متفرق مضامین

کووِڈ- 19: ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ، مگر کیوں؟ (قسط دوم۔ آخری)

(ڈاکٹر طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)

٭…ویکسین تیارکرنے والی کمپنیوں نے مستقبل میں اپنے خلاف دائر ہونے والے ممکنہ سِوِل مقدمات اور ہرجانے بھرنے کی پیش بندی کے طورپر بھاری بھاری انشورنس کروالی ہے۔ کیا یہ معمول کی ایک بات ہے یا ان کا یہ اقدام قابل تشویش ہے؟

٭…آپ کی پسندیدہ ویکسین کون سی ہوگی؟

٭…کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں ہمیں دوبارہ سے کوئی ویکسین لگوانی پڑجائے؟

٭…آیا ویکسین میں جانوروں سے حاصل کردہ مواد تو نہیں شامل؟پھر یہ کہ کہیں سؤر سے تو ویکسین نہیں تیارکی گئی؟

٭…دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان کوئی تفریق ظاہر ہونے کا بھی امکان موجود ہے؟

٭…اگر کسی کو کووڈ کی بیماری کا حملہ ہو چکا ہے تو کیا اسے بھی یہ ویکسین لگوانے کی ضرورت ہے؟

٭…مزید کتنا عرصہ یہ وبا دنیا میں موجود رہے گی؟

٭…کووڈ کی کچھ نئی اقسام (Variants)بھی نمودارہو چکی ہیں۔ کیا کووڈ کی موجودہ ویکسین ان کے خلاف بھی مؤثر ہیں؟

٭…کووڈ کی وبا پر سال یا ڈیڑھ سال ہونے کو آگیا ہے۔ اس مدت میں یہ جو سارا ہمارا تجربہ رہا اس سے کیا سبق سیکھا جاسکتا ہے؟

کورونا ویکسین کے بارے میں ماہر متعدی امراض ڈاکٹر فہیم یونس صاحب کے ساتھ ایک معلوماتی نشست

ڈاکٹر حماد خان:…ایک سوال ان ویکسین تیارکرنے والی کمپنیوں کے بارے میں بھی ہے کہ انہوں نے مستقبل میں اپنے خلاف دائر ہونے والے ممکنہ سِوِل مقدمات اور ہرجانے بھرنے کی پیش بندی کے طورپر بھاری بھاری انشورنس کروالی ہے۔ کیا یہ معمول کی ایک بات ہے یا ان کا یہ اقدام قابل تشویش ہے؟

ڈاکٹرفہیم یونس: بالکل جائز سوال ہے۔ اور پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ مَیں کسی کمپنی کے لیے کام نہیں کررہا نہ ہی پس پردہ میرا کوئی ذاتی مفاد (Conflict of Interest) وابستہ ہے۔

مَیں یہ کہوں گا کہ ہمیں آمادگی کا اظہار محتاط طورپرتو کرنا چاہیے لیکن زیادہ شک میں بھی مبتلا نہیں ہو نا چاہیے۔ کسی پوشیدہ سازش (Conspiracy theory) کی کھوج میں نہیں نکل پڑنا چاہیے۔ دو انتہاؤں کے مابین رہنا چاہیے۔

پینسلین Penicillinکی مثال لےلیں جو سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے دستیاب ہے۔ لیکن اب بھی ہرسال ساری دنیا میں بہت سارے افراد کو اس سے الرجی کا ری ایکشن ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود لوگ اٹھ کراس کمپنی کے خلاف مقدمات دائر کرنے تو نہیں چل پڑتے۔ کوئی بھی کمپنی اپنی پراڈکٹ کے بارے میں آپ کو سوفیصد گارنٹی تو دیتی بھی نہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ مکمل تفصیلات سے آگاہ ہونے کے بعد یہ ذمہ دارانہ فیصلہ (Informed Decision)آپ نےخود اپنی رضامندی سے کرنا ہوتا ہے آپ کوہرگزکوئی مجبور نہیں کرسکتا کہ یہ ویکسین لو یا دوسری۔ اور اس کا اطلاق دیگر ویکسین بشمول بچوں کو دی جانے والی ویکسین پر بھی ہوتا ہے۔

پس اس لحاظ سے غیر حقیقت پسندانہ رویے اپنانے سے گریز کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر حماد خان:ویکسین کے بارے میں فیصلہ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو کووڈ کی اس وقت ایک سے زائد اقسام کی ویکسین دستیاب ہیں۔ ایک عام شخص کے لیے اس طرح سے فیصلہ کرنا فی الحقیقت مشکل ہوجاتا ہے۔ کسی کی افادیت 66فیصد تو کسی کی 100 فیصد بتائی جارہی ہے۔

کیا آپ بتائیں گے کہ ایسی صورت میں آپ کی پسندیدہ ویکسین کون سی ہوگی؟

ڈاکٹرفہیم یونس: جی ہاں اور یہاں مجھے اعتراف کرنےدیں کہ موجودہ وبا نے ہمیں جو ایک چیز دی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ہمیں ہماری علمی کم مائیگی کا ایک بھرپور احساس دلادیا ہے۔ کیونکہ جس طرح سے علمی حقائق ارتقا پذیر ہوتے ہیں، ہماری فہم، عقل اور ادراک بھی اسی کے مطابق ترقی حاصل کرتے ہیں۔ اس بنا پر آج میں جو بات کہہ رہا ہوں عین ممکن ہے چھ ماہ بعد مَیں آپ کے اس سوال کا مختلف جواب دے رہا ہوں۔

اس وقت جن سات معروف ویکسین کے تیسرے مرحلۂ آزمائش کی رپورٹیں سامنے آچکی ہیں تو ان میں سے کسی ایک کا بھی انتخاب کیا جاسکتا ہے جو آپ کے ہاں دستیاب ہو۔ مثلاً فائزر(Pfizer)، موڈرنا(Moderna)، ایسٹرا زینیکا(AstraZeneca)، نوواویکس(Novavax)، سپٹنک ویکسین(Sputnik Vaccine)، سائنوویک (Sinovac)، جانسن اینڈجانسن (Johnson & Johnson)۔

ان میں سے ہر ایک کو تیسرے مرحلے میں 20، 30یا 40ہزار افراد پرآزمایا جا چکا ہے۔

مَیں کیوں کہتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی ویکسین لگوالیں۔ اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک ویکسین کووڈ کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونے کی یا اس کے ہاتھوں مرنے کی نوبت نہیں آنے دیتی۔ اس بیماری کے شدید حملہ سے بچالیتی ہے۔ اور اس اعتبار سے ان ساتوں میں سے ہر ایک کی افادیت 100 فیصد کے قریب پائی گئی ہے۔ یہ اعداد وشمار جو فیز تھری (phase 3)کے ہیں، شائع ہو چکے ہیں۔

جہاں تک ان کی تاثیر (Efficacy) کا تعلق ہے تو وہ 67 فیصد تا 95 فیصد ہے۔ بظاہربڑافرق ہے۔ 95 فیصد کا مطلب ہے کہ سو میں سے پانچ ویکسین شدہ افراد کو کووڈ ہوبھی سکتا ہے اور 67 فیصد مؤثر ویکسین والوں میں 33 افراد کو کووڈ لاحق ہونے کا امکان رہ جاتا ہے جو کہ بظاہر ایک بڑا عدد ہے لیکن جب سو میں سے ان 33 ویکسین شدہ افراد کو کووڈ ہو بھی جائے تو ان میں سے کسی کا بھی اس مرض سے لقمہ اجل بننے کا امکان متوقع نہیں۔ نہ ہی ان میں سے کسی کو ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت پیش آنے کا کوئی امکان متوقع ہے۔

اور یہی ہمارا ہدف ہے جو ہم حاصل کرنا چاہتے تھے۔

رہی تین چار دن کے لیے فلو (flu)کی طرح کی علامات جو گھر پہ ہی آرام کرنے سے ختم ہو جائیں تو اس سے توکوئی بھی نہیں ڈرتا۔ وینٹی لیٹر پہ پڑنے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے سے تو بچ جائیں گے۔ یہی ہم چاہتے تھے۔

یہ وقت کے ساتھ دوڑ لگانے والی بات ہے۔ دیر ہو جائے اورہم کوئی قیمتی لمحہ نہ کھودیں۔

چنانچہ جب آپ ویکسین لگواتے ہیں تو محض اپنی مدد نہیں کررہےہوتے، آپ اپنے پیاروں، اپنے عزیزوں، گھروالوں کی، بلکہ اپنی کمیونٹی، اپنے پورے ملک کی بھی مدد کررہے ہوتے ہیں۔ اور شاید بادی النظر میں یہ مبالغہ ٹھہرے، لیکن حقیقت ہے کہ اس طرح سے آپ پوری انسانیت کی مدد کررہے ہوں گے!

پس فی الحال تو یہی ہمارا نصب العین ہے۔ آج سے چھ ماہ بعد شاید ہماری معلومات میں مزید اضافہ ہو اور ہمیں مزید بہتر ویکسین بھی دستیاب ہو جائے تو پھر ہماری ترجیحات بھی بہتر ہو سکتی ہیں لیکن میری رائے میں ایسی کوئی بات نہیں کہ چھ ماہ بعد ہم میں سے کسی کو پہلے لی گئی ویکسین پر تاسف اور پچھتاوا ہو۔ میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوگا۔

ڈاکٹر حماد خان:آپ کی اس بات پرپھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں ہمیں دوبارہ سے کوئی ویکسین لگوانی پڑجائے؟موجودہ ویکسین کی تاثیر کتنی دیرپاہے؟

ڈاکٹرفہیم یونس: بہت زبردست سوال ہے اور میں یہی کہوں گا کہ وقت ہی بتائے گا کہ ان کی تاثیر کتنی دیر تک قائم رہتی ہے۔ دیانتداری کا تقاضا ہے کہ اس بارے میں ہم اپنی طرف سے کوئی اندازہ نہ لگائیں۔

آگے چل کر ہی ہم یہ بتانے کے اہل ہوپائیں گے کہ ان کی تاثیر سال بھرقائم رہتی ہے یا اس سے زیادہ۔ اور یہ بھی کہ کیا ہمیں اس کی اضافی خوراک (Booster) بھی لینا پڑے گی یا نہیں۔

پھریہ بھی عین ممکن ہے کہ اس معاملہ میں بھی مختلف ممالک کی ضروریات مختلف ثابت ہوں۔

ایک سال کے بعد اگر ہم اس سوال کا جواب دینے کےقابل ہو چکے ہوں گے اور یہ بھی بتا سکیں گے کہ ہم اس وبا کا زور توڑنے میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں، تو یہ ہمارے لیے یقیناً بہت خوشی کا موقع ہوگا!تب ہمیں ان ویکسین کی افادیت کا ٹھوس علم حاصل ہوچکا ہوگا۔

ڈاکٹر حماد خان:اس جواب کا بہت بہت شکریہ۔

ڈاکٹر فہیم صاحب میں خود بھی کووڈ ویکسین لگوا چکا ہوں اورمجھے علم ہے کہ آپ نے بھی یہ ویکسین لگوائی ہے۔

ڈاکٹرفہیم یونس: جی بالکل۔

ڈاکٹر حماد خان:آپ میری اس بات سےاتفاق کریں گے کہ یہ ذکرکرنا بہت اہم ہے کہ ہم ڈاکٹر لوگ خود یہ ویکسین لگوا چکے ہیں۔

ڈاکٹرفہیم یونس: ہاں یہ ٹھیک ہے۔

ڈاکٹر حماد خان:کیونکہ جب عوام کی نظروں میں رہنے والے معروف افراد اور اسی طرح کمیونٹی لیڈرزکے بارے میں علم ہوتا ہے کہ انہوں نے ویکسین لگوائی ہے تو اس کا اثرلوگوں پر پڑتا ہے اور ان کا اعتماد بڑھتا ہے۔

ڈاکٹرفہیم یونس: سوفیصد!

میں جہاں کام کرتا ہوں ہمارے کیفے ٹیریا کے کیش کاؤنٹر(cash counter)پرکام کرنے والی ایک خاتون ہیں جو ہمیشہ سے ویکسین کی سخت مخالف رہی ہیں۔ تو وہ شروع میں روزانہ مجھ سےپوچھا کرتی تھیں کہ فہیم تم کووڈ کی ویکسین لگواؤ گے؟ تو میں کہتا تھا کہ فی الحال میں نہیں بتا سکتا، ابھی ان کی آزمائش جاری ہے۔ اور اگر مجھے تسلی ہو گئی تو میں ضرور لگواؤں گا۔

جواباًوہ کہتیں کہ میں تو پھر بھی نہیں لگواؤں گی۔

پھر ایک دن جب میں نے انہیں بتایا کہ میں نے ویکسین لگوا لی ہے، یہ دسمبر 2020ء کی بات ہے، تو کہنے لگیں کہ اچھا اگر تم نے لگوالی ہے تو پھر میں بھی ضرورلگواؤں گی !

تویہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ لوگوں کو ایک طرح کی یقین دہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اسی غرض سے ہمارے حکمران سیاسی رہ نما بھی سب کے سامنے ویکسین لگواتے ہیں۔

ڈاکٹر حماد خان:جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا ویکسین سے متعلق لوگوں میں ہچکچاہٹ، خوف یا خدشات پائے جاتے ہیں۔ جس کی مختلف وجوہات ہیں۔ جو کچھ مخصوص گروہوں یا طبقات میں زیادہ دیکھنے میں آرہی ہیں خاص کر یہاں برطانیہ میں اور اسی طرح امریکہ میں۔

چنانچہ اس قسم کے سوالات پوچھے جارہے ہیںکہ آیا ویکسین میں جانوروں سے حاصل کردہ مواد تو نہیں شامل؟پھر یہ کہ کہیں سؤر سے تو ویکسین نہیں تیارکی گئی؟جس کے بارے میں ظاہر ہےکہ مسلمانوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اسی طرح سے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے بھی تحفظات ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ایسے لوگ بھی ہیں جوکسی بھی قسم کا گوشت نہیں کھاتے، ویجیٹیرین (Vegetarian) ہیں۔ اس حوالے سے آپ کیاکہیں گے؟

ڈاکٹرفہیم یونس: بہت اچھا سوال ہے اورحقیقت تو یہ ہے کہ اس قسم کے سوالات انسان کے اپنے علم میں اضافےکا باعث بنتے ہیں۔ جب پہلی مرتبہ مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا تھا تواس وقت مجھے بھی اس کا جواب معلوم نہ تھا۔ میں نے کبھی ان ویکسین میں شامل اجزاء کی تفصیلات جاننے یا زبانی یاد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

لیکن ان سوالات کے بعد میں نے ویکسین میں شامل جملہ اجزاء کےبارے میں تحقیق کی اور اب میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ جہاں تک موڈرنا، فائزر، جانسن اینڈجانسن اور ایسٹرا زینیکا کا تعلق ہے توان کے جملہ اجزاء اب انٹرنیٹ پردستیاب کر دیے گئے ہیں۔ ان میں حیوانی اجزاء یا جیلیٹین (Gelatin) شامل نہیں کیے گئے۔

اور یہاں میں دوبارہ کیفے ٹیریا والی خاتون کا ذکر کروں گا۔ وہ نہایت راسخ قسم کی روایتی سوچ کی حامل ہیں چنانچہ ان کا سوال تھا کہ کیا ویکسین میں انسانی جنین سے حاصل کردہ خلیات (Foetal Cells) تو شامل نہیں؟

ان کے اصل الفاظ تھے ’’ڈاکٹریونس کیا ویکسین کی تیاری میں مردہ بچوں کو استعمال کیا جاتا ہے…؟‘‘اس سے مجھے احساس ہوا کہ لوگ کس کس انداز کی سوچ رکھتے ہیں۔

اسی طرح سے ہندو یا ویجیٹیرین لوگ جائز طور پر پوچھ سکتے ہیں کہ کیا ویکسین کی خاطر جانوروں کو ہلاک یا ذبح کیا گیا؟

بہرحال جہاں تک میں نےتحقیق کی ہے مذکورہ بالاویکسین میں کوئی حیوانی اجزاء بشمول جیلیٹین شامل نہیں۔ اور یہاں میں یہ کہوں گا کہ لوگوں کو چاہیے کہ ان کے ذہنوں میں جس قسم کا بھی کوئی سوال ہو، جو ان کےلیے اہم ہو، تو پوچھنے میں بالکل بھی جھجھک محسوس نہ کریں تاکہ پوری تسلی ہو سکے۔ ڈاکٹر حماد خان:ڈاکٹر فہیم صاحب ہیومینٹی فرسٹ سے تعلق رکھنے کے حوالے سے، جوکہ عالمی پیمانہ پر انسانی خدمات بجالاتی ہے، ہمارے لیے عالمی سطح کی صحت عامہ بھی بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ویکسین کے حوالے سے دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان کوئی تفریق ظاہر ہونے کا بھی امکان موجود ہے؟

کیونکہ وبا تو سب انسانوں پر بلاامتیاز اثر انداز ہوتی ہے لیکن کیا دنیا کے تمام انسانوں کوبلا امتیازویکسین دستیاب ہو سکے گی؟ اورپھر یہ کہ تمام ممالک کو اسی عمدہ معیار کی ویکسین مہیا ہوسکے گی یا نہیں جیسی کہ برطانیہ اور امریکی ریاستوں کو فراہم کرکے دی جاچکی ہے؟

ڈاکٹرفہیم یونس: بے شک یہ ایک اور اہم پہلو ہے جو ہم سب کے لیے باعثِ فکر ہے۔ مجھے امید ہے کہ کسی قدرتاخیر سے ہی، لیکن عالمی سطح پر سب کو یکساں طورپر ویکسین مہیا کرکے دی جائے گی۔ عالمی ادارہ صحت اس سلسلہ میں کام کررہا ہے گو اسے تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا ہے لیکن کسی بھی شعبہ کی سربراہی کوئی آسان کام نہیں۔ دنیا کے آٹھ بلین لوگوں کے سامنے آپ کی کوئی نہ کوئی غلطی یا کوتاہی ضرور سامنے آسکتی ہے۔

میں عالمی ادارہ صحت(WHO) کی وکالت نہیں کررہا لیکن مجھے پورا احساس ہے کہ ان پر کتنی بھاری ذمہ داری عائد ہے۔ ایک اجنبی وائرس کا عالمی سطح پر قلع قمع کرنا مشکل کام ہے۔

بہرحال مجھے امید ہے کہ وہ تمام ممالک کو یکساں ویکسین فراہم کرکے دیں گے۔ اس بارے میں مجھے اگر کوئی فکر ہے تو یہی کہ یہ کام اپنی تکمیل کے لیے ضرورت سے زیادہ وقت لے سکتا ہے۔ چنانچہ امریکہ، انگلینڈاورآسٹریلیا جیسے مالدار ممالک تو 2021ءکے اندراندر ویکسین حاصل کرلیں گے لیکن انڈونیشیا، بنگلہ دیش، برصغیر ہند و پاک اورافریقی ممالک کی آبادی کو ویکسین لگانے کا مرحلہ اگلےبرس 2022ءبلکہ ممکنہ طورپر 2023ءمیں مکمل ہوسکے گا اور یہ بات میرے لیے باعث تشویش ہے۔

پھر بھی مَیں سمجھتا ہوں کہ جیسے جیسے لوگ ویکسین لگواتے جائیں گے، مجھے قوی امید ہے کہ بتدریج ساری دنیا ایک ہی معیار پہ پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

ڈاکٹر حماد خان:ایک اور اہم سوال جو باربار پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی کو کووڈ کی بیماری کا حملہ ہو چکا ہے تو کیا اسے بھی یہ ویکسین لگوانے کی ضرورت ہے؟کیا اس کے بعد انسان محفوظ نہیں ہو جاتا؟

ڈاکٹرفہیم یونس: جی اس کے باوجود بھی آپ کوویکسین لگوا لینی چاہیے کیونکہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ بیماری سے پیدا ہونے والی قوت مدافعت کتنی دیرپا ہوتی ہے۔

سی ڈی سی (CDC)کے مطابق بیماری سے شفا یاب ہونے کے 90؍دن بعد کووڈ ویکسین لگوائی جا سکتی ہے۔ لیکن واضح رہے کہ انسانی جسم اور اس میں رونما ہونے والے عوامل کوئی حساب یا فزکس کی طرح (Fix numbers)تو ہوتے نہیں۔

اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ اگر آپ کو بیماری کا ہلکا سا حملہ ہوا تھا یا کوئی بھی علامت ظاہر نہیں ہوئی تھی تو آپ میں مدافعاتی مادے immune responseزیادہ طاقتور طور پر نہیں بنتے اور بیماری کا دوسرا حملہ جلدی بھی ہو سکتا ہے۔ ہمیں قدرتی مدافعت کا کوئی علم نہیں، کیا یہ 6؍ماہ تک رہتی ہے، 7؍ ماہ یا 10؍ماہ، ہم نہیں جانتے۔ کورونا وائرس عموماً مختصر دورانیہ کی قوت مدافعت دینے والے وائرس کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

اور پھر یہ بھی کہ وائرس کا ایک حملہ تو ہو گیا لیکن کیا آپ اسی وائرس کی نئی اقسام کے خلاف بھی مدافعت حاصل کرلیتے ہیں یا نہیں؟یہ ایک اور نکتہ ہے جو مدنظر رکھنا چاہیے۔

اسی طرح پھر یہ بھی ہے کہ آپ جس ماحول میں رہتے ہیں وہ انفیکشن لگنے کے لحاظ سے کس قدر خطرناک ہے۔ آپ کی کمیونٹی میں وائرس کتنا پھیلا ہوا ہے۔ اور یہ بھی کہ باہر نکل کرآپ ماسک پہننے کا التزام کس حد تک کرتے ہیں۔ تو کون ہے جو ان سب باتوں کا بیک وقت دھیان رکھ سکتا ہے۔

لیکن ویکسین آپ کو ان میں سے اکثر باتوں سے آزادی دلا دیتی ہے۔

تاہم بتاتا چلوں کہ میں ویکسین لگوانے کے بعد بھی بدستور ماسک پہنتا ہوں، وارڈ میں جاتا ہوں تو پورا حفاظتی لباس بھی پہنتا ہوں اور یہ سن کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ پھر ویکسین لگوانے کی کیا تُک ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک عبوری دَور ہے۔ سمجھیں کہ ہم ایک پل پر سے گزر رہے ہیں، جب پل کو پار کرکے دوسری طرف پہنچ جائیں گے تو وہاں ہمیں ماسک کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اور یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب60یا 70تا80 فیصد آبادی ویکسین لگوا چکی ہو۔ جب ہر شخص ہی ویکسین لگوانے سے انکار کرنا شروع کردے تو 60 یا 70 فیصدی کی مطلوبہ تعداد ہم کبھی بھی حاصل نہ کر پائیں گے۔

اس لیے سائنسی برادری پر بھروسہ رکھیں۔ جتنی زیادہ تعداد میں لوگ ویکسین لگوائیں گے اتنا ہی جلد ہم اپنے معاشرہ کو کووڈ سے پاک اور محفوظ کردینے والے بن سکیں گے۔

ڈاکٹر حماد خان:اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں آپ سے سوال کروں گا کہ اب جبکہ ہمیں کووڈ کی ویکسین دستیاب ہو چکی ہے، مزید کتنا عرصہ یہ وبا دنیا میں موجود رہے گی؟

ڈاکٹرفہیم یونس: اس کے بارے میں معین طور پر تو کوئی بھی جواب نہیں دے سکتا۔ تاہم میرے خیال میں جہاں تک یورپ اورشمالی امریکہ کا تعلق ہے تو اس وبا کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ اٹلی۔ انگلینڈ، امریکہ مثلاً نیویارک جہاں ہم نے وبا کی پہلی اور پھر دوسری لہر بھی دیکھ لی، تو میرے نزدیک وبا کا بدترین دَور وہی تھا۔

اگر لوگ اسی طرح سے ویکسین لگواتے رہے تو مجھے امید ہے کہ اگلی سردیاں ہماری اچھی ثابت ہو سکتی ہیں۔

تاہم اس سوال کا جواب بھی ہر ملک کے لحاظ سے الگ الگ ہے۔ مثلاً اگر آپ نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، جنوبی کوریا، ویت نام یا تائیوان کا نام لیں تو وہ پہلے ہی اچھے اور محفوظ دَور میں داخل ہو چکے ہیں۔ آج وہاں کی زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔

اس صورت حال کا موازنہ ایبولا Ebolaسے کیا جاسکتا ہے۔ مغربی افریقہ میں ایبولا ہر سال تباہیاں مچا دیتا ہے، بہت زیادہ جانی نقصان ہوتا ہے، کوئی تیس چالیس سالوں سے ایسا ہورہا ہے، لیکن مغربی دنیا میں کاروبار زندگی معمول کے مطابق چلتا رہتا ہے۔ اور مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ مغربی ممالک کے ایک بڑے حصہ کو اس کی پروا بھی نہیں ہوتی۔

اور پھر پولیو Polioکی مثال بھی ہے جس کی ویکسین پچاس کی دہائی سے دستیاب ہے لیکن دنیا کے ایک دو ممالک ایسے بھی ہیں جو ابھی تک پولیو کا قلع قمع کرنے کی جدوجہد میں مشکلات کا شکار چلے آرہے ہیں۔

تو کووڈ کے معاملہ میں بھی یونہی ہوگا۔ یہ نہیں کہ بٹن دبایا اور کووڈ ختم، نہیں بلکہ وبا کو دنیا میں سمٹنے میں کچھ وقت لگے گا، جیسے بتدریج مدھم ہو جانے والی لائٹ کا سوئچ کام کرتا ہے، یہ وبا مدھم اور محدود تو ہو جائے گی لیکن اس سے نبٹنے کے لیےمختلف ممالک کو مختلف دورانیے کاعرصہ درکار ہوگا۔

ڈاکٹر حماد خان:اسی حوالے سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کووڈ کی کچھ نئی اقسام (Variants)بھی نمودارہو چکی ہیں۔ کیا کووڈ کی موجودہ ویکسین ان کے خلاف بھی مؤثر ہیں؟

ڈاکٹرفہیم یونس: جی، میں ان کے لیے ’’سکیرینٹس‘‘ (Scariants) کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں۔ کیونکہ میڈیا نے ان نئی اقسام سے عوام الناس کو اتنا جو ڈرا دیا ہے !

یہ کورونا وائرس کی خاصیت ہے کہ وہ خود کو تبدیل کرتا رہتا ہے۔ کچھ ہی نئی اقسام مثلاً یوکے کا (B 117)اس قسم کا ہے جو نسبتاً سرعت کے ساتھ پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسی طرح سے جنوبی افریقہ والی (B1351)اور برازیل والی قسم (P1)بھی ہے۔ ان کے بارے میں ہمیں زیادہ معلومات نہیں، نہ ہی یہ علم ہے کہ ویکسین ان کے خلاف کیسے کام کرے گی لیکن مجھے اس لیے اس بارے میں زیادہ فکر نہیں کہ جنوبی افریقہ میں ایسٹرا زینیکا ویکسین کے علاوہ دو ویکسین ان نئی اقسام کے خلاف بھی یکساں مؤثر بتائی جاتی ہیں۔ کوئی نئی فینسی قسم کی ویکسین تیار کرنے کی ضرورت نہیں۔

چنانچہ آپ یوکے کے گراف کو دیکھیں، انہی ویکسین کی بدولت وبا کا گراف نیچے کو آچکا ہے۔ جنوبی افریقہ میں بھی گراف کافی گر چکا ہے۔

بہرحال وقت کے ساتھ ان نئی اقسام کے بارے میں ہمیں مزید معلومات حاصل ہو ں گی اور مستقبل میں شاید ہم ان کے لیے کوئی نئی حکمت عملی بھی اختیارکرلیں لیکن فی الحال ہم نے اس ضمن میں جو کام شروع کیا ہے اسی کو جاری رکھیں تو یہ بھی بہت کارگر ثابت ہوگا جیسا کہ ہو بھی رہا ہے۔

ڈاکٹر حماد خان:بہت شکریہ، اور ڈاکٹرفہیم، آج کی نشست کا آخری سوال جو میں آپ سے کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کووڈ کی وبا پر سال یا ڈیڑھ سال ہونے کو آگیا ہے۔ اس مدت میں یہ جو سارا ہمارا تجربہ رہا اس سے کیا سبق سیکھا جاسکتا ہے؟اورپھر اس کی روشنی میں آپ کیا کہیں گے کہ مستقبل میں اگر اسی نوعیت کا کوئی اور خطرہ سر پر منڈلاتا نظر آئے تواس سے بہتر طریق پر نبٹنے کے لیےدنیا کو کس طرح سے تیاری کرنی چاہیے؟

میں جانتا ہوں کہ ایک بڑا سبق تو یہ ہے کہ وبائیں اب بھی دنیا میں پھیلتی ہیں، ایک ایسی حقیقت جو شاید ہم بھلائے بیٹھے تھے !

ڈاکٹرفہیم یونس: بہت ہی زبردست سوال آپ نے کیا ہے اور اس کا جواب دینے سے میں خود کوبےحد قاصر پاتا ہوں تاہم اپنے کچھ خیالات آپ کے ساتھ شیئرکرسکتاہوں۔

مثبت طورپر دیکھا جائے تو ہم نے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ اگر بنی نوع انسان مل کر کوئی کام کرنا چاہیں تو ناقابل یقین قسم کا کارنامہ سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ دیکھیں کس طرح سائنسی برادری سر جوڑ کر بیٹھ گئی اور کس طرح سے ویکسین بھی بنا لی گئی، یہ معجزہ سے کم نہیں۔

دوسری بات یہ کہ ہرعُسرکے بعد یُسرکا دَور بھی ضرور آتا ہے۔

یہ تجربہ یقیناً بہت تلخ تھا لیکن میرے خیال میں ہم اپنی تیسری نسل کویہ داستان سنانے کے لیے زندہ رہ جائیں گےہمیں اس پر بہت شکرگزارہونا چاہیے۔

جہاں تک اس کے منفی پہلو ہیں تو یہ کہ دنیا میں انصاف نہیں، زندگی بسرکرنا سہل نہیں۔ ہم نے بچشم خود مشاہدہ کیا کہ دنیا میں مختلف النوع عدم مساوات پائی جاتی ہے۔

پھر یہ سبق بھی کہ کبھی بھی وائرس پر یا وبائی امراض پر سیاست نہ کریں۔

خلاصۃً یہ کہ وبا سے نبٹنے کی مؤثر انتظامی صلاحیت کی جان مؤثر رابطے اور پیغام رسانی (Good communication) ہیں۔ کیونکہ یہ نہایت کم خرچ اور ہر ایک کی دسترس میں ہوتے ہیں۔

ایک غریب سے ملک ویت نام (Vietnam)کو لے لیں، آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ انہوں نے اس وبا کی بیخ کنی ابتدا میں ہی کیسے کرلی۔ ان سے سبق سیکھا جا سکتا ہے کہ اچھی کمیونی کیشن، متعلقہ ماہرین پر انحصار، سائنس اور حکومت کا باہمی تعاون، وائرس پر سیاست کرنے سے گریز اور پھر عالمی سوچ کا حامل ہونا، ان سب پر کاربند ہو کر کامیابی سے ہم کنار ہوا جاسکتاہے۔

اور پھر یہ کہ امراض سے بچاؤ ان کے علاج سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔ ایک اونس کی پرہیز لاکھوں ٹن علاج سے زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے۔ حفاظتی تدابیر کو مسلسل اپنائے رکھنے سے وباؤں کو روکا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر حماد خان:ڈاکٹر فہیم یونس صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ۔ ظاہر ہے کہ اور بھی بہت سارے سوالات ہیں لیکن ایک نشست میں ان سب کا جواب دینا ممکن نہیں۔ متعلقہ ویب سائٹس پر ہر قسم کی معلومات دستیاب ہیں جن سے لوگ مستفید ہو سکتے ہیں اورپھر ڈاکٹر فہیم صاحب اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی سوالات کے جوابات دیتے ہیں، وہاں سے بھی استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹرفہیم یونس: بہت خوشی ہوئی اور آپ کا بھی بہت شکریہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button