متفرق مضامین

پاکستان میں احمدیوں سے نفرت کے تاریخی، سماجی اور سیاسی پہلو

(مرتبہ: مطہر احمد طاہر۔ جرمنی)

وطن عزیز میں گذشتہ کئی دہائیوں سے احمدیوں کے خلاف ہر سطح پر نفرت انگیز اور جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈہ کیا گیا ہے۔ احمدیوں اور ان کے عقائد سے متعلق من گھڑت باتیں کچھ اس انداز سے پھیلائی گئی ہیں کہ ایک عام پاکستانی کے لیے جھوٹ کو سچ سے جدا کرنا ممکن نہیں رہا۔

ایک طرف تو احمدیوں کو اپنے جائز حق دفاع سے محروم کر دیا گیا تو دوسرے گروہ کو کھلی چھٹی دے دی گئی کہ وہ احمدیوں کے خلاف جو چاہیں، جب چاہیں، جیسے چاہیں، کہیں، لکھیں، چھاپیں، اور نشر کریں، ان پر کوئی رکاوٹ یا قدغن نہیں ہو گی۔

چنانچہ نفرت کا پرچار کرنے والوں نے بڑی صفائی کے ساتھ احمدیوں کے عقائد اپنے طور پر وضع کر کے عام پاکستانی مسلمان کے ذہن میں کچھ ایسے انداز سے راسخ کیے ہیں کہ اب عام پاکستانی انہی باتوں کو سچ مان کر احمدیوں کے خلاف رائے بنا چکے ہیں۔

آئیے ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے احمدی مخالف پراپیگنڈے کی مختلف جہات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

احمدی مخالف پراپیگنڈے کی تاریخی جہت

اگرچہ احمدیوں کے خلاف مخالفت تقسیم ہند سے بہت پہلے شروع ہو چکی تھی مگر 1974ء میں بھٹو نے آئین میں دوسری ترمیم کے نفاذ کے ذریعہ علما ءکو احمدیوں کے خلاف یک طرفہ میدان مہیا کر دیا۔ اس میں مزید شدت دس سال بعد اس وقت آئی جب 1984ء میں جنرل ضیاء الحق نے 26؍اپریل کو آرڈیننس XX یعنی ’’امتناع قادیانیت‘‘آرڈیننس جاری کیا جس میں عملاً احمدیوں کو نہ صرف ان کے حقوق سے محروم کر دیا گیا بلکہ احمدیوں کے حقوق کو باقاعدہ جرم قرار دے دیا۔ اس آرڈیننس کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی احمدی عربی زبان میں کسی کو گریٹ (Greet) کرتا ہے یعنی ’السلام علیکم‘ کہتا ہے تو اسے 3 برس کے لیے جیل کی سزا دی جا سکتی ہے۔

ان تین دہائیوں کے دوران پروان چڑھنے والی پاکستانیوں کی نسلوں کو احمدیوں کے خلاف ایسی محیر العقول وجوہ کی بنا پر نفرت کرنا سکھایا گیا ہے جن کا وجود آسمان میں ہے نہ زمین میں۔

یہ تو رہی تاریخ، اب دیکھتے ہیں اس پراپیگنڈے نے احمدیوں کے خلاف کس طرح ہمارے سماجی رویوں کو متاثر کیا ہے۔

روز اول سے احمدی مخالف پراپیگنڈے کا بنیادی ہدف یہ رہا ہے کہ احمدیوں کو، ان کے عقائد کو، ان کے علماء اور بزرگوں کو، اور خاص کر جماعت احمدیہ کے بانی، آپؑ کے خاندان اور آپؑ کے جانشین سربراہان جماعت احمدیہ کو معاشرے کے عام مسلمان کے سامنے ایک ایسا ولن (Villain)بنا کر پیش کیا جائے جو تمام عیوب کا منبع ہیں اور جن کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں، اسلام، اور پاکستان کے خلاف دن رات سازشیں کرنا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب آپ کہیں ’’قادیانی‘‘ یا ’’قادیانیت‘‘ ایسے الفاظ پڑھیں یا سنیں تو آپ کا ذہن خود بخود اس پراپیگنڈے کی ٹیپ کو دہرانا شروع کر دیتا ہے اور آپ بغیر سوچے سمجھے، بغیر سوال اٹھائے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ہاں، ’’قادیانی‘‘تو ہوتے ہی ایسے ہیں۔ اور یوں معاشرے میں احمدیوں کے خلاف کیا جانے والا پراپیگنڈا تیزی سے پھیلتا اور جڑ پکڑتا چلا جاتا ہے۔

1۔ احمدیوں کے خلاف نفرت کی اس مہم کا پہلا اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ احمدیوں کی شناخت کو اس قدر مسخ اور محدود کر دیا جائے کہ کوئی پاکستانی مسلمان اس دائرہ سے باہر نکل کر احمدیوں سے میل جول نہ رکھ سکے اور نہ ہی احمدیت سے متعلق ایک آزادانہ، اور مدلل مکالمے کا ماحول نمو پا سکے۔

چنانچہ کتنے پاکستانی مسلمان ہیں جو اس بات پر غور کرتے ہیں کہ آخر احمدیوں سے متعلق جو کچھ بھی سنتے ہیں وہ سب احمدی مخالف طاقتوں کے ذریعے ہی کیوں ان تک پہنچتا ہے؟

شاید ہی کوئی پاکستانی مسلمان ایسا ہو جس نے ’’قادیانیوں‘‘کو کافر سمجھنے سے پہلے اس بات کی زحمت کی ہو کہ ان کا موقف بھی لیا اور سمجھا جائے؟

پراپیگنڈا اسی طرح کام کرتا ہے۔ اس امر میں شک نہیں کہ احمدی اور غیر احمدی عوام کے درمیان رابطوں کو روکنا اور گہری خلیج پیدا کرنا اس پراپیگنڈے کے بنیادی اہداف میں سے ہے۔

2۔ اس پراپیگنڈے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ احمدیوں کو جذبات، خواہشات اور احساسات سے بھرپور انسان کے درجے سے گھٹا کر صرف ایک پاکستان اور اسلام دشمن وجود بنا کر پیش کیا جائے۔ ایسا کرنے سے یہ ہو گا کہ احمدی عوامی ہمدردی کے اہل نہیں رہیں گے اور پھر معاشرہ احمدیوں کے ساتھ جتنا مرضی غیر انسانی سلوک کرے، سب کچھ جائز ہو گا کہ ’’قادیانی دشمن دین و ملت ہے‘‘۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا ہے۔ احمدیوں کی یہی نفرت سے بھری کردار کشی ہے کہ جب ان کی قبریں اکھاڑی جاتی ہیں، ان کے گھر جلائے جاتے ہیں، جائیدادیں چھین لی جاتی ہیں، ان کو دن دہاڑے قتل کردیا جاتا ہے، ان کو اسکولوں، کالجوں، اور ملازمتوں سے دھکے دے کر نکال دیا جاتا ہے، تو کوئی مائی کا لال عوام سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ ’’دیکھو، احمدی بھی تمہاری طرح انسان ہیں جن کو تعلیم، زندگی، اور کاروبار کا اتنا ہی حق ہے جتنا تمہیں اور یہ کہ پاکستان پہ احمدیوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا تمہارا‘‘۔

نفرت، جھوٹ، اور حقارت سے بھرے پراپیگنڈے نے عام پاکستانیوں کے دل و دماغ میں اتنی نفرت پیدا کردی ہے کہ اب ان کی اکثریت احمدیوں پرمظالم پر نہ صرف خاموش رہتی ہے بلکہ بسا اوقات تو علانیہ ان متعصبانہ رویوں کی حمایت کرتی ہے۔

3۔ اس پراپیگنڈے کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ احمدیوں کے خلاف نفرت اور تعصب کو مسلمان کی نیکی اور تقویٰ سے جوڑ دیا جائے۔ چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ جو پاکستانی، احمدیوں کے خلاف جتنی نفرت اور حقارت کا اظہار کرے گا، وہ اتنا ہی سچا، کھرا، اور پکا مسلمان مانا جائے گا۔ یعنی نفرت کو عقیدت، اور عظمت کے لبادے میں اوڑھ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور سادہ لوح پاکستانی مسلمان سوچے سمجھے بغیر ان نفرت کا پرچار کرنے والے افراد کی اقتدا کر رہے ہیں۔

4۔ چوتھا پہلو احمدیوں سے ہمدردی رکھنے والوں کو demonizeکرنا ہے۔ اور یہ اس پراپیگنڈے کا نہایت موثر سیاسی پہلو بھی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح پاکستان میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف ’’قادیانی‘‘ کارڈ کھیلتی ہیں۔ ایک سیاسی مخالف دوسرے کو ’’قادیانی ہمدرد‘‘قرار دے کر عوام کو اس کے خلاف اور اپنے حق میں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور نفرت کا یہ پراپیگنڈا ’’قادیانیت‘‘کے اس تاثر پر قائم ہے جو مقتدر قوتوں نے دہائیوں کے دن رات زہریلے پراپیگنڈے کی بدولت عام پاکستانیوں کے دل و دماغ میں بٹھایا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ احمدیوں نے تاریخ پاکستان اور تقسیم سے قبل مسلمانان ہند اور عالم کے لیے جو خدمات سرانجام دی ہیں، ان کا مطالعہ کر کے انصاف پر مبنی رائے قائم کی جائے جو نفرت اور تعصب سے پاک ہو۔ ہمیں ایک آزاد اور صحت مندانہ معاشرہ قائم کرنا ہو گا، جہاں کسی فرد یا ادارے کو کسی دوسرے فرد یا کمیونٹی کے خلاف نفرت آمیز بیانات دینے اور پراپیگنڈاکرنے کی بھرپور حوصلہ شکنی کی جاتی ہو۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button