بنیادی مسائل کے جواباتمتفرق مضامین

بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر 13)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭… جنگ جمل کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ اور اس کی حقیقت کیا ہے نیز بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر بےرحمی سے ہاتھ اٹھایا تھا، جس کی وجہ سے حضرت فاطمہ ؓکا حمل ضائع ہو گیا۔ان باتوں میں کس حد تک صداقت ہے؟

٭… کیا مساجد میں نمازوں کےلیے بچے اذان دے سکتے ہیں؟

٭…کیا عورتیں اپنے بال کٹواسکتی ہیں اور کیا انہیں کینسر کے کسی غیر مسلم مریض کو انہیںDonateکرنے کی اجازت ہے؟

٭… گستاخ رسول کی سزا، قرآن و حدیث کو حفظ کرنے، درود شریف اور دیگر ذکر و اذکار، مختلف دعاؤں اور قرآنی سورتوں کو گن کر پڑھنے کی بابت کیا ہدایت ہے؟

٭…پردے کے متعلق ایک سوال کا جواب

٭…ممبرات لجنہ کے اخباروں میں لکھنے کےلیے کونسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟

٭…ہالینڈ میں ابھی بہت کم ممبرات لجنہ ایسی ہیں جوIndependently اچھا لکھ سکتی ہیں ، اس کےلیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟

٭…اللہ تعالیٰ کی ذات ستارہے۔اور بچوں کے رشتے کرتے وقت جب ہم لڑکا لڑکی یا ان کے خاندان کے بارے میں تحقیق کرواتے ہیں تو کیا یہ ٹھیک ہے؟

سوال:ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے جنگ جمل کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ اور اس کی حقیقت دریافت کی ۔نیز لکھا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر بے رحمی سے ہاتھ اٹھایا تھا، جس کی وجہ سے حضرت فاطمہ ؓکا حمل ضائع ہو گیا۔ان باتوں میں کس حد تک صداقت ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 21؍نومبر 2019ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب:حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر لگایا جانے والا الزام بالکل لغو،ناحق اور واقعات اور حقائق کے برخلاف ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضور ﷺ کی وفات کے بعد چند ماہ تک زندہ رہیں اور یہ عرصہ بھی زیادہ تران کی بیماری کی حالت میں ہی گزرا۔

پھر حضرت فاطمہ ؓتو حضور ﷺ کی حقیقی اولاد تھیں۔ان کے ساتھ حضرت عمر ؓکا ایسا سفاکانہ رویہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جبکہ حضرت عمرؓ حضور ﷺ سےتعلق رکھنے والے غیر لوگوں سے بھی بے انتہا محبت کرتے تھے۔چنانچہ ایک موقعہ پر جب حضرت عمرؓ کے بیٹے حضرت عبداللہؓ نے آپ سے سوال کیا کہ آپ نے مجھے اسامہ بن زیدؓ سے کم وظیفہ کیوں دیا ہے؟ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: اسامہؓ رسول اللہ ﷺ کو تم سے زیادہ پیارا تھا اور اس کا باپ (یعنی حضرت زیدؓ بن حارثہ) رسول اللہ ﷺ کو تمہارے باپ(یعنی حضرت عمرؓ) سے زیادہ پیارا تھا، اس لیے میں نے اسے تم سے زیادہ وظیفہ دیا ہے۔

پس وہ شخص جو حضور ﷺ کے ایک غلام کے بیٹے کو اپنے حقیقی بیٹے پر اس قدر ترجیح دیتا ہو، اس پر یہ الزام لگانا کہ اس نے حضو رﷺ کی حقیقی اولاد کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا، کسی طرح بھی درست نہیں۔اور یہ معاندین حضرت عمرؓ کی طرف سے حضرت عمرؓ پر سراسر جھوٹا الزام ہے۔

جہاں تک جنگ جمل کی حقیقت ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جنگ دو مسلمان گروہوں حضرت علی ؓاور حضرت عائشہ ؓکے لشکروں کے درمیان ہوئی اور ایسی خونریز جنگ ہوئی کہ مسلمانوں میں کوئی لڑائی ایسی خونریز نہیں ہوئی اور بہت سے مسلمان اور بڑے بڑے جرنیل اور بہادر اس جنگ میں مارے گئے۔ لیکن اس ساری کارروائی کے پیچھے انہیں مفسدوں اور شریر لوگوں کا ہاتھ تھا جنہوں نے حضرت عثمانؓ کو قتل کرنے کے بعد مدینہ پر قبضہ کر لیا تھا۔اور یہ جنگ بھی انہیں مفسدوں نے دو مسلمان گروہوں میں غلط فہمیاں پیدا کر کے اور کئی شرارتوں کو خود شروع کر کے بھڑکائی تھی۔اس موضوع پر حضرت مصلح موعودؓ نے ’’واقعات خلافت علوی‘‘ میں نہایت سیر حاصل بحث فرمائی ہے۔اسے بھی پڑھیں۔

سوال: مساجد میں نمازوں کےلیے بچوں کے اذان دینے کے بارے میں ایک دوست نے محترم مفتی سلسلہ صاحب سے حاصل کردہ فتوے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کر کے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ چھوٹے بچوں کو اذان دینے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 25؍دسمبر 2019ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب: اس مسئلہ پر محترم مفتی صاحب کا جواب بالکل درست ہے اور مجھے اس سے اتفاق ہے۔اگر اذان دینے والے کےلیے بھی کوئی شرائط ہوتیں تو حضور ﷺ ضرور ان کی طرف بھی ہمیں توجہ دلاتے جیسا کہ آپؐ نے نماز کی امامت کروانے والے کےلیے کئی شرائط بیان فرمائی ہیں۔لیکن اذان کے بارے میں حضور ﷺ نے صرف اس قدر فرمایا کہ جب نماز کا وقت ہو تو تم میں سے ایک شخص اذان دے۔اور اذان دینے والے کےلیے آپ نے کوئی شرائط بیان نہیں فرمائیں۔پس اذان دینا ایک ثواب کا کام ہے لیکن یہ ایسی ذمہ داری نہیں کہ اس کےلیے غیر معمولی شرائط بیان کی جاتیں۔بلکہ ہر وہ شخص جس کی آواز اچھی ہو اور اسے اذان دینی آتی ہو وہ اس ڈیوٹی کو سر انجام دے سکتا ہے۔

بچوں کو اذان دینے کا موقعہ دینے سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ان میں دین کے کام کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔جو ایک بہت اچھی بات ہے۔میں خود بھی یہاں مسجد مبارک میں مختلف بچوں سے اذان دلواتا ہوں۔

نوٹ از مرتب:۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب میں محترم مفتی سلسلہ صاحب کے جس فتوےکی توثیق فرمائی ہے، وہ فتویٰ بھی قارئین کے استفادہ کےلیے ذیل میں درج کیا جا رہا ہے:

استفتاء: اذان دینے کےلیے کم از کم عمر کیا ہے؟کیا بچہ اذان دے سکتا ہے؟

فتویٰ از مفتی صاحب:مؤذن کےلیے عمر کی کوئی قیدہمیں شریعت میں نہیں مل سکی۔لہٰذا اگر کوئی بچہ درست طریق پر اذان دینے کی اہلیت رکھتا ہے تو وہ اذان دے سکتا ہے۔

سوال:ایک خاتون نے عورتوں کے بال کٹوانے اور ان بالوں کو کینسر کے کسی غیر مسلم مریض کو Donate کرنے کے بارے میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار کیا۔ حضور انور نے اپنے مکتوب مورخہ 25؍دسمبر 2019ء میں اس سوال کا حسب ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب:بغرض ضرورت عورتوں کے بال کٹوانے میں کوئی حرج نہیں۔چنانچہ حج اور عمرہ کی تکمیل پر عورتیں اپنے بال کاٹ کر ہی احرام کھولتی ہیں۔احادیث میں آتا ہے کہ صحابیات بغرض ضرورت اپنے بال کٹوا یا کرتی تھیں۔البتہ عورتوں کو حلق یعنی سر منڈوانے کی اجازت نہیں۔اسی طرح حضور ﷺ نے مردوں کو عورتوں کی اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔پس عورتوں کو مردوں کی طرز پر بال نہیں کٹوانے چاہئیں۔لیکن اگر زینت کی خاطر مناسب حد تک بال کٹوائے جائیں جس میں مردوں سے مشابہت پیدا نہ ہوتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

کسی مریض کو بال Donate کرنا ثواب کا کام ہے۔ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ کیونکہ جب علاج کے سلسلے میں ایک انسان دوسرے انسان کو اپنا خون اور دیگر اعضاء بطور عطیہ دے سکتا ہے تو بال کیوں نہیں دے سکتا۔

سوال:ایک دوست نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں گستاخ رسول کی سزا، قرآن و حدیث کو حفظ کرنے، درود شریف اور دیگر ذکر و اذکار، مختلف دعاؤں اور قرآنی سورتوں کو گن کر پڑھنے کی بابت بعض استفسارات بھجوا کر ان کے بارے رہ نمائی چاہی۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 25؍ دسمبر2019ء میں ان سوالوں کے درج ذیل جوابات ارشاد فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:قرآن و حدیث نے کسی گستاخ رسول کو اس دنیا میں سزا دینے کا کسی انسان کو اختیار نہیں دیا۔ خود آنحضرتﷺ نے بھی کسی گستاخ رسول کو سزا نہیں دی اور اگر کسی بد بخت کی ایسی گستاخی پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے محب رسول نے اس شخص کو سزا دینے کی حضورﷺ سے اجازت مانگی تو حضور ﷺ نے انہیں بھی اس کی اجازت نہیں دی۔ اپنے آقا و مطاع کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی تعلیم بیان فرمائی ہے۔

اس کے ساتھ اسلام نے دنیا کے مختلف ادیان کے ارباب حل و عقد اور دیگر اولو الامر کےلیے یہ رہ نمائی بھی بیان فرمائی ہے کہ کسی کے مذہب اور ان کی قابل احترام شخصیات کا اس طرح ذکرنہ کیا جائے جو اس مذہب کے ماننے والوں کےلیے تکلیف کا باعث ہو۔

پس ایک طرف اسلام نے اس دنیا میں کسی انسان کو کسی گستاخ رسول کو سزا دینے کی اجازت نہیں دی تو دوسری طرف یہ تعلیم بھی دی ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے مذہب اور ان کے پیشواؤں کا نامناسب الفاظ میں ذکر نہ کرے۔

2۔قرآن کریم اور احادیث کو حفظ کرنے کا بہترین طریق انہیں توجہ اور کثرت کے ساتھ پڑھنا ہے۔احادیث میں آتا ہے کہ حضرت علی ؓاور حضرت ابوہریرہ ؓکی اسی قسم کی شکایتوں پر حضور ﷺ نے انہیں، ان امور کی طرف توجہ کرنے اور انہیں مسلسل اور کثرت سے پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی۔

3۔درود شریف میں انہماک پیدا کرنے کا بھی یہی طریق ہے کہ محبت اور لگن کے ساتھ اس کا کثرت سے ورد کیا جائے۔جس طرح ہم اپنے دوسرے کاموں میں دلچسپی لیتے اور ان کی طرف توجہ کرتے ہیں، اگر ان نیک کاموں میں بھی یہی محبت اور دلچسپی پیدا کریں تو ان شاء اللہ ضرور مقصود حاصل ہو گا۔

درود شریف کا کثرت سے ورد یقیناً بہت با برکت ہے اور انسان کی ہر دعا حضور ﷺ پر درود کی بدولت ہی اللہ تعالیٰ کے حضور رسائی پاتی ہےجیسا کہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔ اگر صرف درود شریف ہی پڑھنا ہر انسان کےلیے کافی ہوتا اوریہ چیز اسے باقی دعاؤں سے مستغنی کر دیتی تو مختلف مواقع پر حضور ﷺ خود درود شریف کے علاوہ دیگر دعائیں کیوں پڑھتے؟ اور دیگر صحابہ و صحابیات کو مختلف قسم کی دعائیں کیوں سکھاتے؟چنانچہ احادیث میں بہت سی ایسی دعاؤں کا ذکر ملتا ہے، جو حضور ﷺ نے خود بھی کیں اور صحابہ اور صحابیات کو بھی سکھائیں۔اور یہی طریق آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ میں ہمیں نظر آتا ہے۔

آنحضور ﷺ کے ارشاد إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِکی بنا پراگر کوئی شخص اس نیت سے کہ درود بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کےلیے ایک وسیلہ ہے، اس حسن ظنی سے اپنی تمام مناجات آنحضور ﷺ پر درود بھیجنا ہی بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی اس نیت اور حسن ظنی کے مطابق اس سے سلوک کرے گا ، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي۔

احادیث میں مختلف درود بیان ہوئے ہیں اور علمائے امت میں بھی مختلف قسم کے درود رائج رہے ہیں، اور انہوں نے ان کے مختلف نام بھی رکھے ہوئے ہیں، جن میں سے بعض تفصیلی درود ہیں اور بعض مختصر ہیں۔زیادہ برکت کا باعث اور مبارک درود تو یقیناً وہی ہے جو آنحضور ﷺ کی زبان مبارک سے نکلا اور آپؐ نے اپنے صحابہ کو سکھایا۔

ان امور میں اصل چیز تو انسان کی نیت ، محبت اور توجہ ہے کہ کس طور پر وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنا چاہتا ہے۔ پس جس نیت، محبت اور توجہ سے وہ ان امور کو سر انجام دے گا اللہ تعالیٰ تک اس کی یہ نیت اور خلوص یقیناً پہنچ جاتا ہے۔

4۔احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے بعض احکامات سائل کی نفسیات کو سامنے رکھ کر بیان فرمائے ہیں، اسی لیے ایک ہی قسم کے سوال پر آپ کی طرف سے مختلف جواب بھی بیان ہوئے ہیں۔حضور ﷺ نے جس شخص میں جیسی کمی محسوس کی اس کی اسی کے مطابق رہ نمائی فرمائی۔اس لیے بعض دعاؤں اور ذکر و اذکار کو گن کر کرنے کا بھی احادیث میں ذکر ملتا ہے۔ جس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ کم از کم اس قدر تو ضروران دعاؤں اور ذکر و اذکار کو بجا لاؤ۔

پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس امر کو خوب کھول کھول کر بیان فرمایا ہے کہ دعاؤں اور ذکر و اذکار کو صرف طوطے کی طرح پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو پانے کےلیے ان دعاؤں اور ذکر و اذکار میں بیان اسلامی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا، ان کے مطابق عمل کرنا اور دیگر نیکیاں بجا لانا بھی لازمی ہے۔سورۃ الفاتحہ کو کثرت سے پڑھنے والاجب تک اس سورت میں بیان الٰہی صفات میں رنگین ہونے کی کوشش نہیں کرے گا اورقرآنی ہدایت صِبْغَةَ اللّٰهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً اور حدیث رسول ﷺ تَخَلَّقُوْا بِأخْلَاقِ اللّٰهِ کا جامہ زیب تن نہیں کرے گا،صرف زبانی ذکر و اذکار سے وہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ علم لدنی کے حصول کا بھی یہی ذریعہ ہے کیونکہ اسی طریق پر انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے پیار کو جذب کر سکتا ہے۔

سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کی Virtual ملاقات مورخہ 22؍اگست 2020ء میں لجنہ کی طرف سے پردہ کے متعلق ہونے والے ایک سوال کا جواب عطا فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جواب: یہ پردہ صرف جماعت احمدیہ کا حکم نہیں ہے۔ناصرات میں بھی اور لجنہ میں بھی یہ تربیت ہونی چاہیے کہ پردہ کا حکم جو ہے یہ قرآن کریم کا حکم ہے ، اللہ اور رسول کا حکم ہے۔اس لیے جماعت نے وہ کام کرنے ہیں جواللہ اور رسول نے فرمائے ہیں۔اور یہ ایسے حکم ہیں، جن کا ذکر ہے، واضح حکم ہیں۔ قرآن کریم میں جو بعض خاص باتیں ہیں، اہم، کھلی کھلی واضح ہدایات، احکامات ان میں ایک پردہ کا حکم ہے۔اس لیے ہم کہتے ہیں ۔اس میں اگر صرف یہ ہوتا کہ کسی چیز سے استنباط کیا جاتا یا کسی چیز سے سمجھا جاتا، اس کو Interpret کیا جاتاکہ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے تو پھر گنجائش نکل سکتی تھی کہ لڑکیاں سمجھیں یا عورتیں سمجھیں کہ ہاں یہاں پردہ کی اجازت ہے اور یہاں نہیں ہے۔ لیکن جب واضح حکم آ گیا تو پھر ہم نے اس حکم پہ عمل کرنا ہے اور کروانا ہے۔یہ باتیں اچھی طرح لڑکیوں کے دماغوں میں ڈال دیں تو پردہ کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ اصل چیز یہ پیدا کریں کہ حیاایمان کا حصہ ہے ، حدیث ہے۔ جب حیا پیدا ہو جائے گی تو خود بخود پردہ کی طرف بھی توجہ پیدا ہو جائے گی۔چاہے وہ یونیورسٹی میں پڑھنے والی لڑکی ہے، وہ اپنے حیا کے دائرہ میں رہے گی، اپنے لباس کا خیال رکھے گی اور پھر پردہ کا بھی خیال رکھے گی۔

سوال:اسی ملاقات میں ایک ممبر لجنہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ ممبرات لجنہ کے اخباروں میں لکھنے کےلیے کونسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟ اس پر حضور انور نے فرمایا:

جواب:جو بھی Contemporary Issues آتے ہیں اور اخباروں میں مضمون لکھے جاتے ہیں۔یاآپ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ آجکل سوشل میڈیا پہ یا کہیں یہ ڈسکس ہو رہے ہیں ۔ اس کےلیے آپ سوشل میڈیا پر، لجنہ کی ویب سائٹ پر جواب دیں تا کہ Awarenessہو۔ ہر ایک کو پتہ لگےکہ یہ اس کا اصل جواب ہے، اصل چیز یہ ہے۔ اسی طرح جو لکھنے والی ہیں ان Issues کے اوپر اسلام کے دفاع کےلیے اخباروں میں لکھیں کہ تم لوگ کہتے ہو کہ اسلام یہ کہتا ہے، یہ کہتا ہے۔جبکہ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے۔تو جتنی لکھنے والیاں ہیں ان کو Encourage کریں کہ سوشل میڈیا پر جو مختلف Topics آتے ہیں ان Topics کوہی لینا ہے تا کہ Attraction پیدا ہو۔زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں اور توجہ دیں اور آپ کی طرف توجہ ہو۔ مغرب میں عورتوں کے Issues کے اوپر اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ عورت کو آزادی نہیں ہے،عورت کو پردہ کی Restrictions ہیں،عورت کو فلاں پابندی میں رکھا جاتا ہے،عورت پر فلاں ظلم کیا جاتا ہے۔اس پرعورتوں کو ہی لکھنا چاہیے کہ تم یہ کہتے ہو۔میں ایک عورت ہوں، میں نے یہ یہ یہ لکھا ہے۔یہاں یوکے میں بھی لجنہ لکھتی ہے اور اس کا اچھا اثر ہوتا ہے۔بجائے اس کے کہ مرد جواب دیں،عورتیں اس کا جواب دیں تو زیادہ اچھا اثر ہوتا ہے۔اس لیے اپنی ایک ٹیم بنائیں ۔اس کا علم بھی آپ کو ہونا چاہیے۔اسلامی تعلیم کا علم بھی ہونا چاہیے۔اور جب لکھیں تو تیاری کر کے باقاعدہ Facts and Figures کے لحاظ سے لکھنا چاہیے تا کہ اگلے کو Impress بھی کر سکیں۔

سوال:۔اسی ملاقات میں ایک ممبر لجنہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ ہالینڈ میں ابھی بہت کم ممبرات لجنہ ایسی ہیں جوIndependently اچھا لکھ سکتی ہیں ، اس کےلیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اس پر حضور انور نے فرمایا:

جواب: جوکم ہیں ان کو Guide کریں تو وہ تو تیار ہو جائیں گی ناں؟جب ایک ٹیم دوکی، چار کی، چھ کی، آٹھ کی جتنی بھی ہیں وہ تیار ہو جائیں گی تو ان کو دیکھ دیکھ کے پھر مزید اور بھی تیار ہوتی رہیں گی۔کم یا زیادہ کا سوال نہیں۔ کام کرنے والا تو ایک بھی ہو توانقلاب آ جاتا ہے۔تو جب جواب دیں گی تو خود ہی لوگ جواب لینے کےلیے آپ کے پیچھے پڑیں گے۔پھر آپ مزید جواب لکھنا شروع کر دیں گی۔ اور پھردوسروں کو بھیEncouragement ہو جائے گی کہ ہم بھی شامل ہوں، ہم بھی لکھیں۔کسی بھی چیز کو کرنے کےلیے یا لوگوں کو ابھارنے کےلیے کوئی Incentive ہوتا ہے تو وہ Incentive یہی ہے کہ جب دو چار کے نام اخباروں میں آئیں گے تو باقیوں کو بھی شوق پیدا ہو گا کہ ہمارا بھی نام آئے، ہم بھی لکھنے کی کوشش کریں۔پھر آہستہ آہستہ اور بڑھتی جائیں گی۔

سوال: لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کی اسی 22؍اگست 2020ء کی Virtual ملاقات میں ایک ممبر لجنہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ستارہے۔اور بچوں کے رشتے کرتے وقت جب ہم لڑکا لڑکی یا ان کے خاندان کے بارے میں تحقیق کرواتے ہیں تو کیا یہ ٹھیک ہے؟ اس پر حضور انور نے فرمایا:

جواب: اللہ تعالیٰ ستّار تو ہے اور اللہ تعالیٰ ستّاری کو پسند کرتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے عیب اگر کسی کوپتہ لگ جائیں تو وہ لوگوں کو بتانے نہیں چاہئیں اور پردہ پوشی کرنی چاہیے۔ لیکن رشتہ کے بارے میں قرآن کریم کا یہ بھی حکم ہے کہ قول سدید سے کام لو۔جو بھی رشتہ ہے، لڑکے اور لڑکی میں جو بھی نقص ہیں، باتیں ہیں ان کا ایک دوسرے کو پتہ لگنا چاہیے۔بالکل سچائی سے کام لو، کوئی ایچ پیچ نہ ہو تا کہ بعد میں رشتہ میں دراڑیں نہ پڑیں۔اس لیے ہر بات کھل کے بتا دینی چاہیے۔رشتہ کا معاملہ بڑا Sensitive معاملہ ہے۔بعد میں لڑائیاں ہوتی ہیں، باتیں ہوتی ہیں کہ ہمیں یہ نہیں بتایا ، وہ نہیں بتایا۔تو اس لیے بہتر ہے کہ رشتہ کرتے ہوئے یہ ساری باتیں بتاؤ اور قرآن کریم کی نکاح کی آیات جو ہیں ان میں اسی لیے قول سدید کے بارے میں زور دیا گیا ہے۔ستاری کا ایک حکم اپنی جگہ ہے وہ یہ ہے کہ تم نے کسی کے عیب ظاہر نہیں کرنے۔تم جو رشتہ بتا رہے ہو تو یہ بتا دو کہ یہ رشتہ ہے۔باقی اگر آپ کو اس کے بارے میں کوئی کمزوری کا پتہ بھی ہے، جس کارشتہ تجویز کر رہے ہیں تو یہ بتا دیں کہ یہ رشتہ ہے تم لوگ خود ہی آپس میں بیٹھو، ملو، دیکھو، دعا کرو اور پھر فیصلہ کرو۔اگر آپ نے ستاری کرنی ہے تو یہ ہے۔نہ یہ ہے کہ رشتہ بتانے سے پہلے آپ اس کو یہ کہہ دیں کہ اس میں تو یہ نقص ہے، یہ نقص ہے، یہ نقص ہے اور اس کا رشتہ ہی نہ ہو۔ کہہ دیں یہ رشتہ ہے، تجویز ہے۔ اس میں اچھائیاں کیا ہیں، برائیاں کیا ہیں؟ یہ تم لوگ خود مل کے بیٹھ کے دیکھو اور اگر تم لوگوں کو پسند آتا ہے تو کرلو،پھر دعا کر کے فیصلہ کرو۔اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔اور غیب کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے کہ کونسا رشتہ کس کےلیے بہتر ہے۔اس لیے دعا کر کے فیصلہ کرنا چاہیے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ استخارہ بھی کرنا چاہیے۔ استخارہ کا مطلب خیر مانگنا ہے۔اللہ تعالیٰ سے خیر مانگنی چاہیے کہ اس رشتہ میں خیر ہے تو میرے لیے بہتری ہو اورآسانی سے رستے کھل جائیں۔اور اگر اس رشتہ میں خیر نہیں ہے تواس رشتہ میں میرے لیے روک پڑ جائے۔ تو ستاری کامطلب یہ بھی نہیں ہے کہ رشتہ کرتے ہوئے جو حقائق ہیں وہ بھی نہ بتائے جائیں۔اگر آپس میں دونوں فریق مل بیٹھتے ہیں توبہتر یہی ہے کہ قول سدید سے کام لیتے ہوئے آپس میں جو بھی اچھائیاں برائیاں ہیں۔ایک دوسرے کا پتہ لگنا چاہیے۔ہر ایک شخص Perfect نہیں ہوتا، ہر ایک میں برائیاں بھی ہوتی ہیں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں۔یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ برائیوں کا اعلان کرتے پھرو۔لیکن اگر کوئی ایسی بات ہےجس سے بعد میں رشتہ میں دراڑ پڑنے کا خطرہ ہو، ٹوٹنے کا خطرہ ہو تو بہتر ہے کہ وہ برائی یا وہ بات پہلے ہی بتا دو۔ کوئی کمزوری ہے، کوئی بیماری ہے، کسی لڑکی میں اگر اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں یا کسی مرد میں کوئی کمزوری ہے تو وہ پہلے ہی ایک دوسرے کو پتہ لگ جانی چاہیے تا کہ بعد میں مسائل پیدا نہ ہوں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button