متفرق مضامین

ایک علمی تحقیق اور چار ایمان افروز واقعات

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

20؍مارچ2012ء کی اخبار روزنامہ ’’جنگ‘‘لندن میں ایک علمی تحقیق کی ایک مختصررپورٹ شا ئع ہوئی ہے جو درج ذیل ہے:

لندن(جنگ نیوز) چہرے کے تاثرات انسان کے اندر کی حقیقت عیاں کرتے ہیں اور سائنس دان بھی اب اس سے متفق ہیں۔ ریسرچرز نے انسانی چہرے کے پانچ مسلز کا تجربہ کیا جس میں لوگوں کے مختلف ردعمل اور غم وغیرہ کو بھی جانچاگیا۔جھوٹ بولنے والوں کے چہرے کے تاثرات دوسروں سے مختلف تھے۔ماہرین نفسیات نے مختلف ملکوں کے ٹیلی ویژن پر آنے والے 52 افراد کے چہروں کی حرکات کا باریک بینی سے تجربہ کیا جن میں برطانیہ کے لوگ بھی شامل تھے۔یہ افراد لاپتہ لوگوں کی واپسی کی اپیل کر رہے تھے ان میں سے نصف جھوٹ بول رہے تھے جن کو بعد میں قتل کے جرم میں سزائیں ہوئیں۔ ریسرچرز کا کہنا ہے کہ ان میں 26 جھوٹےاور26سچے لوگ تھے اور یہ آسٹریلیا،کینیڈا ، امریکہ، برطانیہ سے تعلق رکھتے تھے۔تمام جھوٹے افراد کو ان کے جسمانی (بشمول ڈی این اے) شواہدپر سزائیں ہوئیں۔اس ریسرچ سے یہ ثابت ہوا کہ فرشتہ صفت چہرہ سچائی کا مظہر ہوتاہے۔جھوٹےاپنے چہرے کے تاثرات کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔

اس تحقیق کا لب لباب ،مرکزی نقطہ اور ماحصل یہ فقرہ ہے: ’’فرشتہ صفت چہرہ سچائی کا مظہرہوتا ہے‘‘یہ رپورٹ پڑھ کر مجھے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی با برکت زندگی کے چار واقعات یاد آگئے جو آپ کی مقدس سیرت کے تابندہ گواہ بھی ہیں اور جن سے اس علمی تحقیق کی تائید بھی ہوتی ہے۔یہ واقعات احباب جماعت کے ازدیادایمان کے لیے، بغیرکسی مزید تبصرہ کے، درج کرتا ہوں۔دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دوسرے پڑھنے والوں کو بھی بصیرت اور فہم عطا فرمائے۔آمین۔

٭…جناب ابوسعید عرب صاحب اوّل اوّل ایک بڑے آزاد مشرب اور نیچریت کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔حضرت اقدس کی کتاب’’آئینہ کمالات اسلام‘‘نے انہیں سلسلہ کی طرف متوجہ کیا اور حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی محبت کا تخم آپ کے دل میں جما دیا۔ان کی حضرت اقدس سے ایک گفتگو کا ذکر ملفوظات جلد نمبر چار میں ملتاہے:

’’عرب صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک چینی آدمی کے روبرو میں نے آپ کی تصویر کو پیش کیا۔وہ بہت دیر تک دیکھتا رہا۔آخر بولا کہ یہ شخص کبھی جھوٹ بولنے والا نہیں ہے پھر میں نے تصاویر بعض سلاطین کی پیش کیں۔مگر ان کی نسبت اس نے کوئی مداح کا کلمہ نہ نکالا اور بار بار آپ کی تصویر کو دیکھ کر کہتا رہا کہ یہ شخص ہرگز جھوٹ بولنے والا نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ278)

٭…حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں:

’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ کسی مقدمے کے واسطے میں ڈلہوزی پہاڑ پر جارہا تھاراستہ میں بارش آگئی میں اور میرا ساتھی یکہ سے اتر آئے اور ایک پہاڑی آدمی کے مکان کی طرف گئے جو راستہ کے پاس تھا۔میرے ساتھی نے آگے بڑھ کر مالک مکان سے اندر آنے کی اجازت چاہی مگر اس نے روکا اس پر ان کی باہم تکرار ہوگئی اور مالک مکان تیز ہوگیا اور گالیاں دینے لگا۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں یہ تکرار سن کر آگے بڑھا۔جونہی میری اور مالک مکان کی آنکھیں ملیں تو پیشتر اس کے کہ میں کچھ بولوں اس نے اپنا سر نیچے ڈال لیا اور کہا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ میری ایک جوان لڑکی ہے اس لئے میں اجنبی آدمی کو گھر میں گھسنے نہیں دیتا مگر آپ بے شک اندر آجائیں۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ وہ ایک اجنبی آدمی تھا نہ میں اسے جانتا تھا اور نہ وہ مجھےجانتاتھا۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر8)

٭…حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اپنی تقاریر کے مجموعہ’’سیرتِ طیبہ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:

’’غالباً 16-1915ءکی بات ہے کہ قادیان میں آل انڈیا ینگ میَن کرسچین ایسوسی ایشن کے سیکرٹری مسٹر ایچ۔اے والٹر تشریف لائے۔ان کے ساتھ لاہور کے ایف سی کالج کے وائس پرنسپل مسٹر لوکاس بھی تھے۔مسٹر والٹر مسیحی تھے اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق ایک کتاب لکھ کر شائع کرنا چاہتے تھے جب وہ قادیان آئے تو خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملے اور تحریک احمدیت کے متعلق بہت سے سوالات کرتے رہے اور دوران گفتگو میں کچھ بحث کا سا رنگ بھی پیدا ہو گیا تھا۔اس کے بعد انہوں نے قادیان کے مختلف ادارہ جات کا معائنہ کیا اور بالآخر مسٹر والٹر نے خواہش ظاہر کی کہ میں بانی سلسلہ احمدیہ کے کسی پرانے صحبت یافتہ عقیدت مند کو دیکھنا چاہتا ہوں۔چنانچہ قادیان کی مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک قدیم اور فدائی صحابی منشی محمد اروڑا صاحبؓ سے ان کی ملاقات کرائی گئی ، اس وقت منشی صاحب مرحوم نماز کے انتظار میں مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔رسمی تعارف کے بعد مسٹر والٹر نے منشی صاحب موصوف سے دریافت کیا کہ

’’آپ مرزا صاحب کو کب سے جانتے ہیں اور آپ نے ان کوکس دلیل سے مانا اور ان کی کس بات نے آپ پر زیادہ اثر کیا۔‘‘

منشی صاحب نے جواب میں بڑی سادگی سے فرمایا ’’میں حضرت مرزا صاحب کو ان کے دعویٰ سے پہلے کا جانتا ہوں میں نے ایسا پاک اور نورانی انسان کوئی نہیں دیکھا ان کا نور اور ان کی مقناطیسی شخصیت ہی میرے لئے ان کی سب سے بڑی دلیل تھی۔ہم تو اُن کے منہ کے بھوکے تھے۔‘‘

یہ کہہ کر حضرت منشی صاحبؓ حضرت مسیح موعودؑ کی یاد میں بے چین ہوکر اس طرح رونے لگے جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی جدائی میں بلک بلک کر روتا ہے۔اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ یہ نظارہ دیکھ کر ان کا رنگ سفید پڑ گیا تھا اور وہ محو حیرت ہو کرمنشی صاحب موصوف کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہے اور ان کے دل میں منشی صاحب کی اس سادہ سی بات کا اتنا اثر تھا کہ بعد میں انہوں نے اپنی کتاب احمدیہ موومنٹ میں اس واقعہ کا خاص طور پر ذکر کیا اور لکھا کہ

’’مرزا صاحب کو ہم غلطی خوردہ کہہ سکتے ہیں مگر جس شخص کی صحبت نے اپنے مریدوں پر ایسا گہر ااثر پیدا کیا ہے اسے ہم دھوکے باز ہرگزنہیں کہہ سکتے۔‘‘

(’’احمدیہ موومنٹ‘‘مصنفہ مسٹر ایچ۔اے والٹر)

(سیرت طیبہ صفحہ 140-141)

٭…حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ؓکی روایت سے ایک اور ایمان افروز واقعہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی کتاب ’’سیرت طیبہ‘‘میں صفحہ 143،142 پر ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

’’حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بزرگ صحابی اور جماعت احمدیہ کے ایک جید عالم تھے فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مردان کا ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّلؓ کی طب کا شہرہ سن کر آپ سے علاج کرانے کی غرض سے قادیان آیا۔یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سخت ترین دشمن تھا اور بمشکل قادیان آنے پر رضا مند ہواتھا۔اور اس نے قادیان آکر اپنی رہائش کے لئے مکان بھی احمدی محلہ سے باہر لیا تھا۔جب حضرت خلیفہ اولؓ کے علاج سے خدا کے فضل سے افاقہ ہوگیا اور وہ اپنے وطن واپس جانے کے لئے تیا ر ہوا تو اس کے ایک احمدی دوست نے اسے کہا کہ تم نے حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھنا پسند نہیں کیا۔مگر ہماری مسجد کو تو دیکھتے جاؤ۔وہ اس بات کے لئے رضا مند ہو گیا مگر یہ شرط رکھی کہ مجھے ایسے وقت میں مسجد مبارک دکھاؤ کہ جب مرزا صاحب مسجد میں نہ ہوں۔چنانچہ یہ صاحب اسے ایسے وقت میں قادیان کی مسجد مبارک دکھانے کے لئے لے گئے کہ جب نماز کا وقت نہیں تھا اور مسجد خالی تھی۔مگر قدرت خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ادھر یہ شخص مسجد میں داخل ہوا اور ادھر حضرت مسیح موعودؑ کے مکان کی کھڑکی کھلی اور حضور کسی کام کے تعلق میں اچانک مسجد میں تشریف لے آئے۔جب اس شخص کی نظر حضرت مسیح موعودؑ پر پڑی تو وہ حضور کا نورانی چہرہ دیکھتے ہی بے تاب ہو کر حضور کے قدموں میں آگرا اور اسی وقت بیعت کرلی۔‘‘

(سیرۃ المہدی حصہ اوّل روایت 73)

سرِ دست ان چار واقعات پر اکتفا کرتا ہوں۔حق تو یہ ہے کہ جیسے حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اپنے ایک عارفانہ شعر میں فرمایا ہے:

صاف دل کوکثرت اعجازکی حاجت نہیں

اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button