تاریخ احمدیت

ایک ہندو سادھو کی آمد: یکم اگست 1899ء

(عمانوایل حارث)

[تسلسل کے لیے دیکھیں اخبار الفضل انٹرنیشنل2؍مارچ 2021ء]

ایک ہندوسا دھو کی آمد

یکم اگست 1899ء

یکم اگست 1899ء کو بعدنماز مغرب ایک مشہور ہندو سادھو صاحب حضرت اقدسؑ کی ملاقات کے لیے قادیان دارالامان تشریف لائے اور حضورؑ سے باتیں کرتے رہے۔ ذیل میں اس گفتگو کا خلاصہ یامفہوم پیش ہے جس کو حافظہ کی مدد سے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ (ایڈیٹر الحکم) نے اپنے الفاظ میں قلمبند کیا تھا گو یہاں مہمان کا زیادہ تعارف اور پس منظر تو میسر نہیں ہے لیکن یہاں ہونے والی گفتگو آج کل کے دَور میں پیدا ہونے والے بعض خیالات کے لیے زیادہ فائدہ مند معلوم ہورہی ہے۔ کیونکہ مغربی دنیا کے بعد اب دنیا کے مشرق میں آباد ممالک میں بھی لوگ دین فطرت اسلام کی سکھائی ہوئی عبادات نماز اور روزہ وغیرہ کو نظر انداز کرکے اپنی خود ساختہ اور بظاہر بڑی دلچسپ ریاضتوں، یوگا، اور ایسی دیگر نسبتاً کم اہم مگر سخت مشقتوں اور ورزشوں کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسم او رروح کے بارے میں اسلام کی حسین اور معتدل تعلیم کا بیان بہتوں کے لیے مفید ہوگا۔

اس زمانہ کے حکم اور عدل حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اور ہندو سادھو کا مکالمہ یوں ہوا:

حضرت اقدسؑ :آپ کے ہاں جوگ کا طریق سناتن دھرم کے اُصول پر ہے یا آریہ سماج کے اصُول پر؟

سادھو: سناتن دھرم کے موافق۔

حضرت اقدسؑ : آریہ سماج ایک ایسا فرقہ ہے جس میں صرف کہنا ہے کرنا نہیں۔

سادھو:بیشک یہ لوگ گرو کی ضرورت نہیں سمجھتے اور یہاں تک کہ اپنے بانی پنڈت دیانند کو بھی گرو کی حیثیت سے نہیں مانتے۔ کہتے ہیں کہ وہ ایک راہ بتا گیا ہے، اس پر چلنا چاہیے۔

حضرت اقدسؑ :آپ کے جوگ کے لیے بڑی بڑی مشقتیں ہیں۔

سادھو:جی ہاں۔

حضرت اقدسؑ :اس مشقت کے بعد کیا کوئی ایسی قوت اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے جس سے اس پریم کا پتہ لگ جاوے جو اس ریاضت کرنے والے کو خدا کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ محبت کا پتہ اور وجود اس وقت تک نہیں ملتا، جب تک کہ دونوں طرف سے کامل محبت کا اظہار نہ ہو۔ ادھر سے محبت کے جوش میں ہر قسم کے دکھ اور تکالیف کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہو اور ادھر سے یعنی پرمیشر کی طرف سے ایسا پرکاش (روشنی یا نور)اس کو ملے کہ وہ عام طور پر لوگوں میں متمیز ہو جاوے۔

سادھو:ہاں کچھ بل اور طاقت آہی جاتا ہے۔

حضرت اقدسؑ :بھلا کوئی ایسی طاقت اور بل کی بات آپ سنائیں جو آپ کی سنی ہوئی نہ ہو بلکہ دیکھی ہوئی ہو۔ یعنی آپ کے گروہ میں۔ کیونکہ بات یہ ہے کہ سنی ہوئی بات کچھ ایسی موثر نہیں ہوتی خواہ وہ کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو بلکہ قصہ کہانی کے ذیل میں سمجھی جاتی ہے۔ مثلاً جیسے کوئی کہے کہ کوئی دیش ہے، وہاں آدمی اڑا کرتے ہیں۔ اب ہم کو اس کو ماننے میں ضرور کوئی تامل ہو گا۔ کیونکہ نہ تو ہم نے ایسے آدمی اڑتے ہوئے دیکھے ہیں نہ خود اڑے ہیں۔ پس قوت ایمان اور یقین کے بڑھانے کے لیے سنی سنائی باتیں فائدہ نہیں پہنچاتی ہیں۔ بلکہ تازہ بتازہ جو سامنے دیکھی جاویں اور اس سے بڑھ کر وہ جو خود انسان کی اپنی حالت پر وارد ہوں۔ پس میرے اس سوال سے یہ غرض ہے کہ آپ کوئی ایسی بات بتلاویں، جو اس ریاضت کرنے والوں میں آپ نے دیکھی ہو یا سنی ہو۔

سادھو:ہاں جو ہمارے گرو تھے ان میں بعض بعض باتیں ایسی تھیں جو دوسرے کے من کی بات بوجھ لیتے تھے اور پھر جو منہ سے کہہ دیتے تھے ہو جاتا تھا اور پھر جو ان کے گرو تھے ان میں بھی بہت سی باتیں ایسی ہوتی تھیں، مگر ان کو دیکھا نہیں؛ تاہم دیکھنے کے برابر ہے، کیونکہ ان کو مرے کوئی اسی برس کے قریب ہوئے اور ان کو دیکھنے والے ابھی موجود ہیں۔

حضرت اقدسؑ :آپ نے بھی کوئی ریاضتیں کی تھیں؟

سادھو:جی ہاں۔ میں نے بھی کی ہیں۔

حضرت اقدسؑ : کیا کیا؟

سادھو: پہلے چلہ کشی کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آٹھ مہینےکا ایک ہی چلہ تھا۔

حضرت اقدسؑ :اس میں کیا کھاتے تھے؟

سادھو:پہلے چاولوں کاآٹا کھایا کرتے تھے۔ پھر صرف پانی جو پکا کر رکھا ہوا تھا یعنی ایک گاگر کا نصف جب رہ جاوے تو وہ رکھ لیا کرتے تھے اور اس میں سے سیر کچا صبح کو پی لیا کرتے تھے اور اسی وقت پیشاب کر لیا کرتے تھے اور کچھ نہیں۔

حضرت اقدسؑ :کیا اس میں لوہا وغیرہ تو نہ ہوتا تھا؟

سادھو:نہیں۔

حضرت اقدسؑ :پھر کیا اس ریاضت کی حالت میں آپ کو کچھ عجیب وغریب نظارے نظر آئے؟

سادھو:ہاں کبھی روشنی نظر آتی تھی جو اندر ہو جاتی تھی اور دور دور سے آدمی آتے جاتے نظر آجاتے تھے۔

(اس کے بعد چند منٹ خاموشی رہی۔ پھر اس مہر سکوت کو سادھو صاحب نے اپنے اس ایک سوال سے توڑا )

(ایڈیٹر الحکم)

سادھو:کیا آپ پرمیشر کو اکار مانتے ہیں یا نرا کار؟

(حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ نے اس موقعہ پر بطور تشریح عرض کیا کہ ایسا خدا جو مورتی کے قابل ہو یا ایسا خدا کہ جسے مورتی کی ضرورت نہ ہو)

حضرت اقدسؑ :ہم جس خدا کو مانتے ہیں۔ اس کی عبادت اور پرستش کے لیے نہ تو ان مشقتوں اور نہ ہی ان ریاضتوں کی ضرورت ہے۔ اور نہ کسی مورتی کی حاجت ہے۔ اور ہمارے مذہب میں خدا تعالیٰ کو حاصل کرنے اوراس کی قدرت نمائیوں کے نظارے دیکھنے کے لیے ایسی تکالیف کے برداشت کرنے کی کچھ بھی حاجت نہیں، بلکہ وہ اپنے سچے پریمی بھگتوں کو آسان طریق سے جو ہم نے خود تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے، بہت جلد ملتا ہے۔ انسان اگر اس کی طرف ایک قدم اٹھاتا ہے، تو وہ دو قدم اٹھاتا ہے۔ انسان اگر تیز چلتا ہے تو وہ دوڑ کر اس کے ہردے میں پرکاش کرتا ہے۔

میرے نزدیک مورتی بنانے والوں نے خدا تعالیٰ کی اس حکمت اور راز کو نہیں سمجھا جو اس نے اپنے آپ کو بظاہر ایک حالت غیب میں رکھا ہے۔ خدا تعالیٰ کا غیب میں ہی ہونا انسان کے لیے تمام تلاش اور جستجو اور کل تحقیقاتوں کی راہوں کو کھولتا ہے۔ جس قدر علوم اور معارف انسان پر کھلے ہیں، وہ گو موجود تھے اور ہیں، لیکن ایک وقت میں وہ غیب میں تھے۔ انسان کی سعی اور کوشش کی قوت نے اپنی چمکار دکھائی اور گوہر مقصود کو پا لیا۔ جس طرح پر ایک عاشق صادق ہوتا ہے۔ اس کے محبوب اور معشوق کی غیر حاضری اور بظاہر آنکھوں سے دور ہونا اس کی محبت میں کچھ فرق نہیں ڈالتا بلکہ وہ ظاہری ہجر اپنے اندر ایک قسم کی سوزش پیدا کر کے اس پریم بھاؤ کو اور بھی ترقی دیتا ہے۔ اسی طرح پر مورتی لے کر خدا کو تلاش کرنے والا کب سچی اورحقیقی محبت کا دعویدار بن سکتا ہے؛جبکہ مورتی کے بدوں اس کی توجہ کامل طور پر اس پاک اور کامل حسن ہستی کی طرف نہیں پڑ سکتی۔ انسان اپنی محبت کا خود امتحان کرے۔ اگر اس کو اس سوختہ دل عاشق کی طرح چلتے پھرتے، بیٹھتے اٹھتے غرض ہر حالت میں بیداری کی ہو یا خواب کی، اپنے محبوب کا ہی چہرہ نظر آتا ہے اور کامل توجہ اسی طرف ہے تو سمجھ لے کہ واقعی مجھے خدا تعالیٰ سے ایک عشق ہے اور ضرور ضرو رخدا تعالیٰ کا پر کاش اور پریم میرے اندر موجود ہے، لیکن اگردرمیانی امور اور خارجی بندھن اور رکاوٹیں اس کی توجہ کو پھرا سکتی ہیں اور ایک لحظہ کے لیے بھی وہ خیال اس کے دل سے نکل سکتا ہے تو میں سچ کہتا ہوں کہ وہ خدائے تعالیٰ کا عاشق نہیں اور اس سے محبت نہیں کرتا اور اسی لیے وہ روشنی اور نور جو سچے عاشقوں کو ملتا ہے اسے نہیں ملتا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں آکر اکثر لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے اور خدا کا انکار کر بیٹھے ہیں۔ نادانوں نے اپنی محبت کا امتحان نہیں کیا اور اس کا وزن کئے بدوں ہی خدا پر بد ظن ہو گئے ہیں۔ پس میرے خیال میں خدا تعالیٰ کا غیب میں رہنا انسان کی سعادت اور رشدکو ترقی دینے کی خاطر ہے اور اس کی روحانی قوتوں کو صاف کر کے جلا دینے کے لیے تاکہ وہ نور اس میں پرکاش ہو ہم جو بار بار اشتہار دیتے ہیں اور لوگوں کو تجربہ کے لیے بلاتے ہیں۔ بعض لوگ ہم کو دوکان دار کہتے ہیں۔ کوئی کچھ بولتا ہے کوئی کچھ۔ غرض ان بھانت بھانت کی بولیوں کو سن کر جو ہم ہر ملک میں جو اس دنیا پر آباد ہے۔ یورپ۔ امریکہ وغیرہ میں اشتہار دیتے ہیں اس کی غرض کیا ہے۔

ہماری غرض بجزاس کے اور کچھ نہیں کہ لوگوں کو اس خدا کی طرف رہنمائی کریں جسے ہم نے خو دیکھا ہے۔ سنی سنائی بات اور قصہ کے رنگ میں ہم خدا کو دکھانا نہیں چاہتے بلکہ ہم اپنی ذات اور اپنے وجود کو پیش کر کےدنیا کو خد اتعالیٰ کا وجود منوانا چاہتے ہیں۔ یہ ایک سیدھی بات ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف جس قدر کوئی قدم اٹھاتا ہے خدا تعالیٰ اس سے زیادہ سرعت اور تیزی کے ساتھ اس کی طرف آتا ہے۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں جب کوئی معزز آدمی کا منظور نظر عزیز اور واجب التعظیم سمجھا جاتا ہے تو کیا خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا اپنے اندر ان نشانات میں سے کچھ بھی حصہ نہ لے گا جو خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور بے انتہا طاقتوں کا نمونہ ہے۔

یہ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی غیرت کبھی تقاضا نہیں کرتی کہ اس کو ایسی حالت میں چھوڑے کہ وہ ذلیل ہو کر پیسا جاوے۔ نہیں بلکہ وہ خود وحدہٗ لا شریک ہے وہ اپنے اس بندے کو بھی ایک فرد اور لاشریک بنادیتا ہے۔ دنیا کے تختہ پر کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہر طرف سے اس پر حملے ہوتے ہیں اور ہر حملہ کرنے والا اس کی طاقت سے بے خبر ہو کر جانتا ہے کہ میں اسے تباہ کر ڈالوں گا، لیکن آخر اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا بچ نکلنا انسانی طاقت سے باہر کسی قوت کا کام ہے۔ کیونکہ اگر اسے پہلے سے معلوم ہوتا تو وہ حملہ بھی نہ کرتا۔ پس وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے حضور ایک تقرب حاصل کرتے ہیں اور دنیا میں اس کے وجود اور ہستی پر ایک نشان ہوتے ہیں۔ بظاہر اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ہر ایک مخالف اپنے خیا ل میں سمجھتا ہے کہ وہ مجھ سے بچ نہیں سکتا، کیونکہ ہر قسم کی تدبیر اور کوشش کے نتائج اسے یہیں تک پہنچاتے ہیں، لیکن جب وہ اس زد میں سے ایک عزت اور احترام کے ساتھ اور سلامتی سے نکلتا ہے تو ایک دم کے لیے تو اسے حیران ہونا پڑتا ہے کہ اگر انسانی طاقت کا ہی کام تھا، تو اس کا بچنا محال تھا، لیکن اب اس کا صحیح سلامت رہنا انسان کا نہیں بلکہ خدا کا کام ہے۔ پس اس سے معلوم ہو اکہ مقربان بارگاہ الٰہی پر جو مخالفانہ حملے ہوتے ہیں، وہ کیوں ہوتے ہیں؟معرفت اور گیان کے کوچہ سے بے خبر لوگ ایسی مخالفتوں کو ایک ذلت سمجھتے ہیں، مگر ان کو کیا خبر ہوتی ہے کہ اس ذلت میں ان کے لیے ایک عزت اور امتیاز نکلتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود اور ہستی پر ایک نشان ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ وجود آیات اللہ کہلاتے ہیں۔

غرض ہم جو اشتہار دے دے کر لوگوں کو بلاتے ہیں تو ہماری یہی آرزو ہے کہ ان کو اس خدا کا پتہ دیں جسے ہم نے پایا اور دیکھا ہے اور وہ قرب راہ بتلائیں، جس سے انسان جلد باخدا ہو جاتا ہے۔ پس ہمارے خیال میں قصہ کہانی سے کوئی معرفت اور گیان ترقی نہیں پا سکتا جب تک کہ انسان خود عملی حالت سے نہ دیکھے اور یہ بدوں اس راہ کے جو ہماری راہ ہے میسر نہیں اور اس راہ کے لیے ایسی صعوبتوں اور مشقتوں کی ضرورت نہیں۔ یہاں دل بکار ہے۔ خدا تعالیٰ کی نگاہ دل پرپڑتی ہے اور جس دل میں محبت اور عشق ہو اس کو مورتی سے کیا غرض؟مورتی پوجا سے انسان کبھی صحیح اور یقینی نتائج پر پہنچ نہیں سکتا۔

خدا تعالیٰ کی نگاہ انسان مخلص کے دل کے ایک نقطہ پر ہوتی ہے جسے وہ دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کی خاطر وہ خوش دلی سے ہر صعوبت، مکروہ کو برداشت کر لے گا۔ یہ ضرور نہیں کہ کوئی بڑی بڑی مشقتیں کرے اور دائم حاضر باش رہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خاکروب ہمارے مکان میں آکر بڑی تکلیف اٹھاتا ہے اور جو کام وہ کرتا ہے ہمارا ایک بڑا معزز اور مخلص دوست وہ کام نہیں کر سکتا، تو کیا ہم اپنے وفادار احباب کو بے قدر سمجھیں اور خاکروب کو معزز ومکرم خیال کریں۔ بعض ہمارے ایسے بھی احباب ہیں جو مدتوں کے بعد تشریف لاتے ہیں اور انہیں ہر وقت ہمارے پاس بیٹھنامیسر نہیں آتا، مگر ہم خوب جانتے ہیں کہ ان کے دلوں کی بناوٹ ایسی ہے اور وہ اخلاص مودت سے ایسے خمیر کئے گئے ہیں کہ ایک وقت ہمارے بڑے بڑے کام آسکتے ہیں۔ نظام قدرت میں بھی ہم ایسا ہی نظام دیکھتے ہیں کہ جتنا شرف بڑھ جاتا ہے، محنت اور کام ہلکا ہو جاتا ہے۔ ایک مذکوری کو دیکھ لو۔ انبار پروانوں کا اسے دیا جاتا ہے اور ایک ہفتہ کے اندر حکم ہے کہ تعمیل کے حاضر ہو۔ برسات ہو، دھوپ ہو اجاڑہ ہو، دیہات کے راستے خراب ہوں۔ کوئی عذر سنا نہیں جاتا اور تنخواہ پوچھو تو پانچ روپے۔ اور احکام بالا دست کا معاملہ اس کے بالکل برخلاف ہے۔

اس قانون سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قانون اپنے بر گزیدوں سے ایسا ہی ہے۔ خطرناک ریاضتیں کرنا اور عضاء اور قویٰ کو مجاہدات میں بے کار کر دینا محض نکمی بات اور لا حاصل ہے۔ اسی لیے ہمارے ہادی کامل علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِیْ الْاِسْلَامِ یعنی جب انسان کو صفت اسلام(گردن نہاد ن برحکم خدا دمواقفت تامہ بمقادیرآلہیہ)میسر آجائے، تو پھر رہبانیت یعنی ایسے مجاہدوں اور ریاضتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔

(اس کے بعد سادھو صاحب تشریف لے گئے اور کھانا رکھا گیا۔ حضرت اقدس نے فرمایا۔ کہ:)

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے رہبانیت کو نہیں رکھا۔ اس لیے کہ وہ معرفت تامہ کا ذریعہ نہیں ہے۔

(ملفوظات جلد اول، صفحہ210تا 214، ایڈیشن1988ء)

الحکم میں مزید درج ہےکہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button