حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (2) (قسط پنجم)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

قرآن کریم کی ایک عظیم الشان پیشگوئی

یہ پہلی پیشگوئی ہے جو قرآن کریم کے بینہ ہونے کے ثبوت میں پیش کی گئی ہے۔ فرمایا قرآن کےبینہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ یہ کتاب خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی شان دنیا میں قائم کر دے گی۔

حضرت مسیح علیہ السلام پر مخالفین نے اعتراض کیا تھا کہ اسے شیطان سکھاتا ہے اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کیا شیطان اپنے خلاف آپ سکھاتا ہے۔

’’اگر شیطان شیطان کو نکالے تو وہ اپنا ہی مخالف ہوا۔ پھر اس کی بادشاہت کیونکر قائم رہے گی‘‘۔

(متی باب 12 آیت26 برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ 1887ء)

اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ کتاب جو خدا تعالیٰ کی گم شدہ عظمت قائم کرنے کیلئے آئے اسے شیطان کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ اول تو کوئی کتاب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو یہ کہہ ہی کس طرح سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی عزت اور عظمت اس کے ذریعہ قائم ہو جائیگی۔ کئی لوگ کتابیں لکھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی کتاب دنیا کا نقشہ بدل دے گی لیکن پھر اسی کتاب پر دوسروں سے ریویو کرانے کے لئے منتیں کرتے پھرتے ہیں۔ ایک دوست نے بتایا کہ ایک شخص نے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے وہ شکوہ کرتا پھرتا ہے کہ ’’الفضل‘‘ اس کی کتابوں کے خلاف کیوں نہیں لکھتا۔ ایک اور مدعی نبوت نے مجھے لکھا کہ میں آپ کے پاس اپنی کتاب بھیجتا ہوں خواہ آپ اس کے خلاف ہی لکھیں لیکن لکھیں ضرور۔ تو بیسیوں کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں پیدا ہوتا۔ پھر کیا یہ معمولی بات ہے کہ ایک ایسے علاقہ میں جہاں بت پرستی کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ وہاں کہا گیا کہ اسے ایسی حالت میں پڑھ کہ تیرے رب کی عزت اس کے ذریعہ دنیا میں قائم ہوتی جائے گی۔ اس کلام کے ذریعہ تیرا رب اکرم کے طور پر ظاہر ہوگا۔

اس وقت نہ صرف عرب میں بلکہ سارے جہان میں شرک پھیلا ہوا تھا اور حالت یہ تھی کہ آخری مذہب جو عیسائیت تھا۔ اس کے ماننے والے عیسائی خود لکھتے ہیں کہ اسلام اس لئے اتنی جلدی اور اس وسعت کے ساتھ پھیل گیا کہ عیسائیت میں شرک داخل ہو چکا تھا۔ ہندوئوں کی کتابوں کو دیکھو تو یہی معلوم ہوگا کہ اس وقت ہندوئوں میں بکثرت شرک پایا جاتا تھا۔ زرتشتی بھی مانتے ہیں کہ اس زمانہ میں ہر طرف شرک ہی شرک تھا۔ غرضیکہ تمام مذاہب والے فخر کے ساتھ کہتے تھے کہ اسلام کے پھیلنے کی یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہر مذہب میں شرک پھیل چکا تھا۔ ہم کہتے ہیں یہ درست ہے اور قرآن کریم نے ایسے ہی وقت میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ شرک مٹ جائے گا اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائیگی۔

اس وقت جب کہ قرآن نے توحید پیش کی مکہ والوں کی جو حالت تھی اس کا ذکر قرآن کریم اس طرح کرتا ہے کہ انہوں نے کہا

اَجَعَلَ الۡاٰلِہَۃَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚۖ اِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ عُجَابٌ(صٓ:6)

یہ عجیب بات ہے کہ اس نے سارے معبودوں کو کوٹ کاٹ کر ایک بنا دیا ہے ان لوگوں کو یہ خیال ہی نہیں آتا تھا کہ وہ اِلٰہ ہیں ہی نہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ سب معبودوں کو اس نے اکٹھا کر کے ایک بنا دیا ہے۔ سورۃ صٓ میں ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ مگر معاً ان کی حالت بدلنے لگی۔ اور اس کے بعد ان میں اس قدر تغیر پیدا ہو گیا کہ انہوں نے اسلامی توحید کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیئے اور یہ کہنے لگے کہ

مَا نَعۡبُدُہُمۡ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللّٰہِ زُلۡفٰی(الزمر:4)

یعنی یہ یونہی کہتا ہے کہ ہم مشرک ہیں ہم تو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بتوں کو مانتے ہیں۔ گویا وہ معذرت کرتے ہیں کہ ہم کب کہتے ہیں کہ بت خدا ہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ان کے ذریعہ خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے۔

یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو ان میں پیدا ہوا اور کس طرح خدا تعالیٰ کا اکرم ہونا ظاہر ہو گیا۔ غرض فرماتا ہے۔

اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ

تو اس کتاب کو پڑھ کیونکہ اس کے پڑھنے کے ساتھ ہی توحید پھیلنے لگ جائے گی۔ لوگ خدا تعالیٰ کو ماننے لگ جائیں گے اور اس کا جلال دنیا میں قائم ہو جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مگر یہ تو اس وقت کا حال تھا جب قرآن کریم نازل ہوا۔ اب دیکھ لو کہ کس طرح شرک کے خیالات دنیا سے مٹ رہے ہیں۔ ہندوستان میں 33کروڑ بت پوجے جاتے تھے مگر ان ہندوئوں میں سے ہی آریہ اٹھے جو کہتے ہیں کہ ہم ہی اصل توحید کے ماننے والے ہیں۔ اسی طرح مسیحیوں کو دیکھو تو وہ کہتے ہیں اصل توحید ہم میں ہی ہے میں نے عیسائیوں کی ایسی کتابیں پڑھی ہیں جن میں وہ لکھتے ہیں کہ اسلام نے ہم پر یہ غلط اعتراض کیا ہے کہ ہم شرک میں مبتلا ہیں حالانکہ اب بھی ان میں ایسے لوگ ہیں جو حضرت مریمؑ اور حضرت مسیحؑ کی پرستش کرتے ہیں۔

غرض کتنا بڑا تغیر رونما ہو گیا کہ جہاں جہاں قرآن پڑھا گیا وہاں توحید قائم ہوتی چلی گئی۔ اور دنیا یہ اقرار کرنے لگ گئی کہ خدا ہی اَکْرَمُ ہے۔ یہ کتنی عظیم الشان پیشگوئی ہے جو قرآن کریم کے متعلق کی گئی۔ پھر پہلے دن پہلی وحی میں اور پہلے وقت میں کی گئی۔

قلم کے ذریعہ ہر قسم کے علوم کا اظہار

ایک اور پیشگوئی اس وحی میں قرآن کے متعلق یہ کی کہ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ یعنی اس کتاب کے ذریعہ نہ صرف یہ ثابت ہوگا کہ تیرا رب سب سے بالا ہے اور باقی ساری ہستیاں اس کے تابع ہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوگا کہ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ تیرے رب نے قلم کے ساتھ علم سکھایا ہے۔ یعنی آئندہ تحریر کا عام رواج ہو جائے گا۔ وہ مکہ جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت صرف سات آدمی پڑھے لکھے تھے۔ جہاں کے بڑے بڑے لوگ لکھنا پڑھنا ہتک سمجھتے تھے۔ شعراء اپنے شعر صرف زبانی یاد کراتے تھے۔ اور اگر انہیں کہا جائے کہ اشعار لکھوا دیئے جائیں تو اسے اپنی ہتک سمجھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے کہ لوگ ان کے اشعار زبانی یاد رکھتے ہیں۔ جب قرآن نازل ہوا تو ان میں ایک عظیم الشان تغیر آگیا۔ یہاں تک کہ صحابہؓ میں کوئی ان پڑھ نہ ملتا تھا۔ سو میں سے سو ہی پڑھے لکھے تھے۔ تو فرمایا

الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ

اس کتاب کے ذریعہ دوسرا عظیم الشان تغیر یہ ہوگا کہ لوگوں کی توجہ علوم کی طرف پھیر دی جائے گی چنانچہ آپﷺ کی بعثت کے معاً بعد لکھنے کا رواج ترقی پذیر ہوا۔ صحابہؓ نے لکھنا پڑھنا شروع کیا۔ مدینہ میں آپﷺ نے سب بچوں کو تعلیم دلوائی یہاں تک کہ عرب کا بچہ بچہ پڑھ لکھ گیا بلکہ اسلام کے ذریعہ سے یونانی کتب بھی محفوظ ہو گئیں۔ غرض قلم کا استعمال اس کثرت سے ہوا کہ اس کی مثال پہلے زمانہ میں نہیں ملتی۔

یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ اس بات کا تعلق قرآن کریم کی فضیلت سے کیا ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کو کامل اور افضل ثابت کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے مخاطب عالم ہوں جاہل نہ ہوں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم کے نازل ہونے کے بعد علم کا زمانہ آ جائے گا۔ لوگ مختلف علوم کے ماہر ہونگے۔ مگر باوجود اس کے یہ کتاب دنیا میں قائم رہے گی اور پڑھی جائے گی۔ اور کوئی اس پر غالب نہیں آ سکے گا۔ غرض اس پیشگوئی کے بعد کیا عرب اور کیا دوسرے ممالک ان میں علم کا اتنا رواج ہوا کہ اس کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں مل سکتی۔

نئے نئے علوم کی ترویج

تیسری پیشگوئی یہ کی کہ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ خدا کا نام لے کر اس کتاب کو پڑھ جو انسان کو وہ وہ باتیں سکھانے والا ہے جنہیں اس سے پہلے وہ ہر گز نہیں جانتا تھا۔ گو یہ عام بات ہے کہ جہاں تحریر کی کثرت ہوگی وہاں علوم کا رواج ہوگا۔ اور لوگ نئی نئی باتیں بیان کریں گے۔ مگر لغو تحریریں بھی ہو سکتی ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اب میں انسانوں کو وہ باتیں سکھائوں گا جو خواہ دینی ہوں یا دنیوی دنیا اس سے پہلے نہیں جانتی تھی۔

چنانچہ قرآن کریم نے ایسے علوم بتائے جو نہ تورات میں موجود ہیں نہ انجیل میں اور نہ کسی اور کتاب میں۔ پھر دوسرے علوم بھی اس کے ذریعہ سے کھلنے شروع ہوئے۔ عرب میں شعروں کے قواعد، علم معانی، بیان اور صرف ونحو وغیرہ کے اصول وقواعد کوئی نہ تھے۔ یہ علوم صرف مسلمانوں نے رائج کئے۔ عرب کے جاہل لوگوں کی ساری کائنات لوٹ مار تھی۔ مگر قرآن کریم نازل ہونے کے بعد جن علوم سے وہ ہزاروں سال سے ناآشنا چلے آرہے تھے ان سے وہ آشنا ہوئے اور وہ ساری دنیا کے علوم کے حامل بن گئے۔ یونانی علوم کی کتابوں کے انہوں نے ترجمے کئے اور پھر ان کے ترجمے یورپ میں گئے۔ سپین میں جب مسلمان پہنچے تو انہوں نے ان کتابوں کے ترجمے کئے اور پھر ان ترجموں سے یورپ نے فائدہ اٹھایا۔ غرض

عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمْ

کے بعد ایسا تغیر شروع ہوا کہ وہ باتیں جو دنیا کو پہلے معلوم نہ تھیں ساری دنیا میں پھیل گئیں۔ اور مسلمانوں نے ایسے علوم ایجاد کئے جو پہلے نہ تھے۔ مثلاً علم الاخلاق،علم النفس، سائنس کے متعلق علوم، علم قضا ان سب علوم کے متعلق نئے اصول تجویز کئے۔ اسی طرح مسلمانوں نے علم روایت نکالا، علم کلام ایجاد کیا، علم قضا اور حکومت کے قوانین مرتب کئے۔ پہلے رومن لاء جاری تھا مگر خود یوروپین مدبروں نے تسلیم کیا ہے کہ اسلامی لاء اس سے بہتر ہے۔ حفظان صحت، علم تصوف اور الجبرا کے علوم بھی مسلمانوں کے ذریعہ نکلے۔ غرض ایک طرف تو قرآن نے ایسی روحانی باتیں بیان کیں جو دنیا پہلے نہ جانتی تھی اور دوسری طرف ایسے دنیوی علوم ظاہر ہوئے جن کے مقابلہ میں پہلے علوم ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں ٹھہر سکتے۔ یہ تین پیشگوئیاں قرآن کریم کے الہی کتاب ہونے کے ثبوت کے لئے کافی ہیں۔

قرآن کریم کی افضلیت کی ایک اور شہادت

مگر ان پیشگوئیوں کے علاوہ قرآن کریم اپنی افضلیت کے لئے ایک چوتھی شہادت بھی پیش کرتا ہے۔ فرماتا ہے

لَایَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ(الواقعہ:80)

اس کتاب کے معارف اور حقائق صرف انہی لوگوں پر کھل سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مقرب اور اس کی طرف سے پاک کئے گئے ہوں۔ دیکھو قرآن اسی زبان میں آیا جسے لوگ جانتے تھے۔ اس کے الفاظ وہی تھے جو لوگ استعمال کرتے تھے۔ اور عربی جاننے والے لوگ دنیا میں موجود ہیں مگر ان پر قرآن کے معارف نہیں کھلتے۔ معارف انہی پر کھلتے ہیں جو اس کے خدا کا کلام ہونے پر ایمان لاتے اور اپنے اندر پاکیزگی اور طہارت پیدا کرتے ہیں۔ کیا کوئی انسان اپنی تصنیف کردہ کتاب کے متعلق یہ شرط عائد کر سکتا ہے کہ میں نے جو کتاب تصنیف کی ہے اس کے مطالب وہی سمجھے گا جو خدا تعالیٰ کا مقرب ہو گا۔ کوئی انسان اپنی تصنیف کے متعلق اس قسم کی شرط نہیں پیش کر سکتا۔ پس جو کتاب معروف زبان میں ہو مگر اس کے مطالب کا انکشاف دماغی قابلیتوں اور علوم ظاہری کی بجائے تعلق باللہ کے ساتھ وابستہ ہو۔ اس کے متعلق ماننا پڑے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ورنہ اس کے علوم کا ظہور خالی علم و فکر پر کیوں نہ ہوتا۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ جس قدر الہامی کتب پائی جاتی ہیں ان کے مطالب ان زبانوں کے جاننے والوں پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم کے متعلق یہ شرط ہے کہ خواہ ظاہری طور پر کوئی بڑا عالم نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق رکھتا ہو تو اس پر اس کے معارف کھل جائیں گے۔ چنانچہ جہاں تورات انجیل وید اور ژَنْداَوِسْتَا کے علوم ظاہری عالموں کے ہاتھوں میں ہیں وہاں قرآن کریم کے علوم صرف روحانی علماء اور اولیاء کے ہاتھ سے ہی کھلتے چلے آئے ہیں۔ جیسے سید عبدالقادر صاحب جیلانیؒ، حضرت محی الدین صاحب ابن عربیؒ، مولانا رومؒ، امام غزالیؒ، سید احمد صاحب سرہندیؒ، شہاب الدین صاحب سہروردیؒ۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ یہی لوگ قرآن کریم کے علوم کو سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کے قابل ہوئے ہیں۔ بےشک ظاہری علوم رکھنے والے بعض علماء نے بھی قرآن کریم کی تفسیریں لکھی ہیں۔ لیکن انہوں نے بڑی بڑی ٹھوکریں بھی کھائی ہیں جو لوگوں کے لئے گمراہی کا موجب ہوئی ہیں لیکن صوفیاء جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے ان کا بڑی عمدگی سے رد کیا ہے۔

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button