اور فکر کہ بچے خیر سے جائیں اور ان کا قیام اچھا رہے۔ آپ ہر کام خود کرتے، کسی کے ذمہ کچھ نہیں لگاتےتھے۔

جیسے ہر بیوی کا دل چاہتا ہے کہ اس کا میاں دو گھڑی اس کو بھی وقت دے۔ ساری عمر میرے ابو اسی طرح مصروف رہے۔ میری امی اکیلا پن محسوس کرتی تھیں لیکن انہوں نے اس اکیلے پن کا بہت ہی خوبصورت حل نکال لیا تھا۔ وہ کہتی تھیں کہ تمہارے ابو خدمت دین میں مصروف ہیں اور میں سارا دن تسبیحات اور دعائیں کرتی ہوں۔ میں نے اللہ کے ساتھ دل لگا لیا ہے۔

ایک دفعہ جب امی بہت بیمار ہوئیں تو میں امی کے پاس پاکستان گئی۔ ابو امی کو کچھ چیک اپ کروانے ہسپتال لے کر گئے۔ ابو کوتسلی تھی کہ میں امی کے پاس ہوں تو مجھے کہنے لگے کہ ایک ضروری میٹنگ ہے میں وہ اٹینڈ کر کے جلدی سےآتا ہوں۔ آپ کا دل جماعتی کاموں میں ہی اٹکا ہوتا تھا۔ لیکن امی جب بیمار ہوتیں تو اپنی مصروفیت کا ازالہ اس طرح کرتے کہ دن میں دفتر اور رات امی کے پاس ہسپتال میں سو جاتے تھے تاکہ ان کو اکیلے پن کا احساس نہ ہو۔ محترم ڈاکٹرنوری صاحب جب میرے ابو کا افسوس کرنے ہمارے گھر آئے تو انہوں نے بھی بتایا کہ جب آپ کی امی بیمار ہوتی تھیں اور ہسپتال داخل ہوتی تھیں تو آپ کے ابو ان کی تیمار داری کے لیے رات ہسپتال آپ کی امی کےکمرے میں ہی سو جاتے تھے۔ ہم چودھری صاحب کو کہتے تھے ساری رات آپ کی بیگم کے لیے نرس کا انتظام کر دیتے ہیں لیکن وہ پھر بھی خود ہی رات وہاں سو جا تے تھے۔ اور تب ابو اس طرح کرتے تھے کہ صبح دفتر جاتے، دوپہر کو امی کا حال پوچھتے۔ گھر آکے کھانا کھاتے۔ رات ہسپتال میں سوتے۔ صبح گھر آتے اور ناشتہ کرتے اور پھر دفتر جاتے۔ یہ آخری چند سالوں کی باتیں ہیں۔ بہت دفعہ امی ابو کے بیمار ہونے پر ہم تینوں بچے تڑپتے تھے کہ ہمیں آنے دیں لیکن آخری دم تک امی ابو کوشش کرتے تھے کہ بچوں کے گھر ڈسٹرب نہ ہوں ہم دونوں میاں بیوی خود ہی ایک دوسرے کی تیمار داری کر لیں۔

چھوٹی موٹی بیماری کا تو ہمیں پتہ ہی نہیں چلنے دیتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعود ؑکا ایک واقعہ سنایا تھاجو حضورؑ نے حضرت اماں جانؓ کو سنایا تھاجس میں دو پرندے اپنا گھونسلا جلا کے مہمانوں کے لیے ہاتھ تاپنے کا انتظام کرتے ہیں۔ ہمارے ماں باپ بھی ان دو پرندوں کی طرح تھے جنہوں نے اپنا گھونسلا جلا کے اپنے بچوں کے ہاتھ تاپنے کا انتظام کیا۔

مئی 2010ء میں لاہور دارالذکر اور ماڈل ٹاؤن میں شہادتوں کا دردناک واقعہ ہوا۔ تب پاکستان میں حالات بہت خراب ہو گئےتھے۔ ہمارا گھر اقصیٰ روڈ پر ریلوے ٹریک کے ساتھ جو گلی تھی اس میں تھا۔ روز دفتر جاتے ہوئے سیکیورٹی گارڈ ابو کے ساتھ جاتے۔ دن میں دو دفعہ تو ابو دفترجاتے ہی تھے علاوہ ازیں مختلف اوقات میں مختلف میٹنگز پربھی جانا ہوتا تھا اور بہت سی میٹنگز رات دیر گئے ختم ہوتی تھیں۔ اس وقت حضور انور نے ارشاد فرما یا کہ تحریک جدید کے احاطہ میں کوارٹر میں منتقل ہو جائیں۔ غالبا ًاس وقت تحریک جدید کے احاطہ میں نئے گھروں کی تعمیر ہو رہی تھی اور وکیل اعلیٰ کا گھر بھی بن رہا تھا۔ امی ابو تحریک جدید کے نئے گھروں میں سے ایک گھر میں شفٹ ہو گئے۔ کچھ عرصہ امی دیکھ بھال کے لیےپرانے گھر میں جاتی رہیں۔ ابو کے پاس تو اپنے ذاتی کاموں کے لیے کبھی وقت نہیں ہوتا تھا۔ خدا کی تقدیر کچھ ایسی چلی کہ میرے میاں کا بزنس بھی ان دنوں مشکلات کا شکار ہو گیا۔ میری بہن کے میاں کی بہت اچھی جاب ابو ظہبی میں تھی وہ غالباً 7 سال کا کنٹریکٹ تھا جو ختم ہو گیا۔ اس لیے اس وقت ان کے پاس بھی جاب نہیں تھی۔ بہرحال امی نے اس وقت فیصلہ کیا کہ ہم دونوں میاں بیوی تو عمر کے آخری حصہ میں ہیں ہماری تو تھوڑی سی زندگی باقی ہے۔ ہم گھر بیچ کے اپنی وصیت ادا کر کے باقی رقم بچوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ شاید بیٹیاں جو اس وقت مشکل میں ہیں ان کا بھی کوئی بھلا ہو جائے۔ اس طرح میرے ان مہربان ماں باپ نے اپنا گھونسلا جلا کر اپنے بچوں کی مدد کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ ان کو دونوں جہانوں میں بے انتہا رحمتوں سے نوازے۔ آمین۔

پرانے گھر کی یادوں میں سے ایک بہت پیاری یاد جس کا تذکرہ کرنا چاہوں گی مجھے امی نے کچھ سال پہلےبتا ئی تھی۔ ہمارے پرانے گھر کے باہر کے دروازے کے اندر والے حصہ پہ لیٹر باکس لگا ہوا تھا جس میں ڈاکیا خط ڈال جاتا تھا۔ جس زمانے میں خطوں کا رواج تھا تو ہم بچوں کی شادیوں کے بعد جب ابو دفتر سے گھر آتے تو لیٹر باکس چیک کرتے اور اگر بچوں کا کوئی خط آیا ہوتا تو نکال لیتے۔ پھر خطوں والے دَور کے بعد فون کالز سستی ہوگئیں تو خط لکھنے کا رواج نہ رہا۔ اس دَور کے بعد امی بتانے لگیں کہ تمہارے ابو ایک دفعہ لیٹر باکس کے پاس کھڑے اداس دعا کر رہے تھے۔ امی کے پوچھنے پر ابو نے بتایا کہ اس میں میرے بچوں کے خط آیا کرتے تھے اور اس کو یاد کر کے وہ ہمارے لیے دعا کر رہے تھے۔ ابھی چند مہینے پہلے کسی فون کال پر میں نے اپنے کسی ضروری کام کے لیے دعا کاکہا تو مجھے یاد کروانے لگے کہ پرانے گھر میں تمہاری شادی سے پہلے جلسہ سالانہ اور انصاراللہ کی ڈاک ہمارے گھر آیا کرتی تھی۔ عام طور پر روز ڈاک دوپہر 2 یا 3 بجے کے قریب آتی تھی۔ گرمیو ں میں تم اور باقی بچے بھی جب ہوتے تھے ڈاک لینے جایا کرتے تھے۔ اس طرح تم بچوں نےبھی سالہا سال میرے ساتھ دین کی خدمت کی۔

مجھے ابو کی یہ بات سن کر بڑی حیرانی ہوئی۔ میرے دل میں اس چھوٹے سے کام کا کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا اور ابو نے اتنے پیار سے ہمارے پوائنٹ اللہ کے سامنے بنا دیے۔

بچوں میں مَیں واحد بچی ہوں جو اپنی شادی پر ہی گھر سے رخصت ہوئی۔ میری بہن طیبہ میٹرک کے بعد لاہور ہوسٹل چلی گئی تھی اور بھائی بی ایس سی کے بعد کراچی چلا گیا۔ مجھے امی ابو کے ساتھ رہنے کا زیادہ موقع ملا اس لیے ڈاک کے حوالے سے بھی ابو کے ذہن میں یہ بات تھی کہ گرمیاں سردیاں یہ ڈاک لینے جاتی تھی۔

میری دو پھوپھیاں جوانی میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ میں تو تب چھوٹی تھی۔ ابو کی وفات کے بعد ان کی بیٹیوں نے بتایا کہ ہماری پڑ ھائی، یونیورسٹی میں داخلے، شادیوں کے معا ملات اور دیگر سب مسئلے مسائل ماموں نے حل کیے اور ہمیں والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔

میرے ابو کو اللہ کے فضل سے چار خلفاء کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ آپ کو چاروں خلفاء کی خوشنودی حاصل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا انجام بخیر کیا۔ آپ کے اندر خلافت سے اطاعت اور محبت کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے آپ کو خاص محبت تھی۔ آپ جب بھی ان کا ذکر کرتے آپ کی آواز بھر اجاتی تھی۔ بچپن میں آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ساتھ جلسہ جات کے موقع پہ ڈیوٹی بھی دیتے رہے۔ پھر جب حضورؒ تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل تھے تب ابو کاکالج میں بحیثیت پروفیسر تقررہوا۔ اس وقت آپ کی عمر23سال تھی۔ اس وقت کا ایک واقعہ ابو نے بتایا کہ ایک دفعہ کسی گاؤں کا وڈیرا اپنا بیٹا لےکر آیا جو بڑی عمر کا تھاکہ اس کو کالج میں داخلہ دے دیں تو حضورؒ نے سٹاف روم سے ابو کو بلایا اور ان کو کہا کہ ہمارے کالج میں تو پروفیسر بھی اتنی چھوٹی عمر کےہیں۔ پھر میری دادی جان کی وفات پرحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے میری دادی کا جنازہ پڑھانے کے بعد جنازے کو مسجد مبارک کے احا طے میں کندھا بھی دیا۔ یہ واقعہ سناتے ہوئے بھی آپ کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔

پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا ایک واقعہ میرے ابو سناتے تھے کہ جماعتی روایت تھی کہ جلسہ سالانہ کے اختتام پر حضورؒ لنگر نمبر 1 میں ناظمین جلسہ کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے۔ 1973ءکے جلسہ سالانہ کی بات ہے بحیثیت افسر جلسہ سالانہ یہ ابو کا پہلا جلسہ تھا اور ابو حضورؒ کے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھانے کی بجائے انتظامات میں مصروف تھے۔ حضورؒ نے میرے ابو کو کہاآپ میرے پیالے میں میرے ساتھ کھانا کھا لیں جس پر ابو نے دو تین لقمے حضورؒ کے پیالے میں سے لیے۔ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ۔ پھر جب آپ صدر خدام الاحمدیہ منتخب ہوئے تو اس کےبعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جو تقریر فرمائی اس کے بہت سے اقتباسات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات کے بعد خطبہ جمعہ میں جو ذکر خیر فرمایااس میںبیان فرمائے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی آپ کا بہت محبت احترام اور وفا کا تعلق تھا۔ جب ہم لندن جاتے اور میری فیملی کو حضور انور سے ملا قات کا وقت ملتا تو ابو ہمیں دن میں کئی بار یاد کرواتے کہ ملاقات کے وقت سے ایک گھنٹہ پہلے چلے جانا۔ میری بہن کا گھر مسجد فضل کے بالکل ساتھ ہی تھا۔ بعض اوقات ہم کہہ دیتے کہ گھنٹہ پہلے کیا کرنا ہےلیکن ان کو فکر رہتی تھی کہ ہم وقت سے پہلے پہنچیں اور بالکل پسند نہیں کرتے تھے کہ ملاقات والے دن ہم بازار یا کہیں اور جائیں۔ ایک دفعہ میں بازار چلی گئی تھی تو ابوبہت اَپ سیٹ ہو گئے اور مجھے کئی فون کیے کہ جلدی پہنچو۔ آپ خود بھی حضورسے ملاقا ت سے بہت پہلے تیار ہو کر ویٹنگ روم میں چلے جاتے تھے۔ اس وقت ابو کو دیکھ کر لگتا تھا کہ کسی جہاد پر جا رہے ہیں۔ ایک دفعہ ابو میرے پاس سویڈن تھے تو میں نے حضور کو دعا کا خط لکھا۔ ابو کو دکھایا توانہوں نے کہا اس کو دوبارہ اچھا کر کے لکھو۔ پیرا گراف بناؤ یہاں یہ بات ختم ہوئی یہاں سے دوسری بات دوسرے پیراگراف میں لکھو۔

پھر ایک دفعہ حضور سویڈن تشریف لائے تو خاکسار نے حضور انور کی خدمت میں درخواست کی کہ ہمارے گھر تشریف لائیں ۔ میں نے جب ابو کو فون پہ بتایا کہ حضور کو دعوت دی ہے تو دوسری ہدایات کے علاوہ کہا کہ گھر کے باہر پھول بھی لگانا۔ انہوں نے نوٹ کیا ہو گا کہ ہمارے گھر کی دہلیز میں پھول بوٹے نہیں لگے ہوئے۔ حضور انور کی خدمت میں دعا کا خط لکھنا اور خطبہ جمعہ سننا تو آپ نے بچپن میں گھٹی میں ڈال دیا تھا لیکن پھر بھی کوئی ضروری امر ہوتا تو یاد کرواتے کہ حضور کو خط لکھو۔

کچھ سال پہلے میری امی بہت بیمار ہو گئیں تو میں امی کے پاس گئی۔ ابو روز انہ حضور کو دعا کے لیے خط لکھتے جس امی کی بیماری کی پوری تفصیل اور اَپ ڈیٹ ہوتی۔ جب امی ٹھیک ہو گئیں تو ایک دن امی نے کہا کہ میں آپ کی طرح کوئی جماعتی وجود تو نہیں کہ آپ خلیفۂ وقت کو ہر روز میری بیماری کی اتنی تفصیل لکھتے ہیں، ان کا وقت قیمتی ہے۔ کہنے لگے کہ حضرت مسیح مو عود علیہ السلام سے ایک صحابی نے پوچھا کہ حضور میں آپ کو روز دعا کے لیے خط لکھ لیا کروں توحضور نے فرمایا لکھ لیا کریں۔

میری امی کے ساتھ بہت محبت اور احترام کا سلوک کرتے تھے۔ ان کو کبھی ناراض نہیں کرتے تھے۔ ان کے جذبات اور احساسات کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ میری امی کو فروزن شولڈر کی تکلیف ہوئی۔ تب میں چھوٹی تھی۔ میری امی رات کو باتھ روم میں جاتیں تو لوٹا بھی پانی کا بھر دیتے اور ان کے اٹھنے پر خود ہی اٹھ جاتے۔ یہ نہیں کہ وہ کوئی آواز دے کر اٹھاتی تھیں۔ میرے ابو کو اللہ نے بہت دینی اور دنیاوی علم اور فراست دی ہوئی تھی۔ دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے تو ابو نے ریاضی میں ایم اے کیا ہوا تھا اور امی کی تعلیم میٹرک تھی لیکن میرے ابو نے ہمیشہ میری امی کی بہت عزت کی اور ہر گھریلو امر میں ان کی رائے کو فوقیت دی اور مجھے ساری عمر کبھی ایک دفعہ بھی احساس نہیں ہوا کہ انہوں نے امی کو یہ احساس دلایا ہو کہ وہ ان سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں یا زیادہ فہم وفراست کے مالک ہیں۔ لیکن جہاں ضروری معا ملات ہوتے تھے جیسے بچوں کے رشتوں کے معاملے اور بعض دوسرے اہم امور وہاں ابو نے امی کے مشورے کے ساتھ فیصلہ اپنے ہاتھ میں رکھا اور امی بھی وہاں ابو کی مرضی سے ہی چلتی تھیں۔ میری امی کو اگر دین العجائز پر قائم وجود کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ بے انتہا عبادت گزار، اللہ سےمحبت کرنے والی، اللہ کا نام جپنے والی اور اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر کرنے والی بندی ہیں۔ اگرچہ انہیں بظاہر گہرا دینی علم نہیں لیکن وہ ابو کے وقف نبھانے میں ہمیشہ ان کی معاون و مددگار رہیں۔

میرے ابو اکثرہسپتال میں بیماروں کا حال پوچھنے جاتے۔ ہر ایک جاننے والےکے جنازے پر جاتے۔ گھریلو امور میں میری امی کی ہر بات مانتے۔ یہاں تک کہ ساری عمر ابو کے کپڑے جوتے امی نے ہی خریدے۔ کیا کھانا ہےکیا پکانا ہے سب امی کرتی تھیں۔

میرے ابا حقیقی طور پر وقفِ زندگی کا حق ادا کرنے والے تھے۔ اگر کہا جائے کہ انہوں نےکھانے، پینے، اورسونے کے علاوہ اپنا باقی سارا وقت جماعت کو دیا تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔ گویا یہ کہنا بجا ہو گا کہ انہوں نے اپنا ایک ایک سانس خدمت دین میں گزارا۔ بلکہ اگر کہا جائے کہ آخری سانس تک آپ نے خدمت دین کی تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ آپ کے ساتھ ایک کام کرنے والے نے بتایا کہ جس دن ابو ہسپتال داخل ہوئے اگلے دن انہوں نے فون پر دفتری ہدایات دیں بلکہ پہلا پورا ہفتہ جب تک ہوش میں رہے دفتری ہدایات دیتے رہے۔ وفات سے ایک دو ہفتہ پہلے جب میری ابو سے فون پر بات ہوئی تو آپ نے مجھے بتایا کہ حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ نے ایک دفعہ حضرت مسیح مو عود علیہ السلام سے پوچھا کہ کوئی وظیفہ بتائیں تو حضورؑ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد 11؍دفعہ درود ابراہیمی، 11؍دفعہ

لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ العَلِیِّ العَظِیْمِ،

11؍دفعہ

اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَ اَتُوْبُ عَلَیْہِ،

11؍دفعہ

یاحَفِیْظُ یَا عَزِیْزُ یَا رَفِیْقُ یَا حَیّ یَا قیُّوْمُ بِرَحمْتِکَ نَسْتَغِیْثُ۔

کہنے لگے آج کل میں نے یہ ہر نماز کے بعد پڑھنا شروع کیا ہوا ہے۔ پھر یہ بھی بتایا کہ

یاحَفِیْظُ یَا عَزِیْزُ

والی دعا سجدے میں بھی کر سکتے ہیں۔ اس کا کوئی حوالہ بھی بتایا تھا غالباًحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا۔

وفات سے تقریباً دو ہفتے پہلے آپ نے ایک خواب دیکھا جو آ پ نے بچوں میں سے صرف مجھےبتائی کہ تمہاری امی کہہ رہی ہیں کہ تمہیں بتاؤں۔ آپ نے واٹس ایپ پر وائس میسج پر مجھے وہ خواب سنائی۔ خواب سن کر میں نے آپ کو فون کیا۔ خواب کا آپ کی طبیعت پر اثر تھا۔ مجھے کہنے لگے پہلے تم اس کی تعبیر بتاؤ۔ عام طور پر آپ اپنی خوابیں بتایا نہیں کرتے تھے اور اس طرح کبھی پہلے مجھ سے اپنے کسی خواب کی تعبیر ڈسکس نہیں کی۔ آپ نے جو وائس میسج بھیجا وہ 9؍جنوری 2021ء کو بھیجا۔ اس لحاظ سے خواب کی تاریخ 6؍جنوری بنتی ہے۔ خواب میں انہوں نے صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کو دیکھا اور اس طرح آپ نے سنائی کہ ’’منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو ڈھائی اور چار بجے کے درمیان میں نے ایک خواب دیکھی دارالصدر میں جو گھر ہیں وہ سڑک جو آگے کھیتوں کی طرف جاتی ہے وہ جگہ ہے وہاں بہت سے لوگ کھڑے ہیں۔ میاں خورشید بھی ہیں وہاں میں بھی ہوں۔ ایسے لگتا ہے کالج کی کانووکیشن ہے اور اس سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرا حمدؓ نے خطاب کرنا ہے۔ وہ آتے ہیں۔ انہوں نے اپنا معمول کا لباس پگڑی کوٹ اور شلوار کرتا پہنا ہوا ہے۔ جو ں جوں وہ آگے بڑھتے ہیں جو حاضر لوگ ہیں وہ ان سے معانقہ کرتے ہیں۔ سب سے آخر میں مَیں معانقہ کرتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے تقریر کرنی ہوتی ہے۔ ان کے چہرے پر بڑا نور ہے اور اس نور کی وجہ سے گلی میں بھی فضا میں نور ہے۔ جب وہ ڈائس پرآتے ہیں تو پھر اپنا کوٹ اتار دیتے ہیں۔ انہوں نے کوٹ کے اندر کرتا پہنا ہوا ہے جو کریم کلر کا ہے۔ بہت خوبصورت ہے اور اس میں بڑی کشش ہے۔ پھر وہ اپنا خطاب پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ تھوڑا سا پڑھتے ہیں تو پرے ایک مکان ہے اس کے سامنے دو تین لڑکے ہیں وہ اونچی اونچی باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو کوئی چپ کروا رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس فنکشن سے پہلے بارش ہوئی ہوتی ہے۔ سڑک کا پانی تو جذب ہو گیا ہے لیکن مکانوں کے دروازوں کےسامنے جس طرح بارش کے بعد پانی خشک ہو کے تھوڑا سا کیچڑ رہ جاتا ہے اس کی شکل ہے۔‘‘

ایک اور خواب جو آپ نے کچھ سال پہلے مجھے بتائی تھی جب آپ میرے پاس سویڈن آئے تھے جو غالبا ًجماعتی خواب ہے۔ آپ نے خواب دیکھا ایک سڑک ہے جو دور تک جا رہی ہے اس کے بائیں طرف ایک تیز دریا بہتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اچانک دور سے چودھری انور حسین صاحب (امیر جماعت شیخو پورہ ) نمودار ہوتے ہیں۔ سفید شلوار اور اچکن پہنی ہوئی ہے۔ وہ ابو کے پاس آتے ہیں اور ابو ان کو کہتے ہیں کہ آپ 200 میل کی لمبی سیر کر کے آئے ہیں اور ایک بڑے ملک کے بارے میں فرمایا کہ اب تو آپ اسے بھی کنٹرول کر سکتے ہیں۔

چارخلفائے وقت نے آپ کی وفا پہ اپنی رضا کی مہر لگائی الحمدللہ علی ذالک۔ اللہ تعالیٰ ایسا انجام بخیر ہر واقف زندگی کو عطا فرمائے۔ آمین۔

دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کی ہر خدمت اور دعا کو قبول فرمائے اور آپ کے درجات بلندکرتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس خادم کو رسول پاکﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں جگہ عطا فرما ئے اور اللہ تعالیٰ آپ کے سب اوصاف آپ کے بچوں میں بھی زندہ رکھے اور ساری زندگی ہمیں آپ کی دعائیں پہنچتی رہیں، آمین یا رب العالمین۔

خاکسار ان تمام احباب کی شکر گزار ہے جنہوں نے آخری وقت میں میرے ابو کی کسی طرح کی بھی خدمت کی۔ ان میں طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹرز، ابو کے رفقائے کار اور دیگر بہت سے خیرخواہ شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر عظیم عطا فرمائے آمین۔

اس کے اوصاف حمیدہ اور بھی توہیں بہت

ذات میں اس کی چمکتے ہیں وہ جیسے کہکشاں

جنت الفردوس میں اس کے مراتب ہوں بلند

مہرباں اس پر رہے ہر آں خدائے مہرباں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button